بسم الله الرحمن الرحيم
اسلام میں بجلی عوامی ملکیت ہے
خبر
بجلی کے بلوں نے اتنی قیامت ڈھا دی ہے کہ بعض لوگوں نے اپنی جان لے لی ۔
تبصرہ
بجلی کے پیداواری میں شعبےمیں نجکاری کے بعد نجی کمپنیوں کے منافع کو یقینی بنانے کے لیے بجلی کے نرخ مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں۔ بلوں میں کیپیسٹی چارجز شامل ہیں جس کا مطلب وہ ادائیگیاں ہیں جوکمپنیوں کو ادا کیے جاتے ہیں جب بجلی کی طلب میں کمی کی وجہ سے اُن سےبجلی نہ لی جائے، کیونکہ بجلی کے نجی پلانٹس لگا کر انھوں نے ملک پر "احسان" کیا ہے۔
بجلی کے بل اس لیے بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں کیونکہ حکومت ان میں ٹیکس بھی شامل کرتی ہے۔ اور اس ٹیکس کا بڑا حصہ قرض پر سود ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اسلام میں مہنگی بجلی کے اس بحران کا حل موجود ہے۔
بجلی کا استعمال مشینری کو چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ صنعتوں میں موٹروں اور انجنوں کو چلانےکے لیے استعمال ہوتی ہے۔ حدیث نبوی میں جس "آگ" کو عوامی ملکیت قرار دیا گیا ہے اس میں بجلی بھی آتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاَثٍ فِي الْمَاءِ وَالْكَلإِ وَالنَّار
"مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)۔" (ابو داؤد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
ثَلاَثٌ لاَ يُمْنَعْنَ الْمَاءُ وَالْكَلأُ وَالنَّارُ
"تین چیزیں لوگوں پر حرام نہیں ہیں:پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)۔" (ابن ماجہ)
"آگ" میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو توانائی کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ اس میں تیل، گیس، کوئلہ کے جلنے یا بجلی سے حاصل ہونے والی توانائی شامل ہے۔ ان سب کو عوامی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔ کسی شخص یا نجی کمپنی یا ریاست کے لیے ان کا مالک بننا حرام ہے۔
لہٰذا بجلی کے وسائل ریاست خلافت کے زیر نگرانی عوامی املاک ہیں۔ ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اخراجات کی کٹوتی کے بعد خلافت کے شہریوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اسلام میں سود حرام ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم ریاست اور معاشرے کی سطح پر اسلام کے مطابق زندگی بسر کریں۔ یہ نبوت کے نقش قدم پر قائم ہونے والی خلافت ہو گی جو اس دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے اسلام کو نافذ کرے گی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے
مصعب عمیر، ولایہ پاکستان ،نے تحریر کیا