بسم الله الرحمن الرحيم
حالیہ مسئلہ فلسطین کو اپنے بچوں سے اور دوسرے لوگوں سے بھی کیسے ذکر کرنا چاہئے۔
از قلم : ڈاکٹر عبد البصیر قاضی
1۔ والدین کو چاہئے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کو سمجھانے کے لئے درج ذیل کی اس مثال کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اولاد سے گفتگو کا آغاز کریں :
آپ اپنے گھر میں پرسکون طریقے سے رہ رہے ہیں اور 75 سال پہلے ایک دن اچانک کچھ لوگ زبردستی آپ کے گھر میں داخل ہو جاتے ہیں، وہ آپ کے آدھے گھر پر قبضہ کر لیتے ہیں، آپ کے آدھے خاندان کو گھر سے نکال دیتے ہیں اور باقی گھر والوں کو گھر کے بقیہ حصے میں نظربند کردیتے ہیں۔ پھر وہ قابضین گھر کے باقی افراد کو مزید پیچھے دھکیلتے ہوئے گھر کے اس بقیہ نصف حصے میں سے بھی مزید کمروں پر قبضہ کرتے رہتے ہیں۔ اور آخر آپ اپنے آپ کو اپنے ہی گھر کے باتھ روم میں بند پاتے ہیں۔ اور گویا کہ اتنا ہی برا سلوک کافی نہ تھا کہ وہ غاصب اکثر وبیشتر آپ کی بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی تک کاٹ دیتے ہیں اور باہر کی دنیا سے کوئی بھی چیز اس باتھ روم میں نہیں داخل ہونے دیتے۔ اور اب وہ آپ سے اس بات پر مذاکرات کررہے ہیں کہ چلو یہ باتھ روم آپ رکھ لیں، یا شاید کچن بھی دے دیں، اور یہ قبول کر لیں کہ یہ گھر اب ان غاصبوں کا ہے۔ تو کیا آپ ایسا کوئی معاہدہ یا ڈیل قبول کر لیں گے ؟ مزید ستم تو یہ ہے کہ اگر کبھی آپ کوئی احتجاج کرتے ہیں، کوئی پتھر پھینک دیتے ہیں جس سے آپ کے اپنے ہی گھر کے اس حصہ کا کوئی شیشہ ٹوٹ جاتا ہے جس پر اب وہ غاصب قبضہ کئے ہوئے ہیں تو الٹا آپ پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگ جاتا ہے۔
2۔ لہٰذا مسئلہ فلسطین کو صرف موجودہ صورتحال کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ اصل مسئلہ ماضی میں جوکچھ ہوتا رہا ہے اس کے حقائق اور فلسطین کے اصل حق کو دوبارہ حاصل کرنے کے بارے میں ہے۔ فلسطین کی بین الاقوامی کوریج پر ایک تعصب زدہ صیہونی میڈیا کا کھلا اور منظم قبضہ ہے۔ جبکہ دریں اثناء، عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات فلسطینی عوام کے درد وتکالیف سے جُڑے ہیں اور وہ مقدس سرزمین (الاقصیٰ) اور پورے فلسطین کو ناجائز صیہونی قبضہ سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔
3۔ یہ واقعات کوئی دو چار دن پہلے نہیں شروع ہوئے اور نہ ہی فلسطینی عوام کی طرف سے ان میں پہل کی گئی ہے۔ بلکہ ان کا آغاز 1917 میں برطانیہ نے کیا اور بعد میں فلسطینی عوام پر ظلم وجبر مسلط کرتے ہوئے 1947 میں ناجائز صیہونی وجود کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ 20ویں صدی کی سب سے بڑی چوری اور غصب تھا جسے عالمی قانون اور اقوام متحدہ نے قانونی حیثیت فراہم کی اور جو کہ آج تک میسر ہے۔ 50 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کردیا گیا، ان کے گھروں، زمینوں اور کاروبار پر قبضہ کرلیا گیا اور آج بھی صیہونی آبادکاروں کی جانب سے صیہونی حکومت اور اس کی فوج کی مدد سے جبری بے دخلی کے ذریعے باقی ماندہ فلسطین پر مزید قبضہ کیا جارہا ہے۔
4۔ ارضِ مقدس، فلسطین کے ہر ایک انچ اور ہر حصے پر قبضہ کرنا ایک ناجائز قبضہ ہے چاہے عالمی قانون کچھ بھی کہتا رہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام کے مطابق یہ ایک ناجائز قبضہ ہی ہے اور یہ فیصلہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ فلسطین کے ہر ہر حصے اور ہر ایک انچ کو آزاد کرانے کی ضرورت ہےچاہے عالمی قانون اس کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اسلام کا حکم اس کا مطالبہ کرتا ہے اور مسلمانوں کے لئے بس یہی ایک وجہ ہی کافی ہے۔
5۔ چونکہ فلسطین ایک مقبوضہ علاقہ ہے، اس لیے وہ غاصب، جنہیں بعض اوقاتنرم الفاظ میں آباد کار بھی کہہ دیا جاتا ہے، فلسطین کے شہری نہیں ہیں اور اس لیے وہ اس مسلح تنازعہ میں ان حقوق کے اہل نہیں ہیں جو کہ عام شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ فلسطین ایک ایسا پارک بھی نہیں ہے جہاں آپ کسی بھی وقت اپنی کوئی پارٹی منعقد کر سکتے ہیں، بلکہ فلسطین ایک مقبوضہ علاقہ ہے، لہٰذا یہاں چوکنا رہنے اور ڈرنے کی ضرورت ہے ۔
6۔ صیہونی ریاست کے ناجائز اور غیر قانونی قیام اور فلسطینی سرزمین پر قبضہ کے بعد سے فلسطین کے عوام، خصوصاً غزہ جیسے مقامات پر لوگ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے چاہے وہ صاف پانی ہو، طبی سہولیات تک رسائی ہو یا بجلی کی مسلسل فراہمی ہو۔ صیہونی فوج کی طرف سے باقاعدگی سے دراندازی اور باقاعدہ فضائی حملے فلسطینی عوام کے لئے معمول بن چکے ہیں۔ شہریوں کے گھروں سمیت فلسطین کا بنیادی ڈھانچہ تباہ وبرباد ہو چکا ہے اور مرمت کے قابل بھی نہیں رہا۔ اس تمام صورتحال کے سبب فلسطینیوں کی موجودہ اور اگلی نسلوں پر شدید ذہنی تناؤ اور مضر اثرات بھی بہت زیادہ ہیں۔
7۔ فلسطین کی عوام میں عیسائی بھی شامل ہیں اور وہ بھی صیہونی ریاست کے ہاتھوں اذیت کا شکار ہیں اور فلسطینی سرزمین کی آزادی کے خواہاں ہیں۔ لیکن بہر حال یہ ایک اسلامی مسئلہ ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ فلسطین کو آزاد کرائیں اور فلسطین کے تمام لوگوں کو ان کا حق دلوائیں۔
8۔ گزشتہ چند دنوں میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مغرب کی تمام تر فوجی طاقت اور مالی و سیاسی حمایت سے قائم ہونے والے اس ناجائز صیہونی وجود کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور فلسطین کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ فلسطین کی آزادی خطے کی کسی بھی عرب حکومت کے ذریعے نہیں ہو گی کیونکہ یہ حکومتیں غدار ہیں اور صیہونی وجود کے دفاع کے لیے ہراول دستہ کا کام کرتی ہیں۔
9۔ فلسطین کی آزادی دو قومی حل کے ذریعے نہیں آئے گی اور اس خیال کو لازمی طور پر مسترد کیا جانا چاہئے۔ دو قومی حل، دنیا کی آنکھوں میں دھُول جھونکنے کی ایک ناکام کاوش ہے کہ یہ حل فلسطینیوں کے مفاد میں ہے۔ تاہم، اس کی حقیقت اور مقصد فلسطینیوں کے لئے محدود حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے اور انہیں اپنی سرزمین پر واپس جانے سے روکتے ہوئے ناجائز صیہونی وجود کی موجودگی کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ کوئی حل نہیں ہے بلکہ یہ ان کے سامنے شکست کو تسلیم کرنا ہے اور فلسطینیوں کو یہ بتانا ہے کہ انہیں وہ کچھ بھی واپس نہیں مل سکتا جو کہ اصل میں ان کا حق ہے۔ اسلام فلسطین کی پوری اور مکمل آزادی کے علاوہ کسی دو قومی حل یا حقیقت میں کسی بھی اور حل کو قبول نہیں کرتا۔ مزید برآں، جس طرح ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، اسی طرح ہمیں اس فلسطین کو بھی تسلیم کرنے کی اجازت نہیں ہے، جو ویسٹ فیلیا کے امن، بالفور اعلامیے Balfour Declaration اور سائکس پیکوٹ معاہدے سے نکلنے والی ایک اور قومی ریاست ہے۔ ہم صرف ایک ریاستی حل کو قبول کرتے ہیں، جو کہ ریاستِ خلافت ہے۔
10۔ مسلمانوں کے دماغ میں یہ غلط فہمی بھر دی گئی ہے کہ ہم کمزور اور نااہل ہیں۔ بہرحال جو بھی سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے، گزشتہ چند دن اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ مسلمان ہرگز کمزور نہیں ہیں۔ ہمارے پاس صلاحیت ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ ہے اور ایسی مدد سے بڑھ کر کوئی مدد نہیں ہے جب اللہ تعالیٰ اپنی مدد مہیا کر دیں۔ ہمیں مغربی طاقت کے پروپیگنڈے سے غیر متزلزل اور متاثر ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ فلسطین یا کشمیر کی طرح کوئی بھی مقبوضہ مسلم سرزمین، جہاں مسلمانوں پر دنیا میں کہیں بھی ظلم و جبر ہو رہا ہو تو وہ ہمارے لئے ایک ریڈ لائن ہے۔
11۔ منافقت کی یہ حقیقت سب پر واضح ہونی چاہئے۔ روس کے یوکرین کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے خلاف یوکرین کے مزاحمت کرنے کی تو بھرپور حمایت بھی کی جاتی ہے اور تعریف بھی کی جاتی ہے لیکن فلسطینی عوام کو 75 سال سے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے اور یہ صورتحال ابھی جاری ہے۔ مسلمانوں کو اتنا سادہ یا بے وقوف نہیں ہونا چاہئے کہ یہ یقین کر کے بیٹھے رہیں کہ امریکہ، اقوامِ متحدہ، عالمی قانون یا مغرب سے مداخلت کا مطالبہ کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ تو وہ بھیڑیئے اور چور ہیں جنہوں نے تقریباً پورے فلسطین کو ہڑپ کر لیا اور ناجائز صیہونی وجود کو تحفظ فراہم کئے رکھا۔ یہ وہی بھیڑیئے ہیں جو کشمیر کے مسئلہ پر غاصب ہندو کے غلبہ پر بھی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ اپنی منافقانہ دوغلی پالیسی پر وہ انتہائی حد تک ڈھیٹ اور بے شرم ہیں۔
12۔ ہمارا مؤقف بالکل صاف اور واضح ہونا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کے کوئی دوہرے معیار نہیں ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ تہذیبوں، عقائد اور آئیڈیالوجی کا ٹکراؤ ہے۔ ہمارا دعوٰی کھرا اور سچا ہے کہ ہم ہی حق کے پیروکار ہیں اور ہم صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے اپنی رضا سے گردن جھکاتے ہیں اور کسی معاملے پر ایک بھی لفظ کہنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ فیصلہ کر چکے ہوں۔ اور یہ اللہ کا حکم ہی ہے جو کہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ارضِ مقدس، فلسطین اور تمام مسلمان علاقوں کو اسلام کی حکمرانی اور اختیار کے تحت آزاد کرایا جائے۔
13۔ فلسطینی بھائیوں سے یہ کہنے کی بجائے کہ وہ ظلم سہنے کا حوصلہ کریں اور ایسا کچھ نہ کریں کہ جس سے وہ غاصب برہم ہو جائیں۔ ہم فلسطینی بھائیوں کی اس جدوجہد کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم ان سے ثابت قدم رہنے کا کہتے ہیں اور ان سے ان کی اس حالتِ زار کے حوالے سے اپنے حکمرانوں کی غفلت، غداری، نااہلیت اور بے عملی پر معافی مانگتے ہیں۔ ہم مسلم افواج کی طرف امید سے دیکھتے ہیں جنہیں ہم پرزور طریقے سے پکارتے ہیں اور انہیں ان کا فرض یاد دلاتے ہیں جو کہ تمام مسلم علاقوں کو آزاد کرانا ہے۔
14۔ یہ بات بھی قابلِ تحسین ہے کہ اگرچہ فلسطینی بھائی مارے جا رہے ہیں لیکن وہ ایسے نہیں ہیں کہ شکایت کر رہے ہوں بلکہ وہ تو اس مقصد کے لئے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اپنے خون اور جانوں کی قربانی سے وہ امتِ مسلمہ اور ان کی افواج کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کی قربانیاں قابلِ قدر ہیں اور وہ رائیگاں نہیں جائیں گی اور یہ قربانیاں صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش میں مسلم حکمرانوں کی غداری کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ حالانکہ فلسطینی بھائی مر رہے ہیں، ان کے گھر تباہ و برباد ہو رہے ہیں، ان کے بچے مارے جا رہے ہیں اور وہ اس جنگ کی پوری قیمت بھی چُکا رہے ہیں، پھر بھی اس سب کے باوجود ان کے لبوں پر شکایت کا کوئی ایک لفظ نہیں ہے۔ البتہ ہم میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا یہ فرض ہے کہ افواج کو حرکت میں لانے کے لئے اپنی آوازیں بلند کریں اور وہ لوگ شکایتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال ہمیں ہماری ذمہ داریوں کے بارے میں کیا بتا رہی ہے ؟ کیا ہماری توجہ حاصل کرنے کے لئے فلسطینی بھائیوں کو اپنی جانوں کے نذرانے دینے پڑیں گے ؟ کیا ان کی زندگی کی زبوں حالی اور تکالیف ہمارے حکمرانوں اور افواج کے ہوش میں آنے کے لئے کافی نہیں ہیں ؟ شرمندہ ہونے کی بجائے ہم یہ گلہ کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں نے معاملات اتنے آگے کیوں بڑھا دئیے ہیں۔ کیا یہ مسئلہ فوجی حکمتِ عملی کا ہے یا کہ ایمان کا ؟ یہ اصل میں وہن کا مسئلہ ہے کہ جب آپ اس دنیا سے اتنی محبت کرنے لگیں کہ موت سے ڈر لگنے لگے۔ پس صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ہی ڈریں اور اپنے حقیقی فرض اور ذمہ داری پر توجہ دیں! مسلم افواج سے مطالبہ ہے کہ وہ ارضِ مقدس، فلسطین اور الاقصیٰ کی مدد کریں۔
15۔ ہمیں اپنے آپ کو یاد کرانا چاہئے اور اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہئے کہ یہ صرف اسلام کی حکمرانی ہی تھی جس کے تحت فلسطین اور اس کے تمام لوگ بشمول عیسائی اور یہودی، سلامتی، امن اور استحکام کے ساتھ رہتے رہے تھے۔ اور یہی حل نہ صرف فلسطین کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک حقیقی اور دائمی حل ہے۔
16۔اور ہاں ایک آخری بات، اپنے بچوں کو یہ ضرور بتائیں کہ حماس نے صیہونی ریاست پر جو 'گھریلو ساختہ' راکٹ فائر کئے تھے وہ بنیادی طور پر ان کے اپنے اوپر داغے جانے والے بغیر پھٹنے والے صیہونی گولہ بارود سے بنائے گئے تھے اور یہ راکٹ ایک عام نامیاتی کھاد، چینی اور پوٹاشیم نائٹریٹ کے ٹھوس مرکب سے چلائے گئے ہیں۔ جی ہاں، فلسطینی بھائی پابندیوں اور رکاوٹوں کے تحت بدترین حالات میں رہتے ہوئے، اپنے نہتے ہاتھوں سے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دنیا کی جدید ترین افواج میں سے ایک سے لڑ رہے ہیں۔
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں