بسم الله الرحمن الرحيم
منافقت کے ٹسوے بہائے جا رہے ہیں
خبر:
منگل کے روز، اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) نے ہندوستان کے شہر ایودھیا میں پانچ سو سال پرانی بابری مسجد کے گرائے جانے اور اس کی جگہ ’رام مندر‘ کی تعمیر اور افتتاح کی مذمت کی ہے۔
تبصرہ:
بابری مسجد کی کہانی مغلیہ سلطنت کے عروج و زوال کی کہانی ہے۔ یہ مسجد پہلے مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے بنوائی تھی، اس وقت یہ مسجد کسی بھی طرح متنازعہ نہیں تھی، لیکن جب انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت کے بیج کامیابی کے ساتھ بو دیے تب 1853ء میں ایک ہندو فرقہ نرموہی اکھاڑہ نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ مسجد مسلمانوں نے ہندو عبادت گاہ رام مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنائی تھی۔ 1859ء میں برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے اس جگہ کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ مسلمانوں کو اندر نماز پڑھنے کی اجازت تھی جبکہ ہندوؤں کو باہر کے صحن میں عبادت کرنے کی اجازت تھی۔ 1885ء میں ایک مقامی عدالت میں بابری مسجد کے سامنے رام (ایک ہندو دیوتا) کی پوجا کرنے کے لیے 'چبوترا' یا پلیٹ فارم بنانے کی اجازت کے لیے ایک مقدمہ داخل کیا گیا۔ یہ درخواست دو بار مسترد کر دی گئی اور جج نے جمود کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ "350 سال پہلے کی گئی غلطی" میں ترمیم کرنے میں بہت دیر ہو چکی ہے۔
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کی کوششیں پھر سے تازہ ہو گئیں، اور 22 اور 23 دسمبر 1949ء کو بھارتی حکومت نے مسجد کو "متنازعہ زمین" قرار دے کر دروازے کو تالا لگا دیا جبکہ دیوتا کے بت ہندو پجاریوں نے مسجد کے اندر رکھ دیے۔ اس کے بعد مسجد میں کسی مسلمان نے نماز نہیں پڑھی۔ ہندوؤں نے دیگر کافروں اور اسلام سے نفرت کرنے والوں کی طرح اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر طرح کی کوشش کی اور مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر نو کے لیے ایک بڑی تحریک شروع ہوئی، اور یہ تحریک 1992ء کے فسادات کا سبب بنی، جن میں تقریباً 2000 لوگ مارے گئے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ
"جو کوئی عزت چاہتا ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے اُس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ کلام ہے، اور عمل صالح اس کو بلند کرتا ہے"۔ (الفاطر؛ 35:10)
اسلام میں جو چیز کسی جگہ کو مقدس بناتی ہے وہ یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا مالک ہے اور صرف اسی کی ذات عبادت کی حقدار ہے۔ اور اس کی عبادت میں مکمل اطاعت اور فرمانبرداری شامل ہے،اور اس میں اہل ذمہ (اسلامی ریاست کے جزیہ ادا کرنے والے باشندوں) کے حقوق کی حفاظت بھی شامل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپریل 637ء کے اوائل میں فتح کے بعد فلسطین پہنچے اور شہر کا دورہ کیا، جس میں چرچ آف ہولی سیپلچر بھی شامل تھا۔ جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو پیٹریارک سوفرونیئس نے انہیں چرچ کے اندر نماز پڑھنے کی دعوت دی لیکن حضرت عمر ؓنے یہ کہ کر منع کر دیا کہ اگر وہ چرچ کے اندر نماز ادا کریں گے تو بعد میں مسلمان سمجھ سکتے ہیں کہ اسے مسجد میں تبدیل کر دیا جانا چاہیے اور اس طرح عیسائی اپنے مقدس ترین مقامات میں سے ایک سے محروم ہو جائیں گے۔ اس کے بجائے انہوں نے چرچ کے باہر نماز ادا کی جہاں بعد میں مسجد عمر کے نام سے ایک مسجد بنائی گئی۔
برصغیر پاک و ہند میں بھی مغلوں نے اپنی ہندو رعایا کے جذبات کا احترام کیا، یہی وجہ ہے کہ کارتوسوں پر گائے کی چربی کے استعمال کی اطلاع سے ہندوؤں میں بے چینی پیدا ہوئی اور یہ 1857ء کی بغاوت کی بنیاد بنی۔ یہاں تک کہ اگر ہم شہنشاہ بابر کی گائے کو کھلے عام ذبح کرنے سے منع کرنے کی وصیت کو مستند نہ بھی مانیں، تب بھی کارتوسوں پر ہندو رعایا کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ انہیں مسلم حکمرانی میں کبھی بھی اس قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں بہت کچھ ہورہا ہے اور مسلمانوں پر اس کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے کیونکہ اللہ کے دین کی خالص حالت کے ساتھ جڑ کر ہی لوگ بحیثیت مسلمان درست زندگی گذار سکتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم میں کوئی اضافہ یا تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی تعمیر کا عمل 140 سال پر محیط ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان اپنی طاقت کے محور یعنی خلافت کے ختم ہو جانے کے بعد بھی پوری دنیا پر کس قدر رعب و دبدبہ رکھتے ہیں۔
یہ واقعہ، مسلم دنیا کے تمام واقعات کی طرح، اس بات کی علامت ہے کہ کس طرح کفار اسلام کا نام مٹانا چاہتے ہیں۔ جو بات وہ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ وہ مسلمان حکمرانوں کی بےحسی سے حوصلہ لے کر اسلام کی عمارتیں تو گرا سکتے ہیں، مسلمانوں کو قتل بھی کر سکتے ہیں لیکن اسلام کو دنیا سے کبھی مٹا نہیں سکتے۔ اسلامی کونسل کی تنظیم (او آئی سی) جیسے ادارے اس مسجد کے نقصان پر مگرمچھ کے آنسو بہا سکتے ہیں، جو وہ فلسطینیوں کے قتل عام پر بھی بہا رہے ہیں، لیکن انہیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے فتح کا وعدہ کیا ہے اور جس دن یہ سر تسلیم خم کرنے والے مسلمانوں کی فتح ہو گی وہ اللہ کی رحمت میں بھیگ رہے ہوں گے، غداروں اور دھوکے بازوں کے پاس اس روز چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہوگی سوائے اپنے کافر دوستوں کے آخری ٹھکانے یعنی جہنم کے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا
”جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے"(النساء؛ 4:139)
امت مسلمہ پر فرض ہے کہ وہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے قوت حاصل کریں، ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے، اپنی راہ میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ کریں اور فتح کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں۔ کامیابی اللہ کی طرف سے ہے اور ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ کوئی بھی جنگ اس وقت تک نہیں ہاری جاتی جب تک ہم رب العالمین کے سامنے سر تسلیم خم کر کے لڑتے رہیں اور یہ جنگ اس زمین پر اللہ کی حکمرانی قائم کرنے کی ہے۔ ہم اس دن کو دیکھیں یا نہ دیکھیں، ہم اس کی ناگزیریت سے انکار نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اس جدوجہد کا حصہ ہیں تو اللہ کے سپاہی ہیں۔
اخلاق جہاں