بسم الله الرحمن الرحيم
شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
خبر:
17 اکتوبر 2024 کو، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "لہٰذا، امریکہ ہر ملک کے خود مختاری کے حق کا احترام کرتا ہے کہ وہ اپنی پسند کے گروپوں میں شامل ہوں۔ ہم ہر ملک کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کثیرالجہتی فورمز میں اُن کی شرکت بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور احترام کو یقینی بناتے ہوئے ہو، اور تمام اقوام کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور آزادی کی تصدیق کرے"۔ (1)
تبصرہ:
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نے بالکل واضح طور پر یہ کہا کہ "کثیر الجہتی فورمز میں اُن کی شرکت بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور احترام کو یقینی بناتے ہوئے ہو"۔ آج کی تمام بین الاقوامی تنظیمیں، معاہدے اور کنونشن امریکی عالمی آرڈر اور اس کے عالمی قانون کے اندر آتے ہیں۔ واشنگٹن کسی بھی تنظیم کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرہ کار سے باہر نہیں جانے دیتا۔ اگرچہ اقوام متحدہ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک موثر ہتھیار ہے، لیکن واشنگٹن نے اس کے علاوہ بھی اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اضافی تنظیمیں تشکیل دے رکھی ہیں۔ مثال کے طور پر، Quadrilateral Security Dialogue (QUAD) کے ذریعے، امریکہ نے چین کو بحر ہند اور بحرالکاہل میں اس کی طاقت کو محدود اور چیلنج کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر، واشنگٹن نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (NATO) کو یورپ پر اپنا تسلط برقرار رکھنے اور روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ طریقہ کار دوسری ویٹو طاقتوں کو امریکی طاقت کو محدود کرنے سے روکے رکھتا ہے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن بھی امریکی عالمی آرڈر کے تحت آتی ہے، اور اسی آرڈر کے قوانین کے اندر رہ کر کام کرتی ہے۔
روس نے آغاز میں چین کے ساتھ مل کر شنگھائی تعاون تنظیم قائم کی تاکہ وسطی ایشیا کے خطے میں امریکہ کی مداخلت سے بچا جا سکے، اور اس تنظیم کو ماسکو اپنا دائرۂ اثر سمجھتا تھا۔ روسی عوام کی جانب سے، سوشلزم کے باطل نظریے سے اعتماد ختم ہونے کے بعد سے وہ معاشرے کے لیے ایک مضبوط نظریاتی سہارے سے محروم رہے ہیں۔ روسی ریاست یہ چاہتی ہے کہ اسے امریکہ کے ہم پلہ ایک بڑی جغرافیائی سیاسی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ تاہم، روسی ریاست خود کو بڑی حد تک موجودہ عالمی آرڈر کی حدود کے اندر محدود رکھتی ہے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے، وہ اپنی معیشت کو مغربی اقتصادی ڈھانچے میں ضم کرنے کی امریکہ کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی اب اس کے معاشی مفادات پر ہی مرکوز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے، روس یوکرائن کے جاری تنازع کے دوران، روس کے ساتھ تعلقات میں اپنے اقتصادی مفادات کو ہی ترجیح دی۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اپنی صلاحیت کے باوجود بے وزن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ روس اور چین نے شنگھائی تعاون تنظیم اس لئے قائم کی تھی کہ امریکی آرڈر اور عالمی قانون کے تحت رہتے ہوئے اپنے لیے اثر و رسوخ کا ایک حلقۂ اثر پیدا کر سکیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک آلہ کار ہے کیونکہ اس کے حکمران امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ پاکستان کے حکمران شنگھائی تعاون تنظیم میں بالکل اسی طرح شامل ہیں جس طرح واشنگٹن انہیں اجازت دیتا ہے۔ فی الحال، انہیں اس بات کو یقینی بنانے کا کام سونپا گیا ہے کہ پاکستان امریکی علاقائی منصوبہ کے لئے، جو کہ چین اور خطے کے مسلمانوں کو چیلنج کرنے کے لیے ہندوستانی تسلط کو یقینی بنانا ہے، اس منصوبہ میں پاکستان کوئی چیلنج نہ پیدا کر دے۔ پاکستان کے حکمران اپنے آپ کو مشرق میں ایک علاقائی تنظیم سے بھی منسلک کر رہے ہیں جو قوم پرستی اور قومی ریاستوں کے تصور پر قائم ہے، بالکل ویسے ہی جس طرح عرب حکمران مغرب میں عرب لیگ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ قومی ریاستوں کا تصور مسلمانوں کو ایک طاقتور ریاست، یعنی خلافت کے جھندے تلے یکجا ہونے سے روکتا ہے، جبکہ یہ قومی ریاستوں کا تصور امت کی زمینوں پر اس کے دشمنوں کے قبضے کو یقینی بناتا ہے۔
حزب التحریر نے آنے والی خلافت کے مجوزہ آئین میں تفصیل سے یہ واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کو امریکی عالمی آرڈر کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ، "اقوام متحدہ کا قیام سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر ہوا ہے جو کفر کا نظام ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ ادارہ بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے ہاتھ میں ایک آلہ ہے جو اس ادارے کو چھوٹی قوموں پر اپنا اثر و رسوخ مسلط کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، جو کہ اس وقت مسلم دنیا کی موجودہ صورتحال ہے جو اقوام متحدہ کا حصہ بنی ہوئی ہیں"۔
اسی دستاویز میں حزب التحریر نے یہ بھی بتایا ہے کہ کیوں مسلمانوں کو علاقائی تنظیموں کا حصہ بننے کی اجازت نہیں ہے، جیسے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اور عرب لیگ، جو کہ قومی ریاست پر قائم ہیں، اس دستاویز میں بیان ہے کہ، "عرب لیگ کا قیام سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے، اور اس لیگ نے اپنے آئین میں واضح طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ عرب ریاستوں کی آزادی کے تحفظ کے لئے قائم کی گئی ہے، دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو، اسلامی سرزمینوں کی علیحدگی اور ان میں تقسیم کے تحفظ کے لئے، جبکہ ایسا کرنا ہرگز جائز نہیں ہے"۔
پاکستان خود ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے، ایک مضبوط اور قابل فوج اور ایک بڑی اسلام سے محبت کرنے والی آبادی کا مالک ہے، اور جنوبی اور وسطی ایشیا کے مسلمانوں کو یکجا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ اور یہی وہ آگے بڑھنے کا راستہ ہے جو امت مسلمہ کے وقار اور عزت کو بحال کرے گا۔ اور اس کے علاؤہ باقی سب کچھ محکومی کی مختلف شکلیں ہیں۔ پاکستان میں اہل قوت کو چاہیے کہ وہ ان تمام آلات اور فریم ورک کو مسترد کر دیں جو امت کو منقسم رکھتے ہیں، اور خلافت کے قیام کے لیے جلدی کریں جو امت مسلمہ کو یکجا کرے گی۔ امریکہ نے جو سکیورٹی ڈھانچہ تشکیل دیا ہے وہ عالمی آرڈر کے ذریعے اس کے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ہے۔ جلد ہی قائم ہونے والی خلافت راشدہ کی ریاست ایک نئے اور منصفانہ عالمی آرڈر کی بنیاد فراہم کرے گی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خبردار کیا،
﴿ مَثَلُ الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡلِيَآءَ كَمَثَلِ الۡعَنۡكَبُوۡتِ ۖۚ اتَّخَذَتۡ بَيۡتًاؕ وَ اِنَّ اَوۡهَنَ الۡبُيُوۡتِ لَبَيۡتُ الۡعَنۡكَبُوۡتِۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ ﴾
"جن لوگوں نے اللہ کے سوا (اوروں کو) کارساز بنا رکھا ہے اُن کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک (طرح کا) گھر بناتی ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے کاش یہ (اس بات کو) جانتے" (العنکبوت، 29:41)
مہند مجتبیٰ کی طرف سے
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
حوالہ:
[1] https://www.state.gov/?post_type=state_briefing&%3Bp=92333