الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

جنس، مبہم جنس، مخنث اور خواجہ سراؤں کے متعلق اسلامی احکامات

تعارف : مسلم دنیا میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے  تحفظ کے حوالے سے بحث

 

 5 ستمبر 2022 کو پاکستان کے سینیٹر مشتاق احمد نے انسانی حقوق پر سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو ٹرانسجنڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 میں ترامیم کا بل پیش کیا۔ اس ملاقات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد نے کہا  ،"ٹرانسجنڈر ایک امریکی اصطلاح ہے، اس کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے اور خواجہ سراؤں کے متعلق قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف ہے اور اس سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا"۔خواجہ سراافراد کے تحفظ کے حوالے سے چھڑی اس حالیہ بحث نے مسلم دنیا میں ایک اُلجھن پیدا کردی ہے۔ حتیٰ کہ اس بحث نے چند لوگوں کو اس حد تک بھی شک وشبہ میں ڈال دیا ہے کہ آیا اسلام جدید دور کے مطابق ہے بھی یا نہیں۔ 

 

یہ یقین دہانی کرنے  کیلئے کہ مسلمانوں کی گفتگو اور عمل ایسا ہی ہو جس سے اللہ سبحانہ وتعالی راضی ہو جائے،یہ ضروری ہے کہ صنف سے متعلق معاملات کو ان کی مناسب جگہ پر رکھا جائے۔ اسلام یہ تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان اس مسئلے کی تحقیق کریں اور پھر اس مسئلے سے متعلق شرعی احکامات کے مطابق ان پر  عمل پیرا ہوں۔ لہٰذا مسلمانوں کو حیاتیاتی (biological) خصوصیات کی بنا پر صنف کے تعین کرنے، جینیات کو مدنظر رکھتے ہوئے جسمانی خدوخال اور طبعی میلان کے جانچنے، کسی مبہم صنف پر درست جنس عائد کرنے اور عورت نما مرد یا مرد نما عورت کے ساتھ ساتھ ہارمون کی تبدیلی اور سرجری کے ذریعے جنس تبدیل کروانے والے افراد کے بارے میں مطالعہ (غوروفکر) کرنے کی ضرورت ہے۔

 

صنف پرستی (genderism)ایک مغربی تصور ہے تا کہ جنس  کی تعریف ذاتی میلان  کی بنیاد پرکی جاسکے

جنس کے تعین کے حوالے سے حالیہ دہائیوں میں مغرب نے ایک نیا نکتہ نظر اپنا لیا ہے۔ عیسائی  چرچ اور اس کے ظالمانہ نظریات کی وجہ سے خواتین کے خلاف صدیوں سے ظالمانہ امتیازی سلوک کے ردعمل کے نتیجے میں مغرب نے جنس کی تعریف کے طور پر صنف پرستی کا سہارا لیا۔ فطری اور حیاتیاتی  طور پر الگ الگ یعنی مذکر اور موئنث پر مبنی جنس کے تصور کی بجائے مغرب نے صنف پرستی کا تصور اختیارکر لیا۔صنف پرستی کے نظریہ کے مطابق کسی فرد کی جنس اس کی سماجی و ثقافتی وضع کے لحاظ سے طے ہوتی ہے۔ صنف پرستی کے نظریہ کے تحت، جنس کی شناخت حیاتیاتی بنیاد کی بجائے کسی فرد کے خود اپنی ذات کے بارے میں  تصور اور میلان کے مطابق کی جاتی ہے۔  جیسا کہ نظریہ وجودیت کی فرانسیسی فلسفی  Simone de beauvoir ، اپنی کتاب " دوسری جنس"(French: Le Deuxième Sexe ) میں کہتی ہے، "عورت پیدائش سے  نہیں ہوتی  بلکہ وہ عورت بن جاتی ہے"۔

 

درحقیقت، صنف پرستی کا فلسفہ مردوعوت کی  الگ الگ فطری شناخت کی بنا پر جنسی تفریق کو ختم کرنے کی کوشش میں نسائیت (feminism)کی تحریک کی دوسری لہر کے جزو کے طور اُبھرا تھا۔ لہٰذا صنف پرستی کا فلسفہ کسی کی جنس کی حیاتیاتی طور پرشناخت کا تعین کرنے کو ختم کرنے کا تقاضا کرتا ہے یعنی یہ  جنس کا کردار اور جنس کے دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے کا تقاضا  تھا جو کہ ظالمانہ تصور کئے جاتے تھے۔

 

نظریہ صنف پرستی  کو ہم جنس پرست تحریک اپناتی ہے

ابتدا میں صنف پرستی کا نظریہ مردوں کی جانب سے عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو روکنے کے لئے اپنایا گیا تھا۔ تاہم، یہ نظریہ حقوق نسواں کی حمایت سے بڑھتا بڑھتا ہم جنس پرست مرد  وں کے حقوق کی حمایت تک چلا گیا۔   ان لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک ختم کرنے کے لئے جو ہم جنس  پرست مرد ہونے کا اعلان کرتے تھے، ہم جنس پرستی کا پرچار کرنے والوں کی جانب سے نظریہ صنف پرستی کی پُرزور حمایت کی گئی۔ پس اس طرح اب اس نظریہ کا مقصد محض خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنا نہ رہ گیا بلکہ نظریہ صنف پرستی اب بڑھ کر ان لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک کو بھی ختم کرنے کیلئے استعمال ہونے لگا جو حیاتیاتی خصوصیات سے قطع نظر خود اپنے ذاتی میلان کی بنا پر اپنے جنس کا انتخاب کرتے ہیں۔

 

شخصی آزادی کے تصور کے ذریعے مغرب نے افراد کو یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ خود اپنے ذاتی میلان کی بنا پر اپنی جنس مقرر کر لیں۔ چنانچہ نظریہ صنف پرستی کے مطابق، ایک مرد، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ مردوں جیسے حیاتیاتی خدوخال رکھتا ہے، وہ خود یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔ اس جنس میں منتقل ہونے کے لئے،  جو اس نے اپنے لئے منتخب کی ہے،  وہ سرجری اور ہارمون کے علاج  کے مرحلے سے بھی گزر سکتا ہے۔اسی طرح وہ انسان اپنی مردانہ ہیئت کو چُھپا سکتا ہے اور نسوانی ہئیت کو اختیار کر سکتا ہے۔ ایسے انسان جنہوں نے طبی مدد کو استعمال کر کے خود اپنی جنس تبدیل کروائی ہو وہ مخلوط الجنس( transsexual )کہلاتے ہیں۔ اسی طرح ایک عورت خود یہ احساس کرسکتی ہے کہ وہ ایک مرد ہے۔ اس طرح کا ایک مشہور کیس ایک عورت، Ellen Paige کا ہے جو کہ ہارمون کی تبدیلی اور سرجری کے بعد Elliot Page بن گیا تھا۔ چنانچہ اب مغربی نکتہ نظر میں ایسے مخلوط الجنس انسان موجود ہیں جو ایسی جنسی شناخت رکھتے ہیں جو ان کی پیدائشی حیاتیاتی جنس سے مختلف ہے۔

 

پاکستان کے ٹرانسجنڈر پروٹیکشن ایکٹ کے معاملہ میں، ترامیم کے بعد، اب یہ قانون  مغربی نظریہ صنف پرستی کی  ہی بنیاد پر ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ، " ایک مخلوط الجنس انسان کو اپنی خود ساختہ جنسی شناخت کے طور پر پہچانے جانے کا مکمل حق ہونا چاہئے"۔ چنانچہ اسلام کے تقاضے کے مطابق  فقط حیاتیاتی خدوخال کو مدنظر رکھتے ہوئے جنس کی شناخت کرنے کی بجائے پاکستان کے حکمرانوں کے مطابق، جنس کا تعین خود اپنی سمجھ کے مطابق ہونا چاہئے جس کی مغرب وکالت کرتا ہے۔

 

جنس اور جنس کے کردار کے حوالے سے متعلق اسلام کا نظریہ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،

 

﴿وَ لَيۡسَ الذَّكَرُ كَالۡاُنۡثٰى﴾

"اور مرد، عورت کی مانند نہیں ہے" (آل عمران: 36)۔

 

اسلام میں بنیادی طور پر دو ہی جنس ہیں۔ دونوں جنسوں کا تعین صرف حیاتیاتی خدوخال کو مدنظر رکھ کرہی  کیا جاتا ہے۔ جنس کا تعین کسی فرد کے ذاتی  فیصلہ کردینے سے یا ذاتی میلان کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ مبہم جنس کا تعین ماہرین کے ذریعہ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں میں سے درست جنس کا تعین کیا جا سکے۔ پھر جنس کے کردار کا تعین  وحی کی بنیاد پر اس سے متعلق شرعی احکامات سے ہوتا ہے۔ . اسلام میں تمام انسانوں   کے لئے مشترک شرعی احکامات ہیں چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، جبکہ ایسے شرعی احکامات بھی موجود ہیں جو کسی ایک جنس کے ساتھ مخصوص ہیں۔لہٰذا  اسلام مرد وعورت، دونوں کو نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض دیتا ہے۔ پھر اسلام صرف خواتین کے لئے حیض و نفاس، حمل اور بچے کی پیدائش جیسے معاملات کے حوالے سے شرعی احکامات دیتا ہے۔ اسلام، مرد کو چھوڑ کر صرف عورت کو بچے کو تحویل میں لینے کا حق بھی دیتا ہے۔ اسلام عورت کو روزی کمانے کا حق بھی دیتا ہے اور اس کے شوہر کو عورت کی کمائی پر کوئی حق نہیں دیتا، جبکہ اسلام مرد پر فرض عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی کفالت کرے۔ جہاد عورت پر فرض نہیں جبکہ یہ مردوں پر فرض ہے۔

 

عورت یا مرد پر ظلم کرنے کی بجائے شرعی قوانین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مرد اور عورت ایک مضبوط خاندانی نظام اور اس خاندانی نظام پر مبنی ایک مستحکم معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔  آج ظلم و جبر کو روکنے والی خلافت کی غیرموجودگی میں بھی مسلم دنیا کا خاندانی نظام، ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی کے بعد اس کے بھیانک نتائج بُھگت رہے ہیں۔

 

اسلام کسی مبہم جنس ( خُنْثَى) کیلئے دو اصناف (مردوعورت) میں سےکسی ایک جنس ہی کا تعین کرتا ہے

لفظ، خُنْثَى ایسے فرد پر لاگو ہوتا ہے جس کو حیاتیاتی خدوخال کے پیشِ نظر آسانی سے مرد یا عورت کے طور پر شناخت نہ کیا جا سکے۔ یہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کے خدوخال ہوتے ہیں یا پھر ایسا انسان جس میں ان میں سے کوئی خدوخال نہیں ہوتے۔ اسلام میں طبی ماہرین ہی  غیر واضح جنس کی حیاتیاتی حقیقت کا مطالعہ کرنے کے بعداس کیلئے  مرد یا عورت میں  سے کسی ایک جنس کا تعین کرتے ہیں۔ مشہور فقیہہ ابن قدامہ مبہم جنس کے حوالے سے اپنی کتاب المغنی میں بیان کرتے ہیں،

 

وَلَا یَخْلُو مِن أَنْ یَکُونَ ذَکَرًا  أَوْ أُنْثَی  ،قَالَ الله تعاليوَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىۙ، وَقَالَ تعالي   وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالاً كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً‌فَلَیْسَ ثَمَّ خَلْقٌ ثَالِثٌ

"یہ مرد یا عورت ہونے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،

 

﴿وَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىۙ﴾

"اور وہی جوڑے پیدا کرتا ہے ، نر اور مادہ  "( سورۃ نجم : 45)  

 

اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،

 

﴿وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالاً كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً‌﴾

"اور دونوں سے کثرت سے مردوعورت پھیلا دئے "( النساء :1

اور اس طرح کوئی تیسری جنس نہیں ہوتی"۔  

 

اس طرح، اسلام کسی تیسری جنس کو معین نہیں کرتا۔ ایک قابل اعتماد مسلمان ڈاکٹر جوپیدائشی بے ضابطگیوں، جنسیاتی اعضاء ، جینیات اور صنفی میلان کے  امور میں مہارت رکھتا ہو، وہ جنس کی تصدیق کرتا ہے۔ چنانچہ پہلے وہ انتہائی حساسیت اور ہمدردی سے حیاتیاتی و طبعی خدوخال اور جسمانی ساخت کا معائنہ کرتا ہے تا کہ یہ جانچ سکے کہ مرد یا عورت کی خصوصیات میں سے کون سے صنفی اثرات غالب ہیں۔ وہ جسمانی طور پر اعضاء جیسا کہ جنسی اعضاء کا معائنہ کرنے کے ساتھ ساتھ X اور Y کروموسوم کو مدنظر رکھتا ہے جو کہ جنس کو تشکیل دیتے ہیں۔ اگر پھر بھی کسی بہت پیچیدہ معاملے میں جب  فقط جسمانی اور جینیاتی خصوصیات کے ذریعے ابہام دُور نہ ہورہا ہو تو درست جنس کا تعین کرنے  کیلئے  مردانہ اور نسوانی طبعی و جنسی میلان اور خواہشات کو بھی  زیرغور لایا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس تشخیص کردہ جنس پر اس کے مطابق اسلامی احکامات جیسے صنفی کردار، ذمہ داریاں اور نکاح  وغیرہ لاگو ہوتے ہیں۔  

جب جنس کا تعین ہوجائے تو اس پر مسلمانوں کا حکمران ہونے کے ناطے ، خلیفہ کے حکم سے توثیق کی جاتی ہے جس کی اطاعت لازمی ہے۔ اس کے بعد اس  انسان کےتعین کردہ جنس کے مطابق پورے معاشرے میں، بغیر کسی تفریق و امتیازی سلوک کے ،عام انسانوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔پھر وہ   مرد یاعورت اسلامی معاشرے کے ایسے قابل قدر رکن کی طرح مربوط ہوتا ہےجس سے تمام  شرعی فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے جبکہ اسے تمام شرعی حقوق میسر ہوتے ہیں۔

 

عورت نُما مرد ( مُخَنَّث) اور مرد نُما عورت ( مُتَرَجِّلَةُ) کے حوالے سے اسلامی احکامات

ابن عباس ؓ سے مروی ہے،

 

لَعَنَ رسول اللہﷺالْمُتَشَبِّھِینَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ)

" اللہ کے نبی ﷺ نے ان مردوں پر لعنت کی جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں " (بخاری)۔ 

 

 ابن عباس ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ ، 

 

(لَعَنَ النبیُ ﷺ الْمُخَنَّثِینَ  مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَقَالَ أخرجوھم من بیُوُتیکُمْ)

"نبی ﷺ نے عورت نما مرد اور مردنما عورتوں پر لعنت کی اور فرمایا، أخرجوهم من بُيُوتكُمْ ،" انہیں اپنے گھروں سے باہر نکالو"(بخاری)۔  

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

﴿ ثَلَاثَةٌ لاَ یَنْظُرُ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ إِ لَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِالْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ وَلْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ وَالدَّیُّوثُ﴾

" تین لوگ ایسے ہیں جن پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ روز قیامت نگاہ بھی نہ ڈالیں گے : ایک وہ جو اپنے والدین کی نافرمانی کرتا ہے ، مردنما عورت اور  دیوث (بے غیرت مرد)"( نسائی) ۔

 

کسی جنس کی مشابہت کرنا عمومی معانی میں آیا ہے جیسے شناخت، کردار، لباس اور مزاج کے لحاظ سے مشابہت ۔ یہ بغیر کسی حد یا تفریق کے مطلق  آیا ہے۔ گناہ کی وسعت اس ہی  جنس کے ساتھ جسمانی تعلقات پر بھی ہے اوروہ سب  جو اس حد تک لے جاتا ہے۔ لہٰذا اسلام میں نفسانی خواہش اور شہوت افعال کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ شرعی قوانین  ہی مردوعورت کے باہمی تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کے متعلقہ طرزِعمل، مزاج اور کردار کا بھی تعین کرتے ہیں۔ اسلام کے باہمی تعلقات کی تفصیل متعین کردینے کے بعد مرد اور عورت میں محبت اور جسمانی تعلقات نکاح کے بندھن ہی کا نتیجہ  ہوتے ہیں۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو ایسا ماحول پیدا کرے گی جو صنف کے حوالے سے درست کردار کو پروان چڑھائے گا۔ یہ اسلامی معاشرہ ہی ہے جو اُن الجھنوں، تکالیف اور بدحالیوں سے کوسوں دور ہے  جو مغربی تہذیب نے اپنی آزادیوں اور اس کے مظہر، صنف پرستی سے پیدا کردی ہیں۔

 

transgender اور transsexual کے متعلق اسلامی نکتہ نظر 

پیدائش کے وقت کے حیاتیاتی حقائق کونظرانداز کرکے خود ساختہ ادراک سے کسی جنس کا تعین نہیں ہوتا۔ مرد سے عورت میں یا عورت سے مرد میں کسی فرد کی جنس کو تبدیل کردینا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنا سمجھا جاتا ہے جو کہ حرام ہے۔ اس میں دونوں طرح کے طریقے ہی شامل ہیں چاہے ہارمون کے علاج سے ہو یا پلاسٹک سرجری کے ذریعے ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں، 

 

﴿اِنۡ يَّدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا‌ۚ وَّاِنۡ يَّدۡعُوۡنَ اِلَّا شَيۡطٰنًا مَّرِيۡدًاۙ۔لَّعَنَهُ اللّٰهُ‌ۘ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنۡ عِبَادِكَ نَصِيۡبًا مَّفۡرُوۡضًاۙ‏۔ وَّلَاُضِلَّـنَّهُمۡ وَلَاُمَنِّيَنَّهُمۡ وَلَاٰمُرَنَّهُمۡ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَلَاَمُرَنَّهُمۡ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰهِ‌ؕ وَمَنۡ يَّتَّخِذِ الشَّيۡطٰنَ وَلِيًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِيۡنًاؕ‏۔يَعِدُهُمۡ وَيُمَنِّيۡهِمۡ‌ؕ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا‏

"اللہ کی بجائے، یہ مشرک دیویوں کی پرستش کرتے ہیں اور صرف شیطان مردود کو ہی پکارتے ہیں۔ جس پر اللہ نے لعنت کی ہے جو یہ کہنے لگا کہ میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا۔ میں ضرور ان کو گمراہ کروں گا اور ان کو آرزوئیں دلاتا رہوں گا اور انہیں یہ حکم دیتا رہوں گا کہ وہ مویشیوں کے کان چیرتے رہیں اور اللہ کی بنائی صورتوں کو بگاڑتے رہیں۔ اور جس نے بھی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا تو وہ صریح نقصان میں پڑگیا۔ شیطان ان کو صرف جھوٹے وعدے دیتا ہے اور انہیں جھوٹی امیدوں سے دھوکے میں ڈالے رکھتا ہے۔ اور شیطان کے وعدے پُرفریب دھوکا ہیں" ( النساء :117-120

 

مرد سے عورت میں  تبدیل ہونے  کا معاملہ نسوانی اوصاف کو ظاہر کرنا یا مردانہ صفات کو چُھپانے کا معاملہ ہے۔ تاہم یہ اس فرد کی پیدائش کے وقت کے حیاتیاتی حقائق کو بدل نہیں سکتا جو کہ اسلام میں جنس کے تعین کی بنیاد ہے۔ چنانچہ تبدیل ہونے سے پہلے کی اس کی اصل جنس یعنی مرد ہونے کے مطابق ہی اسلام کے احکامات اس پر لاگو ہوں گے۔ کسی دوسرے مرد کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ ، جنس کی تبدیلی سے قطع نظر،کسی پیدائشی مرد پیدا ہونے والے کے ساتھ نکاح کے رشتہ میں منسلک ہو ۔

 

نتیجہ : صنف پرستی کے باطل پن سے ٹکر

مغرب اپنے خاندانی نظام اور خاندانی اقدار کو برباد کردینے کے بعد اب مسلم دنیا میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ثقافتی جنگ برپا کئے ہوئے ہے۔ مغرب میں خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے نتیجے میں فطری ربط، برادری اورکسی اجتماعی فعل کے فقدان کے باعث، مغربی حکومتیں کسی نہ کسی طرح اپنے لوگوں کو قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ فکری و نظریاتی لحاظ سے اسلام کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد مغربی حکمران اشرافیہ اب مسلمانوں سے بھی یہی چاہتی ہے۔ مسلمانوں کے مضبوط خاندانی و برادری اور سماجی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی خواہش  کے ساتھ وہ اب مسلمانوں میں صنف پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ کسی طرح مغرب مسلمانوں کو قابومیں رکھ سکے اور نبوت کے نقش قدم پرآنے والی خلافت کے قیام کو روک سکے یا کسی حد تک اس میں تاخیر کرسکے۔ اب یہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی حفاظتی ڈھال یعنی خلافت کو دوبارہ قائم کرنے  کی کوشش کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات و ثقافت سے اپنے آپ کو مضبوطی سے منسلک رکھتے ہوئے اس گندگی کی یلغار کا مقابلہ کریں۔  

 

مصعب عمیر، پاکستان

Last modified onہفتہ, 24 ستمبر 2022 20:48

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک