السبت، 01 رمضان 1446| 2025/03/01
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

مصری بیانات: کیا ٹرمپ منصوبے کے بارے میں مصری بیانات سیاسی چال بازی ہیں یا اصولی موقف؟

 

 

تحریر: استاد محمود اللیثی

 

 

(ترجمہ)

 

 

مصری سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اپنا واشنگٹن کا طے شدہ دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ (إيلاف)

 

 

غزہ کے باشندوں کو جبری طور پر منتقل کرنے کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے کے پیش نظر، سیسی کی جانب سے امریکہ کا دورہ کرنے سے انکار کے بارے میں ان بیانات نے؛ فلسطینی کاز کے بارے میں مصری موقف کی حقیقت، فلسطینی کاز کو ختم کرنے کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے میں اس کی سنجیدگی کے بارے میں ایک وسیع بحث چھیڑ دی ہے کہ سیسی ملنے سے انکار کر رہا ہے یا ٹرمپ  انکار کر رہا ہے، جو سیسی سے صرف اپنی خواہشات کو قبول کرنے اور انہیں وائٹ ہاؤس کے ایک ملازم کی طرح اپنے حق میں واجب التعمیل احکامات سمجھنے کے علاوہ اس سے کچھ قبول نہیں کرتا، جیسا کہ وائٹ ہاؤس کے سابقہ دورے کے دوران لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس امداد کے ذریعے جو مصری حکومت اور اس کی فوج کو ادا کی جاتی ہے جس کے پیچھے یہ حکومت بھاگتی ہے، اور یہاں تک کہ امریکی صدر کے واضح خطاب کے ذریعے بھی واضح ہے جس میں اس نے سیسی اور اردن کے بادشاہ کی جانب سے قبولیت کے بارے میں پراعتماد انداز میں بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ضرور قبول کریں گے،ل۔ اور یہ حقیقت ہے، اگرچہ وہ جبری ہجرت کے منصوبے کو مسترد کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن وہ ایسے سفارتی راستے تلاش کرنے کے لیے کام کریں گے جو اس منصوبے کو قابلِ نافذ بنائیں، یا کوئی متبادل منصوبہ ہے جسے زمین پر نافذ کیا جانا مطلوب ہے جس کے تحت غزہ ایک غیر مسلح علاقہ بن جائے گا جس میں بقا اور تعمیر نو کے بدلے میں، نہ حماس ہو گی، نہ مزاحمت اور نہ ہی مجاہدین، لیکن اسے یہودی بھی قبول نہیں کریں گے۔

 

 

ٹرمپ کا غزہ کے باشندوں کو سینائی اور اردن میں جبری طور پر منتقل کرنے کا منصوبہ ایک قدیم نوآبادیاتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد سرزمینِ مبارکہ کو اس کے باشندوں سے خالی کرنا اور یہودی وجود کو ایک خالص یہودی ریاست کے طور پر قائم کرنا ہے۔ یہ منصوبہ "صدی کی ڈیل" کے تناظر میں ہے جس کا مقصد مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔

 

 

یہ دعویٰ کہ مصر، فلسطینیوں کو جبری طور پر منتقل کرنے کے منصوبے کو مسترد کرتا ہے، حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مصری حکومت غزہ کی پٹی کا معاشی اور انسانی طور پر براہ راست گلا گھونٹ رہی ہے، جس کی وجہ سے وہاں زندگی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے، اور اس کے باشندوں کو نکلنے کا موقع تلاش کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس طرح، حکومت عملی طور پر جبری ہجرت کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے میں معاونت کر رہی ہے جس کی وہ مخالفت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔

 

 

ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کرنے کے بارے میں مصری بیانات وقت حاصل کرنے اور جھوٹا محب وطن موقف ظاہر کرنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں ہیں، جبکہ حقیقت یہ ثابت کرتی ہے کہ مصری حکومت صرف مغربی منصوبوں کی خدمت کرتی ہے، اور انہیں لازمی نافذ ہونے والے اسٹریٹجک منصوبے سمجھتی ہے۔

 

 

ہمیں اس بات پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مصری صدر ٹرمپ سے ملنے جائیں گے یا نہیں، یا وہ غزہ کے باشندوں کو جبری طور پر منتقل کرنے کے منصوبے کو قبول کریں گے یا نہیں، اور نہ ہی اس پر کہ وہ ٹرمپ کے دیگر منصوبوں پر عمل پیرا ہوں گے یا نہیں، کیونکہ ہر صورت میں وہ امریکہ کا ایجنٹ اور اس کے مفادات کا خادم ہے، اور وہ قوم کا غدار ہے، غاصب وجود کے جرم میں شریک ہے اور اس کی سرحدوں کا امین ہے اور وہ امت اور اس کی افواج اور اس وجود کو اکھاڑ پھینکنے اور فلسطین کی آزادی کے درمیان حائل ہے، اور یہ بیانات اور بین الاقوامی نظام پر انحصار ان فوجوں کو بے حس کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ مصری حکومت واقعی مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جبکہ وہ قابض کا ایک اٹوٹ حصہ اور اس کی سلامتی کا والو ہے، بلکہ وہ حقیقی آہنی گنبد ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے۔

 

 

حقیقی حل خالی بیانات سے نہیں ہو گا، اور نہ ہی بین الاقوامی نظام پر انحصار کرنے سے ہو گا، بلکہ پورے فلسطین کو آزاد کرانے اور اس کے باشندوں کی حقیقی معنوں میں مدد کرنے کے لیے افواج کو حرکت میں لانے اور اس میں حائل ہر چیز کو دور کرنے سے ہو گا۔ القدس کو ایسی حکومت آزاد نہیں کروائے گی جو گزرگاہ کو بند کرتی ہے اور اپنے اور اسلام کی مقبوضہ سرزمین کے درمیان سرحد کی حفاظت کرتی ہے اور ہتھیاروں کو  مزاحمت کاروں تک پہنچنے سے روکتی ہے، اور نہ ہی یہ قابضین کی حفاظت کے لیے بنائے گئے بین الاقوامی قوانین کے ذریعے حقوق بحال ہوں گے۔ بلکہ فلسطین اس وقت آزاد ہو گا جب امت اپنے دین کی طرف لوٹے گی اور ایک ریاست میں اس کے نفاذ کے لیے کام کرے گی، اور ایک مخلص قیادت کے پیچھے متحد ہو جائے گی جو اس کی عزت بحال کرے، اور فلسطین کی آزادی کو ایک ایسا فیصلہ کن مسئلہ بنائے جو سمجھوتے یا سودے بازی کو قبول نہ کرے۔

 

 

امتِ مسلمہ کے پاس 13 ملین سے زیادہ فوجی ہیں، اور اس کے پاس اتنی دولت اور فوجی صلاحیتیں موجود ہیں کہ وہ چند دنوں میں یہودی وجود کو کچل سکتی ہے۔ لیکن ان افواج کی نقل و حرکت میں اصل رکاوٹ وہ حکومتی نظام ہیں جو خلافتِ عثمانیہ کو گرانے کے بعد نوآبادیاتی طاقتوں نے قائم کیے تھے، اور جن کا کردار مغربی مفادات کا تحفظ اور یہودی وجود کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔

 

 

لہذا، فلسطین کی آزادی صرف ان حکومتوں سے اسلامی دارالحکومتوں کو آزاد کرانے اور خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے جو امت کو دوبارہ متحد کرے۔ جب مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہو گا، تو وہ افواج کو اسی طرح حرکت میں لائے گا جیسے صلاح الدین ایوبی نے القدس کو آزاد کراتے وقت کیا تھا، اور جس طرح معتصم نے ایک مدد طلب کرنے والی خاتون کی مدد کے لیے پوری فوج کو حرکت دی تھی۔

 

 

اے سرزمینِ کنانہ کی فوج میں موجود مخلصو: حکومت کی مہم جوئی اور خالی دھمکیاں آپ کی کوششوں کو ان چیزوں میں ضائع کر رہی ہیں جو آپ کو دنیا میں فائدہ نہیں دیں گی اور نہ ہی آخرت میں آپ کے کچھ کام آئیں گی، بلکہ یہ آپ کو سرزمینِ مبارکہ کو آزاد کرانے اور اس کے باشندوں کی مدد کرنے کے فریضے سے روک رہی ہے جس کے بارے میں آپ سے قیامت کے دن اللہ کے سامنے پوچھا جائے گا، پس اللہ کے لیے اپنا جواب تیار کرو یا اس حکومت کو اپنے آپ سے اتار پھینکو اور اس کی گندگی اور ایجنٹی سے بیزاری کا اعلان کرو اور اسے ایک ایسی ریاست بنانے کا اعلان کرو جو آپکے درمیان اسلام کو نافذ کرے اور اسے ہدایت اور نور کا پیغام بنا کر دنیا تک لے جائے۔ ایک ایسی ریاست جو آپ کو دنیا اور آخرت میں اللہ کی رضا کی طرف دھکیلے گی۔ پس آپ کو تمام اسلامی سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے متحرک کرے گی نہ کہ صرف فلسطین کو اور اس میں کمزوروں کی مدد کے لیے۔ اسلام کی ایسی ریاست جو اللہ سبحانہ کو راضی کرے گی یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر قائم دوسری خلافتِ راشدہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

 

﴿وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيراً﴾

 

 

"اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لئے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار  بنا دے۔" (سورۃ النساء: آیت 75)

 

 

ولایہ مصر میں حزب التحریر کے اطلاعات کے دفتر کے رکن

 

 

Last modified onجمعرات, 27 فروری 2025 20:43

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک