بسم الله الرحمن الرحيم
’’ مسٔلہ فلسطین کے حل سے متعلق تمام غلط اور توجہ بٹانے والے طریقوں کو مسترد کردیں‘‘
فلسطین کا مسئلہ ایک جانچ کے پیمانے (litmus test) کی طرح ہے۔ اگر آپ کو خود واضح طور پریہ معلوم ہےکہ ایسی صورتحال کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں کیا حکم دیا ہے اور رسول اللہﷺ نے کیا اعمال کئے ، تو آپ یقیناً ً ان تمام مصنوعی، بکے ہوئے اور بزدل "انفلوانسرز" (Influencers)کو بآسانی الگ کر سکتے ہیں جو اس صحیح طریقے کی طرف دعوت نہیں دے رہے جس سے مسئلہ فلسطین حل ہو سکے۔ بلکہ وہ حقیقی حل سے توجہ ہٹانے کے لئے ہر طرح کے مفروضات اور تجاویز پیش کر نے میں لگے ہیں لیکن وہ سب کہنے پر ہرگزآمادہ نہیں جو اس صورت حال میں کرنا لازم ہے۔ ذیل میں ان تمام غلط اور توجہ بٹانے والے طریقوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو وہ فلسطینی مسئلے کے حل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
*1۔ حالیہ واقعات کے بارے میں قیاس آرائیاں:*
آج کل بہت سے خود ساختہ ماہرین یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ حالیہ واقعات کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوگا، اس سب کے پیچھے کون ہے، اس کی وجہ کیا ہے، اور یہ آخر کار اسی وقت پر ہی کیوں وقوع پذیر ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خدارا کچھ تو ہوش کے ناخن لیں، اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ سب باتیں جاننا ضروری ہیں تو بھی شاید یہ وہ سب آخری چیز ہو گی جو ہمیں معلوم کرنی چاہئے۔ کافی سوالات تو ایسے ہیں جن کے جوابات بالکل واضح ہیں اور ان کے حل پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس نے سازش کی اور کس نے منصوبہ بندی کی، جبکہ تمام سازشوں کا نتیجہ ایک ہی نکلا اور وہ ہے فلسطین کے مسلمانوں کا قتلِ عام؟
*2۔ دوسروں کو یاد دلانا کہ یہ زمین کتنی بابرکت ہے:*
جو لوگ دن رات اس بات میں مصروف رہتے ہیں کہ یہ مسئلہ کیسے شروع ہوا اور اس مبارک سرزمین پر کتنے انبیائے کرام نے قدم رکھا، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کی بیماری کی صورت میں کیا ڈاکٹرز آپ کو بیماری کا نہ ختم ہونے والا سبق سناتے ہیں اور اس کی میڈیکل ہسٹری بتاتے رہتے ہیں جبکہ آپ کو اس وقت سرجری کی ضرورت ہے؟
*3۔ عطیات اکھٹے کرنا :*
جو لوگ اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے عطیات جمع کرنے اور بھیجنے کا سوچتے ہیں، ان کو سوچنا چائیےکہ کیا ہم یہ کام کافی عرصے سے نہیں کر رہے؟ کیا اس سے مسئلے کے حل میں کوئی فائدہ حاصل ہوا؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لوگوں کے لیے پیسے جمع کر رہے ہیں جو ابھی تو زندہ ہیں تاکہ جب وہ ایک بار مارے جائیں تو ان کی قبریں اور تابوت تیار کیے جا سکیں؟
*4۔ 'اسرائیلی' مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا:*
کیا یہ ایک حقیقی حل کے بجائے محض علامتی حل نہیں ہے؟ حقیقتاً کیا ہم اس طرح کے کاموں سے صحیح کام نہ کرنے کے اپنے احساسِ جرم کو کم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں؟ کیا آپ اس دکاندار سے صرف چیزیں خریدنا چھوڑ دیں گے جو آپ کے گھر پر قابض ہے اور آپ کے خاندان کا قاتل ہے؟
*5۔ فلسطینی کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا:*
کیا آپ واقعی سنجیدہ ہیں؟ کیا سرمایہ کاری اُن کی ضرورت ہے؟ اُن کے مقبوضہ علاقے کا جو بھی حصہ رہ گیا ہے اس پر قبضہ ہونے والا ہے اور آپ لوگوں سے ان کے ساتھ کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کا کہہ رہے ہیں؟ جب عمارتیں مسمار ہو جائیں گی تو وہ کیا کاروبار کریں گے؟ کھلے آسمان تلے کی ایک جیل (Open-Air Prison) میں کون سے کاروبار چلائے جا سکتے ہیں؟
*6۔ میڈیا وار لڑنا:*
اگر میڈیا وار لڑنے سے آپ کی تسلی ہوتی ہے تو آگے بڑھیں، لیکن جان لیں کہ آپ جس سوشل میڈیا کو میدان جنگ کے طور پر استعمال کریں گے وہ ان کی ملکیت ہے اور وہ آپ کو پلیٹ فارم سے نکال باہر کرنے، آپ کے اکاؤنٹس کو بند اور معطل کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔ مزید یہ کہ، کیا آپ واقعی سوچتے ہیں کہ فیس بک پوسٹس، انسٹاگرام لائیکس، ٹک ٹاک ویڈیوز اور واٹس ایپ شیئرز کے ذریعے فلسطین آزاد ہو جائے گا؟
*7۔ گناہوں کو چھوڑ دینا:*
یقیناً گناہوں کو چھوڑ کر توبہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن جس گناہ کو ابھی چھوڑنا ہے وہ نہ بولنے کا گناہ ہے۔ یعنی اہل قوت کو اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت و مددکے لئے نہ پکارنے کا گناہ ہے۔
*8۔ صدق دل سے دعائیں کرنا:*
جی ہاں! یہ ٹھیک ہے کہ دن رات دعا کریں، لیکن کیا آپ اس وقت بھی صرف دعا کرتے ہیں جب آپ کو ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے، جب آپ نوکری تلاش کرتے ہیں، جب آپ شادی کرنا چاہتے ہیں یا آپ دعا کے علاوہ بھی کچھ اور عملی اقدامات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں؟
*9۔ او آئی سی کے دروازے پر دستک دینا:*
OIC نے گزشتہ 75 سالوں میں کیا حاصل کرلیا؟ او آئی سی کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ دراصل اسی مسئلے کا حصہ نہیں ہے جسے ہم حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا کوئی ذی شعور انسان مسلم دنیا کے ان حکمرانوں سے یہ توقع رکھ سکتا کہ یہ حکمران اچانک کوئی مثبت قدم اُٹھا لیں گے، جو دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے سینکڑوں مظالم پر خاموش تماشائی بنے ہیں؟
*10۔ اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانا:*
اقوام متحدہ ہی دراصل وہ ادارہ ہے جو اسرائیل کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ ہی وہ ادارہ ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مسلمان، جو حدیث کی رو سے ایک جسم کی مانند ہیں، آپس میں تقسیم رہیں، تو ہم آخر کیسے اس اقوامِ متحدہ سے اس تنازعہ کے حل کی امید رکھ سکتے ہیں؟
*11۔ سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایتیں کرنا:*
آخر اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس طرح آپ اپنے ذاتی مسائل حل کرتے ہیں؟ کیا دنیا اس طرح اپنے مسائل حل کرتی ہے؟ یا مسائل کا حل عملی اقدامات سے ہوتا ہے؟
*12۔ یہ کہنا کہ مسلمان کمزور ہیں:*
کیا ہم واقعی کمزور ہیں؟ جبکہ ہم میں سے سب سے کمزور، بغیر کسی تربیت یافتہ فوج کے، بغیر ایئر فورس کے، چند ملین کی بہت قلیل آبادی کے ساتھ، اور ایک خشکی سے گھرا ہوا علاقہ ، پہلے ہی دو عالمی طاقتوں کو شکست دے چکا ہے۔ ہماری عظیم افواج، بے شمار لڑاکا طیاروں، جنگی بحری بیڑوں اور آزمائے ہوئےجوہری ہتھیاروں کے باوجود جو بھی اس کمزوری کی داستان کو پھیلاتا ہے وہ ایک بزدل جھوٹے کے سوا کچھ نہیں، خواہ اس کا کوئی بھی مقام یا عہدہ ہو۔
لہٰذا آپ کے ذہن میں کسی قسم کاکوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہئے کہ یہ معاملہ مسلم افواج کو متحرک کرنے سے ہی حل ہو گا۔ اور ان کو یہ فرض یاد دلانا ہماری ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹر عبدالبصیر قاضی
ولایہ پاکستان