بسم الله الرحمن الرحيم
باربی: سرمایہ دارانہ معاشرے میں ایک آلہ کار
باربی فلم ابھی باکس آفس پر ریلیز ہوئی ہے، اور اس کے حوالے سے کافی خبریں اور بحث ہے۔ لوگ کہانی، ملبوسات کے ڈیزائن کے انتخاب، ذیلی متن، سیاسی مضمرات، سماجی تبصرے، تاریخی مقاصد، اور باربی کے استعمال پر بحث کر رہے ہیں؛ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
لوگ جو چیز نہیں دیکھ رہےہیں وہ یہ ہے کہ باربی صرف ایک گڑیا نہیں ہے- ایک کھلونا جس کاایک مخصوص مطلب صرف اس لیے ہے کیونکہ ہم نے بطور معاشرہ یہ مطلب اسے دیا ہے۔
"باربی کی بنیاد 1959 میں روتھ ہینڈلر نے رکھی تھی۔ باربی بنانےکے لیے حوصلہ افزائی اسے اپنی بیٹی سے ملی جو اپنے خوابوں اور خواہشات کو کاغذ کی گڑیوں میں پیش کرتی تھی ۔ مارکیٹ میں ایک خلا کواس نے دیکھا ، کیونکہ اُس وقت لڑکیوں کے لیے صرف ایسی گڑیا بنائی جاتی تھی کہ جنہیں دیکھ کر وہ(لڑکیاں) یہ سمجھیں کہ ان کا کام دوسروں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ روتھ نے فیشن گڑیا کی قسم ایجاد کی جس کی تین جہتیں تھیں کہ جسے دیکھ کر لڑکیاں اپنے مستقبل کا تصور کرسکیں ۔ باربی کے پیچھے روتھ کا فلسفہ یہ تھا کہ گڑیا کے ذریعے ایک چھوٹی لڑکی وہ کچھ بھی بن سکتی ہے جو وہ بننا چاہتی ہے اور یہ کہ اس کے پاس انتخاب(چوائس) ہے۔" (ماخذ: باربی میڈیا)
باربی ڈول ایک بہت بڑی کامیابی تھی، اور ہر جگہ نوجوان لڑکیاں اس کی مختلف لوازمات سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ کمپنی مارکیٹنگ میں بہت اچھی تھی، اور اس بات کو یقینی بناتی تھی کہ نوجوان لڑکیوں کے پاس اپنے باربی کلیکشن میں شامل کرنے کے لیے ہمیشہ کچھ نیا ہو۔
یہ گڑیا کافی بحث کا موضوع رہی ہے - کچھ اس تصویر کے بارے میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے جو یہ نوجوان لڑکیوں کے سامنے پیش کرتی ہے کہ انہیں کیسا نظر آنا چاہیے، اور دیگر اُن مثبت اثرات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ اس کے ذریعے نوجوان لڑکیوں کو معاشرے میں اپنے کردار کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ لیکن نقطہ نظر کوئی بھی ہو، اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی ہے کہ اس گڑیا کے مقصد کا تعین معاشرے کے اندر موجود بنیادی نظریات پر منحصر ہے۔
فلم نے میڈیا پر باربی کے متعلق بحث کو شروع کردیا اور یہ بحث اس وقت میڈیا میں حاوی ہے۔ لیکن آج، باربی کے معنی دو چیزوں سے متاثر ہیں۔ تخلیق کار(بنانے والی )کا نقطہ نظر اور معاشرے کی تشریحات، جس نے گڑیا کی مارکیٹنگ کو متاثر کیا۔
باربی فلم کی کہانی اور پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے وقت، میڈیا کے اندر موجودتمام تناظر (رائے)میں گم ہو جانا آسان ہے۔ کئی طرح کےنظریات اور آراء ہیں، معاشرے میں ہر ایک گروہ فلم کے پہلوؤں کو اپنی دلیل کی حمایت میں یا معاشرے کے حوالے سے اپنے فہم کوبیان کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ لیکن فلم کا اصل پیغام کیا ہےاس کا فیصلہ ان لوگوں نے کیا جنہوں نے اسے تیار کیا ہے۔
ایک انٹرویو میں، باربی فلم کے پروڈیوسر اور اداکارہ نے کہا:
"ہمارے پاس پوچھنے کے لیے کچھ بڑے اونچے سوالات تھے، جیسے زندگی کا مطلب کیا ہے؟ حقیقی خوشی کیا ہے؟ زندگی جینے کے قابل کیوں ہے؟ اگر آپ کے پاس کامل کنٹرول شدہ باربی زمین ہو، تو آپ کو کسی اور چیز کا انتخاب کرنے پر کیا چیز مجبور کرے گی؟ ان سوالات کے نتیجے میں کچھ گہرے جوابات اور گفتگو ہوئی اور وہ جوابات بھی نہیں ہیں کیونکہ یہاں واقعی کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ وہی ہے جس پر ہم ہر بار پہنچتے ہیں جیسا کہ ، میں ایک صاف چھوٹے سے جملے میں زندگی کے معنی کا خلاصہ نہیں کر سکتا۔" (مارگوٹ روبی: اداکارہ اور پروڈیوسر، باربی مووی)
ہم جانتے ہیں کہ ان سوالوں کے جواب ہمیں اسلام میں دیے گئے ہیں۔ مغربی معاشرہ جب وہ زندگی کے بارے میں بنیادی سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر یقین نہ ہونے کی وجہ سےوہ باربی کی کہانی کو ان خطوط پر ڈھالنے پر مجبور ہوگیا۔ اور انہوں نے معاشرے میں موجود نظریات کو استعمال کرتے ہوئے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ، جن نظریات پر وہ یقین رکھتے ہیں۔
جیسا کہ تخلیق کاروں نے ایک خیال تیار کیا،ا ور پھر انہوں نے اس خیال کو کہانی میں ضم کیا۔ میں نے فلم نہیں دیکھی اس لیے میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ انھوں نے فلم کے اندر ان سوالوں کے جوابات پر کتنی توجہ مرکوز کی ہے۔ اگرچہ فلم کا تشہیری مواد بتاتا ہے کہ ان جوابات کا کہانی کے آگے بڑھنے اور سنائے گئے لطیفوں پر اثر پڑا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا نے، تمام اشتہارات اور سوشل میڈیا، فلم کے متعلق ان کی مختلف تشریحات کے ساتھ، فلم کے اس پہلو کو اجاگر نہیں کیا۔ توجہ موجودہ رجحان ساز موضوعات پر ہے جیسے مرد مخالف بیان بازی، تنوع(diversity)، خواتین کو بااختیار بنانا، اور یقیناً فیشن بھی۔
جب میڈیا ایسی گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو کیا ہم ان سے متاثر ہوتے ہیں؟
بلاشبہ متاثر ہوتے ہیں، خاص طور پر چھوٹے بچے جو ناقابل یقین حد تک متاثر کن ہوتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی معاشرہ محفوظ رہتاہے۔ اگر کسی چیز کو کافی دہرایا جائے تو وہ ایک قبول شدہ رائے بن جاتی ہے، تقریباً ایک حقیقت کی طرح۔ اور حقائق ہم سب پر اثر ڈالنے کا ایک طریقہ رکھتے ہیں۔
لیکن یہ تب تک نہیں بدلے گا، جب تک معاشرہ نہیں بدلتا۔ اور معاشرہ تب تک نہیں بدلے گا جب تک کہ اس کے اندر کے خیالات نہیں بدلیں گے - کیا یہ نظریات بنیادی سوالات کے جوابات ہیں کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کہاں جاؤں گا؟ یا سوالات اس قدر بنیادی ہیں جیسا کیسی سادھے سوال" تو میں آج کیا پہننا چاہتا ہوں؟" کا جواب ۔
"مسئلہ یہ ہے کہ باربی خوبصورتی کا ایک معیار قائم کرتی ہے جو نوجوان لڑکیوں پر دباؤ ڈال سکتی ہے – پھر وہ خود کو بھوکا رکھتی ہیں تا کہ وہ موٹی نہ ہوجائیں،اور وہ اپنی باربی گڑیا کی طرح خوبصورت اور کامل نظر آئیں۔" (ذریعہ)
ایسی چیزوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کھلونا نوجوان لڑکیوں پر اس طرح کا دباؤ نہیں ڈالتا، بلکہ یہ کام معاشرہ کرتا ہے۔ باربی فرنچائز گڑیا کو ایک خاص طریقے سے مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے لیکن ان خیالات کو میڈیا، فیشن انڈسٹری اور یہاں تک کہ تعلیمی نظام سے تقویت ملتی ہے اور ان کے ذریعے ان خیالات کی حمایت کی جاتی ہے۔
میں یہاں تک کہوں گی کہ وہ سب، میڈیا، فیشن انڈسٹری اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں - لڑکیوں کا استحصال کرنا، اور ان کے ذہنوں میں خیالات کو متاثر کرنا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کاسمیٹکس، کپڑے، سرجری اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے ذریعےان کے منافع کمانے کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن جب تک ہم معاشرے کو اور اس طریقہ کار کو تبدیل نہیں کرتے جس کے ذریعے ہم زندگی گزارتے ہیں ، ہم اس طاقت اور اثر کو محدود نہیں کر سکتے جو اس طرح کی صنعتوں کا ہم پر ہے۔
اسلام خوبصورتی کے بارے میں ان تمام مغربی اور مشرقی نقطہ نظر کو مسترد کرتا ہے جو خوبصورتی، فیشن اور دیگر صنعتوں کے ذریعے خواتین اور لڑکیوں کو ان کی مصنوعات خریدنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ کاسمیٹکس اور فیشن انڈسٹری کی مصنوعات بہت زیادہ فروخت ہوں اور وہ منافع کمائیں۔ اسلام عورت کو اس کے تقویٰ، اسلامی شخصیت، اخلاق اور معاشرے اور انسانیت کے لیے جو کردار وہ ادا کرتی ہے، اس کی قدر کرتا ہے۔اسلاممال کمانے کے لیےخواتین کی نمائش، ان کی جسم اور خوبصورتی کے استحصال کو سختی سے منع کرتا ہے۔ یہ سب کچھ معاشرے میں خواتین کے لیے احترام کی اعلیٰ حیثیت کو برقرار رکھنے اور انہیں نقصان سے بچانے میں مدد کرتا ہے۔تاہم خواتین اور معاشرے سے متعلق یہ اسلامی نظریات اور اصول ایک اسلامی نظام اور ریاست کی موجودگی کے بغیر صحیح یا جامع طریقے سے نافذ نہیں ہو سکتے۔ اور اسی لیے ہمیں اپنی مسلم سرزمینوں میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کے مطابق خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان اسلامی اصولوں کو ریاست کے اندر زندہ کیا جا سکے اور انسانیت کو یہ دکھایا جا سکے کہ عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
فاطمہ مصعب
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی رکن