الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 12 اکتوبر 2018

 

۔ پی ٹی آئی حکومت  کا آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا عندیہ : معاشی تباہی کا دروازہ مزید کھل جائے گا
- پی ٹی آئی اس بات کو یقینی بنارہی ہے کہ گیس کی پیداوار دینے والی نجی کمپنیاں اربوں کا نفع کمائیں جبکہ عام آدمی کی کمر ٹوٹ جائے
- گلا سڑا ناکام سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کی معیشت  کوکبھی بھی مضبوط نہیں کرسکتا

 

تفصیلات:


پی ٹی آئی حکومت  کا آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا عندیہ :

معاشی تباہی کا دروازہ مزید کھل جائے گا


7ا کتوبر 2018 کو وزیر اعظم عمران خان  نے اس بات کا عندیہ دیا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا جارہاہے تا کہ ملک جس نازک دور سے گز ر رہا ہے اس میں "قرضوں کے خلا " کو پُر کیا جاسکے۔  اس بات کو سامنے رکھنے کے بعد کہ حکومت کی جانب سے دوست ممالک اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی جانب سے  متبادل مالیاتی وسائل فراہم ہونے کی امید دم توڑ چکی ہے  اور ساتھ ہی ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر بھی  تیزی سے کم ہورہے ہیں ، یہ یقینی ہوچکا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت دنیا کی "مالیاتی پولیس" آئی ایم ایف کے پاس جارہی ہے۔   

 

آئی ایم یف کے پروگرام پر پورا اترنے کے لیے پی ٹی آئی حکومت نے پہلے سے ہی کرنسی کی قدرمیں کمی، شرح سودمیں اضافہ، بجلی و گیس کی قیمت میں اضافہ اور مالیاتی نظم و ضبط(یعنی ٹیکسوں میں اضافہ اور تر قیاتی اخراجات میں کمی) جیسے نام نہاداصلاحی ا قدامات کرنے شروع کردیے ہیں۔  ان کمر توڑ ا قدامات کو پاکستان کے دورے پر آئے آئی ایم ایف کے وفد  نے "ضرورت سے کم" قرار دیا اور کرنسی کی قدرمیں مزید کمی، ٹیکسوں، ، شرح سود  اور بجلی وگیس کی قیمتوں میں مزید  اضافے پر زور دیا۔


پاکستان جیسے غریب ملک پر ان شرائط کے انتہائی تباہ کن نتائج نکلتے ہیں۔ کئی تر قی پزیر ممالک  کا قرض اور غربت کا شکار ہونے کی ایک وجہ عالمی مالیاتی اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک  ، کی پالیسیاں ہیں۔ یہ صورتحال اس و قت ہے جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غربت کے خاتمے کے لیے کام کرتے ہیں۔  واشنگٹن میں بیٹھے ادارے جنہیں "واشنگٹن اتفا ق"(Washington Consensus) کہا جاتا ہے اور جن کی سربراہی آئی ایم ایف کرتا ہے، نیو لبرل ازم کی آئیڈیالوجی کے پیروکار ہیں۔ یہ ادارے  ان تر قی پزیر ممالک پر اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پالیسیز (ایس اے پیز) کو نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں تا کہ قرضوں کی واپسی  اور معیشت کے ڈھانچے میں تبدیلی کو یقینی بنایا جاسکے۔  لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے دوران ہوتا یہ ہے کہ قرض لینے والے ملک کو تر قیاتی کاموں پر اخراجات کم اور ٹیکسوں اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ پہلی ترجیح قرضوں کی واپسی اور دیگر معاشی پالیسیوں کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس تمام عمل  کے نتیجے میں  آئی ایم ایف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ قرض لینے والاملک اپنے لوگوں کے معیار زندگی کو نیچے لائے ۔ آئی ایم ایف کے اس  نسخے، کہ زرتلافی(سبسیڈی) اور لوگوں کی بہبود پر کیے جانے والے اخراجات کو کم اور بل واستہ ٹیکسوں اور بجلی و گیس کی قیمت میں اضافہ کیا جائے، کا نتیجہ یہ نکلتا ہے  کہ قرض لینے والے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے معیشت کاکوئی  بھی شعبہ محفوظ نہیں رہتا۔


 کرنسی کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ آئی ایم ایف کی اہم ترین پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے عموماً قرض لینے والے ملک میں معاشی کساد بازاری (تنزلی) کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ و قتی طور پر ادائیگیوں (بے لینس آف پیمنٹ)کے حوالے سے استحکام پیدا ہوسکتا ہے لیکن  ا س استحکام کی قیمت مقامی پیداواری صلاحیت میں کمی، بے روزگاری میں اضافہ اور کل ملکی پیداوار کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔  کرنسی کی قدر میں کمی کروا کر آئی ایم ایف شرح تبادلہ کو اپنے فائدے میں  رکھتا ہے، جس کے بعد غریب خطوں کے وسائل ان کے لیے مزید سستے ہوجاتے ہیں اور اس کا فائدہ مغرب کو ہوتا ہے جو ان وسائل کو استعمال کرتا ہے۔  اس طرح غریب ا قوام غریب ہی رہتی ہیں یا مزید غریب ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں آئی ایم ایف کے قرضوں کو مغربی سرمایہ دار ا قوام کے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جب آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو رقم دینے کی حتمی منظوری دی جارہی ہو گی تو امریکہ  لازمی یہ دیکھے گا کہ خطے میں اس کی خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول کو یقینی بنانے میں پاکستان کس قدر مددگار ثابت ہوگا۔


   استعماری شکنجے سے نکلنے کے لیے مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر خلافت کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔  صرف اس کے بعد ہی اسلام کے نفاذ کے ذریعے  مسلمانوں کی صلاحیت و طا قت کو کمزور ا قوام کو استعماری شکنجے سے نکالنے کے لیے استعمال کی جاسکے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، 

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ

" مومنو! اللہ اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول اللہ تمہیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشتا ہے "(الانفال:24)۔  

 

پی ٹی آئی اس بات کو یقینی بنارہی ہے کہ گیس کی پیداوار دینے والی نجی کمپنیاں اربوں کا نفع کمائیں جبکہ

عام آدمی کی کمر ٹوٹ جائے


6 اکتوبر 2018 کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سی این جی (کمپریس قدرتی گیس) کی قیمت 100 روپے فی کلو سے تجاوز کرگئی۔  یہ اضافہ اس وجہ سے ہوا کہ حکومت نے اس کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ کردیا جو پہلے 700 روپے ایم ایم بی ٹی یو تھی اوراب  بڑھ کر 980 روپے ایم ایم بی ٹو یو ہو گئی ہے۔ کراچی میں سی این جی پمپ اسٹیشن مالکان  103 سے 104 روپے فی کلو قیمت صارفین سے وصول کررہے ہیں جبکہ صوبہ سندھ کے دیگر علاقوں میں 100 سے 101 روپے کلو پربیچی جارہی ہے جبکہ اس سے پہلے اس کی قیمت 81.70روپے فی کلو تھی۔  دسمبر 2016 میں سی این جی  67.50روپے فی کلو تھی  لیکن پھر حکومت نے اسے ڈی ریگولیٹ کردیا ۔ ڈی ریگولیٹ کرنے کے صرف دس مہینوں کے اندر  اس کی قیمت میں 54 فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔


سی این جی قیمت میں اضافے سے مہنگائی میں عمومی اضافہ ہوگا، کیونکہ یہ ایندھن درمیانے درجے کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ بسوں پر سفر کرنے والے لوگوں کو  اب اضافی قیمت ادا کرنے پڑے گی کیونکہ 70 فیصد سے زیادہ بسیں سی این جی پر چلتی ہیں۔  اس کے علاوہ پھلوں اور سبزیوں کی نقل وحمل میں استعمال ہونے والی گاڑیاں بھی سی این جی ہی استعمال کرتی ہیں۔ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ نجی کمپنیوں سے مہنگے داموں گیس خرید کر اس پر زر تلافی دے کر سستے داموں بیچ رہی ہے جس سے خزانے پر بوجھ پڑھ رہا ہے۔   اس مسئلے کی بنیادی وجہ گیس کے پیداواری  یونٹس کی نجکاری ہے۔ وزارت پیٹرولیم اور قدرتی وسائل  کے 2015 کی پہلی سہہ ماہی  کے اعدادوشمار کے مطابق 50 فیصد گیس کی پیداوار نجی کمپنیوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ 2018 کے مالیاتی سال میں گیس کی پیداوار دینے والی کمپنیوں نے ریکارڈ منافع کمایا۔ پاکستان پیٹرولیم لیمیڈڈ (پی پی ایل) کے نفع میں 32 فیصد کا اضافہ ہو کر 45.8ارب روپے پرپہنچ گیا۔ او جی ڈی سی ایل کے نفع میں 23 فیصد کا اضافہ ہو کر 78 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ مری گیس کمپنی کے نفع میں 68 فیصد کا اضافہ ہو کر 15 ارب روپے پر پہنچ گیاجس کے بعد اس کمپنی نے یہ اعلان کیا کہ 2018 اُس کے لیے پیداوار اور نفع کے لحاظ سے بہترین سال رہا۔ لہٰذا گیس کی پیداوار دینے والی نجی کمپنیوں کے نفع کو یقینی بنانے کے لیے حکومت  عام آدمی کی کمر توڑ رہی ہے۔


پی ٹی آئی کی حکومت کوئی تبدیلی نہیں لارہی کیونکہ وہ گیس کے شعبے میں ہونے والی نجکاری کو برقرار رکھ رہی ہے۔ صرف اسلام ہی حقیقی تبدیلی لاسکتا ہے کیونکہ اسلام نے توانائی کے وسائل کی نجکاری کو حرام قرار دیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

ثَلاثٌ لا يُمْنَعْنَ: الْمَاءُ وَالْكَلأُ وَالنَّارُ

"تین چیزوں سے لوگوں کومنع نہیں کیا جاسکتا:  پانی، چراہگاہیں اور آگ"(ابن ماجہ نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی)۔

 

اس حد یث میں ایک 'وجہ' موجود ہے جس کے باعث انہیں عوامی اثاثہ  قرار دیا گیا۔ لہٰذا وہ تمام اشیا عوامی اثاثوں میں شامل ہیں جن سے آگ پیدا ہوتی ہے چاہے وہ بجلی ہو، گیس ہو یا تیل۔  ان وسائل کی نجکاری اسلام میں حرام ہے اور ان کو نہ تو کوئی فرد اور نہ ہی ریاست اپنی ملکیت میں لے سکتی ہے۔ ریاست  ان اثاثوں کے امور کو منظم کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان سے حاصل ہونے فوائد کو تمام شہریوں تک پہنچائےچاہے وہ مسلمان ہو یا ذمی۔ اس کے علاوہ  خلافت ان پر لگنے والے ٹیکسوں کا ختم کردے گی جس نے ان کی قیمت کو بہت بڑھا رکھا ہے۔ خلافت ان کی پیداواری اور تقسیم کاری کی لاگت وصول کرے گی اور ان کی غیر جارح غیر مسلم ریاستوں کو فروخت سے حاصل ہونے والی دولت کو عوام کی ضروریات  پر خرچ کرے گی۔ لہٰذا اسلام کی توانائی کی پالیسی توانائی کی قیمت میں کمی کا باعث بنے گی اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں زبردست صنعتی تر قی ہوگی۔


گلا سڑا ناکام سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کی معیشت کو کبھی بھی مضبوط نہیں کرسکتا


وزیر اعظم عمران خان نے 9 اکتوبر 2018 کو ملک میں سستے 50لاکھ گھروں کی تعمیر کے میگا منصوبے کے افتتاح کے مو قع پر قوم کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان کوموجودہ معاشی بحران سے نکال لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بحران عارضی ہے اور جلد ہی اچھے دن آئیں گے کیونکہ  ملک میں صلاحیت اور بہت سے قیمتی وسائل ہیں جنہیں استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ، "میں قوم کو ایک خاکہ دوں گا اور قوم کو ہر ہفتے اپنی حکومت کے معاشی منصوبوں سے آگاہ کروں گا"۔


پی ٹی آئی  اقتدار میں یہ نعرہ لگاتی ہوئی آئی کہ وہ پاکستان کی معیشت کو بحال کردے گی اور اسے قرضوں کے چنگل سے نکال لے گی۔ لیکن اپنے پہلے 100 دنوں میں،جسے ہنی مون کا عرصہ کہا جاتا ہے، پی ٹی آئی موجودہ حالات کو ہی سنبھال نہیں پارہی  بلکہ صورتحال بد سے بدتر ہوگئی ہے۔ عمران خان نے غیرملکی قرضے لینے کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی، خصوصاً آئی ایم ایف سے قرض لینے پر، اور حکومت میں آنے سے قبل  یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ خودکشی کرلیں گے مگر آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیں گے۔ لیکن بروز پیر ، 8 اکتوبر 2018 کو ، ان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے  بیل آوٹ پیکج لینے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کیا۔اسد عمر نے دعوی کیا کہ"موجودہ حکومت کے لئے چیلنج ہے کہ۔۔۔۔ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر چند سال کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سلسلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے"۔  لیکن ماضی کی کئی حکومتوں نے آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہوئے اس بات کا دعوی کیا تھا جس کا دعوی اب اسد عمر کررہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی حکومت اس دعوی کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔  اس مقصدمیں ناکامی کی وجہ واضح ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان جیسے ملکوں کو معاونت اس لیے فراہم نہیں کرتی کہ وہ اپنے پیروں پرکھڑے ہوجائیں بلکہ اس معاونت کے ذریعے وہ اس  بات کو یقینی بناتی ہے کہ معیشت کا غیر ملکی سہاروں پر انحصار مزید بڑھ جائے۔ آئی ایم ایف اپنے اس ہدف کو اس طرح سے حاصل کرتی ہے کہ وہ بجلی و گیس کی قیمت اور  ٹیکس میں اضافے، روپے کی قدرمیں کمی اور ترقیاتی منصوبوں پر کٹوتی کا مطالبہ کرتی ہے۔ "تبدیلی" کی حکومت نے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی آئی ایم ایف کی پالیسی کو نافذ کردیا ہے۔ تو پھر ہم  کس قسم کی معیشت کی بحالی کی امید رکھ سکتے ہیں جب یہ  حکومت باقاعدہ طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کو اپنے سینے سے لگائے گی؟


"تبدیلی" کے دعوں کے باوجود پی ٹی آئی حکومت گلے سڑے ناکام سرمایہ دارانہ معاشی  نظام کومسترد کرکے اسلام کے معاشی نظام کو قبول نہیں کررہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو پی ٹی آئی  حکومت  100 دنوں میں تو کیا   100 مہینوں میں  بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کرسکے گی۔ اسلام کا معاشی نظام بجلی و گیس کی مناسب قیمتوں پر دستیابی کو یقینی بناتا  ہے کیونکہ اسلام میں یہ عوامی ملکیت ہوتی ہیں جن کے امور کو ریاست عوام کے وکیل کے طور پر سنبھالتی ہے۔  اسلام کا معاشی نظام تمام غیر شرعی ٹیکسوں ،جیسا کہ جی ایس ٹی وغیرہ،کا خاتمہ کردیتا ہے، اس طرح اشیا کی قیمتوں میں کمی آتی ہے اور لوگ انہیں باآسانی خریدنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور یوں طلب میں اضافہ ہوتا ہے جو پیداوار بڑھانے پر مجبور کرتا ہے۔  اسلام کا معاشی نظام کاغذی کرنسی کو ختم کرکے اس کی جگہ ایسی کرنسی کو جاری کرتا ہے جس کی پشت پر سونا و چاندی موجود ہو اور اس طرح کرنسی کی قدر کے حوالے سے غیر یقینی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اور ان تمام باتوں سے بڑھ کر اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام لیے جائیں۔ حزب التحریر نے آنے والی نبوت کے طریقے پر خلافت کے مقدمہ دستور کی شق 191 میں یہ تبنی کیا ہے کہ، "ریاست کے لیے اُن تنظیموں میں شمولیت جائز نہیں جن کی بنیاد اسلام نہیں یا وہ غیر اسلامی احکامات کونافذ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی ادارے جیسا کہ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اور عالمی بینک"۔    

Last modified onجمعہ, 12 اکتوبر 2018 17:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک