بسم الله الرحمن الرحيم
نُصْرَۃ کا حصول: خلافت کے قیام کے لیےاتھارٹی (اقتدار) حاصل کرنے کا شرعی طریقہ
الواعی میگزین شمارہ 258-259، سے ترجمہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اولین مسلمانوں کو عزت وشرف بخشا، انہیں اجرِ عظیم سے نوازا اوراپنی عالی شان کتاب قرآنِ مجید میں ان کی تعریف بیان کی۔ وہ اولین مسلمان ،وہ دو سعادت مند گروہ جنہوں نے اسلامی ریاست کے قیام کے عظیم مشن کو پورا کیا، اللہ تعالیٰ نے انہیں مہاجرین اور انصار کے نام سے مخاطب کیا۔ مہاجرین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس دین کی خاطر ہجرت کی اور انصاروہ ہیں جنہوں نے اس دین کیلئے نُصْرَۃدی۔ یہ ہجرت دراصل اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان تھااور اسلام کے گھریا زمین (دارالاسلام)کی جانب منتقل ہوناتھا، جبکہ نُصْرَۃ اسی ہجرت کی خاطر اور دارالاسلام کے قیام کیلئے تھی۔ پس نُصْرَۃاور انصار کے بغیرنہ تو ہجرت ہوتی اور نہ ہی مہاجرین، مہاجرین کہلاتے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان ،جو اکثر و بیشتر قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہو اور اس تلاوت میں وہ انصار و مہاجرین کے فضائل کا تذکرہ پڑھتا ہو، وہ ہجرت اور نُصرہ کی فضیلت سے صَرف نظر کر سکے؟
چونکہ ہم نصرۃ پر بحث کر رہے ہیں جس کے بعد ہجرت وقوع پذیر ہوئی ، اس لیے ہمارے لئے ناگزیر ہے کہ ہم نبی ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور اسوہ ٔ رسول ﷺ کی پیروی کریں۔ نبی ﷺ کی مکی زندگی کا محور اسلام کے نفاذ کے لئے ایک دار(گھر) قائم کرناتھا، جسے دارالاسلام کہتے ہیں۔ آپ ﷺ ایک سوچے سمجھے ہدف کے ساتھ ایک واضح متعین راستے پر چلے تاکہ بعد کی نسلیں دارلاسلام کی غیر موجودگی کی صورت میں اس کے قیام کیلئے نہ صرف اس راستے کی اتباع کر سکیں، بلکہ اس راستے کی پیروی کرناان کیلئے لازم ہو۔
ہجرت سے تین سال قبل 10سنِ نبوی کو آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا۔ ابوطالب ،جنہوں نے کسی حد تک آپ ﷺ کے لیے حفاظت کا سامان کر رکھا تھا جس کے باعث آپ ﷺ بخیر و عافیت اسلام کی دعوت کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے، کی وفات کے بعدنبی ﷺ نے محسوس کیاکہ مکہ کے معاشرے پرنہ تو اسلام کی دعوت کا زیادہ اثر ہے اور نہ ہی مکہ میں اسلام اور اسلام کے افکار کیلئے رائے عامہ ہموارہے ۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نُصرہ طلب کرنے کا حکم دیا۔ نصرۃ لغت میں ـ’’احسن انداز میں مدد‘‘ کو کہتے ہیں۔ عربی لغات میں بیان کیا گیا ہے کہ نصر کا مطلب ظلم کے شکار لوگوں کی مدد کرنا ہے، اور انصار کا معنی ہے وہ گروہ جو مدد مہیا کرے اورنصرۃ کا مطلب ہے اچھے انداز میں مدد کرنا۔ سیرۃ ابنِ ہشام کے باب ’’ نبی ﷺ کی ثقیف کے قبیلے سے نُصرۃحاصل کرنے کی کوشش‘‘ میں درج ہے:
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ : وَلَمّا هَلَكَ أَبُو طَالِبٍ، نَالَتْ قُرَيْشٌ مِنْ رَسُولِ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) مِنَ الأَذَى مَا لَمْ تَكُنْ تَنَالُ مِنْهُ فِي حَيَاةِ عَمّهِ أَبِي طَالِبٍ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) إلَى الطّائِفِ يَلْتَمِسُ النّصْرَةَ مِنْ ثَقِيفٍ، وَالْمَنَعَةَ بِهِمْ مِنْ قَوْمِهِ، وَرَجَاءَ أَنْ يَقْبَلُوا مِنْهُ مَا جَاءَهُمْ بِهِ مِنْ اللّهِ عَزّ، وَجَلّ فَخَرَجَ إلَيْهِمْ وَحْدَهُ’’
ابنِ اسحاق بیان کرتے ہیں : جب ابوطالب کا انتقال ہواتو قریش نے نبی ﷺ کو اتنی اذیتیں دیں جتنی کہ وہ ان کی موجودگی میں کبھی نہیں دے سکتے تھے۔ پس نبی ﷺ طائف روانہ ہوئے تاکہ ان سے نُصرۃ طلب کر سکیں اور ان سے کہہ سکیں کہ وہ اس پر ایمان لائیں جو آپ ﷺ پراللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے۔ آپ ﷺ اکیلے طائف روانہ ہوئے تھے ‘‘۔
ابنِ عباس، علی بن ابی طالب سے نقل کرتے ہیں:
لَمَّا أَمَرَ اللَّهُ نَبِيّه أَنْ يَعْرِض نَفْسَه عَلَى قَبَائِل الْعَرَب، خَرَجَ وَأَنَا مِنْهُ وَأَبُو بَكْر إِلَى مِنًى، حَتَّى دَفَعَنَا إِلَى مَجْلِس مِنْ مَجَالِس الْعَرَب’’
جب اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ قبائلِ عرب کے سامنے اپنے آپ کو پیش کریں تو آپ ﷺ میرے اور ابو بکرکے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر عربوں کی ایک مجلس ہو رہی تھی‘‘۔(ابنِ حجرعسقلانی نے فتح الباری ، تحفۃالاحوذی اور الکلام میں، نیز حاکم اور ابونعیم نے اور بیہقی نے الدلائل میں قوی راویوں سے اس حدیث کوروایت کیا(۔
پس یہ واضح ہے کہ نبی ﷺ کی طرف سے اپنے آپ کوعرب قبائل پر پیش کرنا ، ان سے نُصرہ طلب کرنا نیز اس نُصرۃ کو طلب کرنے کا وقت ،سب براہِ راست اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے تھا،جیسا کہ علی بن ابی طالب کی درج بالاروایت سے واضح ہے۔ اس حکم کا وقت اس بات سے مطابقت رکھتا ہے کہ نبی ﷺ ابوطالب کے انتقال کے باعث مدد اور حفاظت کھوچکے تھے۔ قریش اب نبی ﷺ کو اس بات کے لیے کھلا چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہیں۔ مزید برآں نبی ﷺ کو مکہ کے معاشرے سے امید نہیں تھی کہ وہ آپ ﷺ کے اقتدار و اختیار کو تسلیم کرتے کیونکہ مکہ کے معاشرے کی رائے عامہ اسلام کیلئے ہموار نہ تھی۔ پس اس موقع پرآپ ﷺ کو نُصرۃطلب کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ دعوت کو سہارا مل سکے اور اسلام کو اس مقام پر لایا جا سکے کہ جہاں اسلام کو اتھارٹی حاصل ہو اور اسلام کے احکامات کاجامع انداز میں نفاذہوسکے۔ نبی ﷺ نے نصرۃ طلب کرنے کی ابتدا طائف سے کی، جس کا شمار اس وقت جزیرۃ العرب کے طاقتور ترین قبائل میں ہوتا تھا۔ درحقیقت یہ قبیلہ طاقت، عزت اور مرتبے میں قریش کے ہم پلہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ولید بن مغیرہ نے محمد ﷺ پر قرآن کے نزول کا انکار کیا تو اس نے کہا کہ آخر کیوں یہ کتاب قریش اور طائف کے شرفاء پر نازل نہ ہوئی۔ جس پر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:
(وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْءانُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ)
’’ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن کیوں دو شہروں(مکہ اور طائف)کے بڑے آدمیوں پر نازل نہیں کیا گیا‘‘(سورۃ الزخرف: 31)۔
اہلِ طائف کی طاقت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد بھی طائف آسانی سے فتح نہ ہو پایا۔ اس کا محاصرہ کیا گیا اور دونوں جانب بھاری جانی نقصان ہوا یہاں تک کہ منجنیقوں کے ذریعے اہلِ طائف کی مزاحمت توڑنے کی کوشش کی گئی۔
نبی ﷺ طائف کے سرداروں اور شرفاء سے ملنے وہاں گئے۔ وہ طائف کے تین سرداروں سے ملے اور ان سے اسلام اور نُصرۃسے متعلق بات کی۔ تاہم نبی ﷺ ان سے مایوس لوٹ آئے کیونکہ ان سرداروں نے آپ ﷺ کو نُصرۃدینے سے انکار کر دیاتھا۔ یہ آغاز تھا۔ نبی ﷺ طائف سے واپس لوٹے اور مکہ کے نواح میں مطعم بن عدی کے پاس ٹھہرے اور حج کے اوقات میں عرب کے دیگر طاقتور قبائل سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ قبائلی سردار درحقیقت آج کی حکومتوں کے سربراہوں جیسی حیثیت رکھتے تھے۔ سیرت ابنِ ہشام کے باب :’’نبی ﷺ کا اپنے آپ کو قبائل پر پیش کرنا‘‘میں بیان کیا گیا ہے کہ ابن اسحق نے روایت کیا:
ثُمّ قَدِمَ رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) مَكّةَ، وَقَوْمُهُ أَشَدُّ …، فَكَانَ رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) يَعْرِضُ نَفْسَهُ فِي الْمَوَاسِمِ إذَا كَانَتْ عَلَى قَبَائِلِ الْعَرَبِ يَدْعُوهُمْ إلَى اللّهِ، وَيُخْبِرُهُمْ أَنّهُ نَبِيّ مُرْسَلٌ، وَيَسْأَلُهُمْ أَنْ يُصَدّقُوهُ وَيَمْنَعُوهُ حَتّى يُبَيّنَ (لَهُمْ) اللّهُ مَا بَعَثَهُ بِهِ
’’نبی ﷺ مکہ واپس آئے تو قریش پہلے سے بھی زیادہ شدید ہو گئے...پس نبی ﷺ نے حج کے اوقات میں مختلف قبائل سے رابطہ کیا ۔ آپ ﷺ انہیں بتاتے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول ہیں اور ان پر زور دیتے کہ وہ آپ ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ ﷺ کی حفاظت کریں یہاں تک کہ اللہ اُسے ظاہرکر دے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔‘‘
سیرت کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی ﷺ حج کے اوقات میں ہر اس شخص سے رابطہ کرتے جو کسی عزت و طاقت کے مقام پر فائزتھا۔ سیرت ابنِ ہشام کے باب:’’نبی ﷺ کا اوقاتِ حج میں عربوں سے رابطہ‘‘ میں درج ہے کہ ابن اسحق بیان کرتے ہیں:
فَكَانَ رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) عَلَى ذَلِكَ مِنْ أَمْرِهِ، كُلّمَا اجْتَمَعَ لَهُ النّاسُ بِالْمَوْسِمِ أَتَاهُمْ يَدْعُو الْقَبَائِلَ إلَى اللّهِ وَإِلَى الإِسْلاَمِ، وَيَعْرِضُ عَلَيْهِمْ نَفْسَهُ وَمَا جَاءَ بِهِ مِنْ اللّهِ مِنْ الْهُدَى وَالرّحْمَةِ، وَهُوَ لا يَسْمَعُ بِقَادِمِ يَقْدَمُ مَكّةَ مِنْ الْعَرَبِ لَهُ اسْمٌ وَشَرَفٌ، إلا تَصَدّى لَهُ فَدَعَاهُ إلَى اللّهِ وَعَرَضَ عَلَيْهِ مَا عِنْدَهُ"
’’دوران حج جب بھی نبی ﷺ لوگوں سے ملتے تو مستقل مزاجی کے ساتھ(طلبِ نصرۃ اور حفاظت)کے معاملے کے پیچھے لگے رہتے۔ آپ ﷺ قبائل کو اسلام کی جانب بلاتے اور اپنے آپ کو اور جو کچھ آپ ﷺ پر نازل ہوا تھا، اسے قبائل پر پیش کرتے۔ نبی ﷺ نے ایسے کسی بندے کو نہ چھوڑا جو تھوڑے سے بھی شرف و مرتبے کا حامل ہو، جس نے مکہ کا سفر کیا ہو اور آپ ﷺ نے اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب نہ بلایا ہو اور اپنی دعوت پیش نہ کی ہو‘‘۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نُصرہ کی تلاش میں بنی کلب کے پاس گئے اور انھوں نے آپ ﷺ کو قبول کرنے سے انکارکر دیا۔ آپ ﷺ یمامہ کے بنی حنیفہ کے پاس گئے اور وہ تمام عربوں سے زیادہ گستاخی سے پیش آئے۔ آپ ﷺ بنی عامر بن صَعْصَعہ کے پاس گئے لیکن انھوں نے یہ شرط رکھی کہ آپ ﷺ کے بعد اختیار( اتھارٹی یا حکومت)ان کو دیا جائے گا ، آپ ﷺ نے اس مشروط پیشکش کومسترد کر دیا۔ پھر آپ ﷺ یمن کے بنی کنِدہ کے خیموںمیں گئے اور انھوں نے بھی آپ ﷺ کے بعد اتھارٹی اپنے ہاتھ میں ہونے کا مطالبہ کیا، پس آپ ﷺ نے ان کی نُصرۃکی پیش کش مسترد کر دی۔ آپ ﷺ بنی بکر بن وائل کے خیموں میں گئے ، انہوں نے آپ ﷺ کی حفاظت کا ذمہ لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ سلطنتِ فارس کی سرحدکے پاس رہتے تھے۔ جب آپ ﷺ نے بنی ربیعہ کے خیموں کا دورہ کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ آپ ﷺ بنی شعبان سے ان کے خیموں میں ملے ،یہ قبیلہ بھی سلطنتِ فارس کی سرحد کے قریب رہتاتھا۔ بنی شعبان نے نبی ﷺ کو پیش کش کی کہ وہ عربوں سے تو آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے تیار ہیں، تاہم انہوں نے فارس سے حفاظت پر معذوری کا اظہار کیا، پس نبی ﷺ نے انہیں جواب دیا:
«ما أسأتم الرد إذ أفصحتم بالصدق، إنه لا يقوم بدين الله إلا من حاطه من جميع جوانبه»
’’تمہاری طرف سے اس سچ کا اظہار دراصل اس دعوت کا مسترد کرنا ہے۔ اللہ کے اس دین کے لیے صرف وہی کھڑے ہوسکتے ہیں جو ہر طرف سے اس دین کی حفاظت کرسکیں۔‘‘
نبی ﷺ نے مختلف قبائل کے انکار کے باوجود طلبِ نُصرۃ کا عمل جاری رکھا، نبی ﷺ نہ توڈگمگائے، اور نہ ہی مایوس ہوئے اور نہ ہی آپ ﷺ نے اس طریقۂ کارکو تبدیل کیا۔ ’زادالمعاد‘ میں واقدی سے روایت ہے، جو بیان کرتے ہیں:وَكَانَ مِمّنْ يُسَمّى لَنَا مِنْ الْقَبَائِلِ الّذِينَ أَتَاهُمْ رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) وَدَعَاهُمْ وَعَرَضَ نَفْسَهُ عَلَيْهِمْ بَنُو عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَة، وَمُحَارِبُ بْنُ حصفة، وَفَزَارَةُ، وَغَسّانُ، وَمُرّةُ، وَحَنِيفَةُ، وَسُلَيْمٌ، وَعَبْسُ، وَبَنُو النّضْر،ِ وَبَنُو الْبَكّاءِ، وَكِنْدَةُ، وَكَلْبٌ، وَالْحَارِثُ بْنُ كَعْبٍ، وَعُذْرَةُ، وَالْحَضَارِمَةُ، فَلَمْ يَسْتَجِبْ مِنْهُمْ أَحَدٌ.’’ ...نبی ﷺ جن قبائل سے ملے اور انہیں دعوت دی اور ان پر اپنے آپ کو نُصرۃکے لیے پیش کیا، ان میں بنی عامر بن صعصعہ، محارب ابن حفصہ، فزارہ، غسّان ، مُرّہ، حنیفہ، سُلیم، عبس، بنو نضر، بنو بکاء ، کِندہ، کلب، حارث ابن کعب، عُدرہ اور حضارِمہ شامل ہیں، کسی نے بھی دعوت قبول نہ کی۔‘‘
نبی ﷺ مسلسل نُصر ہ طلب کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس دین کو نُصرہ سے نوازا۔ سیرت ابنِ ہشام میں ابنِ اسحاق سے مروی ہے:
"فَلَمّا أَرَادَ اللّهُ عَزّ وَجَلّ إظْهَارَ دِينِهِ وَإِعْزَازَ نَبِيّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) وَإِنْجَازَ مَوْعِدِهِ لَهُ خَرَجَ رَسُولُ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) فِي الْمَوْسِمِ الّذِي لَقِيَهُ فِيهِ النّفَرُ مِنْ الأَنْصَارِ، فَعَرَضَ نَفْسَهُ عَلَى قَبَائِلِ الْعَرَبِ، كَمَا كَانَ يَصْنَعُ فِي كُلّ مَوْسِمٍ. فَبَيْنَمَا هُوَ عِنْدَ الْعَقَبَةِ لَقِيَ رَهْطًا مِنْ الْخَزْرَجِ أَرَادَ اللّهُ بِهِمْ خَيْراً."
’’جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس دین کے غلبے ، اپنے نبی کو شرف بخشنے اور اپنے وعدے کی تکمیل کا ارادہ کیا، تو نبی ﷺ حج کے اوقات میں نکلے اور ان کی ملاقات انصار کے کچھ لوگوں سے ہو گئی۔ نبی ﷺ نے اپنے آپ کو عرب قبائل پر پیش کیا جیسا کہ آپ ﷺ اس سے پہلے کرتے رہے تھے۔ پس آپ ’العقبہ‘ کے مقام پر تھے ،جہاں آپ نے قبیلہ خزرج کے اُن افراد سے ملاقات کی ،جنہیں اللہ بھلائی عطا کرناچاہتا تھا۔ ‘‘
خزرج کے ان افراد نے آپ ﷺ کی دعوت قبول کی اوروہ قبیلۂ اوس سے اپنے تنازعات سلجھانے کیلئے واپس چلے گئے۔ اگلے سال وہ 12افرادکے ساتھ آئے اور انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ عقبہ کے مقام پر ملاقات کی۔ یہاں پر عقبہ کی پہلی بیعت ہوئی۔ پھر جب مدینہ کا معاشرہ مصعب بن عمیر کی کوششوں کے باعث تیار ہو گیا تو مدینہ کے شرفاء نے نبی ﷺ سے ملاقات کی تاکہ نبی ﷺ کو نُصرۃاور حفاظت کی پیش کش کر سکیں۔ پس وہ دوبارہ نبی ﷺ سے عقبہ میں ملے اور یہاں انھوں نے نبی ﷺ کی بیعت کی۔ یہ بیعت نبی ﷺ کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کی بیعت تھی۔ سیرت ابنِ ہشام نے اس بیعت کو روایت کیا ہے:
ثُمّ قَال: أُبَايِعُكُمْ عَلَى أَنْ تَمْنَعُونِي مِمّا تَمْنَعُونَ مِنْهُ نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ. قَالَ: فَأَخَذَ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ بِيَدِهِ ثُمّ قَالَ: نَعَمْ وَاَلّذِي بَعَثَك بِالْحَقّ (نَبِيّاً) لَنَمْنَعَنّك مِمّا نَمْنَعُ مِنْهُ أُزُرَنَا، فَبَايِعْنَا يَا رَسُولَ اللّهِ، فَنَحْنُ وَاَللّهِ أَبْنَاءُ الْحُرُوبِ وَأَهْلُ الْحَلْقَةِ وَرِثْنَاهَا كَابِرًا (عَنْ كَابِرٍ)
’’میں تم لوگوں سے بیعت لیتا ہوں کہ تم میری ایسی حفاظت کرو گے جیسے کہ اپنے بیوی بچوں کی کرتے ہو۔ ‘‘ بَراء بن معرورؓنے نبی ﷺ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا: بیشک اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ رسول بنا کر بھیجا، ہم آپ ﷺ کی ایسی حفاظت کریں گے جیسے کہ ہم اپنی اولاد کی کرتے ہیں، یا رسول اللہ! ہم سے بیعت لیجئے، اللہ کی قسم ہم جنگوں کے بیٹے ہیں اور سامانِ حرب ہمارے لئے کھلونوں کی مانند ہیں، اوریہ بات ہمارے آباؤ اجداد سے ہم میں میراث کے طور پرچلی آ رہی ہے‘‘۔
پس انصار کی اس نُصرۃ کے ذریعے اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور اسلامی ریاست وجود میں آ گئی
!
نبی ﷺ نُصرۃ دو امور کیلئے طلب کر رہے تھے۔ اول: اپنی حفاظت اور ایذاوتکلیف کو دور کرنے کیلئے تاکہ وہ اپنے رب کا پیغام پہنچا سکیں اور دوئم: اسلام کو ریاست اور اختیار و اقتدار کی پوزیشن پر لانے کیلئے ۔ جہاں تک پہلے مقصد کا تعلق ہے ،تو حاکم نے اپنی مستدرک میں جابرؓسے حدیث روایت کی جو کہ شیخین (بخاری و مسلم)کی شرائط پر پورا اترتی ہے:
كان رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) يعرض نفسه على الناس... فيقول: هل من رجل يحملني إلى قومه، فإن قريشاً قد منعوني أن أبلغ كلام ربي؟ قال: فأتاه رجل من بني همدان فقال: أنا. فقال: وهل عند قومك منعة؟ قال: نعم. وسأله من أين هو فقال: من همدان. ثم إن الرجل خشي أن يخفره قومه -أي ينقضوا عهده- فأتى رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) فقال: آتي قومي فأخبرهم ثم ألقاك من عام قابل. قال: نعم
'’رسول اللہ ﷺ لوگوں پر اپنے آپ کو پیش کرتے اور کہتے:ـ کیا ایسا کوئی ہے جو مجھے اپنے لوگوں کے پاس لے جائے، یہ قریش مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں؟ــ بنی ہمدان سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیااور کہا:میں لے جاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا:کیا تمہاری قوم کے پاس قوت ہے۔ اس شخص نے جواب دیا :ہاں۔ آپ ﷺ نے اُس شخص سے پوچھا کہ تم کہاں سے ہو۔ اس شخص نے کہا کہ وہ بنی ہمدان سے ہے۔ پھر اس شخص کو خوف ہوا کہ اس کے لوگ شا ید اسے شرمندہ کر یں(اس کا حفاظت کا وعدہ پورا نہ کریں)، پس وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا:میرے لوگ آ رہے ہیں، آپ ان سے بات کریں ، اور میں آپ سے اگلے سال ملاقات کرونگا۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا:اچھا‘‘۔سیرت ابنِ ہشام میں ابنِ اسحٰق سے مروی ہے:
فكان رسول الله يعرض نفسه في المواسم على قبائل العرب يدعوهم إلى الله وإلى نصرته، ويخبرهم أنه نبي مرسل، ويسألهم أن يصدّقوه ويمنعوه حتى يبين عن الله ما بعثه به
’’رسول اللہ ﷺ حج کے ایام میں عرب قبائل سے رابطہ کرتے ، انہیں اللہ کی جانب پکارتے اور نُصرۃ طلب کرتے، آپ ﷺ انہیں بتاتے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور ان سے کہتے کہ وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی حفاظت کریں یہاں تک کہ اللہ اس کو غالب کر دے جو اللہ نے نازل کیا ہے‘‘۔
پس نُصرۃ طلب کرنے کی یہ درخواست اس مقصد کیلئے تھی تاکہ رسول اللہ ﷺ حفاظت سے اس دعوت کو آگے لے جا سکیں۔
جہاں تک نُصرۃطلب کرنے کے دوسرے مقصد، یعنی اسلام کو ریاست اور اتھارٹی کی پوزیشن پر لانے کا تعلق ہے، تو یہ وہ ہے جس کے متعلق آپ ﷺ نے بنی شعبان سے ان کے خیموںمیں گفتگو کی اور ان سے نصرۃ طلب کی،لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ اسی طرح وہ گفتگو جو آپ ﷺ نے بنی عامر بن صعصعہ اور بنی کندہ سے کی لیکن انھوں نے آپ ﷺ کے بعد اقتدار کا مطالبہ کیا، نبی ﷺ نے اس مشروط نُصرۃکو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سلسلہ عقبہ کے مقام پر بیعتِ ثانیہ پر اختتام پذیر ہوا جہاں آپ ﷺ کی جانب سے حفاظت طلب کرنے پراوس اور خزرج نے آپ ﷺ کی خاطر جنگ کرنے کی بیعت کی۔ آپ ﷺ قبائل کے سامنے نُصرۃ کا مطالبہ رکھنے سے قبل انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ سیرت ابنِ ہشام میں زُہری سے روایت ہے:
((أَنّهُ أَتَى بَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ فَدَعَاهُمْ إلَى اللّهِ عَزّ وَجَلّ وَعَرَضَ عَلَيْهِمْ نَفْسَهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ - يُقَالُ لَهُ بَيْحَرَةُ بْنُ فِرَاسٍ …وَاَللّهِ لَوْ أَنّي أَخَذْت هَذَا الْفَتَى مِنْ قُرَيْشٍ ، لَأَكَلْتُ بِهِ الْعَرَبَ ، ثُمّ قَالَ أَرَأَيْتَ إنْ نَحْنُ بَايَعْنَاك عَلَى أَمْرِك ، ثُمّ أَظْهَرَك اللّهُ عَلَى مَنْ خَالَفَك ، أَيَكُونُ لَنَا الْأَمْرُ مِنْ بَعْدِك ؟ قَالَ الْأَمْرُ إلَى اللّهِ يَضَعُهُ حَيْثُ يَشَاءُ قَالَ فَقَالَ لَهُ أَفَتُهْدَفُ نَحُورُنَا لِلْعَرَبِ دُونَك ، فَإِذَا أَظْهَرَك اللّهُ كَانَ الْأَمْرُ لِغَيْرِنَا لَا حَاجَةَ لَنَا بِأَمْرِك))
''آپ ﷺ بنی عامر بن صعصعہ کے پاس گئے اور انہیں اللہ عز و جل کی طرف دعوت دی اور ان پر اپنے آپ کو پیش کیا(یعنی نصرۃ طلب کی)۔ تو ان میں سے ایک شخص جسے بیحرۃ بن فراس کہا جاتا تھا، نے کہا: اگر یہ شخص میری مٹھی میں آ جائے تو میں اس کے ذریعے پورے عرب کو کھا جاؤں۔ پھر اس نے آپ ﷺ سے کہا: ’’ آپ کیا کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ’امر‘ (حکومت) پر آپ کی بیعت کر لیں اور پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے مخالفوں پر فتح عطا فرما دے تو کیا آپ کے بعد یہ ’امر‘ (یعنی حکومت) ہمیں ملے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’امر‘ (حکمرانی) اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسے چاہے اسے سونپ دے۔ اس پر اس شخص نے کہا: کیا ہم آپ کے لئے عربوں کے تیروں سے اپنے سینے چھلنی کرائیں اور پھر جب آپ کامیاب ہو جائیں تو حکمرانی ہمارے علاوہ کسی اور کو ملے؟! نہیں ہمیں آپ کے ’امر‘ کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ عرب خوب جانتے تھے کہ آپ ﷺ نصرۃ طلب کر کے درحقیقت کیا طلب فرما رہے ہیں، یعنی ایک اتھارٹی اور ریاست کے قیام کے لیے ایک مضبوط اور طاقتور قبیلے کی حمایت۔ وہ جانتے تھے کہ اس اتھارٹی کے خلاف پورا عرب اٹھ کھڑا ہوگا۔ نصرۃ دینے والے قبائل کورسول اللہﷺ اور اس نوخیز ریاست کی حفاظت کے لئے پورے عرب کے خلاف لڑنا پڑیگا۔ اس قربانی کے بدلے بنو عامر اور بنی کنِدہ رسول اللہ ﷺ کے بعداپنے لیے حکومت اور سرداری کی ضمانت چاہتے تھے اور اسی شرط پر نصرۃ دینے کے لئے تیار تھے۔ یہ یثرب کے اوس و خزرج ہی تھے جنہوں نے بغیر کسی شرط کے محض اللہ کی رضا کے لئے آپ ﷺ کی حفاظت اور اسلام کے نفاذ کے لئے نصرۃ فراہم کی۔
انصار نے یہ بیعت عقبہ کے مقام پر دی۔ بیعت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس بن عبدالمطلب نے سب سے پہلے گفتگو کا آغاز کیا ۔ سیرت ابنِ ہشام میں کعب بن مالکؓ سے مروی ہے کہ عباس نے انصار سے خطاب کرتے ہوئے کہا :
(يَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ …فَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنّكُمْ وَافُونَ لَهُ بِمَا دَعَوْتُمُوهُ إلَيْهِ وَمَانِعُوهُ مِمّنْ خَالَفَهُ فَأَنْتُمْ وَمَا تَحَمّلْتُمْ مِنْ ذَلِكَ وَإِنْ قَالَ فَقُلْنَا لَهُ قَدْ سَمِعْنَا مَا قُلْت ، فَتَكَلّمْ يَا رَسُولَ اللّهِ فَخُذْ لِنَفْسِك وَلِرَبّك مَا أَحْبَبْت)
’’اے خزرج کے لوگو!...اگر تم سمجھتے ہو کہ جس غرض سے تم نے ان کو دعوت دی ہے اسے پورا کرو گے اور ان کے مخالفین سے ان کی حفاظت کرو گے تو بے شک تم اس بار کو اٹھا لو۔ ورنہ اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہارے ہاں چلے آنے کے بعد تم ان کا ساتھ چھوڑ دو گے تو بہتر یہ ہے کہ ابھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو‘‘۔ انصار نے یہ سننے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کیا اور کہا کہ آپ ﷺجو چاہیں اپنے لئے عہد و پیمان لے سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے قرآن کی آیات تلاوت فرمائیں اور اسلام کی ترغیب کے بعد فرمایا:
((أُبَايِعُكُمْ عَلَى أَنْ تَمْنَعُونِي مِمّا تَمْنَعُونَ مِنْهُ نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ))
’’کہ میں اس شرط پر تم سے بیعت لیتا ہوں کہ تم میری اس طرح حفاظت کرو گے جس طرح تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو‘‘۔
اس پر براء نے بیعت دینے کے لیے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہاہم آپ ﷺ کی بیعت کرتے ہیں۔ بخدا ہم اہلِ حرب اور اہلِ جماعت ہیں اور یہ فخر ہم کو وراثتاً اپنے بزرگوں سے ملتا رہا ہے۔ براء ابھی گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ان کی بات کاٹ کر ابو الہیثم بن تیہان نے کہا: اے رسول اللہ ﷺ ہمارے اور یہودیوں کے درمیان جو رشتہ اور تعلق ہے ہم اسے قطع کر دینے کے لئے آمادہ ہیں اگر ہم نے ایسا کر دیا اور اللہ نے آپ ﷺ کو غلبہ عطا فرمایا تو کیا آپ ﷺ ہمیں چھوڑ کر پھر اپنی قوم کے پاس چلے آئیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرمایا پھر کہا:
((بَلْ الدّمَ الدّمَ وَالْهَدْمَ الْهَدْمَ أَنَا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مِنّي، أُحَارِبُ مَنْ حَارَبْتُمْ وَأُسَالِمُ مَنْ سَالَمْتُمْ))
’’(تمہارا) خون (میرا) خون، (تمہاری) بربادی (میری) بربادی ہے۔ میں تم سے ہوںاور تم مجھ سے ہو جس سے تم لڑو گے میں لڑوں گا، جس سے تم صلح کرو گے میں صلح کروں گا‘‘۔
سیرت ابنِ ہشام میں عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے:
))أَنّ الْقَوْمَ لَمّا اجْتَمَعُوا لِبَيْعَةِ رَسُولِ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ قَالَ الْعَبّاسُ بْنُ عُبَادَةَ بْنِ نَضْلَةَ الْأَنْصَارِيّ ، أَخُو بَنِي سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ يَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ ، هَلْ تَدْرُونَ عَلَامَ تُبَايِعُونَ هَذَا الرّجُلَ ؟ قَالُوا : نَعَمْ قَالَ إنّكُمْ تُبَايِعُونَهُ عَلَى حَرْبِ الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ مِنْ النّاسِ فَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنّكُمْ إذَا نُهِكَتْ أَمْوَالُكُمْ مُصِيبَةً وَأَشْرَافُكُمْ قَتْلًا أَسْلَمْتُمُوهُ فَمِنْ الْآنَ فَهُوَ وَاَللّهِ إنْ فَعَلْتُمْ خِزْيُ الدّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنّكُمْ وَافُونَ لَهُ بِمَا دَعَوْتُمُوهُ إلَيْهِ عَلَى نَهْكَةِ الْأَمْوَالِ وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ فَخُذُوهُ فَهُوَ وَاَللّهِ خَيْرُ الدّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالُوا : فَإِنّا نَأْخُذُهُ عَلَى مُصِيبَةِ الْأَمْوَالِ وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ . فَمَا لَنَا بِذَلِكَ يَا رَسُولَ اللّهِ إنْ نَحْنُ وَفّيْنَا ( بِذَلِكَ ) قَالَ الْجَنّةُ . قَالُوا : اُبْسُطْ يَدَك . فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعُوهُ وَأَمّا عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ فَقَالَ وَاَللّهِ مَا قَالَ ذَلِك الْعَبّاسُ إلّا لِيَشُدّ الْعَقْدَ لِرَسُولِ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ فِي أَعْنَاقِهِمْ . وَأَمّا عَبْدُ اللّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ مَا قَالَ ذَلِكَ الْعَبّاسُ إلّا لِيُؤَخّرَ الْقَوْمَ تَلِك اللّيْلَةَ رَجَاءَ أَنْ يَحْضُرَهَا عَبْدُ اللّهِ بْنُ أُبَيّ ابْنِ سَلُولَ ، فَيَكُونَ أَقْوَى لِأَمْرِ الْقَوْمِ . فَاَللّهُ أَعْلَمُ أَيّ ذَلِكَ كَانَ((
"جب یہ سب جماعت رسول اللہ ﷺ کی بیعت پر آمادہ ہوئی تو عباس بن عبادہ بن نضلۃ الانصاری نے جو بنی سالم بن عوف کے رشتہ دار تھے سب کو مخاطب کر کے کہا: تم ان ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ گئے ہو جو ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی وجہ سے تم پر عائد ہوں گی۔ انہوں نے کہا ہاں سمجھ گئے۔ انہوں نے کہا: اس بیعت کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں ہر قوم سے لڑنا پڑیگا ، تو اگر ان کی حمایت میں کسی مصیبت کی وجہ سے تمہاری دولت برباد ہو جائے اور تمہارے اشراف مارے جائیں اور پھر تم ان کا ساتھ چھوڑ دو تو اُس وقت ایسا کرنے سے یہ بہتر ہے کہ ابھی انکار کر دو۔ کیونکہ اقرار کے بعد عدم ایفا ء کرنے کا نتیجہ دین و دنیا کی رسوائی ہے۔ اور اگر تم ان تمام مصائب پیش آنے کے بعد بھی ایفائے عہد کے لئے آمادہ ہو تو بیشک انہیں اپنے ساتھ لے چلو۔ اس میں دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہے ۔ اس پر سب حاضرین نے کہا: ہم مال و جان کی مصیبت کو برداشت کر کے آپ ﷺ کو لیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ آپ فرمائیں اگر ہم نے آپ کے ساتھ وفا کی تو ہمیں اس کے بدلے میں کیا ملے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:جنت۔ انہوں نے کہا ہاتھ پھیلائیے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ بڑھایا اور سب نے آپ ﷺ کی بیعت کی۔
پس ہجرتِ مدینہ کا اصل مقصد اسلام کے نفاذ کے لئے اقتدار حاصل کر کے اسلامی اتھارٹی یا حکومت کا قیام تھا جس کے تحفظ کی یقین دہانی انصار بیعت کے ذریعے فراہم کر رہے تھے۔ یہ ہے وہ نصرۃ کی دوسری قسم جس کا مقصد اسلامی اتھارٹی یا اسلامی ریاست کو قائم کرنا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی جانب سے اللہ کے حکم پر طلبِ نُصرۃکیلئے ان تھک کوششیں کرنااور ہر قسم کی تکالیف اور ناکامیوں کے باوجود ، استقامت کے ساتھ مسلسل اسی طریقے پر بلا کسی تبدیلی کے ڈٹے رہنا ، اس بات کی طرف واضح اشارہ(قرینہ) ہے کہ اللہ کی طرف سے طلبِ نُصرۃ کا حکم،ایک حتمی حکم تھا اور اس بنا ء پر فرض تھا۔ یہ ریاست کے قیام اور اسلامی طرزِ زندگی کے احیاء کے طریقۂ کار کا حصہ ہے جس سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں۔
پس کوئی بھی جماعت جو اسلام کے بطورِ ریاست نفاذ کے لیے کام کر رہی ہو اس پر لازم ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے اتھارٹی کے حصول کے لیے اپنے دور کے اہلِ نُصرۃ (اہلِ قوت) سے نصرۃ طلب کررہی ہو۔ آج اہلِ نُصرۃ یا اہلِ قوت اسلامی ممالک کی افواج ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنے وقت میں قبائل کو ایک وجود یا اکائی تصور کرتے تھے اور ان میں موجود اہلِ نُصرۃسے نُصرۃطلب کرتے تھے۔ جبکہ آج اس کا اطلاق مسلم افواج یا بعض ممالک میں اُن بڑے قبائل پر ہوتاہے، جو حکومت کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پس حزب التحریر،جو کہ خلافت کے قیام کے ذریعے اسلامی طرزِ زندگی کے احیا ء کیلئے کام کر رہی ہے،ان اہلِ قوت سے نُصرہ طلب کرتی ہے ۔
حزب التحریرکا نُصرۃطلب کرنا سیاسی عمل ہے،جبکہ مادی اعمال کرنا اہلِ قوت کا کام ہے جواس کی صلاحیت رکھتے ہیں اورحزب کے لیے افواج کو حرکت میں لا سکتے ہیں اور اتھارٹی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ حزب التحریرمختلف ذرائع سے اہلِ قوت کو ابھارتی ہے کہ وہ ریاستِ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکو نُصرۃ دیں ،یعنی وہ موجودہ حکمرانوں کو اکھاڑنے کے لیے حرکت میں آئیں اور ان حکمرانوں کی بجائے حزب التحریرکو حکومت و اقتدار منتقل کریں ۔ نیز حزب امت کے ذریعے اہلِ قوت پر اثر انداز ہوتی ہے کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے قدم اٹھائیں۔
نُصرۃطلب کرنا انتہائی اہم عمل ہے، علاوہ ازیں یہ طریقہ کار کے لحاظ سے فرض بھی ہے۔ اوراس حال میں کہ جب معاشرے میں پختہ عزم کا فقدان ہو اوراتھارٹی امت کے ہاتھ میں نہ ہوتو ان حالات میں تبدیلی محض عوام کو اسلام کے نفاذ کے لیے قائل کرنے سے نہیں لائی جا سکتی۔ پس اہلِ نُصرۃسے طاقت اور اقتدار کو حاصل کر کے اسلام کو مکمل اور انقلابی انداز میں نافذ کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سے قبل ضروری ہے کہ اسلامی افکار کو معاشرے میں غالب کردیا جائے یہاں تک کہ معاشرے میں اسلام کے نفاذ کے لیے رائے عامہ قائم ہو جائے ۔
طلبِ نُصرۃکا شرعی حکم اس قدر اہم ہے کہ اسی پر ریاست خلافت کے انہدام کے بعد اس کے دوبارہ قیام کا دارومدار ہے، اسی پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے عَلم کی سربلندی منحصر ہے اور اسی پر غداریوں اور خیانت کے طویل سلسلے کے خاتمے کا انحصار ہے جس کا اس امت کو سامنا ہے۔ آج اس امت پر ’’بما انزل اللّٰہ‘‘( اللہ کے نازل کردہ احکامات) کے ذریعے حکومت نہیں کی جا رہی ہے، سرمایہ دارانہ نظام مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط ہے،اور امت کو ہولناک مصائب، آفات اورتکالیف کا سامنا ہے اور امت ایک مخمصے اور گومگو کی حالت میں ہے۔ چونکہ طلبِ نُصرۃکا عمل ان لوگوں سے متعلق ہے جو حکمرانی کو اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کی قوت و صلاحیت کے اسباب رکھتے ہیں، اور چونکہ یہ معاملہ اس قدر سنگین اہمیت اور عجلت کا ہے اس لیے جولوگ قوت رکھتے ہیں اور تبدیلی کے اسباب کے حامل ہیں، ان کی ذمہ داری انتہائی اہم ہو جاتی ہے کہ وہ اس تبدیلی کو لے کر آئیں۔ بیشک اگروہ اس ذمہ داری کو پورا کریں تواس کا اجر بھی بہت عظیم ہے ۔ وہ اجر کیا ہے، اسے جاننے کے لیے ہمیں انصارِ مدینہ کی فضلیت پر نظر ڈالنا ہو گی، جنہوں نے ماضی میں نُصرۃ فراہم کی تھی۔