بسم الله الرحمن الرحيم
اب مسلم افواج کے لیے کوئی حیلہ یا بہانہ نہیں رہا ، انہیں لازماً حرکت میں آنا ہوگا ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی جگہ کوئی اور قوم لے آئیں گے
خبر:
جیسے ہی غزہ پر ہونے والی جنگ اپنے انچاسویں دن میں داخل ہوئی، یہودی افواج نے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں پر اپنے حملے تیز کر دیے اور عارضی جنگ بندی کے نافذ ہونے سے پہلے ہی ہسپتالوں پر دھاوا بول دیا، جس سے درجنوں افراد شہید اور زخمی ہو گئے۔
تبصرہ:
یہودی اور صلیبی اتحاد کے گٹھ جوڑ اور ملت اسلامیہ کے ایک چھوٹے سے حصے پر یہود کی جارحیت، اپنی افواج کو متحرک کرنے اور جدید ٹیکنالوجی اور مختلف قسم کے ہتھیاروں کے استعمال جن میں توپیں، طیارے، فریگیٹس اور ایٹمی آبدوزیں شامل ہیں، ان سب کے باوجود ..... وہ غزہ کے مسلمانوں کے عزم و استقامت کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور یہودی وجود کی طرف سے مجبور عورتوں اور بچوں کے قتل اور ان کی عمارتوں اور گھروں کو مسمار کردینے کے باوجود بھی وہ ایمان والوں کے دلوں میں ذرہ برابر بھی کمی یا شک پیدا نہیں کر سکے۔ یہاں تک کہ ہسپتالوں، مساجد اور اسکولوں کو بھی نہیں بخشا گیا ، کسی درخت کی شاخیں تک نہ بچ سکیں ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ وہ یہودی،مردوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور چوکوں میں موت کا سامنا نہیں کر سکتے، جیسا کہ اللہ کی راہ میں مجاہدین کر رہے ہیں۔ اسی لئے ان بزدل یہودیوں کے بارے میں العزیز العلیم اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان بالکل درست ہے ؛
(لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ)
"یہ سب (مل کر بھی) تم سے نہ لڑیں گے مگر قلعہ بند شہروں میں یا دیواروں کے پیچھے سے ،ان کی آپس میں لڑائی بہت سخت ہے۔ تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں ، یہ اس لیے کہ وہ بے عقل لوگ ہیں" (سورة الحشر:14)۔
اور اہل غزہ اور ان کے مجاہدین کے بارے میں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان بالکل سچا ہے:
(إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)
"بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے ، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں تو قتل کرتے ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں ۔ یہ اس کے ذمہ سچا وعدہ ہے، توریت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوشیاں مناؤ جو سودا تم نے اللہ کے ساتھ کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے" (سورة التوبہ:111)۔
کفار کی قوتوں کا، یعنی یہودیوں اور صلیبی اتحاد کا، ایک دوسرے کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ نہ تو مسلمانوں سے لڑنے کے لائق ہیں اور نہ ہی ان کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں اور نہ ہی ان کے فوجیوں کو شرافت اور اعلیٰ اقدار کے معنی معلوم ہیں۔ اور ان میں نظریاتی طور پر لڑائی اور بہادری کی کوئی بھی خوبی موجود نہیں۔ اور یہی امر ان کی ناکامی کو ثابت کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، خواہ مسلمانوں کی تعداد یا سازوسامان کتنا ہی قلیل ہی کیوں نہ ہو... اور یہ بات مختلف ممالک میں مسلمانوں کی اپنی بیرکوں میں تعینات فوجوں کے خلاف ایک حجت ہے، خصوصاً وہ فوجیں جو دنیا کی سب سے مضبوط، سب سے بڑی، اور قابل افواج میں شمار کی جاتی ہیں (جیسے پاکستان، مصر اور ترکی کی افواج)۔ چونکہ آج مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد نے مل کر کفار کی افواج کی قوت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، تو تمام مسلمانوں کی قوت کا کیا عالم ہو گا؟! اب ہم اب اپنی افواج کے لیے بہانے نہیں بنا سکتے، چاہے وہ کتنے ہی عذر کیوں نہ پیش کریں۔ اور اس طرح وہ اب ایک دوراہے پر ہیں، یا تو وہ ہلکے ہوں یا بھاری، ہرصورت میں اللہ کی خاطر نکل پڑیں ، یا پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی جگہ ایسے جوانوں کو لے آئے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور جو اس سے محبت کریں گے اور وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے یا تو مارے جائیں گے یا پھر غالب رہیں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛
(وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ)
"اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے" (سورة محمد:38)۔
یہ بات مسلم مسلح افواج کے تمام وفادار افراد پر اور درحقیقت دنیا کے تمام مسلمانوں پر واضح ہو چکی ہے کہ عالم اسلام کے قریب اور دور کے حکمران، جنہوں نے یہودیوں کی طرف سے قتل عام کو دیکھا اور واضح طور پر اس کا ساتھ دیا، ان کی بابت یہ یقین ہو گیا ہے کہ وہ اس امت میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ امت کے دشمن ہیں، امت پر مسلط کیے گئے ہیں، صلیبی اتحاد اور یہودیوں کے ایجنٹ ہیں اور ابو رغال کی اولاد ہیں۔
ہمارے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ ہم مرنے والوں کے لیے روئیں اور قتل عام کی مذمت کرلیں، یا مالی طور پر چندہ اور امداد بھیجیں، جو کہ غزہ کے لوگوں تک یہودیوں اور ان کے وفاداروں کی اجازت کے بغیر پہنچ بھی نہیں پاتی! بلکہ آج مسلم افواج کے ہر مخلص فرد کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے اور فلسطین اور دیگر جگہوں کے مظلوموں کی حمایت اور اسلام کی حمایت کرنی چاہیے۔ افواج کو مجرم اور کٹھ پتلی حکمرانوں کی گردنیں دبوچ لینی چاہئیں، ان کی لاشوں کوروندتے ہوئے ان کے اوپر سے گزر جانا چاہیے اور خلافتِ راشدہ کو قائم کرنے کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرنی چاہیے، جو انہیں غزہ اور یروشلم اور تمام مسلم دارالحکومتوں میں اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے رہنمائی کرے گی۔
اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرنا لوگوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں ہے، خواہ کتنی ہی عظیم قربانیاں کیوں نہ دے دی جائیں، بلکہ یہ ایک ایسا تمغہ ہے جس پر کوئی بھی عقلمند دنیا اور آخرت میں فخر کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہماری فریاد فوج میں موجود سمجھدار لوگوں کے علاوہ سے نہیں کیونکہ مدد کا ایک وقت مقرر ہے۔ بس اللہ تعالیٰ کے اذن کا انتظار ہے اور پاکیزہ مخلص لوگوں کی پیش قدمی کا انتظار ہے جو اپنے اور اپنے دین کے لیے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے قیام کی دعوت کی حمایت کرتے ہوئے فتح یاب ہوں گے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک عظیم امر اور افضل ترین کام ہے۔ اور یہ رتبہ صرف عزت داروں کو نصیب ہوتا ہے، اور اس کے اجر کا مستحق اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو گا کہ جس نے آخرت حاصل کرنے کے لیے دنیا فروخت کر دی ہو۔ اس لیے مبارک ہو اس ہستی کو جو اس عظیم عزت کی مستحق ٹھہرے اور اسے حاصل کر لے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
(وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ)
"اور اسی کے لیے رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہیے" (سور ہ المطففین:26)۔
حزب التحریر ریڈیو کے مرکزی میڈیا آفس کی طرف سے تحریر کردہ
بلال المہاجر - ولایہ پاکستان