بسم الله الرحمن الرحيم
مغربی نظام سے آزادی کے لیے 'برکس'(BRICS) گروپ ایک مایوس کن کوشش ہے۔
صرف اسلام ہی دنیا کو مغربی تسلط سے آزاد کرا سکتا ہے
خبر:
رائٹرز نے رپورٹ کیا،"جوہانسبرگ، 24 اگست (رائٹرز) – جب ایک برطانوی ماہر اقتصادیات نے دو دہائیاں قبل برازیل، روس، بھارت اور چین کو ظاہر کرنے کے لیے 'برک'(BRIC) کا مخفف وضع کیا تھا تو اس کے ذہن میں ایسا اتحاد نہیں تھا جو عالمی امور میں مغربی تسلط کو چیلنج کرنے کی کوشش کرے گا.... …اس ہفتے جوہانسبرگ میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں ایک حیران کن فیصلے میں گروپ نے سعودی عرب، ایران، ایتھوپیا، مصر، ارجنٹائن اور متحدہ عرب امارات کو کلب میں مدعو کیا۔ اس اقدام کا مقصد نام نہاد گلوبل ساؤتھ (جنوبی)ممالک کے چیمپیئن کے طور پر برکس کا اثر بڑھانا ہے، جن میں سے بہت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر دولت مند مغربی ممالک کے زیر تسلط بین الاقوامی اداروں کی طرف سے غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے۔"
تبصرہ:
روئے زمین کے اکثر لوگ مغربی تسلط سے آزادی کی خواہش رکھتے ہیں۔ مغربی تسلط تیسری دنیا کے ممالک پر اپنی حاکمیت اور طاقت مسلط کرنے کے لیے استعماریت کو اپناتا ہے۔ یہ ترقی پذیر ممالک قدرتی وسائل کے لحاظ سے سب سے زیادہ دولت مند ہیں، لیکن اس کے باوجود مغرب کی کٹھ پتلی قیادتوں کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ کمزور ہیں۔
ان ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ طاقتور ممالک، جو برکس ممالک کا حصہ ہیں، مغربی بین الاقوامی نظام سے آزادی، یا پھر اس میں شرکت کے خواہشمند ہیں۔ وہ دنیا کے طاقتور ترین استعماری ممالک کے کلب میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ کوشش اس لیے ہے تاکہ استعماری بڑی طاقتوں کے ہاتھوں ہڑپ ہونے سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ وہ اُس میں سے کچھ اپنا حصہ بھی چاہتے ہیں جس پر بڑی طاقتیں قابض ہیں۔
جہاں تک ان ممالک کا تعلق ہے جو' برکس' کا بنیادی حصہ ہیں، یعنی برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ، تو وہ خود کو اتنا طاقتور نہیں سمجھتے جتنا کہ وہ ہیں۔ ان کی معیشتیں عالمی معیشت کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ ان کی آبادی دنیا کی آبادی کا چالیس فیصد بنتی ہے۔ ان کی زمینیں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ تاہم، ان کے پاس سیاسی سوچ کی کمی ہے جس کے مطابق وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ متحرک کر سکیں، اور خود کو مغربی تسلط سے آزاد کرا سکیں۔
جو 'چیز' ان ممالک کو متحد کرتی ہے وہ ایک عربی افسانہ کے کہانی کے مطابق ہےجس میں جنگل کے تین بیل، شیر کے خلاف اکٹھا ہوئے تھے ۔ یہ 'چیز'جبلتِ بقا اور مادی مفاد ہے۔ وہ ایک مضبوط نظریاتی سوچ کی بنیاد پر متحد نہیں ہوئے تھے، جسے وہ مشترکہ طور پر اپناتے۔ لہٰذا ،ان کا اتحاد ٹوٹ سکتا ہے، اگر فریقین ایک بڑے مادی مفاد پر جھگڑتے ہیں۔ فی الحال ان برکس ممالک کے درمیان دراصل یہی ہو رہا ہے کہ وہ شیر سے بچنے کے لیے جبلتِ بقا اور مادی مفاد کے تحت جمع ہورہے ہیں لیکن اگر کسی کو بھی اس اتحاد سے باہر زیادہ فائدہ نظر آیا تو اس اتحاد سے نکلنے میں دیر بھی نہیں لگائے گا۔
ایک طرف چین اور روس ، خود کو امریکہ کا نشانہ بننے بچانے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ امریکہ انہیں اس جال میں پھنسانے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ امریکہ اور مغرب کے ساتھ جڑ جائیں یا اُن سے تعاون کرنے والے بن جائیں۔ تاہم، دوسری طرف، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ دراصل ایسے ممالک ہیں جو امریکہ کے قریبی مدار میں گھومتے ہیں، اس حد تک کہ اُس کی ایجنسی لگتے ہیں ، اور اس طرح یہ اس اتحاد میں امریکہ کی ناک ہیں۔
لہٰذا، یہ تصور نہیں کیا جاستا کہ یہ "اتحاد" خود کو امریکی تسلط سے آزاد کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اگر یہ ممالک اس مقصد کے لیے اکٹھے ہوتے بھی ہیں، تو یہ یقینی طور پر بعد کے تین بنیادی رکن ممالک کے ذریعے اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ مقصد 'برکس 'کی مجوزہ توسیع میں شمولیت کے لیے نامزد کردہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے ذریعے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر امریکہ کی ایجنٹ ریاستیں بھی ہیں۔ اس اتحاد کا مقدر سراسر ناکامی ہے۔ گروپ میں ان نئے ممالک کی شمولیت اس کے مطلوبہ ہدف کو ناکام بناتا ہے۔ بلکہ ان ممالک کی شمولیت کے بعد مغربی دنیا بالخصوص امریکہ کے فیصلہ سازوں کے لیے 'برکس'تنظیم پر قابو پانا اور اس کا استحصال کرنا مزید آسان ہوگیا ہے۔
پریٹوریا میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار سیکیورٹی اسٹڈیز (آئی ایس ایس) تھنک ٹینک کے بانی، جیکی سیلیئرز نے کہا کہ برکس اتفاق رائے کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور یہ بنیاد فیصلہ سازی میں "ایک بڑی رکاوٹ" کا باعث ہے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "طویل مدت میں، میرا خیال ہے کہ چین بھارت دشمنی کی ناگزیریت شاید ایک بڑا چیلنج ہے جس کا برکس کو بالآخر سامنا کرنا پڑے گا۔"
اس کے علاوہ گروپ میں دوسرے بنیادی فریق روس کی نمایاں کمزوری ہے۔ روس کو مغرب سے جنگ کا خدشہ ہے۔ دنیا کی سب سے طاقتور استعماری ریاستوں کے کلب میں اگر اس کو اپنے وجود کے خاتمے کا خطرہ نہیں،لیکن اپنی بقاء کا خطرہ ضرورلاحق ہے، ۔ پوٹن کی جگہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی حاضری پوٹن کی گرفتاری یا اغوا کے خوف کے سوا کچھ نہیں۔ پوٹن یوکرین میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے شبے میں بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ کا نشانہ ہے۔ اس لیے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کو اُس کے نمائندے کے طور پر روانہ کیا گیا۔
موجودہ استعماری، بین الاقوامی نظام سے نجات کمزور اور غلام ریاستوں کے ذریعے ممکن نہیں ۔ ریاستیں تب ہی بچ سکتی ہیں جب وہ ایک درست نظریاتی فکر پر متحد ہو جائیں، جو ذہن کو قائل کرے اور انسان کی فطرت سے متفق ہو۔ وہ فکر اپنے لوگوں اور زمین کے دوسرے لوگوں کے درمیان لازمی انصاف قائم کرے۔ یہ درست فکر ہی تنہا سیکولر عقیدہ اور سرمایہ دارانہ نظریے کا تہذیبی متبادل ہو سکتا ہے۔
سیکولر عقیدہ کرپٹ ہے اور کرپٹ کررہا ہے۔ یہ ذہن کو قائل نہیں کرتا اور فطرت سے متفق نہیں ہے۔ اس نے ایک عالمی تہذیبی اور روحانی بے چینی اور خلا پیدا کر دیا ہے۔ اس نے انسانی معاشروں میں مختلف نفسیاتی امراض کو جنم دیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظریہ مادی لالچ کو ہوا دیتا ہے۔ اس نے دنیا کی بے پناہ دولت کو مٹھی بھر کرپٹ لوگوں کے ہاتھ میں مرکوز کر دیاہے، جبکہ زیادہ تر انسانیت غربت اور بدحالی کا شکار ہو گی۔
لہٰذا اسلام کے عظیم دین کو اپنا کر ہی سیکولر سرمایہ داروں کے تسلط سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ صحیح عقیدہ اور صحیح نظریہ ہی سچائی کو قائم کرتا ہے، باطل کو مٹاتا ہے، اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًاؕ﴾
"وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔"(الفتح، 48:28)
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس ریڈیو کے لیے تحریر کردہ،
بلال المہاجر، ولایہ پاکستان