السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

نوید بٹ کی جبری گمشدگی، 11 مئی 2012ء سے اب تک

 

مصعب عمیر، پاکستان

 

نوید بٹ، جو چار بچوں کے والد ہیں، انہیں پاکستان کے شہر لاہور سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنے چھوٹے بچوں کو اسکول سے لے کر گھر واپس آرہے تھے۔ انہیں حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں نے اغوا کیا جس کی گواہی ہمسایوں اور اہلِ خانہ نے بھی دی۔11 مئی 2012 ءکو ان کی گمشدگی کے بعد سے اب تک گیارہ برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔

 

گزشتہ کئی سالوں سے نویدبٹ کی اہلیہ نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے مسلسل تگ ودَو کی ہے۔  انہوں نے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں بے شمار درخواستیں دائر کی ہیں۔

 

4 جنوری 2018 ءکو جبری گمشدگیوں کے پاکستان انکوائری کمیشن نے  اپنےحوالہ نمبر ColoED ID No. 860-P میں   نوید بٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے۔   اس آرڈر میں درج ہے کہ "اس کیس کی کاروائی کے دوران حاصل کئے گئے ثبوت کی بنیاد پر، انکوائری کمیشن کو شک ہے کہ گمشدہ شخص نوید بٹ کو اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ اہلکاروں نے اُٹھایا تھا اور انہیں غیرقانونی حراست میں رکھا ہواہے"۔پروڈکشن آرڈر میں پھر یہ درج ہے کہ "انکوائری کمیشن کویہ ہدایات دیتےہوئے  خوشی ہے کہ  نوید بٹ کو پانچ ہفتوں کے اندر اندر انکوائری کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے، اور اس میں ناکامی کی صورت میں قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے گی"۔

 

نوید بٹ پاکستانی حکام اور اداروں کے ہاتھوں تاحال اغوا ہیں اگرچہ وہ ادارے ان کی حراست میں ہونے کے بارے میں ،حتیٰ کہ ان کا   کسی قسم کا  اتا پتہ معلوم  ہونے   کے بارے میں بھی مسلسل انکاری ہیں  !

 

نوید بٹ پیشے کے اعتبارسے الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی یونیورسٹی آف الینوئے سے تعلیم حاصل کی اور کچھ عرصہ شکاگو میں کام کرنے کے بعد پاکستان لوٹ آئے۔ وہ ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان ہیں۔جب وہ آزاد تھے تو وہ حکمرانوں کی ناانصافیوں اور امریکی احکامات  کی غلامی کرنے کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں اسلامی نظام اوراسلام کی حکمرانی کی وکالت کرتے ہوئے پاکستانی حکام کی کرپشن پر تنقید  کی۔

 

نوید نے 2001 ء میں امریکی صدر جارج بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سابق صدر پرویز مشرف کی حمایت کرنے کے خلاف پاکستان میں مظاہروں کی قیادت کی۔2004 ء میں انہوں نے مشرف کے عراق پر امریکی حملے کی حمایت میں فوج بھیجنے کے منصوبے کے خلاف میڈیا کیمپین کی۔ 2008 ء میں انہوں نے پاکستان کے لیے خلافت کا منشور پیش کرنے کے ساتھ ساتھ خلافت کی تفصیلات کے بارے میں بیداری پیدا کی۔ 2011ء میں انہوں نے ایبٹ آباد پر امریکی حملے میں پاکستانی حکمرانوں کی سہولت کاری کی مذمت کرتے ہوئے ایک مہم کی قیادت کی۔

 

یقیناً نوید کو پاکستان کے بااثر حلقات میں بخوبی جانا اور مانا جاتا ہے جن میں سے بہت سے لوگوں سے وہ ذاتی طور پر کئی بار ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ اور آج تک وہ لوگ  نوید بٹ کی خیرخبر دریافت کرتے رہتے ہیں،  کبھی ظالموں کے ظلم کے ڈر سے اور کبھی نوید کی خیریت کی تشویش میں۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو اورخصوصاً صحافی، وکلاء اور انسانی حقوق کےلئے سرگرم کارکنان !

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«إنَّ النَّاسَ إَذا رَأوُا الظَّالِمَ فَلمْ يَأْخُذُوا عَلى يَدَيْهِ أوْشَكَ أن يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بعِقَاب»

’’اگرلوگ کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اوراسے اس ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ کا عذاب ان سب کو اپنی  لپیٹ میں لےلے گا‘‘(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)۔

 

ریاستی غنڈوں کی طرف سے نوید بٹ کا اغوا ایک کھلم کھلا جبر اور ظلم وزیادتی ہے جس پر آپ خاموش نہیں رہ سکتے۔

 

مزید برآں، نوید بٹ کے گھروالوں کو بھی ان کے ساتھ اس اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

 

نویدبٹ کی اہلیہ، جو کہ ایک تعلیم یافتہ وکیل ہیں، ان کا کہنا ہے " میرے شوہرنویدبٹ بہت نرم مزاج اور شفیق انسان ہیں۔ وہ اپنے پورے خاندان کے لئےہردلعزیز ہیں۔ ان کی بہنیں اور بھائی ان کی اس طویل گمشدگی سے دل برداشتہ ہوچکے ہیں۔ہمارے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ہمارا سب سے چھوٹا بیٹاابھی صرف دوسال کا تھاجب نوید کواغوا کیا گیا۔ آج جب وہ اپنے والد کے بارے میں سوال کرتا ہےتومیں اس سے یہ کہتی ہوں کہ انہیں جس جرم کی پاداش  میں  حبس ِ بے جامیں رکھا جارہا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دین کی بات کرتے ہیں اور صرف اللہ تبارک تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ ہی انہیں اس ظلم سے آزاد کراسکتی ہے۔ میری بیٹی اپنے والد کو پہلے سے بھی زیادہ یاد کرتی ہے اور اپنے والد کی رہائی کے لئے دن رات دعائیں مانگتی رہتی ہے"۔

 

نوید کے اغوا کے چار سال بعد، جب ان کی بیٹی،مریم جو ابھی محض دس سال کی تھی تو وہ یہ کہا کرتی تھی،"میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ میرے ابو گھر آجائیں۔ ہرکوئی اپنے والدین سے محبت کرتا ہے۔اکثرکبھی کسی کے والد یا والدہ اپنے بچوں کو ڈانٹ بھی دیتے ہیں لیکن تب بھی وہ اپنی اولاد سے بہت پیارکرتے ہیں۔ جب بھی میرے ابو گھرسے کام پرجانے کے لئے باہرنکلتے،تو میں انتہائی بے چینی سے ان کا انتظارکرتی تھی۔ اور جب وہ گھرواپس آتے تومیں بھاگ کران کے پاس جاتی اور ان کی گود میں بیٹھ جاتی۔ چار سال بیت گئے لیکن وہ ابھی تک واپس نہیں آئے جب بھی میں کسی کے ابو کو اپنے بچوں کے ساتھ شفقت ومہربانی کا برتاؤ کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے اپنے ابو بہت یاد آ تے ہیں"۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو اورخصوصاً صحافی، وکلاء اور انسانی حقوق کےلئے سرگرم کارکنان !

 

نوید بٹ نےصرف ہمارے لئے اور ہمارے دین کے لئے حق کی آوازبلند کی اور اس کے لئے انہیں سزا دی جارہی ہے۔

 

ملک میں ہونے والے ظلم و ناانصافی کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے اور سر گرمِ عمل رہنے پر انہیں ریاست کی جانب سے مسلسل دھمکیاں ملتی رہتی تھیں۔انہیں کئی بارگرفتار بھی کیا گیا اور وہ مسلسل خطرے کی زد میں تھے۔ اپنے اغواء سے چند ہفتے پہلے تک نوید کوگمنام نمبروں سے دھمکی آمیز فون کالز آتی تھیں۔

 

نوید بٹ کو ریاست کی جانب سے مشکوک سکیورٹی اہلکاروں نے اغوا کیا اور ایک وین میں ساتھ لے گئےجسے ان کے بچوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا جو اس وقت دس، نو اور چھ سال کی عمر کے تھے۔ اور ان کا سب سے چھوٹابیٹا ابھی محض دو سال کاتھا۔

 

انہیں سکیورٹی فورسز نے اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے اگرچہ وہ ادارے یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ نوید ان کے پاس ہیں یا وہ ان کی موجودگی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ نوید کی جسمانی اور ذہنی صحت کی خیرخبر کے حوالے سے بھی کچھ معلوم نہیں ، اور ان کے گھر والوں کو ان گیارہ برسوں میں ان کی حالت کے بارے میں کوئی  خبر نہیں مل سکی۔ ان کی حالت کے بارے میں کوئی سرکاری بیان یا تصدیق  سامنے نہیں آئی۔

البتہ غیر سرکاری ذرائع سے نوید کے گھروالوں کو یہ اطلاعات دی گئی ہیں کہ نوید بٹ کو کَڑی تفتیش سے گزارا گیا ہے۔ایک سرکاری اہلکار نے تو یہ شکایت تک کی کہ انتہائی شدید تشدد کے باوجود، نویدبٹ ڈٹے رہے اور انہوں نے اپنا مضبوط مؤقف رتی بھر بھی نہیں بدلا۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو اورخصوصاً صحافی، وکلاء اور انسانی حقوق کےلئے سرگرم کارکنان !

 

جبری گمشدگیاں برطانوی استعماری راج کا ورثہ ہے اور  موجودہ امریکی راج کا ایک اہم ستون ہے۔

دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے اوائل میں جبری گمشدگی کی کاروائیاں بڑے پیمانے پر کی گئیں، مردوں اور عورتوں کو غائب کیا گیا اور انہیں دوسرے ملکوں کے حوالے کردیا گیا۔ پاکستا ن اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔

مارچ 2022 ءمیں جبری گمشدگیوں پر کمیشن نے یہ انکشاف کیا کہ صرف اسی ایک ماہ کے دوران 76 افراد کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ سامنے آچکی ہے۔

 

جبری گمشدگی وہ ہوتی ہے جب کسی شخص کو " ریاست یا  سیاسی ادارے کی جانب سے خفیہ طور پر اغوا کیا جائے یا اسے حراست میں ڈالا جائے ، یا کسی ریاست یا سیاسی ادارے کی ایماء، حمایت اوررضامندی پر  کوئی تیسری ایجنسی اپنی حراست میں لے لے اور پھر وہ اس شخص کا اتاپتہ اور موجودگی کے بارے میں انکار کر دیں تاکہ ظلم کا شکار بننے والے شخص کو قانونی تحفظ حاصل کر سکنے  سے  دور  رکھا جائے"۔

 

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان گزشتہ برسوں سے گمشدگی کے ان مقدمات کو درج کر رہا ہے، اور دسمبر 2021ء تک انہوں نے 2800 سے زیادہ لاپتہ افراد کے مقدمات کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے 1357 ابھی تک لاپتہ ہیں، ان میں سے ایک نوید ہیں۔

 

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ ، دونوں ادارے جبری گمشدگیوں کی مذمت کرچکے ہیں اور پاکستانی حکام سے اس ظلم وجبرکی پالیسی کے خاتمے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔

 

حکومت نوید بٹ کے پروڈکشن آرڈر کے احکامات کے مطابق انہیں رہاکرنے میں ناکام رہی ہے۔نوید بٹ کے خاندان والوں نے اس کیس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی دائر کیا ہے جہاں فی الحال اس پر غوروخوض جاری ہے۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو اورخصوصاً صحافی، وکلاء اور انسانی حقوق کےلئے سرگرم کارکنان !

 

نوید بٹ کی اہلیہ کا یہ کہنا ہے ،" میرے شوہر کا جُرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے حق کے لئے آواز بلند کی۔ اور اسی لئے میں اہلِ قوت اور پاکستان کے حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ انہیں فوری طور پر رہاکیاجائے۔وہ پہلے ہی غیرقانونی حراست میں کئی سالوں پر محیط سزاکاٹ چکے ہیں۔ہم انصاف کی تلاش میں کونا کونا چھان چکے ہیں، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان اور لاہورہائی کورٹ شامل ہیں۔ حتی ٰ کہ ہمارا مقدمہ جبری گمشدگیوں کے کمیشن میں بھی سناگیا لیکن عدالتوں کے بارہا  احکامات جاری کرنے کے باوجود نوید بٹ کوکبھی بھی  کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیاگیا"۔

 

نوید بٹ کی اہلیہ نے یہ بھی کہا، " میں پاکستان کی حکومت، فوج اور ریاستی ایجنسیوں سے اپنے شوہر کی رہائی کی اپیل کرتی ہوں کیونکہ انہیں صرف سچ بولنے کے جُرم کی کافی زیادہ سزادی جاچکی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ، میں اور میرے بچے بھی ان کی اس طویل گمشدگی کی سزا بُھگت چکے ہیں۔انہیں فی الفور رہا کیا جائے کیونکہ یہ انسانیت اور انصاف کے تمام تقاضوں کے خلاف ہے"۔

 

یہ ہمارا فرض ہےکہ ہم   ہر اس فورم پر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں ،جو ہمیں میسر ہے اور نوید بٹ کی فوری رہائی کا مطالبہ کریں۔ تو آئیں اور سب مسلمان مل کر، خاص طورپر وہ  جو بااثر اور اہلِ قوت ہیں ، نوید بٹ اور ان کے اہلِ خانہ پرہونے والے  اس ظلم وجبر کے خاتمہ کا تقاضا کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا وخوشنودی حاصل کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،

 

«مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ اَلدُّنْيَا، نَفَّسَ اَللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ»

’’اگرکوئی شخص ایک مسلمان سے اس دنیا کی ایک تکلیف دور کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس سے روزِ قیامت کی ایک تکلیف دورکریں گے"۔ (مسلم)

Last modified onاتوار, 30 اپریل 2023 16:55

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک