بسم الله الرحمن الرحيم
اے علمائے مسلمین، آخر آپ کہاں ہیں؟!
(ترجمہ)
سلافۃ شومان
بیت المقدس
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّمَا يَخۡشَى ٱللَّهَ مِنۡ عِبَادِهِ ٱلۡعُلَمَٰٓؤُاْۗ﴾
اللہ "سے تو اس کے بندوں میں سے صرف وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں " [فاطر؛ 35:28)۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«صنفان من الناس إذا صلحا صلح الناس وإذا فسدا فسد الناس: العلماء والأمراء»
"دو قسم کے لوگ ہیں، اگر وہ درست ہو جائیں تو لوگ بھی درست ہو جائیں گے، اور اگر وہ بگڑ جائیں تو لوگ بھی بگڑ جائیں گے: علماء اور حکمران" (ابو نعیم نے الحلیہ میں ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے، اور امام سیوطی نے الجامع الصغیر میں انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے)۔
علماء وہ ہیں جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دین کی سمجھ اور اسلامی علوم میں مہارت عطا فرمائی ہے اور جنہیں حکمت اور علم کے ساتھ پاکیزہ بنایا ہے۔ وہ حلال اور حرام کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ علماء اللہ کے فیصلے اور قدر کو سب سے بہتر سمجھنے والے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ سب سے زیادہ تقویٰ کے حامل، علم کا عَلَم بلند کرنے اور تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کرنے کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق ہونے چاہئیں۔
جو شخص بھی ایسا ہوگا، وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ان احکامات کو ادا کرنے میں پوری لگن کے ساتھ کوشاں ہوگا جن میں حق کی حمایت کرنا اور اس کا پھیلانا، ہر ضرورت مند کو نصیحت کرنا، چاہے وہ حکمران طبقے سے ہو یا عوام میں سے، لوگوں کو حق سے آگاہ کرنا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا شامل ہیں۔ یہ سب سے عظیم فرائض میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«والذي نفس محمد بيده، لتأمرُنَّ بالمعروف ولتنهوُنَّ عن المنكر أو ليوشكَنَّ أن يبعث الله عليكم عقابًا منه، ثم تدعونه فلا يستجاب لكم»
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے، یا پھر قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعائیں کرو گے لیکن وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا"۔
علماء وہ لوگ ہیں جو ظالموں کے خلاف جہاد کرنے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کا سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«سيد الشهداء حمزة ورجل قام إلى حاكم ظالم فأمره ونهاه فقتله»
"شہداء کے سردار حمزہؓ ہیں اور وہ آدمی جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہو، اسے نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور وہ ( حکمران) اسے قتل کر دے"۔
رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا:
«أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر»
"سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے"۔
کون ایسا ہے جو حق و باطل اور عدل و ظلم کے درمیان فرق کو علماء سے بہتر جان سکتا ہے؟ کون ایسا ہے جو حق کے راستے اور جائز تبدیلی کے طریقے کو علماء کی طرح جان سکتا ہے؟ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس حدیث میں بتایا کہ معاشروں کی درستگی علماء اور حکمرانوں کی درستگی سے آتی ہے، اور ان کے بگاڑ سے معاشرے بگڑ جاتے ہیں۔ پس اگر حکمران فساد پھیلانا چاہے، تو متقی علماء اس کی مخالفت کریں گے۔ اور ایسے علماء ہر جگہ اور ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتاب و سنت کی وحی کے نصوص نے یکجا ہو کر علم اور علماء کی فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے ان کے مقام و مرتبے کو نمایاں طور پر بیان کیا ہے، جس کا تذکرہ ذیل میں ہے:
- اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿شَهِدَ ٱللَّهُ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَأُوْلُواْ ٱلۡعِلۡمِ قَآئِمَۢا بِٱلۡقِسۡطِۚ﴾
"اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور فرشتے اور علم والے بھی، جو عدل پر قائم ہیں (وہ بھی گواہی دیتے ہیں )" [آل عمران؛ 3:18)۔
اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے ذکر کے بعد فرشتوں اور اہلِ علم کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ ان کی عزت اور مقام کے لیے کافی ہے۔
- اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يَرۡفَعِ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمۡ وَٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡعِلۡمَ دَرَجَٰتٖۚ﴾
"اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا" (المجادلہ؛ 58:11)۔
عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا:
[للعلماء درجات فوق المؤمنين سبعمائة درجة، ما بين الدرجتين خمسمائة عام]
"علماء کا مرتبہ مومنوں پر سات سو درجے بلند ہے، اور ہر درجے کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے"۔
- اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقَالَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡعِلۡمَ وَيۡلَكُمۡ ثَوَابُ ٱللَّهِ خَيۡرٞ لِّمَنۡ ءَامَنَ وَعَمِلَ صَٰلِحٗا﴾
"اور علم والوں نے کہا، ‘تم پر افسوس! مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے (جو) ثواب اللہ (کے ہاں تیار ہے وہ) کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا"[القصص؛ 28:80]۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«من يرد الله به خيرًا يفقهه في الدين ويلهمه رشده»
"اللہ جس کے لئے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے اور اسے صحیح راستے کی رہنمائی دیتا ہے"۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«العلماء ورثة الأنبياء»
"علماء انبیاء کے وارث ہیں"۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ نبوت سے بڑا کوئی مقام نہیں، اور اس مقام کا وارث بننا سب سے بڑا اعزاز ہے۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«يستغفر للعالم ما في السموات والأرض»
"آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے، وہ عالم کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے"۔
اس مقام سے بڑا مقام کون سا ہو سکتا ہے جس کے لیے زمین و آسمان کے فرشتے استغفار میں مصروف ہوں؟!
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«موت العالم مصيبة لا تجبر وثلمة لا تسد. وموت قبيلة أيسر من موت عالم، وهو نجم طمس»
"عالم کی موت ایک ایسا نقصان ہے جس کا مداوا نہیں، اور ایک ایسا خلا ہے جو پُر نہیں ہو سکتا۔ ایک قبیلے کی موت عالم کی موت سے کم تر ہے، اور وہ ایک بجھتا ہوا ستارہ ہے" (طبرانی نے ابو درداءؓ سے روایت کیا)۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«يوزن يوم القيامة مداد العلماء بدم الشهداء»
"قیامت کے دن علماء کی سیاہی کو شہداء کے خون کے ساتھ تولا جائے گا"۔
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«فضلُ العالمِ على العابدِ كفضلي على أدناكم»
"عالم کی فضیلت ایک عبادت گزار پر ایسے ہے جیسے میری فضیلت تم میں سب سے ادنیٰ پر ہو"۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إنَّ اللَّهَ وملائِكتَهُ وأَهلَ السَّماواتِ والأرضِ حتَّى النَّملةَ في جُحرِها وحتَّى الحوتَ ليصلُّونَ على معلِّمِ النَّاسِ الخيرَ»
"اللہ، اس کے فرشتے، آسمانوں اور زمین کے تمام باشندے، یہاں تک کہ اپنے بل میں چیونٹی اور پانی میں مچھلی، سب اس پر درود بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے"۔
- نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب»
"عالم کی فضیلت عام عبادت گزار پر ایسے ہے جیسے چودھویں کے چاند کی فضیلت باقی ستاروں پر ہو"۔
- اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«يشفع يوم القيامة ثلاث الأنبياء والعلماء والشهداء»
"قیامت کے دن تین لوگ شفاعت کریں گے: انبیاء، علماء، اور شہداء"۔
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
[القلوب أوعية، فخيرها أوعاها، احفظ ما أقول لك: الناس ثلاثة: فعالم رباني، ومتعلم على سبيل نجاة، وهمج رعاع أتباع كل ناعق، يميلون مع كل ريح، لم يستضيئوا بنور العلم، ولم يلجؤوا إلى ركن وثيق. العلم خير من المال، العلم يحرسك وأنت تحرس المال. العلم يزكو على العمل والمال تنقصه النفقة. ومحبة العالم دين يدان بها. العلم يكسب العالم الطاعة في حياته، وجميل الأحدوثة بعد موته. وصنيعة المال تزول بزواله، مات خُزَّان الأموال وهم أحياء والعلماء باقون ما بقي الدهر، أعيانهم مفقودة وأمثالهم في القلوب موجودة]
"دل برتنوں کی مانند ہیں، پس بہترین دل وہ ہے جو سب سے زیادہ بھرا ہوا ہو۔ یاد رکھو جو میں تم سے کہہ رہا ہو: لوگ تین قسم کے ہیں: ایک ربانی عالم، دوسرا نجات کی راہ پر چلنے والا طالب علم، اور تیسرا جاہل، جو ہر چیخ و پکار کرنے والے کے پیچھے چل پڑتے ہیں، ہر ہوا کے رخ پر جھک جاتے ہیں، علم کی روشنی سے منور نہیں ہوتے، اور کسی مضبوط سہارا لینے کی جگہ پر پناہ نہیں لیتے۔ علم مال سے بہتر ہے۔ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے، جبکہ مال کی حفاظت تمہیں کرنی پڑتی ہے۔ علم اعمال کے ذریعے بڑھتا ہے، جبکہ مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے۔ عالم کی محبت ایک ایسا قرض ہے جو ادا کیا جاتا ہے۔ علم عالم کو اس کی زندگی میں اطاعت دلاتا ہے، اور اس کی موت کے بعد ایک خوبصورت داستان چھوڑ جاتا ہے۔ مال کا کام مال کے ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ مال کے خزانے رکھنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہیں، جبکہ علماء اس وقت تک باقی رہتے ہیں جب تک وقت باقی ہے۔ ان کے اجسام ناپید ہو جاتے ہیں، مگر ان جیسے لوگوں کی مثالیں دلوں میں موجود رہتی ہیں"۔
ابو الاسودؒ نے کہا:
[ليس شيء أعز من العلم، الملوك حكام على الناس * والعلماء حكام على الملوك]
"علم سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں ہے۔ بادشاہ عوام پر حکمرانی کرتے ہیں، جبکہ علماء بادشاہوں پر حکمرانی کرتے ہیں"۔
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: [خُيِّر سليمان بن داؤد (عليهما السلام) بين العلم والمال والملك، فاختار العلم فأعطي المال والملك معه] "داؤد علیہ السلام کے بیٹے، سلیمان علیہ السلام کو علم، مال اور بادشاہت میں سے انتخاب کرنے کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے علم کا انتخاب کیا، تو انہیں اس کے ساتھ ساتھ مال اور بادشاہت بھی عطا کر دی گئی"۔
ابن المبارک سے پوچھا گیا:
[من الناس؟ فقال، العلماء. قيل فمن الملوك؟ قال، الزهَّاد قيل، فمن السفلة؟ قال، الذين يأكلون الدنيا بالدين]
"لوگوں میں سب سے بہترین کون ہیں؟" انہوں نے کہا: "علماء"۔ پوچھا گیا: "سب سے بہترین حکمران کون ہیں؟" انہوں نے کہا: "وہ جو دنیا سے بے نیاز ہیں"۔ پوچھا گیا: "سب سے گھٹیا کون ہیں؟" انہوں نے کہا: "وہ لوگ جو دین کو دنیا کے لیے بیچتے ہیں"۔
الحسنؒ نے فرمایا:
[لولا العلم لصار الناس مثل البهائم]
"اگر علم نہ ہوتا تو لوگ جانوروں کی طرح ہو جاتے"۔
امام ابو حامد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
[فهذه كانت سيرة العلماء وعادتهم في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، وقلة مبالاتهم بسطوة السلاطين؛ لكونهم اتَّكلوا على فضل الله تعالى أن يحرسهم، ورضوا بحكم الله تعالى أن يرزقهم الشهادة، فلما أخلصوا لله النيَّة؛ أثَّر كلامهم في القلوب القاسية، فليَّنها، وأزال قساوتها. وأما الآن؛ فقد قيَّدتِ الأطماع ألسن العلماء فسكتوا، وإن تكلموا لم تساعد أقوالَهم أحوالُهم، فلم ينجحوا، ولو صَدَقوا وقصدوا حقَّ العلم؛ لأفلحوا. ففساد الرعايا بفساد الملوك، وفساد الملوك بفساد العلماء، وفساد العلماء باستيلاء حبِّ المال والجاه، ومن استولى عليه حب الدنيا لم يقدر على الحسبة على الأراذل، فكيف على الملوك والأكابر؟]
"یہ علماء کا طریقہ تھا اور ان کی عادت تھی کہ وہ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے تھے، اور حکمرانوں کی دھمکیوں کی قطعی پروا نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ اللہ کے فضل پر بھروسہ کرتے تھے کہ وہ ان کی حفاظت کرے گا۔ وہ اللہ کے فیصلے سے راضی تھے کہ وہ انہیں شہادت عطا کرے گا۔ جب بھی انہوں نے اللہ کے لیے نیت خالص کی تو ان کے الفاظ سخت دلوں کو متاثر کرتے، انہیں نرم کرتے اور ان کی سختی کو ختم کرتے"۔ لیکن اب لالچ نے علماء کی زبانوں کو باندھ دیا ہے، تو وہ خاموش ہو گئے ہیں۔ اگر وہ بولتے بھی ہیں تو ان کے الفاظ ان کے اعمال کے مطابق نہیں ہوتے، اس لیے وہ کامیاب نہیں ہوتے۔ اگر وہ سچے ہوتے اور علم کا حق ادا کرنے کا ارادہ رکھتے تو وہ کامیاب ہو جاتے۔ رعایا کی خرابی حکمرانوں کی خرابی کی وجہ سے ہے، اور حکمرانوں کی خرابی علماء کی خرابی کی وجہ سے ہے، اور علماء کی خرابی دولت و اقتدار کی محبت کے غالب آنے کی وجہ سے ہے۔ جس پر دنیا کی محبت غالب آ جائے، وہ گھٹیا لوگوں کا احتساب بھی نہیں کر سکتا، تو حکمرانوں اور بڑے لوگوں کا احتساب کیسے کرے گا؟"۔
ان آیات، احادیث اور ذریں اقوال کے ذریعے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے علماء کو کس قدر بلند مقام عطا کیا ہے۔ یہ مقام ان کے عظیم کردار کی وجہ سے ہے، کیونکہ انہوں نے ہدایت کا پرچم اٹھایا، امت کو دعوت دی اور اس کی رہنمائی اور نصیحت کی۔ علماء نے اپنے علم کے ذریعے اس امانت کو سنبھالا اور سب سے زیادہ قابل اعتماد اور پیروی کے لائق بنے۔ بشرطیکہ وہ نیک علماء ہوں، جو حق کے حامی اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے والے ہوں، اور حکمرانوں کو نصیحت کرنے میں مخلص ہوں۔ یہی کردار علماء نے اسلامی ریاست کے مختلف ادوار میں ادا کیا۔ ہماری شاندار اسلامی تاریخ ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں علماء نے ظالموں اور باطل پرستوں کا سامنا کیا، نیکی کا حکم دیا اور برائی سے روکا۔
یہی کردار نیک علماء کا ہے، اور یہی مقام ان کا ہر دورِ اسلام میں رہا ہے کہ وہ ہمیشہ حق کی حمایت کرتے رہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے تھے، آخرت کے طلب گار تھے اور اس عارضی دنیا کی کوئی فکر نہ کرتے تھے…
تو آج آپ کہاں ہیں، اے مسلم امت کے علماء ! جب امت کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، اور کافر ریاستیں ہر طرف سے اس پر حملہ آور ہو رہی ہیں؟ بے شک وہ آپس میں کبھی اتحاد نہیں کرتیں، سوائے اس وقت کے جب وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں!...
آخر آج آپ کہاں ہیں، جب "طوفان الاقصیٰ" کے بعد ایجنٹ حکمرانوں کی رسوائی واضح ہو چکی ہے، اور مشرق و مغرب کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی بھی عیاں ہو چکی ہے؟ یہ ایک شدید جنگ ہے، جس میں کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں۔ امت کو اس وقت ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اس کے دین اور اس کی شناخت پر اعتماد بحال کریں، اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، نصرت کے متلاشی ہوں، اور طاقت و تحفظ کے حقیقی ذرائع کی جانب رہنمائی کرتے ہوئے حق کی حمایت اور سرزمین و امت کی آزادی کے لئے جدوجہد کریں۔
اے علماء! جان لیں کہ یہ امانت آپ کے سپرد کی گئی ہے، تو یا تو اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کریں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے اپنا ضمیر صاف ہونے کی ضمانت دیں، تاکہ آپ دنیا اور آخرت میں اجر کے مستحق بن سکیں۔ لیکن اگر آپ اس مقام تک نہ پہنچ سکے اور اس عظیم ذمہ داری کو پس پشت ڈال دیا، تو قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور آپ کیا جواب دے پائیں گے، جب آپ پر امانت میں خیانت کا الزام عائد ہوگا؟ اور اے علماء! یہ بھی جان لیں کہ رسولِ کریم محمد ﷺ نے ہمیں ہمارے دور کے بارے میں خبر دی تھی، جب لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے: ایک وہ جو خالص ایمان پر قائم ہوگا، جس میں نفاق کا شائبہ تک نہ ہوگا، اور دوسرا وہ جو سراسر نفاق پر مبنی ہوگا، جس میں ایمان کی کوئی جھلک نہ ہوگی۔ تو آپ میں سے کون ہے جو ابن تیمیہؒ اور العز ابن عبدالسلامؒ کی سیرت کو دہرا سکے، اور ایک پرہیزگار عالم بن کر دینِ حق کا رہنما بنے، انبیاء علیہم السلام کا حقیقی وارث، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرے، حق بات کہے، اور اللہ کی رضا کے لیے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرے؟
Latest from
- شام میں سیکولرازم کی دعوت
- سیاسی وفود کی شام میں آمد: اسباب اور محرکات
- غزہ میں نسل کشی جاری ہے جبکہ امریکہ اور دنیا اس نسل کشی کی حمایت کر رہی ہے۔
- شام کے حکمران کو ایسے معیاروں پر مت پرکھیں جو اس کے لیے نہیں ہیں۔
- پاکستان اور افغانستان کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی عصبیت کی نفرت انگیز پکار امریکی ڈکٹیشن کا نتیجہ ہے۔