بسم الله الرحمن الرحيم
اسلام قومی ریاست کے تصور کو مسترد کرتا ہے۔
اسلام مسلم امت کو ایک واحد، طاقتور ریاستِ خلافت کے طور پر متحد کرتا ہے
تعارف: ایک خلافت کی شکل میں وحدت کئی قومی ریاستوں میں بٹے ہونے سے مختلف ہے
معیشت اور سلامتی کے حوالے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار مسلم دنیا ،اس تلاش میں ہے کہ کیسے اس صورتِ حال سے نکلا جائے ۔ اس وقت مسلمان 57 قومی ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ کمزور ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں میں وحدت پیدا کرکے امت کو مضبوط کرنے کے متعلق بحث بڑھ گئی ہے۔ ایک متحد امت کی واحد ریاست، جو دنیا کی کسی بھی دوسری ریاست سے بڑی ہوگی، جس کا ایک خزانہ اور واحد فوج ہواور اس کے صوبوں کے درمیان کوئی سرحد نہ ہو۔ خلافت کے پاس ایک بہت بڑی نوجوان آبادی، طاقتور افواج، وسیع زرعی پیداوار، وافر اور متنوع معدنی اور توانائی کے وسائل اور دنیا کے تمام بڑے تجارتی اور سمندری راستوں پر کنٹرول ہوگا۔
اسلام وہ بندھن ہے جو ایک خاص قسم کی وحدت پیدا کر سکتا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو واحد قوم گردانتاہے، جو باقی تمام لوگوں سے یکسر مختلف ہے۔ اسلام مسلمانوں کے درمیان نسل، رنگ، قبیلے یا قومیت کی بنیاد پر کسی بھی تقسیم کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام پوری امت اسلامیہ پر ایک واحد حکمرانی قائم کرتا ہے، جو کہ تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہوتا ہے۔ اسلام یہ فرض قرار دیتا ہے کہ تمام امتِ اسلامیہ کی ایک ہی ریاست ہو یعنی خلافت ۔ اسلام مسلمانوں کی ریاست و حکومت کو تقسیم کرنے سے منع کرتا ہے ، اورنسل، قبیلے اور قومیت سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ یوں اسلام کا ریاست کا تصور قومی ریاست کے تصور سے بہت دور ہے۔
نیشن سٹیٹ (قومي ریاست)اور نیشنلزم کی جڑیں اسلام میں نہیں ہیں
قومی ریاست کے تصور نے عیسائی یورپ کی تاریخ اور عقائد سے جنم لیا۔ یہ اسلام کے لیے بالکل اجنبی ہے۔ یورپ میں عیسائی مذہبی ریاستوں کے درمیان تیس سالہ جنگ لڑی گئی۔ یہ 1648 تک جاری رہی، کہ جس سال اُن معاہدوں پر دستخطوں کا آغاز ہوا کہ جنہوں نے ویسٹ فیلیا کے امن (Peace of Westphalia)کو تشکیل دیا ، اور یوں یورپی ریاستوں کے درمیان مذہبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ یہ جدید قومی ریاستوں کے ظہور کا نقطہ آغازتھا، اور یہ مذہبی ریاستوں کے درمیان تنازعات کو ختم کرنے کی کوشش تھی۔
سرمایہ دارانہ مغرب میں قوم قومی ریاست کے تصور پر مبنی ہے۔ زمین اور اس پر قائم حکومت قومی ریاست کا حصہ ہے اور انہیں قومی ریاست کی بنیاد پر ہی طے کیا جا تا ہے ۔ یہ لوگ ہیں جو اُن سرحدوں کی بنیاد پر قومی ریاست کو طے کرتے ہیں جن سرحدوں کو انہوں نے تسلیم کیا ہے۔ لوگوں کی تعریف واحد یا متعدد عوامل کی بنا پر کی جاتی ہے، جیسے کہ جغرافیہ، تاریخ، نسل اور لسانی ورثہ۔
قومی ریاست کا تصور اپنی بنیاد سے ہی ایک کرپٹ تصور ہے۔ یہ لوگوں کی تشکیل کے متعلق غلط سمجھ پر مبنی ہے۔ درحقیقت، کوئی قوم زندگی میں واحد قوم کے طور پر اسی وقت کام کرتی ہے جب اس کے پاس زندگی کے معاملات کے بارے میں مشترکہ تصورات،اعتقادات اور پیمانے ہوں۔ جہاں تک تاریخ، جغرافیہ، نسل اور لسانی ورثہ کا تعلق ہے، تو یہ صرف مشترکہ خصلتوں کی تشکیل میں حصہ ڈالتے ہیں۔ تاہم یہ لوگوں کو زندگی کے متعلق ایک نقطہ نظر پر متحد نہیں کر سکتے۔ پس قوم کی تعریف کا واحد صحیح طریقہ اس قوم کا کسی مشترکہ نظریے پر مبنی ہونا ہے۔ مزید یہ کہ قومی ریاست نے تنازعات کو ختم نہیں کیا بلکہ اس نے تنازعات کی ایک نئی شکل پیدا کی، جو کہ قومی ریاستوں کے درمیان پایا جانے والا تصادم ہے۔ قومی ریاست نے پوری دنیا کو تناؤ، رقابتوں، تنازعات، جنگوں اور عالمی جنگوں کے گھاؤ لگائے ہیں۔
نیشنلزم اور قومی ریاست سے حاصل ہونے والا نقصان
مغربی دعوے کے برعکس، قومی ریاست نے تنازعات اور جنگوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ قومی ریاست دونوں عالمی جنگوں کا سبب بنی اور دنیا کے لیے انتہائی تباہ کن رہی ہے۔ قومی ریاست کا تصور ایک نسل کی دوسری تمام نسلوں پر برتری کے خیال کو ابھارتا ہے۔ یہ تمام نسلوں پر ایک نسل کا غلبہ قائم کرتا ہے۔ جرمنی، فرانس، روس، برطانیہ اور بیشتر مغربی استعمار تاریخی طور پر یہی کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ قومی ریاست کا تنازع روس اور یوکرین کے درمیان تباہ کن جنگ کے ساتھ ساتھ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کی بھی بنیاد ہے۔
قومی ریاست نے سامراجی استعماری توسیع کی ضرورت میں بھی اضافہ کیا۔ یورپ میں ابھرتی ہوئی قومی ریاستوں نے دیکھا کہ وہ اپنے علاقے کی توسیع نہیں کر سکتیں ۔ چنانچہ انہوں نے استعماری توسیع کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے مسلم دنیا سمیت دنیا کے بیشتر حصے کو تباہی سے دوچار کیا۔ نوآبادیاتی (استعماری)نظام اب بھی نئے نوآبادیاتی نظام (neo-colonialism)کے طور پر موجود ہے، جو براہِ راست فوجی قبضے سے زیادہ اقتصادی اور سیاسی کنٹرول پر انحصار کرتا ہے۔ درحقیقت، نیا نوآبادیاتی نظام اب مغربی تاریخ کے کسی بھی سابقہ دور کے مقابلے میں زیادہ شدید اور اس کی جڑیں زیادہ گہری ہو چکی ہیں۔
استعمار کے علاوہ قومی ریاست نے تقسیم در تقسیم کے ذریعے امت اسلامیہ کو نقصان پہنچایا ہے، اگرچہ مسلمان یہ سمجھے کہ قومی ریاست انہیں استعمار سے آزادی دلائےگی۔ مگرعرب اور ترک قوم پرستی کی وجہ سے امت تباہ ہوئی۔ عربوں نے بغاوت کی اور ترک امت کی ذمہ داری سے دستبردار ہوگئے۔ تب اللہ نے کفار کو ہمارے معاملات پر مسلط کر دیا۔ بلقان قومیت کی بنیاد پر خلافت عثمانیہ سے الگ ہوا۔ پھر قوم پرستی کی موجودہ تاریخ ہے کہ جہاں پاکستان نے قومی مفاد کی بنیاد پر افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ سعودی عرب، شام، ترکی، کویت، متحدہ عرب امارات نے قومی مفاد کی بنیاد پر عراق پر امریکی حملے کی حمایت کی۔ موجودہ حکمران قومیت کی بنیاد پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے سے انکاری ہیں۔
قومی ریاست کے تصور کی وجہ سے انسانیت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اب یہ انسانیت پر ہے کہ وہ عوام الناس ، بھائی چارے، وحدت اور ریاست کے اس منفرد تصور پر غور کرے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کواسلام کو ایک نئے عالمی نظام کے طور پر پیش کرنے کی تحریک کی قیادت کرنی چاہیے۔
مسلمان امتِ واحدہ ہیں جنہیں ایمان متحد کرتا ہے
مسلمان وہ قوم نہیں ہیں جو زمین،قبیلے،نسل،قومیتیازبانکی بنیادپرجمعہوئے ہوں۔ اسلام، قوم،قومیتnationhood، قوم پرستی، اور قومی ریاست کے مغربی تصورات سے بہت دور ہے۔ مسلمان ایک امت ہیں جو اسلام کے پابند ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
﴿ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ﴾
“اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت کرو"(سورة آل عمران، آیت 103)۔
ابن کثیرنے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ أمرهم بالجماعة ونهاهم عن التفرقة “اللہﷻ نے مسلمانوں کو ایک معاشرے کے طورپر منظم ہونے کا حکم دیا ہے اور ان کو آپس میں تفرقہ سے منع کیا ہے"۔ یہ آیت مسلمانوں کے لیے ایک اِکائی یعنی ایک وجود کی شکل میں متحد رہنے کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾
"بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں" (سورة الحجرات: آیت 10)
۔ امام قرطبی نے اس کی تفسير میں کہا ہے کہ أي في الدين والحرمة لا في النَّسَبِ ، وَلِهَذَا قِيلَ أُخُوَّةُ الدِّينِ أَثْبَتُ مِنْ أُخُوَّةِ النَّسَبِ ، فإن أُخُوَّة النَّسَبِ تنْقَطِع بِمُخَالَفَةِ الدِّينِ ، وَأُخُوَّة الدِّينِ لَا تنْقَطِع بِمُخَالَفَةِ النَّسَبِ“یعنی دین اور حرمت میں (بھائی بھائی ہیں)، نسب میں نہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دینی بھائی چارہ نسبی بھائی چارے سے زیادہ پائیدار ہے، کیونکہ نسبی بھائی چارہ دین کے مختلف ہو جانے سے منقطع ہو جاتا ہے جبکہ دینی بھائی چارہ نسب کے مختلف ہونے سے منقطع نہیں ہوتا"۔
رسول الله ﷺ نے فرمایا،
« هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِىِّ ﷺ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُؤْمِنِينَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَثْرِبَ وَمَنْ تَبِعَهُمْ فَلَحِقَ بِهِمْ وَجَاهَدَ مَعَهُمْ أَنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ دُونَ النَّاسِ»
"یہ محمد ﷺ کی طرف سے معاہدہ ہے، قریش اور یثرب (مدینہ) کے مسلمانوں اور مومنوں کے درمیان، اور جس نے بھی انکی پیروی کی اور ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا، کہ وہ تمام لوگوں سے الگ، ایک امت ہیں"
اسے بیھقی نے اپنی "سُنن الکبریٰ" میں روایت کیا ہے۔ امتِ مسلمہ ایک امت ہے اور اس میں اسلامی وحدت کا حصول ضروری ہے۔ جہاں تک سیاسی وحدت کا تعلق ہے تو اسکی عملی تعبیر خلافت کا قیام ہے۔
مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست ایک قومی ریاست نہیں تھی۔ قبیلوں اور نسلوں میں تنوّع کے باوجود یہ ایک واحد قوم پر حکمرانی تھی ؛ مومنین اپنے ایمان کی بنا پر متحد تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے کس طرح تینوں براعظموں کے لوگوں کو ایمان کے ذریعے متحد کیا۔ اس نے انہیں ایک امت میں ڈھال دیا، اورمسلمانوں کی وفاداری اسلام کے ساتھ تھی۔
مسلمانوں کو نسل اور قومیت کے اعتبار سے تقسیم نہیں ہونا چاہیے
اسلام نسل، قبیلے، قومیت اور زبان کی بنیاد پر ہر قسم کی تقسیم اور امتیاز کو مسترد کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے خطبہ الوداع میں ارشاد فرمایا،
«يَا أَيُّها النَّاسُ أَلا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَباكُمْ وَاحِدٌ، أَلا لا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ على عَجَمِيٍّ، وَلا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، ولا أَسْوَدَ على أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى. »
“اے بنی نوع انسان! خبردار ہو جاؤ کہ بیشک تمہارا رب ایک ہے، اور بیشک تم ایک باپ (آدم علیہ سلام) کی اولاد ہو، خبردار كسی عربی كو کسی عجمی پر كوئی فضیلت نہیں، نہ كسی عجمی كو كسی عربی پر، نہ كسی سرخ كو سیاہ پر، اور نہ كسی سیاہ كو سرخ پرکوئی فضیلت ہے، سوائے تقویٰ كی بنیاد پہ” اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو قبیلوں اور نسلوں کی شکل میں پیدا کیا تاکہ ہم ایک دوسرے کو پہچان سکیں ،نہ کہ ہم ایک دوسرے کے درمیان تفریق اور احسان کریں۔ ترجیح صرف تقویٰ کے مطابق ہے جو اللہ ہی کے علم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقۡنَـٰكُم مِّن ذَكَرࣲ وَأُنثَىٰ وَجَعَلۡنَـٰكُمۡ شُعُوبࣰا وَقَبَاۤىِٕلَ لِتَعَارَفُوۤا۟ۚ إِنَّ أَكۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَىٰكُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرࣱ﴾
“اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ،بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔"(الحجرات:13)۔
اسلامی اخوت کے تعلق کے علاوہ کسی بھی اور تعلق کی طرف لوگوں کو بلانا گناہِ کبیرہ ہے:
اسلام قبائلیت یا قوم پرستی کی کسی بھی دعوت کو مسترد کرتا ہے۔ یہ ایک خطرناک دعوت ہے جو مسلمانوں کو تقسیم اور کمزور کرتی ہے۔ یہ اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت یعنی حالتِ کفر ،میں موت کے ساتھ منسلک ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،
«مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً أَوْ يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ»
"جو اندھے جھنڈے تلے، عصبیت کی طرف بلاتے ہوئے یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے (حق و ناحق کی تمیز کے بغیر لڑتے ہوئے) مارا گیا، تو وہ جاہلیت کی موت مرا "
اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ امام نووی اپنی شرح میں کہتے ہیں وَإِنَّمَا يَغْضَبُ لِعَصَبِيَّةٍ لَا لِنُصْرَةِ الدِّينِ، وَالْعَصَبِيَّةُ إِعَانَةُ قَوْمِهِ عَلَى الظُّلْمِ "درحقیقت وہ شخص عصبیت کے لیے غصہ ہوتا ہے نہ کہ دین کی حمایت کے لیے اور عصبیت کا مطلب ہے کہ ظلم پر ہونے کے باوجود اپنی قوم کا ساتھ دیا جائے"۔ لہذا ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ قبائلیت یا قوم پرستی کی کسی بھی دعوت کو مسترد کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں کیونکہ یہی ہماری طاقت کی کُنجی ہے۔
نبی کریم ﷺنے قبائلی حسب ونسب کی بنیاد پر ترجیح دینے کی سرزنش کی۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں دو نوجوان لڑ پڑے، ایک نوجوان مہاجرین میں سے تھا اور ایک انصار میں سے تھا، تو مہاجر (نوجوان) یا مہاجرین نے پکارا “اے مہاجرو!” اور انصاری نے پکارا “اے انصاریو!”۔ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا، مَا هَذَا دَعْوَى أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ “یہ دورِ جاہلیت کے لوگوں کی طرز کی پکار کیا ہے؟ ” (مسلم)۔
امام نووی نے اپنی (صحیح مسلم کی ) شرح میں بیان کیا ہے،
وَأَمَّا تَسْمِيَته ﷺ ذَلِكَ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّة فَهُوَ كَرَاهَة مِنْهُ لِذَلِكَ، فَإِنَّهُ مِمَّا كَانَتْ عَلَيْهِ الْجَاهِلِيَّة مِنْ التَّعَاضُد بِالْقَبَائِلِ فِي أُمُور الدُّنْيَا وَمُتَعَلِّقَاتهَا ، وَكَانَتْ الْجَاهِلِيَّة تَأْخُذ حُقُوقهَا بِالْعَصَبَاتِ وَالْقَبَائِل ، فَجَاءَ الْإِسْلَام بِإِبْطَالِ ذَلِكَ، وَفَصَلَ الْقَضَايَا بِالْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّة
" جہاں تک رسول ﷺ کا اسے جاہلیت کی پکار سے منسوب کرنا ہے، تو یہ اس (جاہلیت کی پکار) سے کراہت کی وجہ سے ہے، کیونکہ دنیا اور اس سے متعلق معاملات میں قبائلی بنیادوں پر ایک دوسرے کا ساتھ دینا دورِ جاہلیت کے اعمال میں سے تھا اور جاہلیت میں عصبیت اور قبیلے کی بنیاد پہ حقوق کا تعین ہوتا تھا، پھر اسلام نے آ کر اسے باطل کر دیا اور (حقوق سے متعلق) تنازعات کو طے کرنے کی بنیاد حکم شرعی پہ رکھی"۔
جزیرہ نما عرب کے باہم دست و گریباں قبائل کو جس چیز نے پگھلا کر ایک کر دیا وہ نسب نہیں تھا بلکہ جس چیز نے انہیں پگھلایا وہ عظیم اسلام تھا۔ نبی ﷺ نے فرقہ بندی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«مَنْ تَعَزَّى عَلَيْكُمْ بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعِضُّوهُ بِهَنِّ أَبِيهِ وَلَا تُكَنُّوا»
“جو تم پر اپنی جاہلیت والی نسبت جتلائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے باپ کی شرم گاہ کو کاٹ کھائے اور اسے بیان کرنے میں اشارے کنائے کی ضرورت نہیں (بلکہ واضح طور پر بیان کرو)” اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
ملا علی قاری نے اس کی تشریح میں کہا ہے کہ “جو بھی نسبت جتلاتا ہے یعنی جاہلیت والی نسبت جتلاتا ہے۔ لفظ ‘عَزاء’میں عین پہ زبر ہے، یعنی وہ خاندانی نسب جتلاتا ہے اور اپنے باپ دادا پر فخر کرتا ہے"۔
اسلامی تہذیب نسل، قبیلہ اور قوم کی بنیاد پر انتشار کو حرام قرار دیتی ہے
ابن مسعودؓ نے فرمایا،
“مَنْ نَصَرَ قَوْمَهُ عَلَى غَيْرِ الْحَقِّ فَهُوَ كَالْبَعِيرِ الَّذِى رُدِّيَ فَهُوَ يُنْزَعُ بِذَنَبِهِ”
“جو شخص حق کے بغیر اپنی قوم کی مدد کرے تو وہ اس اونٹ کی مانند ہے جو کنوئیں میں گر گیا ہو پھر اسے دُم سے پکڑ کہ نکالا جا رہا ہو۔” (سنن ابی داؤد)۔
امام خطابی نے اپنی تصنیف “معالم السُنن” میں کہا ہے کہ،
مَعْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي الْإِثْم وَهَلَكَ كَالْبَعِيرِ إِذَا تَرَدَّى فِي بِئْر فَصَارَ يُنْزَع بِذَنَبِهِ وَلَا يَقْدِر عَلَى الْخَلَاص
“اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ میں پڑ گیا اور اس اونٹ کی طرح ہلاک ہو گیا جو کنوئیں میں گر گیا ہو پھر اسے دُم سے پکڑ کہ نکالا جا رہا ہو اور وہ اپنے آپ کو بچانے کی قدرت نہ رکھتا ہو"۔
امام شافعی نے فرمایا،
مَنْ أَظْهَرَ الْعَصَبِيَّةَ بِالْكَلَامِ ، وَتَأَلَّفَ عَلَيْهَا ، وَدَعَا إِلَيْهَا ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ يُشْهِرُ نَفْسَهُ بِقِتَالٍ فِيهَا فَهُوَ مَرْدُودُ الشَّهَادَةِ ، لِأَنَّهُ أَتَى مُحَرَّمًا ، لَا اخْتِلَافَ فِيهِ بَيْنَ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ فِيمَا عَلِمْتُهُ ، وَاحْتَجَّ بِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ { إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ } وَبُقُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا
“جو شخص زبان سے عصبیت کا اظہار کرے، اس کے لیے (لوگوں کو) جمع کرے اور اس کی طرف بلائے، پھر چاہے وہ اس کے لیے لڑتے ہوئے اپنی خود نمائی نہ بھی کرے، تب بھی اس کی شہادت رَد ہو گی کیونکہ اس نے حرام کام سرانجام دیا ہے۔ میرے علم کے مطابق مسلمانوں کے علماء کے درمیان اس بات پہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسكی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے، "بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں" (سورة الحجرات: آیت 10) اور ساتھ ہی رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد کہ “اور اللہ کے بندو بھائی بھائی بن کر رہو”۔ [اسے بیھقی نے سُنن الصغیر میں روایت کیا ہے]
بدر الدین عینی الحنفی (سنِ وفات 855 ہجری) نے، “عمدة القاري شرح صحیح البخاری” میں کہا ہے کہ،
قَوْله، (مَا بَال دَعْوَى الْجَاهِلِيَّة؟) يَعْنِي، لَا تداعوا بالقبائل بل تداعوا بدعوة وَاحِدَة بِالْإِسْلَامِ، ثمَّ قَالَ، مَا شَأْنهمْ؟ أَي، مَا جرى لَهُم وَمَا الْمُوجب فِي ذَلِك؟ قَوْله، (دَعُوهَا) ، أَي، دعوا هَذِه الْمقَالة، أَي، اتركوها أَو، دعوا هَذِه الدَّعْوَى، ثمَّ بيَّن حِكْمَة التّرْك بقوله، (فَإِنَّهَا خبيثة) أَي، فَإِن هَذِه الدعْوَة خبيثة أَي قبيحة مُنكرَة كريهة مؤذية لِأَنَّهَا تثير الْغَضَب على غير الْحق، والتقاتل على الْبَاطِل، وَتُؤَدِّي إِلَى النَّار. كَمَا جَاءَ فِي الحَدِيث، (من دَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّة فَلَيْسَ منا وليتبوأ مَقْعَده من النَّار)
"نبی کریم ﷺ کے اس قول "جاہلیت کی طرز کی یہ پکار! کیوں؟” کا مطلب ہے کہ قبیلے کی بنیاد پہ ایک دوسرے کو نہ پکارو بلکہ اسلام کی وحدت کی طرف ایک دوسرے کو بلاؤ۔ پھر آپﷺ نے فرمایا ،“ان کا کیا معاملہ ہے؟” یعنی ان کے ساتھ کیا ہوا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟ آپﷺ کے قول، "اس کو چھوڑ دو" کا مطلب ہے کہ اس بات کو چھوڑ دو، اسے ترک کر دو، یا اس پکار کو چھوڑ دو۔ اس کے بعد آپﷺ نے اسے چھوڑنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہا کہ"کیونکہ یہ پلید ہے"، یعنی یہ پکار ناپاک ہے، یعنی بدنما، قابلِ مذمت، نفرت انگیز اور نقصان دہ چیز ہے، کیونکہ یہ ناحق کے لیے غصہ کرنے، باطل کے لیے لڑائی جھگڑا کرنے اور آگ کی طرف لے جانے کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ "جو شخص جاہلیت کے نعرے کے ساتھ پکارے تو وہ ہم میں سے نہیں اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"۔
مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک خلیفہ کی اتھارٹی تلے ہوں
امت اسلامیہ محض واحد قوم نہیں ہے کہ جو دوسرے لوگوں سے الگ ہے بلکہ اس پر ایک خلیفہ حکمران ہوتا ہے اور مسلمانوں کی ریاست بھی ایک ہی ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، « وَإِنَّهُ لاَ نَبِيٌ بَعْدِي وَسَتَكُونُ خُلَفَاءُ فَتَكْثُرُ»“میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ انہوں (صحابہؓ) نے کہا، آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا، «فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ» سب سے پہلے کی بیعت کو پورا کرو” (صحیح مسلم) ۔
امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں بیان کیا،
وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَةٍ بَعْدَ خَلِيفَةٍ فَبَيْعَةُ الْأَوَّلِ صَحِيحَةٌ يَجِبُ الْوَفَاءُ بِهَا وَبَيْعَةُ الثَّانِي بَاطِلَةٌ يَحْرُمُ الْوَفَاءُ بِهَا وَيَحْرُمُ عَلَيْهِ طَلَبُهَا وَسَوَاءٌ عَقَدُوا لِلثَّانِي عَالِمِينَ بِعَقْدِ الأول جَاهِلِينَ وَسَوَاءٌ كَانَا فِي بَلَدَيْنِ أَوْ بَلَدٍ أَوْ أَحَدُهُمَا فِي بَلَدِ الْإِمَامِ الْمُنْفَصِلِ
“اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک خلیفہ کی بیعت ہو جانے کے بعد دوسرے خلیفہ کی بیعت کی جائے تو پہلے والے کی بیعت صحیح ہے اور اسے پورا کرنا ضروری ہے، جبکہ دوسرے کی بیعت باطل ہے، اس کا پورا کرنا بھی حرام ہے اور بعد والے کی طرف سے اس کی پابندی کا مطالبہ کرنا بھی حرام ہے۔ اس معاملے میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسری بیعت کرنے والوں کے پاس پہلی بیعت کا علم تھا یا نہ نہیں یا وہ دو (جن کی بیعت کر لی گئی) الگ ملکوں میں ہوں یا ایک ہی ملک میں ہوں یا پھر بیشک ان میں سے ایک کسی ایسی جگہ پر ہو جو (پہلی بیعت کی جگہ سے) دوری پر واقع ہو"۔
ابنِ اسحاق سے مروی ہے کہ ابوبکر ؓنے اپنے خطبے میں فرمایا،
وَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ أَنْ يَكُونَ لِلْمُسْلِمِينَ أَمِيرَانِ , فَإِنَّهُ مَهْمَا يَكُنْ ذَلِكَ يَخْتَلِفْ أَمَرُهُمْ وَأَحْكَامُهُمْ، وَتَتَفَرَّقُ جَمَاعَتُهُمْ، وَيَتَنَازَعُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ، هُنَالِكَ تُتْرَكُ السُّنَّةُ، وَتَظْهَرُ الْبِدْعَةُ، وَتَعْظُمُ الْفِتْنَةُ، وَلَيْسَ لِأَحَدٍ عَلَى ذَلِكَ صَلَاحٌ
"مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ (ایک وقت میں) انکے دو حکمران ہوں، کیونکہ جب بھی ایسا ہو گا تو ان کے معاملات اور فیصلوں میں اختلاف واقع ہو جائے گا، اور ان کی اجتماعیت بکھر جائے گی، اور ان کے درمیان تنازعات پیدا ہو جائیں گے؛ تب سنت متروک ہو جائے گی، بدعت ظاہر ہو جائے گی اور فتنہ بڑھ جائے گا۔ اور کسی کے معاملے میں بھی درستگی نہیں رہے گی"۔
خلیفہ عمر ؓ تین براعظموں میں رہنے والے مسلمانوں پر خلیفہ تھے۔ یہ اونٹ سواروں اور سڑک اور سمندری سفر کے ذریعے پیغامات کے دور میں حاصل ہوا۔ تو اب معلومات کے دور اور ہوائی سفر میں یہ کیسے حاصل نہیں ہو سکتا؟
اسلامی تہذیب پوری دنیا میں مسلمانوں پر بیک وقت دو خلفاء کی حکمرانی کی ممانعت کرتی ہے:
امام شافعیؒ (سنِ وفات 204 ہجری) اپنی تصنیف “الرسالہ” میں بیان کرتے ہیں،
وما أجمَعَ المُسْلِمونَ عليه مِن أن يَكونَ الخَليفةُ واحِدًا، والقاضي واحِدًا والأميرُ واحِدًا، والإمامُ
“مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ خلیفہ ایک ہوتا ہے، (کسی تنازعے پر) قاضی ایک ہوتا ہے، (کسی معاملے پر) امیر ایک ہوتا ہے اور (دين کا) امام ایک ہوتا ہے ۔”
امام الماوردی (سن وفات 450 ہجری) نے اپنی کتاب “الاحکام السلطانیہ” میں کہا ہے،
وَإِذَا عُقِدَتِ الْإِمَامَةُ لِإِمَامَيْنِ فِي بَلَدَيْنِ لَمْ تَنْعَقِدْ إمَامَتُهُمَا؛ لِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ لِلْأُمَّةِ إمَامَانِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ
"اگر دو مختلف ممالک میں دو اماموں (خلفاء) کا تقرر ہو جائے، تو ان کی حکمرانی منعقد نہیں ہوتی کیونکہ امت کے لیے ایک وقت میں دو اماموں (خلفاء) کا ہونا جائز نہیں ہے"۔
ابنِ حزم (سنِ وفات 458 ہجری) نے اپنی کتاب “مراتب الإجماع” میں بیان کیا،
وَاتَّفَقُوا انه لَا يجوز أَن يكون على الْمُسلمين فِي وَقت وَاحِد فِي جَمِيع الدُّنْيَا امامان لَا متفقان وَلَا مفترقان وَلَا فِي مكانين وَلَا فِي مَكَان وَاحِد
"نیز اس پر اجماع ہے کہ مسلمانوں پر، پوری دنیا کے اندر، ایک وقت میں، دو امام (خلفاء) کا ہونا جائز نہیں ہے، خواہ یہ باہمی اتفاق سے ہو یا اختلاف کی بناء پر۔ ایسا ہونا نہ تو دو الگ الگ جگہوں میں جائز ہے اور نہ ہی ایک جگہ میں"۔
مسلمانوں پر موجود واحد اتھارٹی کی تقسیم سختی سے حرام ہے:
مسلمانوں کا خلیفہ ایک ہی ہوتا ہے اور مسلمانوں کی وحدت کو توڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اتھارٹی کی وحدت کو برقرار رکھنا اسلام میں ایک اہم مسئلہ ہے، اس حد تک کہ شریعت نے اس کی خاطر مسلمانوں کا خون بہانے کی اجازت دی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، « إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ فَاقْتُلُوا الآخَرَ مِنْهُمَا»“اگر دو خلفاء کی بیعت ہو جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو” (صحیح مسلم)۔ امام نووی نے اپنی شرح میں کہا ہے کہ
وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يُعْقَدَ لِخَلِيفَتَيْنِ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ سَوَاءٌ اتَّسَعَتْ دَارُ الْإِسْلَامِ أَمْ لَا وَقَالَ إِمَامُ الْحَرَمَيْنِ فِي كِتَابِهِ الْإِرْشَادِ قَالَ أصحابنا لا يجوز عقدها شخصين قَالَ وَعِنْدِي أَنَّهُ لَا يَجُوزُ عَقْدُهَا لِاثْنَيْنِ فِي صُقْعٍ وَاحِدٍ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ
"علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک دَور میں دو خلفاء کی بیعت کرنا جائز نہیں ہے، خواہ دار الاسلام وسیع ہو یا نہ ہو۔ اور امامِ حرمین 'الجُوَيني' نے اپنی کتاب 'الارشاد' میں کہا ہے کہ، “ہمارے اصحاب نے کہا کہ (ایک وقت میں) دو آدمیوں کی (بطورِ خلیفہ) بیعت جائز نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ میری رائے میں دو آدمیوں کا (بطورِ خلیفہ) ایک جگہ بیعت کرنا جائز نہیں ہے اور اس پر اجماع ہے"۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ، فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ»
“پس جو اس امت کے حکمرانی کے معاملے میں تفرقہ ڈالنا چاہے جبکہ یہ امت متحد ہو، تو اسے تلوار سے مارو، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
امام نووی نے اپنی شرح میں کہا ہے،
فِيهِ الْأَمْرُ بِقِتَالِ مَنْ خَرَجَ عَلَى الْإِمَامِ أَوْ أَرَادَ تَفْرِيقَ كَلِمَةِ الْمُسْلِمِينَ وَنَحْوَ ذَلِكَ وَيُنْهَى عَنْ ذَلِكَ فَإِنْ لَمْ يَنْتَهِ قُوتِلَ وَإِنْ لَمْ يَنْدَفِعْ شَرُّهُ إِلَّا بِقَتْلِهِ فَقُتِلَ
“اس (حدیث) میں امام کے خلاف بغاوت کرنے والے یا مسلمانوں کی وحدت میں تفرقہ ڈالنے کا ارادہ کرنے والے یا اس طرح کا کوئی بھی کام کرنے والے سے لڑنے کا حکم ہے۔ (پہلے) اسے اس حرکت سے منع کیا جائے گا، اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے قتال جائے گا اور اگر اس کی برائی کو، اس کے قتل کے علاوہ دُور نہ کیا جا سکتا ہو، تو اسے قتل کر دیا جائے گا"۔ ملتِ اسلامیہ کے متعلق بنیادی امر یہ ہے کہ وہ سب ایک ہی اتھارٹی کے ماتحت ہوں جو کہ خلافت کی اتھارٹی ہوتی ہے۔ اور جو بھی اسے تفریق اور تقسیم کے ذریعے مختلف اکائیوں اور ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہے تو امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کرنے والے کی شرعی سزا قتل ہے۔
نتیجہ: خلافت اسلامی امت کو متحد کرنے کا عملی طریقہ ہے
یہ صرف اسلام کا عظیم دین ہے جو قومی ریاستوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دائمی تصادم کو ختم کر سکتا ہے۔ اسلام انسانیت کے حقیقی مقصدپر مبنی ایک طاقتور بھائی چارہ قائم کرتا ہے اور یہ مقصد اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ یہ ایمان کی حرارت کے ذریعے لوگوں کی نسل، قبیلے اور قومیتوں کی بنیاد پر تقسیم کا علاج کرتا ہے۔ اسلام امت اسلامیہ پر ایک ہی حکومت قائم کرتا ہے اور اس کی تقسیم سے منع کرتا ہے۔
یہ وہ خلافت ہے جو انشاء اللہ جلد ہی واپس آئے گی اور ہمیں عملی طور پر وحدت بخشے گی، اُس وقت کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی نَصر عطا کرنے کو پسند کرے گا ۔ یہ مسلمانوں کے کسی ایک خطہ میں اسلام کی بنیاد پر قائم ہو گی نہ کہ قومیت کی بنیاد پر۔ نبوت کےنقشِ قدم پر قائم خلافت مسلم دنیا کے تمام خطوں کو ایک واحد طاقتور ریاست کے طور پر متحد کرنے کے لیے فعال طور پر کام کرے گی۔ یہ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تمام مسلمانوں کودعوت دے گی ، جیسا کہ اسلام انہیں، بطور مومن، ایک بھائی چارے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ قومی ریاستی سرحدوں کو مٹانے کے لیے کام کرے گی جنہوں نے عرصہ دراز سے مسلمانوں کو تقسیم اور کمزور کر رکھا ہے۔
مصعب عمير ،ولایہ پاكستان