بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان امریکہ کی ایک ماتحت ریاست ہے جس کی خارجہ پالیسی کا مقصد امریکی مقاصد کا حصول ہے
خبر:
17 اگست 2023 بروز جمعرات کو بطور عبوری وزیر خارجہ حلف اٹھانے والے جلیل عباس جیلانی نے بیاندیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ہدف "سب سے ساتھ دوستی اور کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں رکھنا" ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان چین ، امریکہ ، بھارت ، یورپی یونین ، خلیجی ممالک وغیرہ سب کے ساتھ دوستی چاہتا ہے اور کسی سیاسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔ ان کے مطابق یہ خارجہ پالیسی پاکستان کے قومی اجماع سے وجود میں آئی ہے۔
تبصرہ :
جلیل عباس جیلانی کا یہ بیان کئی وجوہات کی بنیاد پر شرعاً اور زمینی حقائق کی روسے غلط ہے۔ وہ وجوہات یہ ہیں :
1- ان کا یہ کہنا کہ ہم کسی سیاسی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے اور سب کے دوست ہیں محض ایک لطیفہ ہے کیونکہ پاکستان امریکہ کی ایک ماتحت ریاست (subordinate state) ہےجس کی خارجہ پالیسی کا مقصد امریکی اہداف کا حصول ہوتی ہے۔ افغانستان کے معاملے میں امریکی مؤقف کی کھلی حمایت اور بھارت کے مقابلے میں امریکی حکم پر خاموشی اس کا ثبوت ہیں۔
2- وزیر خارجہ صاحب نے ان تمام ملکوں کا ذکر کیا جو طاقتور ہیں جیسے امریکہ، یورپی یونین اور چین۔ انہوں نے امریکی اتحادیوں کا بھی ذکر کیا جیسے بھارت اور خلیجی ممالک۔ لیکن انہوں نے پڑوسی برادراسلامی ملک کے ساتھ غیر جانبدار رہنے کا ذکر کرنا گوارہ نہیں کیا کیونکہ امریکہ افغانستان کے مقابلے میں پاکستان کو جبکہ چین کے مقابلے میں بھارت کو مہرے کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ لہٰذا ڈیورنڈ لائن پر جہاں خاندانوں کو باڑ کے ذریعے علیحدہ کیا جا رہا ہے اور نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں وہیں بھارتی جارحیت کے مقابلے میں مستقل امن کا راگ الاپ کر کمزوری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے تاکہ بھارت سکون سے چین کی طرف متوجہ ہو سکے۔
3- انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد قومی اجماع (foreign policy evolved through national consensus) ہے ،لیکن یہ بات دو اعتبار سے غلط ہے۔ اولاً شرعی اعتبار سے اور ثانیاً زمینی حقائق کے اعتبار سے۔
زمینی حقائق صاف بتاتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران امریکی جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کے وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے چلے آئے ہیں اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں ہونے والے امریکی فضائی حملے پاکستان کے راستے سے ہوتے آئے ہیں جن میں قومی مفاد کا کوئی امکان نہیں تھا بلکہ اس کے نتیجے میں پورا ملک بدامنی کی نذر ہو گیا۔ رواں مہینے میں پاکستان نے ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے فورس میجورے نوٹس (force majeure notice) جاری کیا ہے ۔ واضح رہے کہ اس منصوبے کی پاکستانی عوام کو ضرورت ہے، اس معاہدے سے پیچھے ہٹنا ملک کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، اور یہ وعدہ خلافی ہے جو کہ اخلاقاً شدید قبیح عمل ہے مگر پاکستانی حکومت نے یہ قدم صرف ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے اٹھایا ہے، اور اس بات کا اعتراف حکومت نے خود کیا ہے۔ یہ حقائق "قومی مفاد سے وجود میں آنے والی خارجہ پالیسی" کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
شرعی اعتبار سے یہ دعویٰ اس لیے غلط ہے کیونکہ مسلمانوں کی خارجہ پالیسی کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہوتی ہے ناکہ کسی ایک خطے میں بسنے والے لوگوں کا اپنے وطنی مفادات کی بنیاد پر ہونے والا اجماع۔ اس بات کو تفصیل سے اگلے نکتے میں بیان کیا گیا ہے۔
4- خارجہ پالیسی "ایک قوم کے دوسرے اقوام کے ساتھ تعلقات" کا نام ہے۔ یہ تعلقات محض خیر سگالی کے جذبےپر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ خارجہ پالیسی کے کچھ اہداف ہوتے ہیں جنہیں حاصل کرنا پالیسی کا مقصد ہوتا ہے اور ان اہداف کے حاصل ہونے یا نا ہونے سے ہی خارجہ پالیسی کی کامیابی یا ناکامی کا تعین ہوتا ہے۔ اسلام کی خارجہ پالیسی کی بنیاد یہ آیت ہے :
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا
"اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول(ﷺ) تم پر گواہ بنے" (البقرہ: آیت 143)۔
شیخ عطا بن خلیل، امیر حزب التحریر، اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
"امت مسلمہ دوسری امتوں کے خلاف اس بات کی گواہ ہو گی کہ ان تک اسلام پہنچا تھا۔ آیت اگر چہ خبر کے صیغے کے ساتھ ہے مگر یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے امت مسلمہ سے اس بات کا مطالبہ کرنے کے معنی میں ہے کہ اسلام کو دوسری امتوں تک پہنچاؤ اور اگر ایسا نہیں کیا تو امت گنہگار ہو گی۔ یہ امت دوسری امتوں کے خلاف حجت ہے ﴿لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ "تاکہ تم لوگوں کے خلاف گواہ بنو،" بالکل ویسے ہی جیسے رسول اللہ ﷺ امت مسلمہ کو اسلام پہنچانے پر گواہ ہیں، ﴿وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾ "اور رسول تمہارے پر گواہ ہوں گے"۔
یعنی مسلمانوں کی خارجہ پالیسی اسلام کی دعوت کو دنیا میں پہنچانا ہے اور اس کا طریقہ "دعوت اور جہاد" ہے جو ہمیں رسول اللہﷺ اور صحابہ کے طرزِ عمل سے معلوم ہوتا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سلیمان بن بریدہ ؓکی روایتمیں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی بڑے لشکر یا چھوٹے دستے پر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اسے خاص اس کی اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی اور ان تمام مسلمانوں کے بارے میں، جو اس کے ساتھ ہیں، بھلائی کی تلقین کرتے، پھر فرماتے:
اغْزُوا بِاسْمِ اللهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ ۔۔۔۔۔۔ وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ - أَوْ خِلَالٍ - فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ ۔۔۔۔۔۔ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَسَلْهُمُ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَقَاتِلْهُمْ
"اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جو اللہ تعالیٰ سے کفر کرتے ہیں ان سے لڑو ۔ اور جب مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ٹکراؤ تو انہیں تین باتوں کی طرف بلاؤ: ان میں سے جسے وہ تسلیم کر لیں، (اسی کو) ان کی طرف سے قبول کر لو اور ان (پر حملے) سے رک جاؤ۔ انہیں اسلام کی دعوت دو، اگر وہ مان لیں تو اسے ان (کی طرف) سے قبول کر لو اور (جنگ سے) رک جاؤ ۔ اگر وہ انکار کریں تو ان سے جزیے کا مطالبہ کرو، اگر وہ تسلیم کر لیں تو ان کی طرف سے قبول کر لو اور رک جاؤ اور اگر وہ انکار کریں تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑو۔ "
اسلام کی خارجہ پالیسی کا ہدف یہ ہرگز نہیں ہے کہ سب کو خوش رکھا جائے اور کسی کو ناراض نا ہونے دیا جائے بلکہ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ہوتی ہےکیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےفرمایا ہے کہ :
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ
"وہ اﷲ ہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اُسے ہر دوسرے دین پر غالب کر دے، چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی ناپسند ہو۔"(التوبہ : آیت 33)
جواد صدیقی نے ولایہ پاکستان سے تحریر کیا