بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز31 اگست 2018
۔ حقیقی تبدیلی کے لیے امریکہ سے اتحاد ختم کرو
- اگر ہمارے پاس اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کرنے والی ریاست ہوتی تو توہین رسالت کرنے والے اپنے بلوں میں گھس کر خاموشی سے بیٹھ جاتے
- صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ آبادی کے حوالےسے انسانیت کے لیے کیا بہترین ہے
تفصیلات:
حقیقی تبدیلی کے لیے امریکہ سے اتحاد ختم کرو
28 اگست 2018 کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اب "آگے بڑھنا چاہیے"۔ انہوں نے کہا کہ 5 ستمبر کو امریکی سیکریٹری خارجہ کے اسلام آباد کے دورے کے دوران پاکستان امریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات کو بہتری کی جانب لے کر جانے کی کوشش کرے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے طریقہ کار میں بھی کوئی نئی چیز نظر نہیں آرہی ہے۔ سیاسی و فوجی قیادت کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ پہلے یہ تاثر مضبوط کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ہر قیمت پر قومی مفاد کو مقدم رکھیں گے۔ اگر یہ حقیقت ہوتی تو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت امریکہ کے ساتھ اتحاد ختم کرچکی ہوتی۔ اس اتحاد کو اس حقیقت کے ادراک اور اقرارکے باوجود برقرار رکھا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے سیکیورٹی تحفظات کے بالکل بھی پروا نہیں کرتا۔ امریکہ نے افغانستان کے دروازے بھارت کے لیے کھول دیے اور اب تک اسی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے پاکستان پر نگاہ رکھنے کے لیے بھارت کی مدد مانگ رہا ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت افغانستان میں امریکی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل سیاسی و فوجی معاونت فراہم کررہی ہے۔ باجوہ-عمران حکومت بھارت کے تعلقات کو نارملائیز کرنے کے امریکی منصوبے کی مکمل حمایت کررہی ہے تا کہ پاکستان خطے میں بھارت کی بالادستی کی راہ میں روکاٹ نہ رہے اور بھارت امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بناسکے۔ جس چیز کو "باجوہ ڈاکٹرائن" کہا جاتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ امریکی "ڈو مور "کے مطالبات کے جواب میں "نو مور" کہا جائے بلکہ اس ڈکٹرائن کا مقصد امریکی قبضے اور بھارتی جارحیت کے خلاف جو بھی مزاحمت باقی رہ گئی ہے اس کو کچل دیا جائے۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اپنی غداری کو چھپانے کے لیے قومی مفاد، جس کی کوئی متعین تعریف ہی نہیں ہے، کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے جس کا حقیقی مقصد امریکی خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ درحقیقت اس کا مقصد پاکستان کی مفادات کا تحفظ کرنا نہیں ہوتا چاہے اس کی بنیاد وطن پرستی ہی کیوں نہ ہو۔
ایک مخلص اسلامی قیادت نام نہاد "قومی مفاد"کا نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے ۔ ایک مخلص قیادت کبھی بھی امریکہ سے اتحاد ہی نہ کرتی بلکہ وہ امریکی حملے اور قبضے کے خلاف افغان مسلم بھائیوں کی مدد کرتی تا کہ امریکہ ذلیل رسوا ہو کر اس خطے سے نکالا جاتا۔ ایک مخلص قیادت بھارتی جارحیت کے سامنے "تحمل" کی پالیسی اختیار نہیں کرتی بلکہ مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین کی مکمل مدد کر کے بھارتی قبضے کے خاتمے کو یقینی بناتی۔ وسائل کے لحاظ سے پاکستان ایک طاقتور مسلم ملک ہے اور ہم امریکی اتحاد کی چنگل سے نکل کر مضبوط ہوں گے اگر ہم نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کرلیں جو صرف اسلام کی بنیاد پر بنائے گئے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاء﴾
"اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں (کفار اور مشرکین) کو دوست نہ بناؤ "(الممتحنہ:1)
اگر ہمارے پاس اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کرنے والی ریاست ہوتی
تو توہین رسالت کرنے والے اپنے بلوں میں گھس کر خاموشی سے بیٹھ جاتے
29اگست 2018 کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے کہا کہ اسلام آباد کی جانب اس کامارچ ـجو کہ ہالینڈ کی فریڈم پارٹی کے رہنما گیرٹ ویلڈرزکی جانب سے توہین رسالت پر مبنی کارٹونوں کے مقابلے کے خلاف احتجاج ہےـ پروگرام کے مطابق شروع ہو گا اگر پاکستان میں ہالینڈ کے سفیر کو ملک بدر نہیں کیا جاتا۔ حکومت ہالینڈ کی جانب سے آزادی رائے کی حمایت کے نتیجے میں تسلسل سے توہین رسالت کے واقعات ہورہے ہیں۔ ہالینڈ 17 ملین افراد پر مشتمل ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اس کے باوجوداس ملک کے شہری کھلے عام 1.8 ارب مسلمانوں کے عقیدے پر حملہ کرتے ہیں جو کہ دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے۔ تاریخی طور پر ڈچ (ہالینڈ) ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلم علاقوں میں کالونیاں قائم کیں تھیں اور اس کے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف صلیبی نفرت موجود ہے۔ ہالینڈ واضح طور پر ایک جارح ملک ہے اور اس سے کسی بھی قسم کےسفارتی تعلقات رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہیگ میں موجود پاکستان کے سفیر کو واپس بلایا جانا چاہیے اور ہالینڈ کے پاکستان میں موجود سفیر کوملک بدر کیا جانا چاہیے۔ اور اس کی جارحیت کے خلاف یہ پہلا قدم ہوگا۔
درحقیقت کفار اسلام پر حملہ اور رسول اللہﷺ کی ذات پرحملہ کرنے کی ہمت ہی نہ کرتے اگر ہمارے پاس وہ ریاست ہوتی جو اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے۔ اس بات کو سامنے رکھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو پہلے بھی نقصان پہنچایا گیا؛ قریش نے آپ ﷺ کو تکالیف پہنچائیں اور طائف نے آپ ﷺ کو لہو لہان کردیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ للَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
"اور (اے محمدﷺ اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (اُدھر) اللہ چال چل رہا تھا۔ اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے "(الانفال:30)۔
لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسلامی ریاست قائم کی ، اور غزوہ بدر میں قریش کے رہنماوں کو قتل کیا، اور پھر طائف کا محاصرہ کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور اسلام کی حکمرانی قبول کرلی۔ یہودیوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کو قاتل کرنے کی سازشں کی تھی لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت فرمائی۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ انہیں انہی کے علاقوں میں گھیرا اور ان پر قابو پایا۔ یاد رکھیں کہ بنی قریضہ اور بنی النضر کاکیا حال کیا گیا تھا جب انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ یاد کریں کہ فارس کیا حال کیا گیا تھا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے خط کے ٹکڑے کردیے تھے اور اس وجہ سے اللہ نے ان کی حکمرانی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا
"جو لوگ اللہ اور اس کے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے"(الاحزاب:57)۔
مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کرنے والی ریاست قائم کریں تا کہ کسی کو یہ ہمت نہ ہو کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی توہین کرسکے۔ نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام سے کم کوئی بھی قدم دنیا بھر میں اسلام کی عزت افزائی اور اس کو سنجیدگی سے سمجھنے کا باعث نہیں بنے گا۔
-صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ آبادی کے حوالے سے انسانیت کے لیے کیا بہترین ہے
29 اگست 2018 کو چیف جسٹس آف پاکستان ثا قب نثار نے کہا کہ عوام کو بتانا ہوگا کہ زیادہ بچے ہونا اچھا عمل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کے حوالے سے تبدیلی نہیں آرہی، حکومت حل پیش کرے۔ انہوں نے یہ باتیں آبادی کے حوالے سے ایک ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہیں۔
یہ مغربی سوچ ہے کہ زیادہ بچے خاندان اور پھر ملک و قوم پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔ اس سوچ کی بنیاد یہ فہم ہے کہ دنیا میں بڑی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل ناکافی ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے مغربی اور دوسری تر قی یافتہ قومیں جیسا کہ جاپان اور جنوبی کوریا وغیرہ، آبادی کو زیادہ بڑھنے سے روکنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے حوالے سے اپنی عوام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے چین سب سے آگے رہا ہے جس نے 1979 سے سرکاری طور پر اپنے عوام پر "ایک بچے" کی پالیسی طا قت کے ذریعے نافذ کی ہوئی تھی۔ لیکن پچھلی ایک دہائی میں مغربی ا قوام کے ساتھ ساتھ مشر ق کے تر قی یافتہ ممالک آبادی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے معیشت اور دیگر معاشرتی میدانوں میں منفی اثرات کا شکار ہونا شروع ہوگئے ۔ ان کے پاس اتنے نوجوان نہیں ہیں جو معیشت کوچلانے کا بوجھ اٹھا سکیں اور دیگر معاشروتی ذمہ داریاں ادا کرسکیں جیسا کہ بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنا ۔ لہٰذا اب کئی مغربی ممالک اپنے عوام کو بچے پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں معاشی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ اور جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس نے بھی "ایک بچے" کی پالیسی 2013 میں ختم کردی تھی کیونکہ وہاں یہ بات بہت عام ہوگئی تھی ایک ہی بچہ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے دادا،دادی اور نانا ، نانی کی بھی دیکھ بھال کررہاہوتا ہے، یعنی کہ آبادی کا بڑا حصہ بوڑھوں پر مشتمل ہے اور نوجوان بہت کم ہیں۔
یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکام کی جگہ مغربی کافر ا قوام کی سوچ کی پیروی کررہے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تو پوری انسانیت کواس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ہر ایک انسان کو رز ق فراہم کیا جائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إنًّ ٱللًّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
"بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے "(آل عمران:37)۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ ہم غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کریں کہ ہم ان کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَلاَ تَقْتُلُوۤاْ أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيراً
"اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا۔ (کیونکہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے "(الاسرا:31)۔
غربت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وسائل کی کمی ہے۔ مسئلہ انسانوں کابنایا ہوا سرمایہ دارانہ نظام ہے جو چند انسانوں کے درمیان دولت کو جمع کردیتا ہے اور آبادی کے بہت بڑے حصے کو دولت سے محروم کردیتا ہے۔ لہٰذا غربت کی خاتمے کے لیے ہماری توجہ آبادی کوکنڑول کرنے پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہماری توجہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام پر ہونی چاہیے ۔ اسلام کا نفاذ معاشرے میں دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے اور اس کے نتیجے میں غربت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔