بسم الله الرحمن الرحيم
"کل" کے غلاموں کی حکمرانی کو قبول کر کے برطانیہ نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے
خبر:
رشی سنک نے اگلے وزیر اعظم بننے کی دوڑ جیتنے کے بعد ایک "گہرے معاشی چیلنج" کا سامنا کرنے کے لیے اتحاد کی درخواست کی ہے۔ حریف پینی مورڈانٹ کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کی درکار حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد رشی سنک نے کنزویٹو جماعت کی قیادت کا مقابلہ جیت لیا۔ اپنی پہلی تقریر میں، جناب سنک نے کہا کہ اپنی پارٹی اور برطانیہ کو یکجا کرنا ان کی "انتہائی ترجیح" ہوگی۔ جناب سنک برطانیہ کے پہلے برطانوی ایشیائی وزیر اعظم اور 200 سال سے زائد کےعرصے میں سب سے کم عمر وزیر اعظم بنیں گے۔ 42 سالہ جناب سنک ، جو ہندو مذہب پر عمل کرنے والے کے طور پر جانے جاتے ہیں، بادشاہ کی طرف سے باضابطہ طور پر تقرری کے بعد منگل کو عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ لز ٹرس کی جگہ لے رہے ہیں، کیونکہ گزشتہ ہفتے صرف 45 دن کےہنگامہ خیز وزارت اعظمی کے دور کے بعد اُس نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ (بی بی سی)
تبصرہ:
جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ 'برطانیہ'، جو کہ استعماریت اور نسل پرستی کی ماں ہے، ایک ایسا ملک بن گیا ہے جو "ترقی پذیر" ممالک کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور لوگوں کی غلامی خصوصاً برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کی غلامی پر اپنی سلطنت قائم کرنے کے بعد اب اپنی نفرت انگیز نسل پرستی کو ترک کر چکا ہے ، تو وہ افسوسناک طور پر غلطی پر ہے!
اس کے برخلاف جس چیز نے برطانوی اشرافیہ کو اپنے کلب ہاؤس میں ایک ہندوستانی کو قبول کرنے پر مجبور کیا ہے، وہ ان کا مکمل سیاسی اور معاشی دیوالیہ پن ہے۔ یہ دیوالیہ پن اس وقت پیدا ہوا جب برطانیہ نے برصغیر پاک و ہند، مشرق وسطیٰ، اور افریقہ سمیت دنیا کے کئی خطوں میں اپنا استعماری اثر و رسوخ کھو دیا۔ لہٰذا محل میں "غلاموں" کے داخلے کو قبول کرنے سے محل کو ہونے والے شدیدنقصانات کا پتہ چلتا ہے۔ تاہم، محل میں "غلاموں" کے داخلے سے وسیع نقصانات کی تلافی نہیں ہو گی۔
آئیے یوکرائن کی جنگ کے نتیجے میں برطانیہ سمیت یورپ کو ہونے والے بڑےنقصانات پر غور کریں۔ برطانیہ، امریکہ کا مقابلہ کرنے بلکہ اس کے سائے میں چلنے سے بھی قاصر ہے۔ برطانیہ ایک کمزور ملک بن چکا ہے۔ اس کا وزن دوسرے یا تیسرے درجے کے کسی بھی یورپی ملک سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی منظر نامے یا یورپی علاقائی منظرنامے پر بھی اثر انداز ہونے سے قاصر ہے۔
سنک کا انتخاب، اور برطانوی اشرافیہ کی طرف سے وزیراعظم کے طور پر اُس کی قبولیت بالکل ویسےہی ہے جیسے امریکہ میں نسل پرست سرمایہ داروں نے "سیاہ" اوباما کو وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ دونوں استعماری سرمایہ دارانہ ممالک کے حقیقی حکمران وہ نہیں ہیں جو وائٹ ہاؤس یا ہاؤس آف کامنز میں سرکاری کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔ اس کے بجائے، وہ لوگ حقیقی حکمران ہیں جو کمپنیوں کے مالک ہیں، جو دنیا کے مظلوم ممالک سے دولت لوٹ رہے ہیں۔ سیاست دان،چاہے وہ سفید فام ہو، سیاہ فام ہو یا ہندوستانی، اُن کی حیثیت ملک میں سرکاری عہدوں کو سنبھالنے کے لیے ملازمین سے زیادہ اورکچھ نہیں۔ یہ مغرب کے نظامِ حکومت کی حقیقت ہے۔
یوکرین میں روسی ریچھ کی پسلیاں توڑنے، سخت سردی میں یورپ کو منجمد کرنے اور چینی پانڈا کو بے اثر کرنے کا کام کرتے ہوئے، امریکہ اس بات کی کوشش کررہا ہے کہ بین الاقوامی منظر نامے پر کوئی اس کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ امریکہ امتِ اسلامیہ کو زیر کرنے کے لیے عالم اسلام کے حکمرانوں میں موجود اپنے ایجنٹوں پر مکمل انحصار کر رہا ہے۔ پرانی دنیا کی صلیبی ریاستیں اب اسلامی امت کا مقابلہ کرنے کے قابل یا تیار نہیں ہیں، اگر امت اب ریاست خلافت قائم کرتی ہے۔
یہ دن اس امت کے تمام مخلص لوگوں کے لیے سنہری موقع ہیں اور ان کے سردار،مسلمانوں کی فوجوں میں موجود مخلص مسلمان ہیں۔ انہیں اپنی امت کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے دین کی حمایت کے لیے نصرۃ فراہم کرنی چاہیے۔ انہیں ریاستِ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو اپنی نصرت فراہم کرنی چاہیے۔ تو کیا وہ اپنی امت اور اپنے لیے یہ سنہری موقع کھو دیں گے؟ کیا وہ دنیا کی عزت اور آخرت کی سعادت سے خود کو محروم کر لیں گے؟! یا اللہ عزوجل کے دین اور قوم کی بھلائی کو محفوظ بنانے کے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں گے، تاکہ وہ دنیا کی شان، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشنودی اور جنت کی نعمتیں حاصل کر سکیں؟! اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَفِىۡ ذٰلِكَ فَلۡيَتَنَافَسِ الۡمُتَنــَافِسُوۡنَؕ
"تو (نعمتوں کے) شائقین کو چاہیے کہ اسی سے رغبت کریں ۔"(المتففین، 83:23)۔
ریڈیو مرکزی میڈیا آفس کے لیے بلال المہاجر ، ولایہ پاکستان، نے لکھا