الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

صدی کے محض چوتھائی عرصہ میں ہی ، دنیا کی تقریباً نصف سے زائد آبادی کو قحط سالی کا خطرہ لاحق ہے!

 

خبر  :

 

یونیسیف(UNICEF)  کی ایک خبر کے مطابق "چار بلین لوگ - دنیا کی تقریباً دو تہائی آبادی - ہر سال کم از کم ایک ماہ تک پانی کی شدید قلت کا سامنا کرتی ہے... 2025 کے اوائل تک دنیا کی نصف آبادی کو پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے"۔

 

تبصرہ :

 

ایک ایسا سیارہ جو 70 فیصد سے زیادہ پانی پر مشتمل ہے، اس کے باشندے خشک سالی کا شکار ہیں! اور یہ صورتحال اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اس سیارے پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس (Artificial Intelligence)سمیت بے مثال تکنیکی ترقی واقع ہو چکی ہے، جو ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے اور ان تک رسائی کو آسان بنانے میں بہت زیادہ مؤثر ہے۔ پینے کے پانی کی قلت سے انسانیت کی بدحالی اور اشیائے خوردونوش کی قلت کے خطرات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ عالمی نظام، جس کی نمائندگی دنیا کی موجودہ بڑی طاقتیں کر رہی ہے، زندگی کی بنیادی ضروریات، جیسے پینے کا پانی اور زراعت کی آبپاشی کے لئے پانی، فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی کسی شخص کے لیے کوئی عذر باقی رہ گیا ہے کہ وہ انسان کے بنائے ہوئے اس نظام کو اسلام کے عظیم نظام الٰہی سے بدلنے کے لیے جستجو کرنے کی ضرورت کو نظر انداز کر رہا ہو؟! یا پھر یہ کہ انسانیت بھوک اور پیاس سے مرتی رہے تا کہ ضمیر کو حرکت میں لایا جا سکے ؟!

 

پانی کی فراوانی، قدرتی وسائل اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود سیکولر نظام لوگوں کی پانی جیسی بنیادی ضرورت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے! اور اس ناکامی سے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں ناکامیوں کی فہرست میں ایک اور ناکامی کا اضافہ ہی ہوا ہے۔ چنانچہ عرب شاعر کا یہ قول اپنے لغوی معنی میں سچ ثابت ہوتا ہے، نہ کہ استعاراتی معنی میں،

 

"كالعيس في البيداء يقتلها الظما ... والماء فوق ظهورها محمول"

اس صحرائی اونٹ کی طرح، جن کی پیاس ان کو مار ڈالتی ہے... جبکہ پانی ان کی پیٹھوں پر لدا ہوتا ہے۔

 

پانی کی قلت سے آنے والی تباہی کے پیمانے کا تعین کرنے کے لئے، ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ (WRI -World Resources Institute)  کی طرف سے 16 اگست 2023 کو شائع ہونے والی ایک نئی رپورٹ پر غور کریں، جس میں کہا گیا تھا، کہ "دنیا کی آبادی کا کم از کم %50 – یعنی تقریباً 4 ارب لوگ – ہرسال کم از کم ایک مہینے کے لئے پینے کے پانی کی شدید کمی کا سامنا کرتے ہیں...پانی کی کمی کا سب سے زیادہ شکار مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقے ہیں، جہاں %83 آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور جنوبی ایشیا، جہاں %74 آبادی پانی کی شدید قلت کا شکار ہے... اور امکان ہے کہ 2050 تک کم از کم 1 ارب مزید لوگ پانی کی شدید قلت کا شکار ہو جائیں گے"۔

 

یکم نومبر، 2021 کی "یو این 2023 واٹر کانفرنس کی وژن اسٹیٹمنٹ" میں کہا گیا ہے، "آج دنیا بھر کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ – یعنی 2 ارب لوگ – پینے کے پانی کے غیر محفوظ ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی کا نصف حصہ – یعنی 3.6 ارب لوگ – بیت الخلاٴ کی منظم نکاسی کے بغیر رہتے ہیں، اور دنیا میں ہر تیسرا شخص – یعنی 2.3 ارب لوگ - گھر میں ہاتھ دھونے جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے "۔

 

آنے والے دہائیوں میں، دنیا کی %60 آبادی کو ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے کی صورتحال پانی کی قلت کے لحاظ سے بدترین سمجھی جاتی ہے۔ اس خطے میں دیگر علاقوں کی نسبت کم بارشیں ہوتی ہیں۔ اس خطے کے ممالک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے پانی کی طلب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے. ڈبلیو آر آئی(WRI) کی رپورٹ کے مطابق 25 سے زائد ممالک پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں، جن میں بحرین، کویت، لبنان، عمان، قطر، امارات، سعودی عرب، مصر، لیبیا، یمن، ایران، اردن، تیونس، عراق، بھارت اور شام شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، آج شام میں لاکھوں لوگوں کو پانی میسر نہیں ہے۔ شام میں صاف پانی اور نکاسیِ آب کا زیادہ تر انفراسٹرکچر ناکارہ ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے پانی کی فراہمی میں انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں %40 تک کمی واقع ہوئی۔

 

بھارت کے غربت زدہ علاقوں کی گلیوں میں، پانی کی ٹینکیوں اور عوامی نلکوں کے سامنے لوگوں کا اپنے برتن کو پانی سے بھرنے کے لئے قطاروں میں کھڑے انتظار کرنے کا  منظر ایک عام منظر بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر چار میں سے ایک شخص کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے!

 

پانی کی قلت سے پیدا ہونے والا عدم تحفظ دیگر عدم تحفظات کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طور پر، پانی کی کمی بجلی کی بندش کا سبب بن سکتی ہے اور شہر اندھیرے میں ڈوب سکتے ہیں۔ کوئلہ، تیل یا نیوکلئیر توانائی سے چلنے والے روایتی پاور پلانٹس، عام طور پر کولنگ کے لیے بڑی مقدار میں پانی استعمال کرتے ہیں۔ 29 اکتوبر 2019 کو یورپی یونین سائنس ہب کی طرف سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں جو کچھ کہا گیا اس کے مطابق، "اوسطاً ہر یورپی شہری کی یومیہ توانائی کی ضرورت کے لیے 1,301 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے"۔ اس طرح ایک سادہ سے حساب سے، سال بھر میں ایک پوری آبادی کے گھروں کو روشن کرنے کے لیے درکار پانی کی مقدار معلوم کی جا سکتی ہے۔

 

اگر ہم بجلی کی پیداوار پر پانی کی کمی کے سنگین اثرات کو جاننا چاہتے ہیں تو برصغیر بشمول ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی مثال سے زیادہ واضح مثال نہیں ہے۔ پانی کی کمی خطے کے توانائی کے شعبے کے لیے بڑے مسائل کا باعث ہے۔ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ نے اپنی 16 جنوری 2018 کی رپورٹ، "(Parched Power): انڈیا کے پاور سیکٹر کے لیے پانی کی مانگ، رسک، اور مواقع"، میں WRI نے کہا، "بھارت کے %90 تھرمل پاور پلانٹس -- جو ملک کی زیادہ تر بجلی فراہم کرتے ہیں - - کولنگ کے لیے صاف تازہ پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ دنیا کی آبادی کے %18 والے ملک بھارت میں جب موسم گرما آتا ہے تو پانی ایک ایسی قیمتی ضرورت بن جاتا ہے جیسے کہ سونا ہو۔ 15 جون 2018 کو، بی بی سی نے رپورٹ کیا، "پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا کرتے ہوئے تقریباً 600 ملین افراد کے ساتھ بھارت کو پانی کے بدترین بحران کا سامنا ہے"۔

 

ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ (WRI) کی 16 اگست 2023 کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ "Aqueduct کے اعداد وشمار کے مطابق، عالمی جی ڈی پی کا 31 فیصد (یعنی 70 ٹریلین ڈالر کی ایک خطیر رقم) کو 2050 تک پانی کی قلت کی کشیدہ صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے صرف کرنا ہوگا، جو کہ 2010 میں عالمی جی ڈی پی کے 24 فیصد یعنی 15 ٹریلین ڈالر تک رہی تھی۔ صرف چار ممالک، بھارت، میکسیکو، مصر اور ترکی 2050 میں اس جی ڈی پی کے نصف سے زائد کے ذمہ دار ہیں"۔

 

اقوامِ متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل ادارے (FAO) نے اپنی رپورٹThe State of Food and Agriculture 2020" میں کہا ہے کہ " 3.2 بلین لوگ پانی کی شدید اور شدید تر قلت زدہ زرعی علاقوں میں رہ رہے ہیں اور ان میں سے 1.2 بلین لوگ (جو کہ دنیا کی آبادی کا تقریباً چھٹا حصہ بنتے ہیں) پانی کی شدید ترین قلت کا شکار زرعی علاقوں میں رہ رہے ہیں"۔ چنانچہ اس طرح پانی کی قلت، خوراک  کی کمی کی صورتحال کو مزید ابتر کر دیتی ہے۔

 

موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں آئندہ آنے والی متوقع خشک سالی، سیلاب اور بارشوں میں غیر متوقع صورتحال کے باعث ہمیں درپیش یہ چیلنجز مزید سنگین ہوتے جائیں گے۔  اقوامِ متحدہ ماہرین کے مطابق، اوسطاً عالمی درجہ حرارت میں تقریباً ہر ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ کے ساتھ پانی کے ذخائر میں 20 فیصد تک کی کمی متوقع ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ سطح زمین سے پانی کے بخارات کی شکل  میں اُڑ جانے سے واقع ہوتا ہے۔ درجہ حرارت کے اضافہ سے ہونے والی گلوبل وارمنگ سے پانی کی قلت والے علاقوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔

 

2050 عیسوی تک، کُرۂ ارض کی آبادی 10 بلین نفوس تک تجاوز کرسکتی ہے۔ اور اس آبادی کو اپنی خوراک  کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے  دنیا کے لوگوں کو 2010 عیسوی کی نسبت 56 فیصد  مزید زرعی اجناس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔  اور یہ حقیقت اس کے علاوہ ہے کہ دنیا کی  60 فیصد زراعت پہلے ہی شدید پانی کے بحران کی کیفیت سے دوچار ہے۔ اور خاص طور پر ان فصلوں کے لئے جنہیں آبپاشی کے لئے پانی کی خاصی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ گنا، گندم، چاول اور مکئی۔ تو آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ یہ صورتحال کیا ہوگی ؟ ! کچھ رپورٹوں کے مطابق اگر فوری حل تلاش نہ کئے گئے توپانی کی قلت کا ہونا، بعض بنجر علاقوں میں 2030 عیسوی تک ہی لاکھوں افراد کی نقل مکانی کا سبب بن جائے گا۔

 

ہم اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ دنیا کے موجودہ سیاسی نظاموں کو  لوگوں کو درپیش ان آفات اور تباہیوں کے حل کے ساتھ سامنے آنا چاہئے۔ البتہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان انسانی آفات کی بنیادی وجہ یہی نظام اور وہ سیکولر نظریہ ہیں جس سے یہ نظام پھوٹتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ اور دیگر قدرتی حالات کا ان تباہیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کسی بھی قدرتی آفت کا سامنا کرنے کے لئے انسانی کاوشوں میں باہمی تعاون اور ربط ہوتا تو ان آفات سے آسانی سے نمٹا جا سکتا تھا۔

 

ان نظاموں کی ناکامی کی واحد بنیادی وجہ ان کے نظریاتی اور سیاسی بودا پن ہونے کے علاوہ ان کے حقیقی حل کو تلاش کرنے میں ناکامی ہے جو کہ اصل میں تباہی لے کر آئے ہیں۔ سرمایہ دار کمپنیاں، جو کہ ہر ایسی آفت یا متعدی مرض کی وبا کی صورتحال میں بھی صرف استحصال اور "سرمایہ کاری" ہی کررہی ہوتی ہیں، ان کی اس کبھی نہ ختم ہونے والی حِرص  کو پورا کرنے کی بجائے انسانیت کو ایسے الہامی نظام کی ضرورت ہے جو کہ انسانوں کو بنیادی ضروریات پورا کرنے کی بنیاد پر قائم ہو۔ انسانیت کو ان سیاسی بصیرت رکھنے والے اذہان کی ضرورت ہے جیسی سیاسی بصیرت عمرالفاروق رضی اللہ عنہ کی تھی جنہوں نے اپنی توجہ اور ذمہ داریوں کو لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کے لئے اس حد تک مصروف کر رکھا تھا،  کہ انہوں نے فرمایا؛

 

لو عثرت بغلة في طريق العراق لسألني الله عنها لم لم تصلح لها الطريق يا عمر؟

" اگرعراق کے راستے میں کسی خچر کو ٹھوکر بھی لگ جائے تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے سوال کریں گے، اے عمر ! تم نے سڑک کیوں نہ ٹھیک کروائی تھی ؟ "۔

 

ان حکومتوں کو تبدیل کرنے کے لئے تندہی سے کام کرنا ایک شرعی فریضہ ہے۔ یہ اس بہترین امت کی ذمہ داری ہے جو لوگوں کی فلاح کے لئے اُٹھائی گئی ہے۔ یہ کُرہ ٔ ارض کے تمام لوگوں کی ضرورت ہے جو کہ اب اسلامی دنیا کے لوگوں سے کچھ کم مشکل حالات میں نہیں رہے۔ پس آگے بڑھیں اور زمین پر  اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے ذریعےحکمرانی کو قائم کرنے کے لئے جستجو کریں، تا کہ مویشی سیر ہوں ، فصلیں سیراب ہوں اور ہر سُو ہریالی آئے۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لئے لکھا گیا۔

بلال المہاجر، ولایہ پاکستان۔

Last modified onاتوار, 19 نومبر 2023 04:42

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک