بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز10اگست 2018
۔ پاکستان کے اثاثوں کی مزید نجکاری سے قرضوں اور غربت میں کمی نہیں آئے گی
- سعودی قیادت میں بننے والےفوجی اتحاد کا مقصد امریکہ کی جنگ لڑنا ہے جس کو اسلام حرام قرار دیتا ہے
- مزید سودی قرضے لے کر کیا ریاست مدینہ کی مثال کی پیروی کی جاسکتی ہے؟
تفصیلات:
پاکستان کے اثاثوں کی مزید نجکاری سے قرضوں اور غربت میں کمی نہیں آئے گی
2 اگست 2018 کو پاکستان کے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے فنائنشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ملک کو بڑے پیمانے پر نجکاری کرنے کا سوچنا پڑے گا تا کہ معاشی بحران سے نکلنے کے درکار لازمی مالیاتی وسائل حاصل کیے جاسکیں۔ انہوں نے اس امید کااظہار کیا کہ اس عمل سے آئی ایم ایف کو بھی اچھے معاہدے کے لیے قائل کیا جاسکے گا۔
پاکستان میں بڑے پیمانے پر نجکاری کا سلسلہ نواز شریف کی پہلی حکومت نے نومبر 1991 میں شروع کیا تھا۔ اُس حکومت نے نجکاری کو اپنی معاشی پالیسی کا اہم ترین ہدف قرار دیا تھا اور 1991 میں نجکاری کمیشن کا قیام عمل میں لائی تھی جس کے قانون کے تحت نجکاری کے عمل سے حاصل ہونے والی رقم کا 90 فیصد قرضوں کی ادائیگی اور باقی 10 فیصد کو غربت کے خاتمے کے لیے کام میں لایا جائے گا۔ 1991 سے اپریل 2006 تک مختلف حکومتوں نے 160 اداروں کی نجکاری کے عمل کو مکمل کیا یا اس کی منظوری دی جس کے نتیجے میں 395.241ارب روپے حاصل ہوئے۔ لیکن نجکاری کے عمل سے نہ تو پاکستان کے قرضےکم ہوئے اور نہ ہی غربت کم ہوئی۔
آنے والی حکومت، جو اس بات کا دعوی کررہی ہے کہ وہ پاکستان کوریاست مدینہ کی مثال بنائے گی، درحقیقت ایک ناکام سرمایہ دارانہ منصوبے کو ایک بار پھر آزمانے جارہی ہے۔ یہ حکومت بھی پچھلی کرپٹ حکومتوں سے مختلف ثابت نہیں ہوگی اور اس کے اقدامات کے نتیجے میں وہی پرانے نتائج سامنے آئیں گے یعنی قرضوں اور غربت کی صورتحال مزید خراب ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس نہ تو اسلامی معاشی نظام کا علم ہے اور نہ ہی فہم ہے کہ وہ اسے نافذ کرسکے جس کو ریاست مدینہ نے نافذ کیا تھا۔
پاکستان کے مسلمانوں کو حقیقی تبدیلی کے لیے حزب التحریر کی مدد و تائید کرنی چاہیے جو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ حزب التحریر نے اسلام کے اُس معاشی نظام پر کئی کتابیں مرتب کی ہیں جس کو ریاست مدینہ نے نافذ کیا تھا۔ ان کتابوں میں" اسلام کا معاشی نظام"، " ریاست خلافت کے اموال"،" مثالی معاشی پالیسی" اور "معاشی بحران: اس کی حقیقت اور اسلام کے نقطہ نظر سے اس کا حل" شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آنے والی ریاست خلافت کے مجوزہ آئین کے 191 دفعات میں سے 46 دفعات کا تعلق معیشت سے ہے اور ان میں سے ہر ایک دفعہ کے ساتھ اس کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل بھی درج کیے گئے ہیں۔ حزب التحریر کے پاس پوری مسلم دنیا میں کئی شباب ہیں جو اسلامی معیشت کا فہم رکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار اسلامی احکامات کو نافذ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ لہٰذا حقیقی تبدیلی اس جماعت کے ذریعے ہی آسکتی ہے جس کے پاس ایسے افراد ہوں جو قرآن و سنت کا فہم رکھتے ہوں اور معیشت یا زندگی سے متعلق کسی بھی مسئلے پر اسلامی احکامات کو نافذ کرسکتے ہوں۔
سعودی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کا مقصد
امریکہ کی جنگ لڑنا ہے جس کو اسلام حرام قرار دیتا ہے
7 اگست 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کو یہ بتایا گیا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب میں فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیےوفاقی کابینہ کی جانب سے این او سی (کوئی اعتراض نہیں کا سرٹیفیکٹ) ان کے سعودی عرب جانے سے قبل جاری نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن سیکریٹری دفاع ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل ضمیر الحسن نے عدالت کو بتایا کہ جنرل ہیڈکواٹرز(جی ایچ کیو) کی اجازت کے بعد، کہ وہ اس عہدے کو قبول کرسکتے ہیں، وزارت دفاع نے انہیں این او سی جاری کیا تھا۔6 جنوری 2017 کو اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کو سعودی قیادت میں "دہشت گردی" سے لڑنے والی فورس کا سربراہ بنایا گیا ہے اور یہ قدم حکومت کی مرضی سے اٹھایا گیا تھا۔ تمام فریقین کی باتیں سننے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے، جس کی قیادت چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کررہے تھے، یہ حکم دیا کہ اس معاملے کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ ہنگامی نوعیت کا ہے، لیکن اس کے باوجود اس معاملے کوانہوں نے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک التوا میں ڈال دیا۔
وزرات دفاع کی جانب سے جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں بننے والے اتحاد کی اجازت دینے کے آٹھارہ مہینے بعد اب عدلیہ اس معاملے کودیکھ رہی ہے۔ اس معاملے پر عدلیہ کے لیے فیصلہ دینا بہت ہی آسان ہوتا اگر وہ اسلام کی بنیاد پر فیصلے دی رہی ہوتی۔ یہ بات کسی بھی ہوش مند اور باخبر شخص پر واضح ہے کہ "دہشت گردی کے خلاف" درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ اس صلیبی جنگ کی قیادت مغربی استعماری اقوام کررہی ہیں جبکہ اس جنگ کو مسلم دنیا میں موجود ان کے ایجنٹ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ کا مقصدامت مسلمہ کو دبانا ہے جو خواب غفلت سے جاگ رہی ہے تا کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کو روکا یا کم از کم تاخیر کا شکار کیا جاسکے۔
لیکن اس کے باوجود جمہوریت مسلمانوں پر مسلط حکمرانوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے مغربی آقاوں کے حکم پر ہماری افواج کو بین الاقوامی اور علاقائی اتحادوں کا حصہ بنانے کے لیے رضاکار کے طور بھیجتے ہیں۔ جمہوریت ایسے قوانین بناتی ہے جو امت کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے تمام مظالم کو قبول کرلیں چاہے وہ ان کا قتل عام ہو یا ان کے علاقوں پر قبضہ ہو ، یا ان کے اس حق سے انکار کہ وہ عملی طور پر ایک امت اور خلافت کے ذریعے خود پر اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں ۔ جمہوریت ایجنٹوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ مغربی صلیبیوں کو مسلمانوں کی فوج مسلمانوں کوہی کچلنے کے لیے فراہم کریں جبکہ صلیبی افواج یہ کام خود کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ حکمران اس گناہ میں شریک ہونے کے لیے بھاگے جاتے ہیں جس سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
"اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے "(المائدہ:2)۔
کیا یہ بات واضح نہیں ہے کہ ان معاملات کو التوا میں ڈالنا جو کہ اسلام کے حکم کے خلاف ہیں اس وجہ سے ممکن ہوتا ہے کیونکہ ہمارے پاس وہ ریاست نہیں ہے جو صرف اور صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر حکمرانی کرے؟
مزید سودی قرضے لے کر کیا ریاست مدینہ کی مثال کی پیروی کی جاسکتی ہے؟
8 اگست 2018 کوحالیہ انتخابات کے بعد پہلی بار ایک باقاعدہ پریس کانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پہلے سو دنوں میں عوام کو زرتلافی (سبسیڈی) یا سہولت فراہم کرنے کی بات کرنا انہیں بہلاوے (لالی پوپز)دینے کی مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ پہلے سو دنوں میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوگا جو قوم کی تقدیر بدل دے گا، لیکن ایک واضح سمت کا تعین ہوجائے گا جس کاہم نے وعدہ کیا تھا اور جس کی جانب ہم بڑھیں تھے۔ پی ٹی آئی اس وقت حل تلاش کرنے کی کیفیت میں ہے۔اسد عمر نے کہا "صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس یہ حق نہیں ہے کہ کس حل کو اختیار کریں بلکہ ہمیں تمام اقسام کے حل کو ایک ساتھ سامنے رکھنا ہوگا جس میں اگلے چھ ہفتوں میں آئی ایم ایف سے مدد کا حصول بھی شامل ہے"۔ قرض کی دیگر اقسام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ سکوک بونڈ اور یورو بونڈ ایک بار پھر حل کے طور پر سامنے ہیں اگرچہ اس قسم کے بونڈ روپے کی قدرمیں کمی کا باعث بنتے ہیں اور اس طرح عمومی طور پر مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
کئی دوسرے ممالک کی طرح پاکستان نے 1980 سے آج کے دن تک آئی ایم ایف سے لیے جانے والے بارہ پروگراموں سے نقصان ہی اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد حاصل ہونے والی متوقع رقم اور چین سے لیے جانے والے قرضوں، جو کہ اونچی شرح پرلیے گئے تجارتی قرضے ہیں،کو جمع کرلیا جائے تو آئی ایم ایف سے آخری بار لی جانے والی رقم یعنی 6.6ارب ڈالر کے برابر ہوجائے گی۔ پاکستان پہلے ہی قرضوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے جہاں اس کا بیرونی قرض 92 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان مزید قرضے مانگ رہا ہے تا کہ پچھلے قرضوں کو ادا کرسکے۔ اور اس طرح صورتحال مزید خراب ہوجائے گی کیونکہ آنے والی حکومت بھی مزید قرضے لے کر صورتحال کو درست کرنے کی روش پر چلنے کا اندیہ دے رہی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اس بات کا اندیہ دیاہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضے جو 2018 میں 92 ارب ڈالر ہیں، 2023 تک 144 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ اس کے علاوہ بیرونی اداروں یعنی آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے لیے جانے والے قرضوں کی وجہ سے نہ صرف سالانہ سود کی ادائیگیوں کے بوجھ میں اضافہ ہوجائے گا بلکہ ان استعماری اداروں سے تعاون کے بدلے میں پاکستان کی معیشت کو ان کے پروگراموں کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا جس کی وجہ سے توانائی، معدنیات، بھاری صنعتوں، مواصلات کے شعبوں میں موجود اداروں کی نجکاری کی جائےگی اور پاکستان ان سے حاصل ہونے والی دولت سے محروم ہوجائے گا۔ اس کے بعد محصولات میں ہونے والی کمی کودور کرنے کے لیے آئی ایم ایف مزیدکمر توڑ ٹیکسوں کے نفاذ کا مطالبہ کرے گا جو صنعت اور زراعت کو مفلوج کردیتا ہے اور مقامی طور پر لوگوں کے خرچ کرنے کی صلاحیت کو جامد کردیتا ہے۔
یہ سب کچھ کیسے ریاست مدینہ کی مثال ہوسکتا ہے؟ یقیناً رسول اللہ ﷺ نےمدینہ میں ریاست کے قیام کے بعد کبھی دشمن قریش سے سودی قرضے نہیں لیے تھے۔ آنے والے حکمرانوں کی جانب سے اسلام کے لیے صرف زبان جمع خرچ پر مسلمانوں کو خبردار رہنا چاہیے اور ان کے بیانات سے آگے بڑھ کر اسلام کے احکامات کودیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسلام کے مکمل نفاذ کا حکم دیتے ہیں جس کے ذریعے تیزی سے اور بڑے پیمانے پر محصولات جمع ہوتے ہیں جو اربوں ڈال تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسلام اس بات کامطالبہ کرتا ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان پرحکومت کرنے کے دوران ناجائز ذرائع سے دولت جمع کی ہے اسے ریاست اپنے قبضے میں لے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا کیونکہ اسلام میں جو حکمرانی کرتا ہے اسے اس بات کا حق نہیں ہوتا کہ وہ اس دوران کاروبار کرے بلکہ اس کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ ریاست کی جانب سے ملنے والی تنخواہ پرہی زندگی بسر کرے۔ لہٰذا اگر وہ دوران حکومت حیر انگیز طور پر بہت زیادہ مالدار ہوجاتا ہے تو اس کی وہ تمام دولت جو دوران حکومت اس نے جمع کی ہوتی ہے اس سے چھین کر ریاست کے خزانے میں جمع کرادی جاتی ہے۔ ناجائز ذرائع سے جمع کی جانے والی دولت کا اندازہ اربوں ڈالزر میں ہے کیونکہ پاکستان میں یہ بات عام ہے کہ موجودہ حکمران ملک کے نام پر لیے جانے والے قرضوں سے اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست خلافت سودی قرضوں کی ادائیگی کے لیے کوئی رقم جاری نہیں کرے گی کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سودکو حرام قرار دیا ہے،
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
"وہ کہتے ہیں سود بھی تجارت ہی کی طرح ہے۔ لیکن اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے"(البقرۃ:175)۔
دوسرے کئی ممالک کی طرح پاکستان بھی سود کی شکل میں اصل قرضے کی رقم سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہر سال قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی ہی ہمارے بجٹ کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ختم کریتا ہے۔ اس کے علاوہ نبوت کے طریقے پر قائم ریاست خلافت تیزی سے حرکت میں آئی گی تا کہ مسلم علاقوں کو یکجا کر کے ایک ریاست خلافت میں ضم کردیا جائے اور اسلام کے حکم کے مطابق توانائی اور معدنی وسائل کو عوامی ملکیت قرار دے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ابھی جو اربوں ڈالر توانائی تیل و گیس کی برآمد پر خرچ کیے جاتے ہیں وہ ماضی کی کہانی بن جائے گی کیونکہ مسلمانوں کے تمام وسائل ایک طاقتور ریاست میں ایک خلیفہ اور ایک خزانے میں یکجا ہوجائیں گے۔