بسم الله الرحمن الرحيم
تبصرۂ خبر
مصر کی حکومت نے غزہ کے لوگوں کو قتل، بھوک اور بے سر و سامانی کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ دینے کے بعد، نقل مکانی میں بھی بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے!
(ترجمہ)
تبصرہ ٔ خبر:
باخبر ذرائع نے القدس اخبار کو بتایا ہے کہ مصر کی سرحد کے پاس قابض "اسرائیلی" وجود کی طرف سے غزہ کی پٹی کے اطراف اور رفح/صلاح الدین محور میں کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی کے بارے میں مصر کی حکومت کو تحفظات ہیں۔ ذرائع کے مطابق "اسرائیل" نے مصر کو آگاہ کیا ہے کہ وہ رفح کراسنگ کے حوالے سے مصر کے ساتھ غزہ کی پٹی کی سرحدوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فوجی آپریشن کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے جبکہ مصری عسکری اور سیاسی قیادت نے اس "اسرائیلی" اقدام سے متعلق خبردار کیا ہے۔ مصری حکومت نے دو طرفہ تعلقات اور غزہ کی پٹی کی خطرناک صورتحال پر اس کے اثرات سے متعلق خبردار کیا ہے۔ غزہ کی پٹی کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر مصری ذرائع نے سرحد پر ایک ایسے وقت میں "اسرائیلی" فوجی آپریشن کے بارے میں خبردار کیا ہے جب رفح گورنری میں دس لاکھ سے زائد فلسطینی شمالی غزہ کی رفح گورنری میں، سرحد پر بے سروسامانی کےعالم میں ہیں۔
سینئر ذرائع نے القدس اخبار کو بتایا کہ "اسرائیلی" تکبر اور جنگی اہداف میں ناکامی، غزہ کی پٹی میں اس تباہ کن جنگ کو آگے بڑھا رہی ہے۔ خود قابض وجود نے اس قسم کے آپریشن کو "فوجی طور پر پیچیدہ" قرار دیا ہے کیونکہ اس پر عمل درآمد دس لاکھ پناہ گزینوں کی موجودگی میں ہونا ہے جن میں زیادہ تر بچے، عورتیں، بوڑھے، زخمی اور معذور افراد ہیں جو بارش کے پانی سے تباہ شدہ خیموں میں پناہ گزین ہیں۔ اس طرح کی کارروائی ایک انتہائی خطرناک عمل ہے جس سے مزید جانی نقصان ہو گا۔ سینئر ذرائع نے مزید کہا کہ مصر نے اس منصوبے کی منظوری نہیں دی ہے اور نہ ہی دے گا۔ ذرائع کے مطابق فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی حکومت کی کارروائیوں کے کوآرڈینیٹر غسان علیان نے ایک سکیورٹی اور فوجی وفد کی سربراہی میں قاہرہ کا دورہ کیا۔ وفد کا مقصد رفح بارڈر کراسنگ پر سکیورٹی انتظامات پر تبادلۂ خیال کرنا تھا لیکن اس ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
اپنی جنونی جنگ کے پہلےہی دن سے، یہودی وجود نے غزہ کی پٹی میں اپنے فوجی موقف کو چھپایا نہیں ہے۔ اور اس نے غزہ کی پٹی کے اندر زندگی کے تمام عناصر کو منظم انداز میں اور مکمل طور پر تباہ کرنے اور لوگوں کو جنوب کی طرف یعنی مصر کے ساتھ سرحد کی طرف بھاگنے پر مجبور کرنے پر مبنی اپنے مقاصد کو بھی نہیں چھپایا جبکہ وہ مجرمانہ طور پر لوگوں کو یہ خونی پیغام دینے پر تلا ہوا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ان کے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔ لہٰذا، اس کی زمینی کارروائیاں شروع میں شمال میں رہیں، پھر اس نے مرکز، جنوب اور شمال میں بمباری کی۔اور پھر اس کی زمینی کارروائیاں مرکز اور جنوب کی طرف پھیل گئیں، جب کہ مرکز، شمال اور دور جنوب میں بمباری بھی جاری رہی، جو کہ رفح شہر ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کے لیے اپنی جانوں، اپنے بچوں اور اپنی عزت دار خواتین کو بچانے کے لیے نقل مکانی کو واحد راستہ بنانا ہے۔ اس نے حال ہی میں سرکاری اور عوامی سطح پر بولنا شروع کر دیا ہے کہ خان یونس آپریشن کو ختم کرنے کے بعد اگلا قدم فلاڈیلفی روٹ کے ساتھ دور جنوب میں آپریشن ہو گا۔ یہ اس وقت ہے جب لوگ رفح شہر تک محدود ہو گئے ہیں اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد 12 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
نقل مکانی کے اس خونی منظر نامے کے باوجود، اور اس کے باوجود کہ یہودی وجود کے سیاستدانوں کے مطابق وہ رفح اور فلاڈیلفی روٹ میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پر عزم ہیں، اور اس کے باوجود کہ اپنے تباہ شدہ گھروں سے بے گھر ہونے والے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں، مصری حکومت ، صرف انتباہات، تحفظات اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے تک محدود ہے جیسا کہ القدس اخبار کی رپورٹ میں ظاہر ہے۔ گویا کہ یہ اقدامات، مصر جیسی مضبوط ریاست کو چھوڑ کر کسی ایک ریاست نما وجود کے لیے بھی مناسب نہیں ہیں۔ یہ اقدامات یہودی وجود کو روک سکیں گے نہ ہی اسے اس کے مجرمانہ اور خونی موقف پر پیش قدمی سے روک سکیں گے۔ مصری حکومت کا یہ سرکاری مؤقف ایک سنگین خطرہ ہے۔ یہ رفح شہر کے لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔ یہ ان لوگوں کو ترک کرنا ہے اور اس امر کے رونما ہونے کا انتظار کرنا ہے جسے یہودی وجود مسلط کرنے کا سوچ رہا ہے!
ایجنٹ مصری حکومت کا خیال تھا کہ غزہ کی پٹی کے لوگوں کو چھوڑ دینا اور یہودی وجود کو اپنے جرائم کو جاری رکھنے کے لیے چھوڑ دینا، اور اس کی حمایت کرنا مصر کو ان معاملات سے دور رکھے گا۔ اس کا خیال تھا کہ یہودی وجود نقل مکانی نہیں کروائے گا، چاہے وہ ایسا کرنے پہ قادر ہی کیوں نہ ہو اور "مصر کی قومی سلامتی" کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ پھر مصری حکومت نے سوچا کہ نقل مکانی کو روکنے کا طریقہ استعماری سرحدوں یعنی سائکس-پیکوسرحدوں کو قلعہ بند بنانا ہے اور انہیں سختی سے بند رکھنا ہے۔ اب مصری حکومت یہ گمان کر رہی ہے کہ انتباہ اور اجازت نہ دینا اس معاملے کو روک لے گا! پہلے ہی لمحے سے مصری حکومت نے اپنے سیاسی اور عسکری مؤقف کو قوم پرست بنیادوں پر استوار کیے رکھا۔ اس نے اپنے مؤقف کو امریکی احکامات کے تابع کر رکھا ہے جو اس کے سیاسی فیصلوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ نتیجتاً، مصری حکومت نے غزہ کے لوگوں کو صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے لیے چھوڑ دیا جبکہ وہ مصری فوج سے پتھر پھینکنے کی دوری پر موجود ہیں۔ اس نے صرف اپنے محدود قوم پرست مفادات کو ٹھیس پہنچنے کے خوف سے اور بغیر کسی ٹھوس کارروائی کے ان کو محض بے گھر نہ کیے جانے پر اصرار کیا۔ اس نے یہودی وجود کو روکنے کے لیے، اس ناکام شدہ قوم پرستانہ فریم ورک کے اندر بھی کوئی کاروائی نہیں کی جیسے کہ سینائ میں فوج بھیج کر یہودیوں کو حقیقی خطرے کا احساس دلانا۔ چنانچہ، یہودی وجود اپنے منصوبوں پر قائم رہا!
مصر کی حکومت غزہ کے لوگوں کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے، جیسا کہ یہ خود مصر کے لیے بھی خطرہ ہے۔ مصری عوام کے لیے غزہ کی پٹی میں پھنسے اپنے بھائیوں کو بچانے کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ ان کو بچانے کا طریقہ ان کی نقل مکانی کو روکنا نہیں ہے، جیسا کہ ایجنٹ قوم پرست حکومت کا دعویٰ ہے بلکہ اس کی بجائے، انہیں بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ مصر کی مضبوط مسلم فوج کو سیناء کی طرف متحرک کر کے، غزہ اور بابرکت سرزمین کی طرف بڑھا جائے اور اسے مکمل طور پر آزاد کروایا جائے، اور یہودی وجود کو ختم کر کے اس کے وجود کا ہی خاتمہ کر دیا جائے۔
ارض ِ مبارک فلسطین میں حزب التحریر کا میڈیا آفس