بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان کے گمشدہ قبائل
پشتون برادریوں میں ایک طویل عرصے سے یہ خیال چلا آرہا ہے کہ اُن کا تعلق بنی اسرائیل کے اصل بارہ قبائل میں سےگمشدہ قبائل سے ہے۔ یہ بات عام طور پر اس حقیقت کی وجہ سے پھیلائی جاتی ہے کہ پشتونوں کی آنکھیں رنگین اور بال گھنگریالے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت آج تک اسرار کے پردوں میں چھپی ہوئی ہے کہ ان کا بنیادی تعلق کہاں سے ہے ۔ میں ذاتی طور پر، ایک نسلی پشتون کے طور پر، اور قوموں کی تاریخی تعلق کےعلم کا شوقین ہونے کے ناطے، یہ سمجھتا ہوں کہ پشتون اردگرد کے لوگوں، جیسے ترکوں، فارسیوں اور شاہراہ ریشم سے گزرنے والی برادریوں اور قبائل کا مجموعہ ہیں۔ انہوں نے اس علاقے میں ایک زبان اپنائی جو وہاں عام تھی اور اس زبان کے ذریعے ایک ثقافت تیار کی جو ان کے اپنے افسانوں پر مشتمل ہے ۔ تاہم، جیسا کہ بنی اسرائیل کے قبائل پوری تاریخ میں جن حالات سے گزرے، ایسا لگتا ہے کہ افغانیوں کو بھی مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ گمشدہ ہوجائیں۔
پاکستان کی حکومت نے حال ہی میں 17 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے 1979ء کے اوائل سے، افغانستان پر سوویت حملے کے آغاز پر پاکستان کو اپنا گھر بنایا تھا۔ ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ معاشی سکیورٹی ، سماجی استحکام اور اسلام کے حوالے سے کیا یہ ایک اچھا فیصلہ ہے؟
افغان مہاجرین کے مسٔلے کو موجودہ پاکستانی حکومت نے اسمگلنگ اور دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، وہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس اخراج سے ملک کو درپیش معاشی بوجھ کو کم کرنے میں مدد ملے گی، جس کی وجہ بہت زیادہ آبادی ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان مہاجرین کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اس طرح وہ ملک سے نکالے جانے کے مستحق ہیں۔ تاہم اگر اس دلیل کو درست تسلیم کربھی لیا جائے تو اس بنیاد پر پاکستانی کاروباری شخصیات، سیاست دانوں، کاٹیج انڈسٹری کے غیر رسمی کارکنوں اور عام طور پر غیر تنخواہ دار کارکنوں کے خلاف بھی اس جواز کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت پاکستان کی آبادی کی اکثریت بدعنوان حکومت کو ٹیکس دینے سے یا تو انکار کرتی ہے یا کرپشن کی وجہ سے براہ راست ٹیکس ادا کر نہیں پاتی۔ لہٰذا حکومت بالواسطہ ٹیکس کی پالیسی استعمال کرتی ہے۔ بالواسطہ ٹیکس بنیادی فہم کے مطابق اس طرح کام کرتے ہیں کہ اگر کوئی کارکن، غیر قانونی مہاجر یا قانونی مہاجر ہے، تو وہ سیلز اور یوٹیلیٹیز، دونوں پر ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ تمام17 لاکھ افغان باقاعدگی سے کھانے پینے کی اشیاء اور بنیادی بقاء کے لیے درکار دیگر اشیا، جیسے بجلی اور گیس خریدتے ہیں۔ ان سب پر حکومت بالواسطہ ٹیکس لگاتی ہے۔ لہٰذا، ٹیکس نہ دینے کا دعویٰ کرنانہ صرف مضحکہ خیز ہے، بلکہ یہ ناقابل یقین حد تک منافقانہ بھی ہے۔ اس کے بجائے، ان پناہ گزینوں کو ہٹانے کے نتیجے میں ہنر مند مزدور، بہت بڑی تعداد میں نوجوان اور محنتی کمیونٹی، اور قابل کاروباری افراد اور کارکنان سے ملک محروم ہوجائے گا۔ یہ معاشی نقصان کی اصطلاح کی کسی بھی تعریف کے مطابق ایک معاشی نقصان ہے۔
معاشی عوامل سے آگے بڑھتے ہوئے، ہمیں نام نہاد سیکورٹی اور اسمگلنگ کے مسئلے پر بات کرنی چاہیے۔ حکومت یہ پروپیگنڈا کرتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیوں کے ذمہ دار افغان ہیں۔ تاہم، یہ اصل صورت حال کے حوالے سے ایک بڑی غلط بیانی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں میں ملوث بہت سے افراد مقامی طور پر بھرتی ہوتے ہیں۔ افغان جو اس دہشت گردی میں حصہ لے رہے ہیں، انہیں عام طور پر فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، اور مقامی لوگوں یا دیگر دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کے ذریعےانہیں وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس بات سے افغانیوں اور پشتونوں میں ناراضگی کم نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ پاکستانی ریاست کے خلاف پہلے سے موجود دشمنی کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔ کئی دہائیوں سے اس ملک میں رہنے والے لوگوں کو ملک سے نکالنے کی وجہ سے صرف ان لوگوں سے ہی نفرت نہیں ہوگی جنہوں نے انہیں نکال دیا ہے، بلکہ نفرت ان لوگوں تک بھی پھیل سکتی ہے جو خاموش رہے کیونکہ اس دوران اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ یہ صورتحال اس وجہ سے خطرناک ہوگئی ہے کہ بے دخل کیے گئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نوجوان ہیں، جنہوں نے کبھی افغانستان دیکھا ہی نہیں یا وہ وہاں پر صرف چھٹیاں گزارنے جاتے رہے جیسے بچے نانی کے گھر جاتے ہیں، اور وہ پاکستان میں زندگی گزارنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ان کے پاس پیسے، وسائل یا گھر نہیں بچا۔ پاکستانی حکومت اب کم از کم 17 لاکھ افغان مہاجرین میں سے تین نسلوں کو پاکستانی ریاست اور جن باتوں کی وہ حمایت کرتی ہیں، ان سے نفرت کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ لہٰذا، دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے یہ اقدام بالآخر ناکام ہوں گے چاہے موجودہ دہشت گردی کی لہر میں کوئی کمی ہوبھی جائے ۔
پھر، ہم اسمگلنگ کے سوال پر آتے ہیں۔ اس پر، میرے پاس کہنے کے لیے بہت کم ہے کیونکہ بات کے آغاز سے ہی یہ ایک ملکی تعصب پر مبنی مفروضہ ہے۔ اگر واقعی اسمگلنگ افغان مہاجرین کے ذریعے ہو رہی ہے، اور افغانستان اور ایران میں ان کے روابط ہیں، تو وہ اتنے امیر اور بااثر کیوں نہیں ہیں، کہ وہ بدعنوان سرکاری اہلکاروں کو خرید کر اپنی ملک بدری کو روک سکتے ؟کیا مجرمانہ سازش کو روکنے کا یہ حل ہے کہ جو گروہ یہ کام کررہے ہیں ان میں نچلی ترین سطح پر کام کرنے والوں کو نکال دیا جائے ۔ یا سب سے اوپر والے لوگوں کو نکالنا حل ہے جو یہ سب کر رہے ہیں؟ اور وہ لوگ پاکستانی سیاست دان، صنعتکار اور تاجر ہیں۔جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ، "مہاجرین کی صورتحال نے اسمگلنگ اور دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے"۔ اس جھوٹے دعوے کی حمایت کرنے کے لیے کوئی اعدادوشمار کے ثبوت موجود نہیں ہیں۔ درحقیقت صوبہ خیبرپختونخواہ کے استغاثہ (پراسیکیوشن) کے اعداد و شمار اس باطل تصور کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ بڑے جرائم کے 10,549 واقعات میں سے صرف 134 واقعات میں پڑوسی ملک سے بے گھر افراد ملوث پائے گئے تھے۔ڈائریکٹوریٹ آف پراسیکیوشن کے مطابق اس عرصے کے دوران کل 11,685 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے 10,549 کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں سے صرف 134 میں افغان مہاجرین شامل تھے۔ اوریہ عدالت میں داخل ہونے والے مقدمات کی کل تعداد کا 1.27 فیصد ہے۔ مقدمات میں 23,007 ملزمان ملوث تھے جن میں سے صرف 300 افغان مہاجرین تھے۔ اس طرح مذکورہ جرائم میں ملوث افغان مہاجرین کا تناسب 1.3 فیصد بنتا ہے۔(https://dawn.com/news/1308486)
اگلا معاملہ جو میں اٹھاتا ہوں وہ ان لوگوں کے ساتھ نفرت انگیز سلوک ہے۔ ان میں سے کئی کے پاس شناختی کارڈ ہیں۔ ان میں سے اکثر نے کبھی افغانستان دیکھاہی نہیں ، یا وہ وہاں بہت ہی کم رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے خاندانوں کی دولت اور ساری زندگی پاکستان میں لگائی ہوئی ہے۔ میری رائے میں، اور کسی بھی سمجھدار شخص کی رائے میں ، انہیں یہاں رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ انہیں اس حقیقت کا خمیازہ کیوں بھگتنا چاہیے کہ ایک نااہل حکومت نے انہیں مناسب راستے فراہم کرنے سے انکار کیا، یا فراہم کرنے سے قاصر رہی۔ پھر پاکستانی حکومت بوہری اور سکھ اقلیتوں کو بھی ملک بدر کیوں نہیں کر رہی؟ شاید، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بھی ان کمیونٹیز کو بین الاقوامی امداد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ یہ عالمی برادری میں پاکستان کی حیثیت کو مضبوط کرنے کا موقع ہے۔
پاکستان کو کئی سال بلکہ دہائیوں تک، افغان مہاجرین کے لیے امریکہ سے انسانی امداد کی مد میں بڑی رقوم موصول ہوئی ہیں۔ پاکستانی حکومت نے امریکی انٹیلی جنس سے بھی خفیہ طور پر بڑے پیمانے پر فنڈز لئے۔ اس نے امریکہ کی جانب سے سوویت یونین سے لڑنے کے لیے نوجوان افغان مردوں کو مالی امداد اور تربیت دی۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اس آبادی کو امریکہ کی خدمت میں استعمال کیا۔جب ان کی ضرورت ختم ہو گئی تو انہیں حقارت کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔ مزید یہ کہ اتنی بڑی آبادی کو بے دخل کر کے حکمران اب طالبان پر دباؤ ڈالنے کی امریکی پالیسی کی تکمیل کر رہے ہیں، تا کہ وہ پوری طرح مغربی ورلڈ آرڈر کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔ وہ مسلمانوں کے درمیان دشمنی پیدا کر رہے ہیں جس کا فائدہ صرف دشمنوں کو ہی پہنچ رہا ہے۔ اور اب پاکستان کے حکمران غزہ کی حمایت میں ہماری مسلح افواج کو متحرک کرنے سے انکار کا جواز پیش کرنے کے لیے اس دشمنی کو بھی استعمال کر رہے ہیں، جو انہوں نے پیدا کی ہے۔
پھر ہم اس تصور کی طرف آتے ہیں جس نے ایک الگ قومی ریاست کی تشکیل کی بنیاد رکھی جسے اب ہم پاکستان کے نام سے جانتے ہیں۔ پاکستان کا نظریہ بذات خود قومی ریاستوں کے اس دور میں اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ اس ملک کی تشکیل اس بنیاد پر ہوئی ہے کہ اس کی شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جاتی ہے، نہ کہ نسل ، زبان ، قوم اور متفقہ طور پر تسلیم کردہ سیاسی نظام کی بنیاد پر ۔اگر اس بنیادی نظریے کو ہٹادیا جائے تو پاکستان نامی نظریے میں صرف سابقہ آزاد صوبے ہی باقی رہ جاتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس نے معمول کو چیلنج کیا، لیکن نسلی قوم پرستانہ جذبات کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ، جن کے آباؤ اجداد نے کچھ ہی عرصہ قبل ایک غیر نسلی بنیاد پرمبنی ریاست کے نظریے کےحق میں جنگ لڑی اور اپنی جان دی، وہ اسی کا شکار ہو چکے ہیں جس کے خلاف ان کے اپنے خون نے جنگ کی تھی۔ اب وہ ان لوگوں کو اس علاقے سے نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں جس کے بارے میں وہ محض دستاویزات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کا ہے۔ اسی منطق سے نسل، زبان اور تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے انہی لوگوں کو اب خیبر پختونخوا میں پشتون برادری کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
آگے بڑھتے ہوئے، ہمیں پاکستان کےمشن پر بات کرنی چاہیے،ایک ایسی ریاست جو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے بنائی، اور ان غیر مسلموں کے لیےجو مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ بانیانِ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ قراردادِ مقاصد درحقیقت اپنے چوتھے آرٹیکل میں کہتی ہے کہ "مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی میدانوں میں اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیں جیسا کہ قرآن پاک اور سنت نبویﷺ میں بیان کیا گیا ہے"۔ اس کے بعد میں جو سوال پوچھتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس مسئلہ پر اسلامی نظریہ کیا ہے؟ کچھ پاکستانی "بین الاقوامی قانون" کا حوالہ دیتے ہیں، جو17 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کو نکالنے کے جواز کے طور پر "غیر قانونی" پناہ گزینوں کو زبردستی نکالنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم، یہ قانون نسل کشی کرنے والی مغربی ریاستوں سے مستعار لیا گیا ہے، جنہوں نے غزہ کے مسئلے پر ان پچھلے چند ہفتوں میں اپنے غیر انسانی رویے کو پوری طرح سے بے نقاب کر دیا ہے۔ تو پھر اس قانون کا قرآن یا سنت سے کیا تعلق ہے؟
سیاق و سباق کے حوالےسے بات کرتے ہوئے ہمیں یہ پوچھنا چاہئے کہ کیوں تمام طاقتیں تقسیم اور ملکی تعصب کو ترجیح دیتی ہیں؟ جواب بہت سادہ ہے۔ جس گھر کو تقسیم کیا جائے وہ گھر تباہ ہو جاتا ہے۔ میرا اس سے خاص طور پر مطلب یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کے مفاد میں ہے جو طاقت کے حامل ہیں، جو اقتدار رکھتے ہیں، تا کہ وہ جن پر حکومت کرتے ہیں ان کے درمیان نسلی، فرقہ وارانہ اور مذہبی تقسیم کو برقرار رکھیں۔ اس طرح کی تقسیم اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کا باعث بنتی ہے اور حکمرانوں کو اپنا استحصال جاری رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح حکمران عوام کو اس بات سے باخبر ہونے سے روک سکتے ہیں کہ درحقیقت دشمن کے ساتھ کون تعاون کر رہا ہے۔ قوم(race) سے متعلق مسائل کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ الوداع میں فرمایا:
»يَا أَيُّها النَّاسُ أَلا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَباكُمْ وَاحِدٌ، أَلا لا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ على عَجَمِيٍّ، وَلا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، ولا أَسْوَدَ على أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى«
’’اے انسانوں! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا اصل باپ ایک ہے۔ بے شک نہ عربی کو عجمی پر، نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر کوئی برتری حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے“۔(احمد)
یہ ضروری ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ عمل اور اس جیسا کوئی بھی عمل تعصب پر مبنی ہے۔ یہ بالکل غیر اسلامی ہے۔ یہ صریحاً جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔ یہ مکمل طور پر اس بات پر مبنی ہے جسے صرف ہمارے دین کا مخالف قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب ان لوگوں کے لیے جو اسے مثبت روشنی میں دیکھتے ہیں،یہ ان لوگوں کے لیے ایک خطاب ہے جو مانتے ہیں کہ نسل اور قوم پرستی کی بنیاد پر عورتیں، بچے، مرد اور بوڑھے ایسے گھر سے نکالے جانے کے مستحق ہیں جہاں انہوں نے صرف ظالموں سے اور جنگ سے بچنے کے لیے پناہ لی ہو۔تو یاد کریں کہ انصارؓ نے مہاجرینؓ کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا۔ یاد کریں کہ کس طرح خون، نسب اور علاقے سے بے تعلق ہو کر لوگ ایک دوسرے سے بھائیوں جیسا سلوک کرتے تھے۔ انہوں نے نسل، خاندان اور سماجی حیثیت سے قطع نظر ایسا عمل کیا۔ یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ پناہ لینے والوں کے میزبان مسلمان تھے۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو یاد کریں، صحابہؓ کو یاد کریں، کہ وہ کیا کریں گے، اور غور کریں کہ وہ کس کا ساتھ دیں گے، ظالم کا یا مظلوم کا؟ جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں یہ انتخاب کرنا نہایت آسان ہے۔ یا تو ہم پیغمبر محمد مصطفی ﷺ کے وقت یثرب کے رہنے والوں کو منتخب کر سکتے ہیں، جنہوں نے اخوت کا انتخاب کیا۔ یا ہم وہ ہوسکتے ہیں جنہوں نے نسل کی بنیاد پر خیانت اور جھوٹ کا انتخاب کیا۔ یاد رہے کہ یہ مسئلہ ایک حق اور ایک باطل کو پیش کرتا ہے۔ بحیثیت مسلمان سچ کا انتخاب کرنا ہر فرد پر منحصر ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا،
»مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ«
، "تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اپنی زبان سے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو اپنے دل سے جو ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے"۔(مسلم)
جلال الدین، ولایہ پاکستان