الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

جوائے لینڈ: فلم کی نمائش کے حق میں سب سے زیادہ زیر بحث سات وجوہات کی تردید

تحریر: ڈاکٹر عبدالبصیر،  پاکستان

 

بہت سے دوسرے تنازعات کے درمیان، ایک نئے تنازع نے ہمارے ملک کو ایک فلم، جوائے لینڈ(1) اور اس پر متنازع پابندی(2) کے حوالے سے گھیر لیا ہے۔ فلم، اپنی باضابطہ ریلیز سے پہلے ہی 4 بڑے ایوارڈز اپنے نام کر چکی ہے، دو ایوارڈز ’معزز‘ کانز فلم فیسٹیول ایل جی بی ٹی مواد کے حوالے سے کوئر پام(3) اور جیوری پرائز(4) کیٹیگری میں حاصل کیا۔ یہ فلم آسکر ایوارڈز میں پاکستان کی باضابطہ انٹری بھی ہے(5)۔ اس میں نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی (6)کو اس کے ایگزیکٹو پروڈیوسر اور امریکہ میں مقیم ہندوستانی فلم ساز اپوروا گرو چرن کو اس کے مرکزی پروڈیوسر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ فلم ساز اپوروا گرو چرن نے بڑےفخر سے دعویٰ کرتی ہیں کہ "میرے خیال میں یہ پہلی پاکستانی فلم ہے جس کی تمام تر مالی معاونت امریکی ہے"(7)۔جو لوگ فلم کی نمائش کے حق میں ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کی حقیقت پر مبنی ہے اس لیے ہمیں اسے پیش کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ جو لوگ اس کے نشر ہونے کے خلاف ہیں وہ اس دلیل کا سہارا لیتے ہیں کہ اس سے معاشرے میں برائی پھیلے گی حالانکہ یہ حقیقت کی عکاسی کر رہی ہے، لیکن حقیقت بذات خود ایک ایسی چیز ہے جو اسلامی طور پر ناجائز اور معاشرتی طور پر ناقابل قبول ہے۔بحث کا مرکز دراصل ایک زیادہ بنیادی سوال ہے، اور وہ یہ کہ کیا لوگوں کو معاشرتی نتائج سے قطع نظر اپنی رائے اور خیالات کا اظہار کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہیے۔ اس سے بھی بنیادی بات یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا معاشرہ ہے جو آزادی اظہار کے نام پر اس طرح کی غیر محدود تقریر کی اجازت دیتا ہے یا یہ محض ایک افسانہ ہے اور لبرل سیکولر معاشرے اور حکومتیں یہ چاہتی ہیں کہ دوسرے معاشرے اس افسانے کو تسلیم کریں ؟درحقیقت، تمام معاشرے، خواہ وہ روایتی ہوں یا لبرل، ان کی کچھ سرخ لکیریں ہوتی ہیں، تاہم، لبرلز یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ جب معاملہ اظہار رائے اور تقریر کا آتا ہے تو وہ اس معاملے میں بالکل آزاد ہیں۔ اس افسانے کو ختم کرنا اتنا مشکل نہیں ہے جب کوئی ان تمام مختلف اصطلاحات پر غور کرے جو لبرل معاشروں نے دراصل آزادی اظہار کو محدود کرنے کے لیے متعارف کرائی ہیں۔'جعلی خبریں'، 'توہین آمیز تحریر کی اشاعت'، 'بغاوت'، 'اشتعال انگیزی'، 'غلط معلومات'، 'نفرت انگیز تقریر(8)'، 'حقائق کی جانچ پڑتال(9)'، 'اشاعت کا تعصب(10)' کلچرمنسوخ کرنا(11)'، 'کوئی پلیٹ فارم نہیں(12)'، 'برڈ واچ(13)'، اور زیادہ رسمی اور قانونی اصطلاح 'تناسب کی جانچ(14)' آزادانہ تقریر کو محدود کرنے کے لیے تمام تر مختلف شکلیں اور آلات ہیں۔اس بات کے بہت سارے ثبوت موجود ہیں کہ جب آزادی اظہار کی بات آتی ہے تو سب سے زیادہ آزاد خیال معاشرے بھی آزادی اظہار کو محدود کرتے نظر آتے ہیں۔ تو پھر لبرل ذہن رکھنے والوں کے پاس کیا اخلاقی جواز کیا ہے کہ وہ ایک ایسی فلم پر پابندی لگانے پر اعتراض کریں جس میں فحش مواد ہو؟یہ فلم ایک ہی جنس کے درمیان ازدواجی تعلقات کو نمایاں طور پر دیکھاتی ہے، اور یہ کام خواجہ سراؤں (انٹر سیکس)کی حالت زار کو سامنے لانے کی آڑ میں کیا گیا ہے۔ کیا ضواجہ سراؤں کے دکھوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا کوئی معقول طریقہ نہیں ہے؟اب جبکہ آزادی اظہار کے دلائل کی ہوا نکل چکی ہے، آئیے کچھ دوسرے دلائل کی طرف چلتے ہیں جو اس طرح کے ناقابل مصالحت مواد کو دیکھانے کے حق میں لائے گئے ہیں۔

 

لوگ اہم سبق سیکھتے ہیں: سب سے بلند دلیل میں سے ایک یہ ہے کہ فلمیں اور ڈرامے لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ جزوی طور پر درست ہو سکتا ہے،لیکن پوری ایمانداری کے ساتھ سوچیں کہ کیا یہ عوام کو تعلیم دینے کا ایک موثر اور کنٹرول شدہ طریقہ ہے؟کیا ہم ان لاکھوں معصوم ذہنوں کو آلودہ کرنے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگا سکتے ہیں جنہوں نے کبھی ایسی حرکتوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا اور اب شاید ان کے بارے میں تصورات بنا رہے ہوں گے؟ کیا ہم بحیثیت معاشرہ اب بھی ڈراموں کے اپنے خاندانی نظام پر پڑنے والے منفی اثرات سے نبرد آزما نہیں ہیں؟(15)

 

نیوز میڈیا بھی ایسے یا اس سے بھی بدتر واقعات کی رپورٹنگ کرتا ہے: ویسے تو اخبارات واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر ان کے ساتھ جذبات کو منسلک کیے بغیر۔ مزید یہ کہ اس طرح کے واقعات خبروں میں اسی روشنی میں رپورٹ کیے جاتے ہیں جس طرح معاشرہ انہیں دیکھتا ہے۔ اس لیے آج تک، فلموں اور ڈراموں میں ان کی تصویر کشی کے علاوہ ازدواجی تعلقات کو مثبت روشنی میں رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نیوز چینلز کے علاوہ دیگر ذرائع ابلاغ کس طرح اخلاقیات کو تبدیل کرنے اور بصورت دیگر بزدلانہ اقدامات اور تصورات کے لیے قبولیت پیدا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔

 

آپ نہ دیکھنے کے لیے آزاد ہیں: یہ دلیل اصل میں اس طرح کے مواد پر پابندی لگانے کے لیے اوپر دی گئی وجوہات میں شامل ہے۔ اگرچہ ہم انفرادی سطح پر آزاد ہیں کہ اگر ہم اس طرح کے مواد کو ناپسند کرتے ہیں یا اس سے اختلاف کرتے ہیں تو اسے نہ دیکھیں، لیکن یہ ہمارے لیے اخلاقی طور پر ضروری ہے کہ ہم دوسروں کو ایسے تصورات پھیلانے سے روکیں جنہیں اسلام غلط اور قابل سزا تصور کرتا ہے۔

 

اسلام صرف ایک فلم سے کیوں خطرے میں ہے؟: ایک بار پھر، یہ بھی اوپر کی بحث میں شامل ہے۔ یہ حقیقت میں اسلام کے لیے خطرہ نہیں ہے، بلکہ یہ فحاشی پھیلا کر اور اس طرح کے غیر اخلاقی اور غیر قانونی رویے کے لیے قبولیت پیدا کر کے مسلمانوں اور معاشرے کو بڑے پیمانے پر خطرے میں ڈالتا ہے۔ مزید یہ کہ، یہاں تک کہ اگر کوئی خطرہ نہیں تھا، تو بھی یہ ایک اصولی مسئلہ ہے۔ موازنہ کے طور پر، کیا سیکولر لبرل ممالک (36 ممالک) جنہوں نے نازی علامتوں کی عوامی نمائش اور/یا ہولوکاسٹ سے انکار پر پابندی لگا ئی ہوئی ہے، تو کیا وہ ان علامات اور اس موضو ع پراظہار رائے سے خطرہ محسوس کرتے ہیں؟ کیا اس سے لبرل ازم کو شدید خطرہ لاحق ہے یا یہ ایک اصولی مسئلہ ہے؟

 

بہتر نقطہ نظر غالب ہوگا: کچھ لوگ بحث کریں گے کہ فلمیں نظریاتی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے موزوں پلیٹ فارم ہیں۔ لہٰذا غیر ازدواجی تعلقات اور تیسری جنس کو فروغ دیا جائے یا نہیں، اس کا فیصلہ ناظرین کو کرنا ہے۔ اگر یہ ایک ٹھوس دلیل ہوتی تو ان لوگوں کے ذریعہ اظہار رائے پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی جو حقیقت میں اس کی آزادی کا اتنی شدت سے دفاع کرتے ہیں۔ تاہم، وہ اسے منظم طریقے سے روکنے میں سخت ترین ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو خیالات ایک خاص لکیر کو عبور کرتے ہیں انہیں فروغ دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام پہلے تو اس طرح کی منافقت سے پاک ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر آزادی اظہار کی کبھی حمایت نہیں کرتا کہ بعد میں اس پر پابندی لگائی جائے ۔ ان مسائل پر بحث کرنے کے حوالے سےیہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ہاں ایسی بحثیں ہونی چاہئیں لیکن فلمیں اس کے لیے صحیح پلیٹ فارم نہیں ہیں کیونکہ ایسی فلمیں عقل سے زیادہ جذبات کو متاثر کرتی ہیں۔ مزید برآں، ان فلموں کے صارفین کو سکے کے دونوں رخ نہیں دکھائے جاتے ہیں، بلکہ زیادہ تر فلم بنانے والے کے ایجنڈے کے حق میں رائے بناتی ہیں ۔

 

LGBTQI حقوق کے لیے بات کرنے میں کیا حرج ہے؟: یہ شاید سب سے دلکش دلیل ہے کیونکہ اس میں ہمدردی شامل ہے۔ اگرچہ خواجہ سرا (انٹرسیکس) کمیونٹی کی بدحالی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام اس مسئلے کو کس طرح دیکھتا ہے اور کس طرح اس سے نمٹتا ہے۔ اسلام ٹرانسجینڈر اور خواجہ سرا (انٹر سیکس) لوگوں میں فرق کرتا ہے۔تین مختلف امور ہیں کہ جنہیں سمجھنا ہے؛ صنفی شناخت(gender identity)، صنفی اظہار(gender expression)، اور حیاتیاتی جنس(biological gender)۔ صنفی شناخت سے مراد کسی شخص کے مرد، عورت یا کچھ اور ہونے کا اندرونی احساس ہے۔ صنفی اظہار سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے کوئی شخص اپنے طرز عمل، لباس، بالوں کے انداز وغیرہ کے ذریعے صنفی شناخت کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔حیاتیاتی جنس سے مراد کسی شخص کی عورت، مرد یا خواجہ سرا (انٹر سیکس) کی حیثیت کا تعین ان کے کروموسوم، تولیدی اعضاء اور دیگر خصوصیات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ واضح شرعی شواہد کے مطابق، پہلی دو قسمیں، جہاں انسان کا تاثر (17)یا اظہار(18) اس کی حیاتیاتی جنس کے خلاف ہو، اسلام میں قطعی طور پر ناقابل قبول اور ممنوع ہیں۔ہم انسان اپنی جنس کا انتخاب اس بات کی بنیاد پر کرنے کے لیے آزاد نہیں ہیں کہ ہم کیا محسوس کرتے ہیں یا پسند کرتے ہیں، بلکہ یہ وہ چیز ہے جو خالصتاً حیاتیاتی حقیقت کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں، اگر صنفی شناخت یا صنفی اظہار حیاتیاتی جنس کے مطابق نہیں ہے، تو ان کو ٹرانس میل (متراج الله) اور ٹرانس فیمیل (موخاناس) کہا جاتا ہے۔ان شاذ و نادر صورتوں کے لیے جہاں حیاتیاتی جنس مبہم ہے، جسے عام طور پر انٹرسیکس (خنسہ) کہا جاتا ہے، ماہرین کی مدد سے انہیں ایک جنس تفویض (مخصوص)کی جاتی ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ ضرورت پڑنے پر انہیں جراحی کے طریقہ کار سے بھی مدد ملتی ہے۔ اسی طرح قابل قبول جنسی رجحان صرف مخالف جنس کے لیے اور بھی ظاہر ہے صرف نکاح کی حدود میں۔ اب اسلامی قانون کے مطابق تیسری جنس نہیں ہو سکتی اور جنس کوئی ایسی بہتی ہوئی چیز نہیں ہے جو آپ کی حیاتیاتی حقیقت کی حدود سے تجاوز کر سکے، اس لیے ٹرانس جینڈر افراد، یعنی وہ لوگ جو اپنی حیاتیاتی جنس کے مطابق نہیں ہیں، انہیں اسلام کے مطابق ہم جنس پرست کے طور پر دیکھا جاتا ہے جب اپنی فہم کے مطابق سمجھی جانے والی شناخت کی بنیاد پر مخالف جنس کے ساتھ اپنی جنسیت کا اظہار کرتے ہیں۔ لہٰذا، اس فلم کا مواد ہم جنس پرست بھی ہے اور اس لیے اسلامی اور ثقافتی نقطہ نظر سے اس سے بھی زیادہ قابل اعتراض اور نفرت انگیز ہے۔

 

لیکن سینسر بورڈ نے اسے اجازت نامہ دے دیا ہے!: ایک اور کمزور لیکن عام دلیل یہ ہے کہ ایک بار جب کسی فلم کو سنسر بورڈ سے اجازت نامہ مل جاتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔اس دلیل کو الٹ ہونا جائے اوریہ پوچھا جانا جائے کہ اگر سینسر بورڈ ہمارے ملک میں ایسی فلم کو نمائش کے لیے اجازت نامہ دے دے تو پھر ایسے سینسر بورڈکی کیا حیثیت ہو گی؟یا اس سے بھی آگے جا کر یہ پوچھا جانا چاہیے ، کہ ان تمام فلموں اور ڈراموں کا کیا ہوگا جو معاشرے کے آئینہ دار کے ہونے کے نام پرتشدد، بددیانتی، اور ہر دوسرے ممکنہ برائی کو دیکھاتی ہیں جن کے مطلق انسان سوچ سکتا ہے؟سنٹرل بورڈ آف فلم سنسر، جو موشن پکچرز آرڈیننس، 1979 (19)کے تحت قائم کیا گیا ہے، اپنے پہلے "فلموں کی تصدیق کرنے میں رہنمائی کے اصول" کے طور پر واضح طور پر کہتا ہے کہ "کسی فلم کو عوامی نمائش کے لیے سرٹیفکیٹ نہیں دیا جائے گا اگر، بورڈ کی رائے میں، فلم یا اس کا کوئی حصہ اسلام کی شان یا پاکستان یا اس کے کسی بھی حصے کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات یا کسی جرم کے ارتکاب کے مترادف ہے۔ "یہ واضح رہے کہ ہماری جیسی سیکولر جمہوریتوں میں ایسے قوانین انتہائی طاقتور مغربی ایجنڈے کے سامنے صرف زبانی جمع خرچ ہی ہوتے ہیں جو شاذ و نادر ہی فنانسنگ کے بغیر ہوتا ہے۔

 

ایک حتمی بات پر، ہاں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہر قسم کی معلومات کو محدود نہیں کر سکتے اور اس لیے دفاع کی پہلی اور سب سے بڑی دیوار اس کے اپنے اخلاق، اقدار اور عقائد ہیں، تاہم، یہ کبھی بھی اس طرح کے بے لگام مواد کو معاشرے میں بے لگام پھیلانے کا جواز نہیں بن سکتا۔ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو جہنم کی آگ (20)سے بچانے کے احکام کے ساتھ، برائی سے منع کرنے کا حکم (نَّهْيْ عَنِ ٱلْمُنْكَرْ)(21) بھی بہت مضبوط دلیل پر قائم اور ناقابل تردید ہے۔ یہ والدین کو درپیش چند چیلنجز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

 

نتیجہ اخذ کرنے کے لیے، یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں، ہمارے درمیان چند انتہائی جدیدیت پسندوں کو چھوڑ کر، حساسیت عام طور پر معاشرے میں کافی واضح ہے جہاں زیادہ تر لوگ فلم کے موضوع سے بیزار ہیں جو کہ جنسی بغاوت اور ہم جنس پرستی کے گرد گھومتی ہے۔ اسی لیے ہم اس مسئلے پر عوامی ردعمل دیکھ رہے ہیں تاہم دیگر بہت سے اہم مسائل اس طرح کی عوامی جانچ سے بچ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایسا کیوں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کہلانے کے باوجود مختلف حکومتی اداروں کی سرپرستی میں قرآن و سنت کی ہر قسم کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، خواہ وہ سود، غیر ملکی مداخلت، غیر منصفانہ ٹیکس، وعدہ خلافی ہو یا اس کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری بیماریاں  ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام برائیوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں والدین اور معاشرے کے ارکان کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

[1]https://www.imdb.com/title/tt19719976/

2https://www.aljazeera.com/news/2022/11/17/pakistan-lifts-ban-on-joyland-film-about-transgender-love-affair

3https://en.wikipedia.org/wiki/Queer_Palm

4https://www.indiewire.com/2022/05/cannes-un-certain-regard-winners-2022-1234729113/

5https://www.hindustantimes.com/entertainment/others/pakistan-lifts-ban-on-official-oscar-entry-joyland-film-may-release-on-friday-101668616312631.html

6https://tribune.com.pk/story/2380414/malala-joins-joyland-as-executive-producer

7https://variety.com/2022/film/news/joyland-pakistan-transgender-cannes-1235273919/

8https://www.un.org/en/hate-speech/understanding-hate-speech/what-is-hate-speech

9https://en.wikipedia.org/wiki/Fact-checking

10https://www.bmj.com/rapid-response/2011/10/31/what-publication-bias

11https://en.wikipedia.org/wiki/Cancel_culture

12https://blogs.lse.ac.uk/humanrights/2021/05/18/do-no-platform-policies-violate-freedom-of-expression/

13https://www.theguardian.com/technology/2021/jan/25/twitter-birdwatch-misinformation-donald-trump-election

14https://link.springer.com/article/10.1007/s12142-020-00608-8

15http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/view/162

16https://en.wikipedia.org/wiki/Bans_on_Nazi_symbols

18 The Prophet () cursed effeminate men (those men who are in the similitude (assume the manners of women) and those women who assume the manners of men, and he said, "Turn them out of your houses.” Sahih al-Bukhari

19 Allah's Messenger () cursed those men who are in the similitude (assume the manners) of women and those women who are in the similitude (assume the manners) of men. Sahih al-Bukhari

20http://punjablaws.gov.pk/laws/1517a.html

21 Oh you who believe. Protect yourselves and your families from a Fire whose fuel is people and stones…” (Surah Al-Hashr:6)

22 “You are the best nation produced [as an example] for mankind. You enjoin what is right and forbid what is wrong and believe in Allah” (Surah Aal Imran:110)

Last modified onہفتہ, 10 دسمبر 2022 03:49

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک