بسم الله الرحمن الرحيم
نسل کشی… محاصرہ… یخ بستہ سردی:
موت کی تکون غزہ کے عوام پر اپنی گرفت مضبوط کرتی جا رہی ہے!
تحریر: استاذ خالد سعید
کہا جاتا ہے کہ مصیبتیں اچانک اور ایک ساتھ ہی آتی ہیں۔ یقیناً، غزہ کے لوگ اس حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں، جنہیں مجرم یہودی ریاست کی جانب سے مسلط کردہ جنگ اور نسل کشی کے ہولناک مظالم جھیلنے پڑ رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ محاصرے اور خوراک و ادویات کی سپلائی کو روک دینے کے نتیجہ میں قحط اور امراض کا سامنا کر پڑ رہا ہے۔ اور اب موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی، یخ بستہ ہواؤں، بارش، نقطۂ انجماد تک گرتے درجۂ حرارت اور برفیلی ٹھنڈ کے ساتھ موت کی یہ تکون مکمل ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال اس لیے مزید سنگین ہو چکی ہے کیونکہ سردی کے ساتھ ساتھ بنیادی انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، اور بے گھر افراد کے کیمپ تو بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ یہ کیمپ نہایت ناقص انتظامات کے ساتھ قائم کیے گئے ہیں، جو نہ تو پناہ گاہ کا کام دے سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ بے گھر افراد کے لیے لگے خیمے پندرہ ماہ کے بعد پھٹ چکے ہیں اور رہائش کے قابل نہیں رہے۔ مزید برآں، بہت سے خاندانوں کو مسلسل قتل و غارت، جرائم اور قابض افواج کی طرف سے جبری انخلاء کی دھمکیوں کے سبب بار بار اپنے خیمے منتقل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ خیمے اپنے رہائشیوں کو نہ تو اس کڑاکے کی سردی سے بچا سکتے ہیں اور نہ ہی موسلا دھار بارش میں بھیگنے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
غزہ کے عوام کا المیہ مزید شدت اختیار کرگیا ہے کیونکہ یہودی فوج کی جانب سے برپا کردہ نسل کشی کے علاوہ بھوک اور ٹھنڈ بھی موت کی وجوہات بن گئی ہیں۔ غزہ میں جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 1,10,000 کے قریب خیمے مکمل طور پر پھٹ چکے ہیں اور ناقابل استعمال ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی خیمے غزہ میں حالیہ دنوں میں چلنے والی شدید طوفانی ہواؤں کی نذر ہو گئے، اور ان کے مکین بے گھر ہو کر رہ گئے۔ سوشل میڈیا پر دل دہلا دینے والے مناظر گردش کر رہے ہیں، جن میں غزہ کے مختلف مقامات پر خیمے پانی میں ڈوبے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ شہری دفاعی حکام برملا طور پر یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ متاثرہ افراد کے لیے متبادل پناہ گاہیں فراہم کرنے سے قاصر ہیں، جس کے نتیجے میں کچھ لوگوں کو کھلے آسمان تلے سونا پڑا۔ گزشتہ ہفتے کی منجمد کرتی ہوئی ٹھنڈ اور یخ ترین سردی نے سات افراد کی جانیں نگل لیں، جن میں چھ بچے بھی شامل ہیں۔ پیر، 30 دسمبر 2024ء کو غزہ کے سرکاری اطلاعاتی دفتر سے جاری کردہ ایک خبر کے مطابق ان ہلاک شدگان میں علی اور جمعہ البطران نامی جڑواں بچے بھی شامل ہیں، جن کی عمر محض ایک ماہ تھی۔مزید برآں، خصوصاً غزہ کی پٹی کے شمالی علاقوں میں شدید قحط سالی اور غذا کے ابتر حالات کے باعث 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ 3,500 بچے غذائی قلت اور خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اس کے علاوہ، ہزاروں حاملہ خواتین جو بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث خطرے میں ہیں، لاکھوں بزرگ افراد اور وہ لوگ جو دائمی بیماریوں میں مبتلا ہیں، لاکھوں زخمی، اور کینسر کے مریض، جنہیں مقامی وسائل کی کمی کے باعث بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے، سبھی اس المیے کا حصہ ہیں۔ اس پر مزید ستم متعدی بیماریوں کا پھیلاؤ اور ضروری ادویات کی عدم دستیابی ہے، جو سرحدی راستوں کی بندش اور یہودی ریاست کی جانب سے ان کے داخلے کو روک دینے کے باعث مزید بگڑ چکا ہے۔المیے کو مزید سنگین بنانے والی بات یہ ہے کہ مجرمانہ قابض افواج دانستہ طور پر اسپتالوں، طبی مراکز، اور محکمۂ صحت کے کارکنان کو نشانہ بنا رہی ہیں، جس نے اس تمام صورتحال کو ایک اور بھی شدید انسانی المیے میں تبدیل کر دیا ہے۔
یہ صورتحال غزہ کے عوام پر مسلط بے پناہ مشکلات اور انسانی تباہی کے صرف ایک پہلو کی عکاسی کرتی ہے، جس کی حقیقت تصور سے کہیں بڑھ کر ہے اور بیان سے باہر ہے۔ اس سب کے باوجود، اس قدر تباہی اور سانحے کے دوران بھی، غزہ کے لوگ ایمان سے لبریز دلوں کے ساتھ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں، اور اس کے فضل و رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان پر یقین رکھتے ہیں،
﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ﴾
”اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے خوف، بھوک، اور مال، جانوں اور پھلوں کی کمی کے ذریعے، لیکن صبر کرنے والوں کو خوش خبری سُنا دو“۔ (البقرۃ؛ 2:155)
اس دوران، ایک سُلگتا ہوا سوال ہر بچے، ہر ماں، ہر شہید کی بیوہ، اور غزہ کے ہر جوان اور بوڑھے کے لبوں پر رہتا ہے:
”آخر ہماری امتِ مسلمہ کے لوگ کہاں ہیں؟ کیا ہم ان کے ایمان کے بھائی اور بہنیں نہیں ہیں؟ آخر وہ کب تک ہمارے قتل و غارت پر بے حس وحرکت بنے رہیں گے، جبکہ وہ ہمارے کرب کو دیکھ بھی رہے ہیں اور ہماری دُہائیاں سن بھی رہے ہیں؟ یا پھر کیا ان کی آنکھیں ایسی ہیں جو دیکھتی نہیں، کان ہیں جو سنتے نہیں، اور دماغ ہیں جو سمجھتے نہیں؟ کیا وہ دنیا میں اتنے مگن ہو گئے ہیں، اور کیا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے دلوں میں کمزوری (وَہن)، اس عارضی دنیا کی محبت، اور ابدی آخرت سے بیزاری ڈال دی ہے؟“
اے مسلمانو! جس طرح مصیبتیں تیزی سے یکے بعد دیگرے آتی ہیں، بالکل اسی طرح اللہ کے اذن سے خیر اور راحت بھی آتی ہے۔ اگر آپ ڈٹ جائیں اور اللہ کے احکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں تو آپ اس مقدس سرزمین کے حالات کو بہترین حالت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم آپ میں سے ہی ہیں اور آپ ہم میں سے ہیں۔ کیا ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق بھائی بہن نہیں ہیں،
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾
”مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں“ (الحجرات؛ 49:10)۔
کیا ہمارا آپ پر کوئی حق نہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،
«مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ شَيْءٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى»
”مومنوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے“۔
کیا ہمارے بارے میں یہ آپ پر فرض نہیں ہےجیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ﴾
”اور اگر وہ دین کے حوالے سے تم سے مدد طلب کریں، تو تم پر ان کی مدد کرنا واجب ہے“ (الانفال؛ 8:72)۔
آخر آپ کیسے آرام سے بیٹھے رہ سکتے ہیں جبکہ ہم پر ہر طرف سے موت چھائی ہوئی ہے؟ آخر آپ کیسے اپنے آپ کوگرم اور محفوظ طرح سے ڈھانپ سکتے ہیں جبکہ ہمارے بچے یخ سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر رہے ہیں؟ آخر آپ کیسے اپنے کھانوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جب کہ ہمارے بچوں کے لیے روٹی کا ایک نوالہ بھی ہمیں اپنی جان دے کر حاصل کرنا پڑتا ہے؟
مصیبت زدہ کی مدد کرنا اور مظلوم کی حمایت کرنا شریعت کے فرائض میں شامل ہیں، اور یہ اسلام کی اعلیٰ اقدار میں سے ہیں۔ اللہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے راضی ہو، جب جبرائیلِ امین رسول اللہ ﷺ پر پہلی وحی لے کر آئے تو ام المؤمنین نے آپ ﷺ کو ان الفاظ سے تسلی دی، (لن يضيعك الله فأنت تقري الضيف وتغيث الملهوف وتنصر المظلوم) ”اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں، اور مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں“۔جب اللہ تعالیٰ نے دین کو قائم کیا، اپنے نبی ﷺ کو نصرۃ دی، اور مؤمنین کو ایک ایسی ریاست عطا کی جس نے انہیں متحد اور محفوظ کیا، تو ہماری بھلائی ہر انسان تک پہنچی، خواہ ان کا مذہب، نسل، یا قومیت کچھ بھی ہو۔ تو آج ایسا کیوں ہے کہ ہم نہ تو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے پر رحم کھاتے ہیں؟۔ اللہ فاروق اعظم عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے۔ قحط کے دوران انہوں نے مصر میں اپنے گورنر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ایک پیغام بھیجا، (أأجوع أنا ومن معي وتشبع أنت ومن معك؟! وا غوثاه وا غوثاه) ”کیا میں اور میرے ساتھ والے تو بھوکے رہیں اور تم اور تمہارے ساتھ والے پیٹ بھر کر رہیں؟! افسوس ہے مظلوموں پر! افسوس ہے مظلوموں کی حالت پر!“۔ اس کے جواب میں عمرو بن العاصؓ نے ایک ایسا قافلہ بھیجا، جس کا پہلا دستہ مدینہ میں تھا جبکہ اس کا آخری دستہ ابھی مصر میں تھا، اور اس کے ذریعے مدینہ کے مسلمانوں کو راحت پہنچائی۔
یہ حقیقت ہے کہ واقعی حالات المناک ہیں، تکالیف شدید ہیں، اور انسانی صورت حال تباہ کن ہے۔ لیکن اے مسلمانو! آپ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس ظلم کو ختم کر دیں اور ان مصائب کو آسانی میں بدل دیں۔ اسی کے ساتھ ہم اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان سنگین انسانی حالات کا پیدا کرنا ایک چال کا حصہ ہے، جس کا مقصد لوگوں کو اصل مسئلے، اس کی جڑ کی وجہ اور اس کے حقیقی حل سے ہٹانا ہے، جو کہ فلسطین کی سرزمین پر اس مجرمانہ یہودی وجود کی موجودگی ہے۔یہ مسلط کردہ حقائق لوگوں کو مصالحت انگیز حل قبول کرنے اور ظلم و جبر کو روکنے کے بہانے دباؤ کے تحت یہ کہتے ہوئے جھک جانے پر زیادہ آمادہ کرتی ہیں کہ ”اس وقت یہی سب سے بہتر حل ہے جو حاصل کیا جا سکتا ہے“۔یہ دعوت قتل عام کو طول دینے یا لوگوں کی تکالیف کو بڑھانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ دعوت اس مرض کی جڑ کو ختم کرنے اور مکمل علاج تلاش کرنے کی ہے۔ ورنہ، فلسطین کے عوام کے لیے امداد کی تمام کوششیں محض وقتی آرام کے مترادف رہیں گی۔اسلامی امت کو ایک بنیادی حل کی طرف بڑھنا ہوگا، فلسطین اور اس کی عوام کے لئے اپنی شرعی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی، اس مجرم یہودی وجود کو ختم کرنا ہوگا، اور فلسطین کی مقدس سرزمین کو اس وجود کے ظلم و ستم سے آزاد کرانا ہوگا۔ اگر آپ ایسا نہ کریں گے، تو زمین میں فتنہ اور بڑی خرابی ہوگی۔اللہ تعالیٰ آپ سے بازپرس کرے گا کہ آپ نے اپنے بھائیوں، بہنوں، اور قبلۂ اول کی مدد کیوں نہ کی۔ اس سوال کا جواب تیار کریں اور یقینی بنائیں کہ وہ سچ پر مبنی ہوں، کیونکہ آپ کے احتجاج و مظاہرے اس وقت تک فائدہ مند نہیں ہوں گے جب تک آپ شاہی محلات اور فوجی بیرکوں کی طرف نہ بڑھیں، اور چوکوں سے ہٹنے سے انکار کر دیں، یہاں تک کہ حکمران جواب دیں اور افواج متحرک ہو جائیں۔آپ کے امدادی قافلے بھی اس وقت تک فائدہ نہیں دیں گے، جب تک وہ قافلے ٹینک بریگیڈز، جنگی طیاروں کے اسکواڈرن، اور بحری جنگی جہازوں پر مشتمل نہ ہوں۔
غزہ کے لوگ بھوک سے بے حال تو ضرور ہیں، لیکن آزادی کی خوشی انہیں سب سے زیادہ تسکین دے گی۔ اگرچہ غزہ کے لوگ پھٹے پرانے لباس میں ہیں، لیکن عزت کی پوشاک ان کے لیے سب سے بہترین اوڑھنے کا سامان ہے۔ غزہ کے لوگ سردی اور کہر سے بے یار و مددگار ہیں جو انہیں مارے جا رہی ہے، لیکن ان کے لیے ایک ایسا قائد جو ایک فوج کی قیادت کرتا ہو اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کرائے، اس دنیا کی تمام دولت سے بہتر ہے۔
ارضِ مقدس فلسطین میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن
Latest from
- شام میں سیکولرازم کی دعوت
- سیاسی وفود کی شام میں آمد: اسباب اور محرکات
- غزہ میں نسل کشی جاری ہے جبکہ امریکہ اور دنیا اس نسل کشی کی حمایت کر رہی ہے۔
- شام کے حکمران کو ایسے معیاروں پر مت پرکھیں جو اس کے لیے نہیں ہیں۔
- پاکستان اور افغانستان کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی عصبیت کی نفرت انگیز پکار امریکی ڈکٹیشن کا نتیجہ ہے۔