بسم الله الرحمن الرحيم
جمہوریت پاکستان کو کرپٹ مغربی تہذیب کے تابع کرنے کا ایک آلہ ہے
خبر:
پیر، 5 ستمبر 2022 ،کو سینیٹر مشتاق احمد نے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ میں ترامیم کا بِل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے پیش کیا۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ،' 'خواجہ سرا'(Transgender) برادری سے متعلق قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف ہے اور اس سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔"وزارت انسانی حقوق نے ان کی جانب سے پیش کی جانے والی ترامیم کی مخالفت کی۔
تبصرہ:
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ، 2018، پاکستانی پارلیمنٹ نے، ابتدائی طور پر مئی 2018 میں منظور کیا تھا۔ اسے ایک بِل کے طور پر پیش کیا گیا تھا تاکہ مبہم جنس(Transgender) والوں کو درپیش مسائل کوحل کیا جا سکے، کیونکہ انہیں قومی شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کے حصول سمیت کئی دیگر معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاہم، حقیقت میں یہ 2006 میں انڈونیشیا میں طے پانے والے یوگیکارتا (Yogyakarta)اصولوں پر مبنی جنسی رجحان، صنفی شناخت، صنفی اظہار اور جنسی خصوصیات کو تسلیم اور قانونی شکل دینے ایک کوشش ہے، جس میں 2017 میں مزید توسیع کی گئی تھی۔ یوگیکارتا کے اصول یہ بتاتے ہیں کہ صنفی شناخت ہر فرد کا جنس کے بارے میں گہرائی سے محسوس کیے گئے اندرونی اور انفرادی تجربہ ہے، جو پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس کے مطابق بھی ہوسکتی ہے یا اس کے برخلاف بھی ہوسکتی ہے، یعنی ایک بچہ پیدائشی طور پر لڑکا ہو لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے اندرونی احساسات اس کے برخلاف ہوں، لہٰذا اس کی جنس کا تعین اس کے احساس کی بنیاد پر کیا جائے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کی دفعہ 2f)) "جنسی شناخت" کو "شخص کے اندرونی اور انفرادی احساس کے طور پر بیان کرتا ہے جیسے مرد، عورت یا دونوں کا مرکب جو پیدائش کے وقت تفویض کی گئی جنس سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں رکھتا ہے۔"
27 اپریل 2021 کو اس ایکٹ کو اسلامی احکام کے منافی ہونے کی وجہ سے پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جو ایک مرد کو خود کو عورت کا اعلان کرنے اور پھر ایک مرد سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست میں مردہم جنس پرستوں اور عورت ہم جنس پرستوں کے لیے ایک قانونی پردہ ہے۔ یہ مسئلہ اب پچھلے کچھ ہفتوں میں پاکستان کے اندر ایک بڑی بحث بن گیا ہے۔ بڑی اسلامی سیاسی جماعتوں سے ، جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے، لوگ یہ سوال کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ انہوں نے ایسا شیطانی قانون منظور ہونے کی اجازت کیسے دی؟ مسلمان جانتے ہیں کہ جمہوریت اسلام سے نہیں ہے۔ وہ اکثر ان اسلامی سیاسی جماعتوں کے علمائے کرام سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ایسے نظام میں کیوں شریک ہوتے ہیں جو اسلام سے نہیں ہے۔ ایسے علمائے کرام کا دعویٰ ہے کہ موجودہ صورتحال میں کفریہ قوانین کو اسلام کے قوانین میں تبدیل کرنے کے لیے جمہوریت ہی واحد طریقہ کار ہے۔
تاہم جمہوریت مغرب کا ایک آلہ ہے جس کو وہ اپنی خواہشات اور مفادات کی تکمیل کے لیے درکار قوانین بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ جمہوریت میں حصہ لینے والی اسلامی جماعتوں کے لوگ کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں، جمہوریت انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو خدائی قوانین میں بدلنے سے روکتی ہے۔ جمہوریت یہ غلط تاثر دیتی ہے کہ اس کے زریعے بھی اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ درحقیقت جمہوریت کفر کی حکمرانی کے ذریعے اللہ عزوجل کے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔ یہ مخلص مسلمانوں کو اسلام کے انقلابی طریقہ کار سے دور کر کے انہیں اسلام کے ایک ساتھ مکمل نفاذ کی جدوجہدسے روکتی ہے۔ مخلص مسلمانوں کو جمہوریت میں شامل کیا جاتاہے، اور انہیں چند احکام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنےکی اجازت دی جاتی ہے، جس سے یہ غلط تاثر دینا مقصود ہوتا ہے کہ اسلام کے نفاذ یا چند اسلامی قوانین کو محفوظ بنانے کے لیے جمہوریت کو اپنایا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کو جمہوریت میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ مسلمانوں نے صرف جمہوریت کے ذریعے سود کو ختم کرنے کی کوشش میں تیس سال ضائع کردیئے۔ یہ جمہوریت کو ختم کرنے اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کا وقت ہے جو اُس دروازے، جمہویت، کو ہمیشہ کے لیے بند کردیتی ہے جس کے ذریعےبرائی اور گناہ کو معاشرے میں داخل کیا جاتا ہے ۔
وَلُوۡطًا اٰتَيۡنٰهُ حُكۡمًا وَّعِلۡمًا وَّنَجَّيۡنٰهُ مِنَ الۡقَرۡيَةِ الَّتِىۡ كَانَتۡ تَّعۡمَلُ الۡخَبٰٓـئِثَؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمَ سَوۡءٍ فٰسِقِيۡنَۙ
"اور لوط (کا قصہ یاد کرو) جب ان کو ہم نے حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا اور اس بستی سے جہاں کے لوگ گندے کام کیا کرتے تھے۔ بچا نکالا۔ بےشک وہ برے اور بدکردار لوگ تھے۔"(الانبیاء، 21:74)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے انجینئر شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔