بسم الله الرحمن الرحيم
امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
خبر:
شام کے شہروں کی آزادی اور مجرمانہ حکومت کا خاتمہ حیران کن رفتار کے ساتھ ہوا۔
تبصرہ:
کئی دہائیوں کی مجرمانہ حکمرانی، شر وفساد، بے شرمی اور غداری، اور شامی انقلاب کے آغاز کے تقریباً چودہ سال بعد گزشتہ اتوار 8 دسمبر 2024 کو طلوع فجر کے وقت دمشق کے ظالم حکمران اور اس کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا- جس کے دوران مجرمانہ حکومت نے دس لاکھ سے زائد لوگوں کو قتل کیا، تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کو ان کے گھروں سے بے گھر کیا، اور بہت سے شہروں اور محلوں کو مکمل تباہ وبرباد کر دیا، یہ ایک اہم تاریخی واقعہ تھا۔ اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو، خاص طور پر پیارے شام کے مصیبت زدہ اور مضبوط لوگوں کو طمانیت بخشی۔
شام کے بیشتر شہروں اور دیہاتوں کی آزادی، اور ان کے اپنے حقداروں کے پاس واپسی پر ہماری بے پناہ خوشی، ہمیں عالمی ظلم کے سرغنہ، امریکہ کے منصوبوں سے اندھا نہ کر دے۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے بابرکت انقلاب کے آغاز کے بعد کئی دہائیوں تک اس حکومت کی حمایت کئے رکھی اور کئی سالوں تک اس کی بقا کو طول دیا۔ تاہم، اب یہ جس چیز کا تعاقب کر رہا ہے، وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق، تیزی اور شدت کے ساتھ سیاسی مفاہمت کی پیش رفت ہے۔ ہم اللہ عزوجل سے دعا کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کے ایجنٹوں، اتحادیوں اور پراکسیوں کے منصوبوں کو ناکام بنائے اور متقیوں کو حتمی کامیابی عطا فرمائے۔
یہ سیاسی مفاہمت جس کے لیے امریکہ کوشش کر رہا ہے، اس میں ایران کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، جس نے اس کے اندر ایک اہم حصہ حاصل کرنے کی امید کی تھی۔ شاید خود امریکہ بھی شام میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کو روکنے اور انقلاب کے ابتدائی سالوں میں حکومت کی حمایت اور اس کو گرنے سے بچانے پر ایران کے کردار کا صلہ دینا چاہتا تھا۔ تاہم، لبنان میں ایران کی حزب کے خاتمے نے ان منصوبوں کو بدل کر رکھ دیا ہے، جیسا کہ لبنان میں دیکھا جا رہا ہے۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے، یہ واضح ہے کہ اس نے جاری واقعات میں اپنی فعال شمولیت کو واپس لے لیا ہے، اور حکومت کو گرنے سے بچانے کے لیے کوئی خاص فوجی کاروائی نہیں کی ہے۔ یہ اس سیاسی سمجھ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جو روس کو یوکرین میں اثر و رسوخ کا ایک اہم حصہ فراہم کرتا ہے، جو کہ بہرحال روس کے لیے شام سے زیادہ اہم ہے۔
امریکہ جس مفاہمت پر کام کر رہا تھا اس کا مقصد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک معاہدے کے ذریعے بحران کو حل کرنا تھا۔ تاہم جنگل کی آگ کی طرح، انقلابیوں کی تیز ترین پیش قدمی اور حکومت کی افواج کے تیزی سے خاتمے نے امریکہ کے تصور کردہ منظر نامے کو ناکام بنا دیا۔ حکومت اتنی دیر تک قائم ہی نہ رہ پائی کہ جنگ بندی تک نوبت پہنچتی، جس سے مذاکرات اور عبوری مرحلے کے آغاز کی راہ ہموار ہوتی۔ راتوں رات، شام انقلابیوں کے فوجی کمانڈر کی قیادت میں ایک حقیقی اتھارٹی میں تبدیل ہو گیا۔
شام میں حکومت کے اچانک انہدام کے باوجود، یہ بعید از امکان نہیں ہے کہ امریکہ شام کے مستقبل کے لیے اپنے منصوبوں کو تبدیل کرے۔ ان منصوبوں میں شام کو مرکزیت یا وفاقیت کی آڑمیں فرقہ وارانہ، یا نسلی نوعیت کے خود مختار حکام میں تقسیم کرنا شامل ہے۔ ہر اتھارٹی یا تو اس کی براہ راست نگرانی میں آئے گی، یا اس کی پراکسی کے طور پر کام کرنے والی علاقائی صوبائی اتھارٹی کی سرپرستی میں آئے گی۔
امریکہ کا خیال ہے کہ شام میں برسوں کی جنگ نے اثر و رسوخ والے علاقوں کی تقسیم کو جنم دیا ہے، جس نے زمین پر ایک حقیقت قائم کی ہے جو "قومی مکالمے" اور آنے والے مفاہمت کے معاہدوں کے ذریعے آئینی طور پر رسمی شکل دینے سے پہلے مستقبل کی شامی چھاؤنیوں کی تشکیل میں سہولت فراہم کرتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ علوی (نصیری) فرقے کے لیے ساحلی علاقے میں پناہ گاہ قائم کرنے کے امکانات حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم ہو چکے ہیں، اور لطاکیہ اور طرطوس کے مسلمانوں کے سڑکوں پر آنے کا حوصلہ مزید بڑھ گیا ہے۔ تاہم، امریکہ ممکنہ طور پر ان علاقوں کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کے طریقے تلاش کرے گا۔ دوسری طرف فرات کے مشرق میں کردوں کا خود مختار علاقہ پہلے سے تیار ہے، جس طرح عراق میں کرد علاقہ 2003ء میں امریکی حملے کے بعد تیار تھا، اور بعد میں اسے آئینی طور پر باقاعدہ تشکیل دے دیا گیا تھا۔ دیگر خود مختار حکام دوسرے علاقوں میں بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہو سکتے ہیں، جیسے سوئیڈا (Sweida)، جو ڈروز کے خود مختار حکمرانی کے لیے ممکنہ امیدوار ہے۔
بلاشبہ، امریکہ شام میں جو ریاست قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے ڈھانچے، نظام یا آئین سے قطع نظر، وہ ایک سیکولر ریاست ہو گی جو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت چلائی جائے گی۔ اور یہ ریاست "بین الاقوامی برادری" کے اندر چھوٹی، ماتحت ریاستوں کے درمیان "شائستگی اور فرمانبرداری" کے ساتھ بیٹھے گی۔
تذلیل اور کفر کی قوتوں سے شام کے بیشتر علاقوں کی آزادی ایک متاثر کن اور خوشی سے بھرپور منظر تھا۔ کیا مجاہدین اس خوشی کو پورے شام میں جہاد جاری رکھ کر پورا کریں گے تاکہ اس کی تقسیم کو روکا جا سکے، ایک پارلیمانی سول ریاست کی بات اور دیگر خطرناک تجاویز کو ختم کیا جا سکے، اور شام کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شریعت کے تحت چلنے والی ریاست میں تبدیل کیا جا سکے۔ جو اپنے تمام شہریوں، مسلمانوں اور غیر مسلموں کا یکساں خیال رکھتی ہے؟ کیا یہ ایک ایسی اسلامی ریاست کا مرکز بن سکتی ہے جو پوری امت کو متحد کرے، اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے، غزہ کی مدد کرنے اور باقی فلسطین کو آزاد کرانے کا اعزاز حاصل کرے؟
کیوں نہیں؟ شام اسلام کی سرزمین الشام کے قلب میں واقع ہے۔ جس کی اللہ نے ضمانت دی اور اس میں برکت رکھی ہے اور جس سے ابتدائی اسلام کی فتوحات کا آغاز ہوا، مشرق میں چین کے کناروں تک اور مغرب میں بحر اوقیانوس تک۔ اسی سرزمین سے صلاح الدینؒ نے مسجد الاقصٰی کو صلیبیوں سے آزاد کرانے کی مہم شروع کی تھی-
اللہ سبحانہ و تعالیٰ مجاہدین کے قدموں کی اس طرف رہنمائی فرمائے جس سے وہ راضی ہو اور اسے پسند ہو اور انہیں بہترین راستے میں کامیابی عطا فرمائے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا گیا۔
احمد القصص
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے رکن
Latest from
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...
- امریکہ مسلم ممالک میں قائم ایجنٹ حکومتی ڈھانچوں کے زمین بوس ہونے...