بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 7 ستمبر 2018
۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک اسلامی جماعت کی ضرورت ہے جو اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کرے
- باجوہ-عمران حکومت کے تحت امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی آگئی ہے جو پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک ہے
- اسلام ریاست کی جانب سے اغوا کے ذریعے مخالفانہ آواز کودبانےکے عمل کو حرام قرار دیتا ہے
تفصیلات:
کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک اسلامی جماعت کی ضرورت ہے
جو اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کرے
روزنامہ ڈان نے 4 ستمبر 2018 کو یہ خبر شائع کی کہ چکوال کے ڈپٹی کمشنر نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے رکن قومی اسمبلی (ایم این اے) سردار ذوالفقار علی خان پر الزام لگایا کہ وہ "انتظامی امور میں سیاسی مداخلت" کررہے ہیں اور ساتھ ہی ان کے خلاف عملی قدم اٹھانے کامطالبہ بھی کیا۔ ایک خط میں جو ڈپٹی کمشنر غلام ساغر شاہد نے رجسٹرار سپریم کورٹ اور چیف سیکریٹری پنجاب کے نام لکھا ہے، یہ بتایا کہ 3ستمبر کو این اے 64 (چکوال1) کے ایم این اے نے انہیں پٹواریوں کی ایک فہرست بھیجی اور اپنی خواہش کے مطابق ان کے تبادلے اور تعیناتی کامطالبہ کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں لیکن اب تک کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کے لیے شرمندگی کاباعث بنے ہیں اور ساتھ ساتھ اس کی جانب سے اچھی حکومت (گڈ گورنس) لانے کے دعوے کی نفی کررہے ہیں۔ حکومت کے پہلے پندرہ دنوں میں تین ایسے واقعات پیش آئے جہاں پی ٹی آئی کے قانون سازوں نے لوگوں کو کھلے عام تھپڑ مارے، پنجاب میں ان کی وزیر اعلیٰ نے ایک ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) کو عمران خان کی موجودہ بیوی کے سابق شوہر سے معافی مانگنے کاحکم دیا کیونکہ اس نے ان کی گاڑی کو چیک پوسٹ پر روکا تھا۔ اور اب ایک ڈپٹی کمشنر نے اپنے افسران کو خط لکھا ہے کہ چکوال سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایم این اے نے انہیں حکم دیا ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق پٹواریوں کے تبادلے کرے جو کہ حکومت کے انتظامی امور میں کھلی سیاسی مداخلت ہے۔
پی ٹی آئی کرپشن اور حکومتی اداروں میں سیاسی مداخلت کو ختم کرنے کے نعروں پرحکومت میں آئی ہے۔ لیکن اس کے اراکین پچھلی "کرپٹ" حکومتوں کے نقش قدم پر ہی چل رہے ہیں ۔ جب پی ٹی آئی اپنی صفوں میں "ایلکٹ ایبلز" کو ان کے کردار کو دیکھے بغیر داخل کررہی تھی تو پی ٹی آئی کے حمایتی بھی اس حوالے سے پریشانی کااظہار کررہے تھے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ تبدیلی نہیں لاسکیں گے۔ لیکن اس تنقید کا پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ جواب دیاتھا کہ ان کا قائد ایمان دار ہے لہٰذا ان کی صفوں میں موجود کرپٹ عناصر کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرسکیں گے۔ لیکن پندرہ دنوں میں ہی ان کا یہ دعوی زمین بوس ہوگیا ہے۔
کرپٹ عناصر کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کا یہ جواز کہ ہمارا قائد ایمان دار ہے واضح طور پر رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف ہے جنہوں نے سب سے پہلے ایسے افراد پرمشتمل ایک جماعت بنائی جو اپنے پچھلے عقائد و تصورات کو چھوڑ کر آئے ، نئے نظریہ حیات کومکمل طور پر قبول کیا اور اسلامی ثقافت کو تفصیل سے سمجھا تا کہ ان کی شخصیات مکمل طور پر اسلامی شخصیت میں تبدیل ہوجائے جس کی بنیاد صرف اور صرف اسلامی عقیدہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ان مبارک ساتھیوںؓ نے کرپٹ معاشرے کے سامنے اپنی دعوت پیش کی اور طاغوتی نظام کے سربراہوں کے ہاتھوں مظالم کا سامنا کیا۔ بدترین مظالم کے باوجود رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہؓ نے طاغوتی نظام کے نمائندوں کی کسی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور ان کے طاغوتی نظام کا حصہ بھی نہیں بنے۔ اس طرح ایک طویل جدوجہد کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں مدینہ المنورۃ میں کامیابی عطا فرمائی جہاں انہوں نے ایک طاقتور اور اصولوں پر چلنے والی اسلامی ریاست قائم کی جو چودہ سو سال تک دین کی حفاظت کرتی رہی۔ کوئی رہنما یا قائد یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ایماندار ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی سب سے پہلے ایسے افراد پر مشتمل جماعت تیار کی جو اسلام کے نفاذ کی بھاری ذمہ داری کو اٹھا سکیں۔ لہٰذا اقتدار تک پہنچنے کی کسی بھی ایسی کوشش کا ناکام ہونا یقینی ہے جہاں صحیح افراد پرمشتمل جماعت تیار نہ کی گئی ہو چاہے اس جماعت کا قائد کتنا ہی ایماندار کیوں نہ ہو۔
پاکستان کے مسلمانوں کو اپنے موجودہ تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے اور ان تمام جماعتوں کو مسترد کردینا چاہیے جو جمہوری نظام کا حصہ بنتی ہیں ۔ جمہوریت ہی کرپشن کی بنیادی وجہ ہے اور یہ اسلام کانظامِ حکمرانی نہیں ہے۔ ہم پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست صرف اسی صورت میں بناسکتے ہیں اگرہم حزب التحریر کے ساتھ مل کر نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے کام کریں۔
باجوہ-عمران حکومت کے تحت امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی آگئی ہے
جو پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک ہے
5 ستمبر 2018 کو پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت نے امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائیکل پومپیو اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ سے اسلام آباد کے وزیر اعظم ہاوس میں ملاقات کی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار وزیر اعظم کی امریکی وفد کے ساتھ ملاقات میں شریک تھے۔ اس ملاقات کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا، "وزیر اعظم ہاوس میں ملاقات کے دوران، ہم سب بیٹھے اور تبادلہ خیال کیا۔۔۔برف پگھلی ہے۔۔۔آج ہم نے یہ محسوس کیا کہ ہم نے ایک ایسا ماحول بنایا ہے کہ اپنے تعلقات کو دوبارہ شروع کرسکیں ، اور جو بد اعتمادی موجود تھی اسے ختم کردیا گیا ہے جو ایک ایک بہت ہی مثبت تبدیلی ہے"۔
ہوش و حواس رکھنے والا امریکہ سے تعلقات میں گرم جوشی کیوں چاہے گا؟ امریکہ پاکستان کو ایک غلام کے طور پر بُری طرح سے استعمال کرتا ہے اور اسے مارتا بھی ہے اور اسے زبردست تنقید کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو استعمال کر کے "دہشتگردی" کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اب بری طرح سے اس مسئلے میں پھنس گیا ہے۔ سب سے پہلے امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیےمشرف کے ساتھ کام کیا جس کی وجہ سےاس پورے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ مشرف کی مدد کے بغیر امریکہ افغانستان پر قبضہ کرہی نہیں سکتا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے مشرف کے ساتھ کام کیا تا کہ پاکستان میں اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو پھیلائے اور اسے اُس قبائلی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرسکے جو اس کے قبضے کے خلاف لڑ رہی تھی اور پاکستان میں موجود اسلامی عناصر کی نگرانی کے لیے بھی استعمال کرسکے۔ یہ بندوبست اس لیے کیاگیا تھا تا کہ امریکی قبضےکا بھی وہی انجام نہ ہو جس کا شکار سوویت روس اور برطانوی راج ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے مقبوضہ کشمیر میں ہندو ریاست کے خلاف جہاد کو "دہشتگردی" قرار دینے کے لیے کام کیا تا کہ مسلمانوں کو کچلنے کے لیے بھارتی صلاحیت میں اضافہ ہوسکے۔
پھر امریکہ نے کیانی کے ساتھ کام کیا اور اپنی غیر سرکاری فوج کی پاکستان میں موجودگی کووسعت دے سکے جس نے "فالس فلیگ" حملے کیے تا کہ قبائلی مزاحمت کے خلاف لڑنے کے لیے ہماری افواج کو مجبور کیا جاسکے۔ اس کا نتیجہ خون، عدم استحکام اور افراتفری کی صورت میں نکلا جس کا ثبوت ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے کیانی اور راحیل کے ساتھ قبائلی مزاحمت پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے کام کیا اور وزیرستان اور پھر شمالی وزیرستان کی سرخ لکیروں کوبھی عبور کر ڈالا ۔ کیانی اور راحیل اگر امریکہ کی مدد نہ کرتے تو امریکہ بہت پہلے ہی افغانستان سے دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوجاتا ۔ اور جہاں تک موجودہ دور کا تعلق ہے تو امریکہ باجوہ کے ساتھ کام کررہا ہے کہ وہ قبائلی مزاحمت کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مزاکرات کریں تاکہ امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ باجوہ کے ساتھ کام کررہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم اور لائن آف کنٹرول پر ہندو ریاست کی جارحیت پر "تحمل" کا مظاہرہ کرتا رہے تا کہ پاکستان چین کے خلاف بننے والے بلاک میں بھارت کے نیچے رہ کر کام کرے۔
واضح طور پر وہ وقت آچکا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے عمل کو ختم کردیاجائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنْ الْحَقِّ
"مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئےنکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے منکر ہیں۔"(الممتحنہ:1)،
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُواْ لَكُمْ أَعْدَآءً وَيَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ
"اگر یہ کافر تم پر قدرت پالیں تو تمہارے دشمن ہوجائیں اور ایذا کے لئے تم پر ہاتھ (بھی) چلائیں اور زبانیں (بھی) اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ“(الممتحنہ:2)
اسلام ریاست کی جانب سے اغوا کے ذریعے مخالفانہ آواز کودبانے کے عمل کو حرام قرار دیتا ہے
3ستمبر 2018 کو ڈان اخبار نے بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثا قب نثار نے جبری گمشدگی اور اس کا شکار ہونے والوں کی بازیابی کے حوالے سے درخواستوں کو گمشدہ افراد کے کمیشن کو بھیج دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جبری گمشدہ افراد کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت 2 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اپنے چیمبر میں کی۔ اس سے پہلے جبری گمشدہ افراد کے لوحقین نے سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر بینرز اور کتبے اٹھا کر مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ ایسی ان گنت درخواستیں بھیجی جا چکی ہیں اور اب تک کئی افراد سالوں سے لاپتہ ہیں۔
جبری گمشدگی کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے یہاں تک کہ اب خواتین اور بوڑھے افراد بھی اس سے مستثنی نہیں رہے ہیں۔ پاکستان کے لوگ اُس وقت سے اِس مسئلے کاسامنا کررہے ہیں جب امریکہ نے افغانستان اور پاکستان میں اسلام کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔ امریکی دباؤ پر پاکستان کے حکمرانوں نے لوگوں کو خصوصاًافغانستان میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے سے روکا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام کو ایک طرز زندگی کے طور پر اختیار کرنے کے لیے آواز بلندکرنے والوں کو بھی روکا۔ پاکستان کے مسلمان افغانستان پر امریکی قبضے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا ان پر فرض ہے اور یہ ان کی اسلامی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے آواز بلند کریں۔
لیکن امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین اور معاشی لحاظ سے بھاری ترین جنگ میں پھنس گیا ہے اور وہ ہر صورت افغانستان میں اپنی موجودگی کو جنگ اور پھر مذاکرات کے ذریعے جنگ ختم کر کےبرقرار رکھنا چاہتا ہے۔ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے پاکستان کی قیادت میں موجود امریکی ایجنٹوں نے کراچی ، پنجاب اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کیے اور اس کے ساتھ غیر قانونی اغوا کے حربے کو لوگوں کی ہمت توڑنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ غیر قانونی اغوا ان لوگوں کے خلاف کیے گئے جو افغانستان میں جہاد کی حمایت کرتے ہیں یا اسلام کے نفاذ کامطالبہ کرتے ہیں۔ حکمران امریکہ کی اس قدراندھی تقلید کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مظالم سے بوڑھوں، بیماروں اور خواتین تک کو نہیں بخشا۔
اغوا ایک غیر اسلامی عمل ہی نہیں ہے بلکہ یہ ریاست پاکستان کو اندر ونی طور پر کمزور کرنے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ یہ عمل لوگوں کے غصے کو سیکیورٹی ایجنسیوں پر نکالنے کی جانب مائل کرتا ہے کیونکہ وہ انہیں اس گھناونے عمل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یہ انتہائی گھٹیا اور غیر انسانی عمل ہے جو کہ دنیا کی چند ظالم ترین حکومتوں کا طرہ امتیاز رہاہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ان ظالم حکومتوں کی جانب سے کیا جاتا ہے جو اپنے ہر حکم کی ہر صورت مکمل تعمیل چاہتے ہیں۔ اختیار جو حکمران کے ہاتھوں میں لوگوں کی امانت ہوتا ہے ، اس عمل کے نتیجے میں ریاست کو ایک پولیس اسٹیٹ بنادیتا ہے۔ اسلام نے پولیس اسٹیٹ کی ممانعت کی کیونکہ اس کے ذریعے ریاست لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری سے دستبردار ہوجاتی ہے۔
اسلام میں خلیفہ لوگوں کی اطاعت اس طرح حاصل کرتا ہے کہ وہ ان پر اسلام کو نافذ کرتا ہے۔ اغوا اور اسلامی رائے کو زبردستی دبانا اسلام کی جانب سے دیے جانے والے حق کے کھلی خلاف ورزی ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو اس شرمناک عمل میں ملوث ہوتے ہیں تو ان کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے،
إِنَّ ٱلَّذِينَ فَتَنُواْ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُواْ فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ ٱلْحَرِيقِ
"جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی ان کو دوزخ کا (اور) عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا“(البروج:10)۔
مظلوموں کی دعاوں کے نتیجے میں نبوت کے طریقے پر خلافت جلد قائم ہو گی، ان شاء اللہ۔ خلافت ان لوگوں سے بدلہ لے گی جنہوں نے لوگوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ پر چلنے سے روکا چاہے ان کا تعلق مسلمانوں سے ہو یا کفار سے۔