بسم الله الرحمن الرحيم
ہندوستان کا شہریت (ترمیمی) ایکٹ، خلافت راشدہ کی فوری بحالی کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے،
جو کہ امت کی ڈھال ہے
20 مارچ 2024 کو، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان سے پریس بریفنگ کے دوران سوال پوچھا گیا کہ "بھارت نے شہریت کے ایک متنازعہ قانون کو نافذ کیا ہے جس کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے، اور اسلام کے علاوہ ہر بڑے جنوبی ایشیائی عقیدے سے تعلق رکھنے والے مہاجروں کے لیے ایک مذہبی امتحان کا تعین کیا گیا ہے ۔" ترجمان نے جواب دیا، "ہم 11 مارچ کو شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے نوٹیفکیشن کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ہم اس ایکٹ کو بڑے قریب سے دیکھ رہے ہیں۔" [1]
امریکہ نےمودی کو بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف اپنی جاری جنگ میں بالکل اسی طرح کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے جس طرح اس نے غزہ میں نیتن یاہو کوبدترین مظالم کی کھلی آزادی فراہم کی ہوئی ہے، اور دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے آپ کواس معاملے کی نگرانی کرنے اور تشویش کا اظہار کرنے تک محدود رکھا ہوا ہے۔ مودی انتخابات کی تیاری کر رہا ہے، اور اس کی انتہا پسند بی جے پی حکومت انتخابات جیتنے کے لیے مسلم مخالف نفرت پر انحصار کررہی ہے۔ مودی مسلمانوں کے خلاف نفرت اورتشدد کو بھڑکاتا ہے، اس کے حامی مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں اور حکومتی اداروں کی حمایت سے مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں۔
جہاں تک شہریت ایکٹ میں ترمیم کی حقیقت کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں کے ساتھ کھلا امتیاز ہے۔ انڈین ایکسپریس اخبار نے 13 مارچ 2024 کو رپورٹ کیا، " پیر (11 مارچ 2024) کو جاری ہونے والےشہریت (ترمیم) ایکٹ 2019 رولز کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والا کوئی ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی یا عیسائی، جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوا تھا، اب وہ اپنے ممالک کے ویلڈپاسپورٹ یا ہندوستان کی جانب سے جاری ہونے والا درست ویزا دستاویز دکھائے بغیر ہندوستانی شہریت حاصل کر سکتا ہے۔ [2]۔ یہ حیران کن ہے کہ اسلام کو بطور مذہب اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ شدید اذیت کے شکار روہنگیا مسلمانوں کو بھی اس سے باہر رکھا گیا ہے، اورآسام کے قبائلی علاقوں میں بسنے والے مسلمان بھی اس میں شامل نہیں، جو ایک عرصے سے تکالیف برادشت کررہے ہیں۔ اس طرح انہیں جلاوطنی اور قید سے کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔
جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے، تو کئی دہائیوں سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو ہندو ریاست کے ہاتھوں من مانی حراست اور غیر قانونی قتل کا سامنا ہے۔ دسیوں ہزار شہید ہوچکے ہیں جبکہ ہزاروں آزاد مسلم خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ان کے لیے صورت حال مزید خراب ہوئی۔ یہ سب کچھ جنوبی ایشیا کےوسیع تر خطے میں ہندوستانی انٹیلی جنس کے فتنوں کے علاوہ ہے، جس میں خطے کی سب سے مضبوط مسلم ریاست، پاکستان کے اندر عدم استحکام کو ہوا دینا بھی شامل ہے۔
ہندوستان کے اندر اور اس کے ہمسائیہ علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے مصائب کی وجہ وہ استعماری پالیسی ہے جس کے تحت مسلمانوں کو قوم پرستی کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہوا ہے ۔ تاہم، اگر ہم اس استعماری پالیسی کو ترک کر دیں، تو صورتحال کافی حد تک بدل جاتی ہے۔ اگر ہم خود کو سرکاری اعداد و شمار تک محدود رکھیں، یہ جانتے ہوئے کہ بھارت میں انتہا پسند حکومت مسلمانوں کی آبادی کو جان بوجھ کر کم رپورٹ کرتی ہے، تو بنگلہ دیش کے 150 ملین، پاکستان کے 240 ملین اور بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے اندر 204 ملین مسلمان مل کر 594 ملین یعنی 60 کروڑ بنتے ہیں۔ یہ تعداد افغانستان کے مجاہد مسلمانوں کو شامل کیے بغیر ہے، جن کی تعداد ان کے اسلامی جنگجوانہ جذبے کی وجہ سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ہندوستان کے ایک ارب ہندوؤں کے سامنے، مسلمانوں کے حق میں توازن اور بھی زیادہ بدل جاتا ہے جب ہم پوری اسلامی امت کو شامل کریں، جو کہ 1.9 ارب مسلمان ہیں۔
تاہم مسلمانوں کے موجودہ حکمرانوں کے پاس اسلامی اخوت کی بے پناہ صلاحیتوں کا ادراک اور انہیں استعمال کرنے کا کوئی سیاسی منصوبہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ قوم پرستی کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ خطے میں ہندو ریاست کے تسلط کو قائم کرنے میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ جب اگست 2019 میں مودی نے مقبوضہ کشمیر کا زبردستی الحاق کیا تو پاکستان کے حکمرانوں نے افواج پاکستان کو روکا، انہوں نے کشمیر کے مجاہدین کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے جہاد کو بھی غداری قرار دے دیا۔ جہاں تک بنگلہ دیش کے حکمرانوں کا تعلق ہے تو انہوں نے ہندوستان کو ہر طرح کے مواقع استعمال کرنے کی کھلی آزادی فراہم کر رکھی ہے۔ جہاں تک افغانستان کے حکمرانوں کا تعلق ہے تو یہ دیکھنا واقعی تکلیف دہ ہے کہ امریکی قابض افواج کو نکال باہر کرنے کے بعد اب وہ ہندو ریاست کے لیے اپنےدروازے کھول رہے ہیں۔
اے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانو!
ہندو ریاست کی بڑھتی ہوئی دشمنی کے سامنے آپ کو خود کو کمزور، بے بس اقلیت نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے خلافت راشدہ کے زمانے سے اس پورے خطے پر حکومت کی تھی۔ ان تمام صدیوں میں آپ کی تعداد ہمیشہ ہندوؤں سے کم رہی۔ اس کے باوجود آپ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نصر سے ہمیشہ غالب رہے۔ آپ غالب ہوئے، جیسا کہ ہندو اسلام کے انصاف کے لیے آپ کی طرف متوجہ ہوئے۔ انگریز قابضین کی جانب سے فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دینے سے قبل، ہندو 1857 میں استعماری قبضے کو ختم کرنے کے لیے آپ کی قیادت میں کھڑے ہوئے ۔
اے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں ہتھیاروں اور جنگ کے لوگو!
اس رمضان، فتح کے مہینہ میں، ان ادنیٰ ہندو بت پرست مشرکین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو مسترد کردو ، جو جنگ میں بزدل ہیں۔ یاد رہے محمد بن قاسم نے مجاہدین کی ایک چھوٹی سی فوج کے ساتھ مودی کے جد امجد ظالم راجہ داہر کی بڑی فوجوں کو شکست دی تھی۔ سلطان اورنگزیب عالمگیر کو یاد کریں جنہوں نے جنوری 1666 میں جدید دور کے بنگلہ دیش میں چٹاگانگ کو بہادری سے آزاد کرایا۔ اس نے مشرک رخائن سلطنت ، جو اس وقت اپنے 500 سالہ اقتدار کے عروج پر تھی، کی قابض افواج کوایسی زبردست شکست دی تھی کہ وہ سلطنت منہدم ہو کر بکھر گئی۔ اس رمضان میں، بدر کے جذبے کو زندہ کریں اور آج کے راجہ داہر سے نجات دلانے کے لیے ہوئے نبوت کے نقش قدم پر خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے کام کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَا لَـكُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِيۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ
"اور تم کو کیا ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے ۔"(النساء، 4:75)۔
مصعب عمیر، ولایہ پاکستان
حوالہ جات
[1] https://www.state.gov/?post_type=state_briefing&%3Bp=92333