الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 3 اگست 2018

۔ برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام کی اصلاح نہیں ہوسکتی،

لازم ہے کہ اسے اسلامی عدلیہ سے تبدیل کیا جائے

- بات چیت کے ذریعے افغانستان میں امریکی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں 

- مودی کو دعوت دینے کاسوچا بھی کیسے گیا جبکہ اس کو دعوت دینا ابو جہل کو دعوت دینے کے مترادف ہے؟

تفصیلات:

 

برطانوی راج کے چھوڑے ہوئے عدالتی نظام کی اصلاح نہیں ہوسکتی،

لازم ہے کہ اسے اسلامی عدلیہ سے تبدیل کیا جائے

28 جولائی 2018 کو چیف جسٹس آف پاکستان ، میاں ثاقب نثار، نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنے ہی گھر، عدلیہ، کو  لوگوں کے توقعات کے مطابق ٹھیک کرنے  میں ناکام رہے ہیں۔  انہوں نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ڈسٹرکٹ عدلیہ کے ججوں کے اجتماع میں کہا، "مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے"۔  اس اجتماع میں سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کےموجودہ ججز بھی موجود تھے۔ سول مقدمات کے انتہائی سست روی سے چلنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ  موجودہ وقت کی ضروریات کے مطابق قانون میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزیدکہا ، "صرف طریقہ کار کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیاں مقصد پورا نہیں کریں گی"۔ 

 

پاکستان میں موجود عدالتی نظام برطانوی راج کا چھوڑا  ہوا ہے جو اس نے غلاموں پر حکمرانی کے لیے نافذ کیا تھا۔ اس عدلیہ کوجانتے بوجھتے اس طرح سے کھڑا کیا گیا تھا  کہ کو ئی  غلام کبھی بھی برطانوی قبضے  اور حکمرانی کے خلاف بات کرنے یا جدوجہد کرنے کی ہمت نہ کرے۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی ہمت کر گزرتا تھا تو اس کے خلاف چند مقدمات بنا کر اس کی زندگی کو جہنم بنادیا جاتا تھا۔ ان مقدمات کے بعد وہ جیل جا کر اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کا انتظار کرتا تھا جبکہ اس دوران اس کے گھر والے اس کی ضمانت اور اس کی معصومیت ثابت کرنے کے لیے ایک سے زیادہ عدالتوں کےدروازے کھٹکٹاتے رہتے تھےاور اس تمام عمل میں عموماً کئی سال گزر جاتے تھے۔  اسلام کے نام پرپاکستان بننے کے بعد سے آج تک  بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے کبھی بھی اس برطانوی عدالتی نظام سے جان چھڑانے اور انسانی تاریخ کے سب سے موثر  اسلامی عدالتی نظام کے نفاذ کی کوشش ہی نہیں کی۔  یہی وجہ ہے کہ آزادی کے ستر سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم اس قسم کے مقدمات کے فیصلے سنتے ہیں  کہ جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان  ایک شخص کے خلاف مقدمے میں یہ فیصلہ دیتی ہے کہ وہ معصوم ہے، اُسے اِس مقدمے میں بدنیتی سے ملوث کیا گیا ہے اور اسے فوری طور پر رہا کیا جائے جبکہ اس شخص کو جیل میں ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہوتا ہے۔  کچھ مقدمات  میں تو یہ بھی ہوا ہے کہ جب اس کی معصومیت اور بے گناہی ثابت ہوئی تو پتہ یہ چلا کہ وہ جیل میں طبعی موت مر چکا ہے یا یہ کہ اسے تو پھانسی ہو چکی ہے۔  لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق  پاکستان کی اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں میں 30 نومبر 2017 تک ایک کروڑ 87 لاکھ تین ہزار پچاسی مقدمات زیر التوا ہیں۔ 

 

اس عدالتی نظام کی برائی اور ناکامی صرف یہ نہیں ہے کہ یہ برطانوی راج کی چھوڑی ہوئی ہے بلکہ اس کی برائی اور ناکامی یہ ہے کہ اس کی بنیاد ہمارا عقیدہ یعنی اسلام نہیں ہے۔  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِى شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلآخِرِ 

"اگر کسی معاملے میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے“(النساء:59)۔

 اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، 

وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُمْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ

"اور ان کے معاملات میں اللہ کی اتاری وحی کے مطابق فیصلے کرو“(المائدہ:49)۔

 لہٰذا موجودہ عدالتی نظام کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ پرانا ہو چکا ہے اور اس میں تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ اسلام کا عدالتی نظام نہیں ہے۔  لہٰذا اس مسئلےکا حل اصلاحات نہیں ہے بلکہ حل اس برطانوی عدالتی نظام کا مکمل خاتمہ اور اسلامی عدالتی نظام کا قیام ہے۔ 

   

بات چیت کے ذریعے افغانستان میں امریکی کامیابی کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں  

30 جولائی 2018 کو امریکہ میں پاکستان کے سفیر علی جہانگیر صدیقی نے پینٹاگون میں امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کو افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں میں اضافے کے حوالے سے باخبرکیا۔ سفیر علی صدیقی نے ملاقات کے بعد ڈان کو بتایا کہ "ہم نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے مل کر کا کام کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "میں اس بات کا اعادہ کرتا ہو کہ امن اور مفاہفت کے عمل میں پاکستان کردار ادا کرتا رہے گا"۔ میٹس کے ساتھ یہ ملاقات افغان صدر اشرف غنی کی پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان سے ٹیلی فونک رابطے کے چند روز بعد ہوئی جس میں انہیں ان کی جماعت کی انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد  دی تھی۔ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماوں نے  "ماضی کو بھول کر دونوں ممالک کے خوشحال سیاسی، معاشرتی اور معاشی مستقبل کے لیے نئی بنیادیں ڈالنے پر اتفاق کیا"۔

 

عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل ہی منتخب حکمران افغانستان کے لیے امریکی منصوبوں پر تیزی سے آگے بڑھ کر کام کررہے ہیں تا کہ ہمارے دروازے پر امریکہ کو اپنی موجودگی  کو مستقل بنیادوں پر یقینی بنانے کے لیے بات چیت کے ذریعے کوئی حل مل جائے۔ قابض امریکی استعمار کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونے سے طویل قبائلی مزاحمت ناکام ہو جائے گی جبکہ وہ اب کامیابی کے قریب ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں فوجی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔  اوباما کے دوسرے عہدے صدارت کے وقت سے امریکہ افغانستان اور پاکستان کے بہادر قبائلی مسلمانوں کے خلاف کامیابی کی امید کھو چکا ہے ۔ اگست 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ نے افغان حکمت عملی کا جائزہ لیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ افغان جنگ جیت نہیں سکتا۔  اب امریکہ پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کے افغانستان میں موجود اثرو رسوخ کو استعمال کرہا ہے تا کہ بات چیت کے ذریعے وہ مقصد حاصل کیا جائے جو امریکہ میدان جنگ میں کسی صورت حاصل نہیں کرسکتا۔ 

 

منتخب حکمرانوں سے مسلمانوں کو پوچھنا چاہیے کہ کیا غداری کی اس راہ پر چل کر وہ یہ دعوی کریں گے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی مثال بنائیں گے؟  اگر یہ امریکی منصوبہ کامیاب ہو گیا تو اس کے نتیجے میں امریکہ افغانستان میں مستقل فوجی اڈے قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔  پاکستان کی قیادت میں موجود امریکی ایجنٹ یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں کامیاب ہوتا کہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت کی دہلیز پر اسے اپنی فوجی اور انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کرنے کا موقع مل جائے۔ ان اڈوں کے ذریعے امریکہ کا ساتھی بھارت مسلم ریاستوں کے خلاف اپنی سازشوں کو عملی جامع پہنائے گا اور خطہ مزید تباہی و بربادی کا شکار ہوجائے گا۔ 

 

امریکی منصوبے کو ختم کیا جانا ضروری ہے۔ ایک مخلص قیادت مسلم افواج کے ساتھ قبائلی جنگجووں کو حرکت میں لائے گی اور نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام کے ذریعے خطے میں سانپ کے سر کو کاٹ کر پھینک دے گی۔ امریکہ چھوٹے چھوٹے جنگجووں گروہوں سے گھبرا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی ریاست کا مقابلہ نہیں کرسکتا جو اسلام کی بنیاد پر حکمرانی اور مسلمانوں کو ایک وحدت کی صورت میں یکجا کرتی ہو۔  خلیفہ راشد فوری طور پر امریکہ کوخطے نکال باہر کرنے کے لیے  پاکستان و افغانستان کو یکجا کرے گا اور  اس کی کمزور افواج کو آسانی سے خطے سے نکال باہر کرے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

فَلاَ تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمْ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ

"تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ۔ اور تم تو غالب ہو۔ اور اللہ تمہارے ساتھ ہے وہ ہرگز تمہارے اعمال کو کم (اور گم) نہیں کرے گا"(محمد:35)

 

مودی کو دعوت دینے کاسوچا بھی کیسے گیا جبکہ اس کو دعوت دینا ابو جہل کو دعوت دینے کے مترادف ہے؟

2اگست  2018 کو ڈان ٹی وی نے یہ رپورٹ نشر کی کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیر مین اور عنقریب وزارت اعظمیٰ  کا حلف اٹھانے والے عمران خان نے آخر  کاریہ فیصلہ کیا کہ غیر ملکی  رہنماوں اور مشہور افراد کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی دعوت نہیں دی جائے گی بلکہ یہ تقریب  سادگی سے منعقد ہو گی۔ یہ فیصلہ 11 اگست 2018 کو عمران خان کی تقریب حلف برداری میں مودی کو شرکت کی دعوت دینے  کی حوالے سے ہونی والی بحث کی بعد کیا گیا ۔ اس حوالے سے یکم اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما وں نے خارجہ سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کی تھی جس میں یہ بات چیت کی گئی تھی کہ کن غیر ملکی عہدیداروں کو تقریب حلف برداری میں مدعو کیا جائے۔ ان تمام باتوں کا پس منظر یہ تھا کہ عمران خان نے 26 جولائی کو انتخابات کے بعد اپنے پہلے خطاب میں مودی کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھایا تھا جس کے جواب میں مودی نے 30 جولائی کو انہیں مبارک باد کا فون کیا تھا۔   

 

کس طرح سے وہ جماعت مودی کودعوت نامہ دینے کا سوچ بھی سکتی تھی جو ریاست مدینہ کے نمونے کی پیروی کرنے کا دعویٰ کررہی ہے؟  یہ تو ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کو  دعوت دی جائے۔ ہندو ریاست کی دشمنی  سات دہائیوں سے ثابت شدہ ہے۔ مودی بھارتی ریاست گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا جب 28 فروری 2002 کو ہندو بلوائیوں نے کم ازکم دوہزار مسلمانوں کو گجرات بھر میں شہید کردیا تھا۔  نریندر مودی نے بلوائیوں کی حوصلہ افزائی اور قتل و غارت کو صحیح قرار دینے کے لیے کئی بیانات دیے تھے۔ یکم مارچ  کو، جب قتل و غارتگری اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی، مودی نے کہا تھا کہ، "ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے(ہر کریاں کی پراتگریاں ہوتی ہے)۔ اور 2مارچ کو ،جبکہ گجرات کے کئی علاقوں میں جلاؤ گھیراوں کا سلسلہ جاری تھا، مودی نے ہندو بلوائیوں کومزید وقت دینے کے لیے یہ جھوٹ بولا،"گجرات امن  کی راہ پر چل پڑا ہے اور یہاں حالات آہستہ آہستہ معمول پر لوٹ رہے ہیں"۔  اور پھر وزیر اعظم بن کر مودی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہے اور ساتھ ہی لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر کھلی جارحیت مسلط کررکھی ہے۔ 

 

لیکن اس تمام حقائق کے باوجود  پاکستان کی نئی سیاسی قیادت  اس بات کو مناسب سمجھتی ہے کہ مشرکین کے سردار  کی عزت افزائی کی جائےجبکہ اس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ آخر مودی کو بلانے کی بحث شروع کرنی کی ضرورت ہی کیا تھی اور پھر اس پر یوٹرن بھی لے لیا گیا؟کیا یہ عمل کرنے کا مقصد عوامی رائے جاننا تھا یا یہ کہ آئیندہ کے لیے زمین ہموار کرنا تھا؟ 

 

صرف نبوت کے طریقے پرخلافت ہی ایسا سیاسی طبقہ پیدا کرے گی جو مسلمانوں کے کھلے دشمنوں سے ہر قسم کا تعلق ختم کردیں گے۔ خلافت جارح غیرمسلم ریاستوں کے خلاف دشمنوں جیسا رویہ اپنائے گی جنہوں نے مسلم علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے یا جو مسلمانوں کو کسی بھی اور طریقے سے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔  خلافت تمام مسلم ممالک کو ایک واحد ریاست میں یکجا کرنے کے لیے کام کرے گی تا کہ ایک طاقتور ریاست وجودمیں آئے۔ لہٰذا ریاستِ خلافت بھارت کے ساتھ ہر قسم کے سفارتی تعلقات ختم کردے گی اور اس کے ساتھ تعلقات حالت  جنگ کے حوالے سے رکھے جائیں گے۔ خلیفہ مقبوضہ کشمیر کی ماوں ، بہنوں اور بھائیوں کی پکار کے جواب میں  مسلم فواج کو مقبوضہ کشمیر  کی آزادی کے لیے حرکت میں لائے گا۔  وہ خطے کے مسلم ممالک کے درمیان قائم استعماری سرحدوں کو ختم کرکے   ان کے انسانی اور مادی وسائل کو ایک ریاست میں  یکجا کردے گا۔ وہ خطے میں اسلام کی حکمرانی  واپس لائے گا اور خطے کے تمام مظلوموں کو ہندو مشرکین کے ظلم و ستم سے نجات دلائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

"جو لوگ کافر ہیں، اہل کتاب یا مشرک وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے خیر (وبرکت) نازل ہو۔ اور اللہ تو جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے ساتھ خاص کر لیتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے"(البقرۃ:105) 

Last modified onجمعرات, 09 اگست 2018 01:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک