الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز19 اکتوبر 2018


۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں نے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان برپا کردیا ہے
- پی ٹی آئی حکومت چھوٹی سی اشرافیہ کوسہولیات سے نواز رہی ہے جبکہ عام آدمی پر بوجھ بڑھاتی جارہی ہے
- لوگوں کے مال کو  ہڑپ کرجانے کو جمہوریت قانون سازی کے ذریعے قانونی قرار دیتی ہے

تفصیلات:


آئی ایم ایف کی پالیسیوں نے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان برپا کردیا ہے


مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے خصوصاً مارچ 2018 کے بعد سے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب تک اس مالیاتی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی-ستمبر2018) میں مہنگائی کی شرح 5.6فیصد ہے جبکہ اس عرصے کے دوران پچھلے مالیاتی سال میں یہ شرح 3.4فیصد تھی۔  پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹک (پی بی ایس) کے مطابق ستمبر 2018 میں کور انفلیشن (مہنگائی) بڑھ کر 8 فیصد ہوگئی جو کہ پچھلے 4 سالوں میں سب سے زیادہ ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مہنگائی کا دباؤ  ہے جو تقریباً ہر گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ مرکزی بینک نے مہنگائی کی شرح کے حوالے سے اپنے تخمینے میں اضافہ کردیا ہے  کیونکہ توقع سے زیادہ تیل کی بین الاقوامی قیمتوں ، مقامی گیس کی قیمتوں  اور منی بجٹ میں ریگولیٹری ڈیوٹی میں مزید اضافہ ہوا ہے جبکہ روپے کی شرح تبادلہ میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت نے گیس کی  قیمت میں 143فیصد تک اضافہ کیا ہے جبکہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بھی جلد متوقع ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کو حکومت نے  غیر سرکاری طور پر 2019 کے وسط تک مہنگائی کی شرح 14 فیصد تک پہنچنے سے آگاہ کیا ہے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا کرنسی کی قدر اور توانائی اور ٹیکسوں میں اضافے کا نسخہ  آنے والے دنوں میں ڈبل ڈیجٹ مہنگائی کی شرح کاباعث بنے گا۔  بیلنس آف پیمنٹ کی خراب ہوتی صورتحال میں پاکستان کے معاشی مینیجرز  نے کئی ماہ پہلے سے ہی آئی ایم ایف کا بیل آوٹ منصوبہ لینے کے لیے ذہن بنا رکھا تھا اور اس کے مطابق انہوں نے معاشی فیصلے کرنے شروع کردیے تھے۔ کرنسی کی قدرمیں تین بار مسلسل کمی کی وجہ سے آئی ایم ایف سے قرضے کی منظوری کے بعد   روپیہ مزید اپنی قدرکھوئے گا۔  مہنگائی کے حوالے سے پریشانی کا سبب یہ ہے کہ گھریلو استعمال کی اشیاء کی قیمتیں درآمدی اشیاء کی قیمتوں سے متاثر ہوتی ہیں جو کہ کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے تیزی سے بڑھتی ہیں۔ طویل مدت  تک زیادہ مہنگائی ملکی اشیاء کی بین الاقوامی مارکیٹوں میں مقابلے کی صلاحیت میں کمی کاباعث بنتی ہے  اور اس طرح برآمدات میں کمی آتی ہے اور  تجارتی خسارے میں کمی کی حکومتی کوشش ناکام  ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی صورت میں مزید کرنسی کی قدرمیں کمی لازمی ہوجاتی ہے  اور جس سے مہنگائی میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ لہٰذا جمہوری سرمایہ دارانہ ریاستیں  کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی شرح میں اضافے کے ایک شیطانی دائرے میں پھنس جاتی ہیں اور غریبوں کا بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔

 

آئی ایم ایف یہ چاہتا ہے کہ قرض لینے والاملک ترقیاتی منصوبوں پر کم خرچ کرے اور ٹیکسوں اور بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافہ کرے جبکہ قرضوں کی واپسی اور دوسری معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد ترجیح رہنی چاہیے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ قرض لینے والا ملک اپنے لوگوں کامعیار زندگی کا پیمانہ کم کرے۔آئی ایم ایف کا  سبسڈیز  (زرتلافی) اور رفاحی اخراجات میں کمی کے نسخے کے ساتھ  بلواستہ ٹیکسوں اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس سے اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔  آئی ایم ایف کے نسخے کی وجہ سے تقریباً ہمیشہ ہی مہنگائی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس سے کوئی بھی شے محفوظ نہیں ہوتی۔

 

لہٰذا آئی ایم ایف کا نسخہ مسئلے کو مزید گھمبیر بنادیتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف جو حل دیتا ہے ان کی بنیاد   ریاضی کے مفروضے ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف اس مسئلے کو ایک حسابی مساوات (ایکویشن) سمجھتا ہے اور اس کی دو اطراف کے درمیان توازن کو قائم کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ تو وہ اس مساوات کے ایک بڑھے ہوئے  حصے کو گھٹاتا یا گھٹے ہوئے حصے کو بڑھاتا ہے اور اس مسئلے کے حل کا انسان کے ساتھ کیا تعلق ہے اسے دیکھتا ہی نہیں ہےجو کہ اس کے نسخے کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہوگا۔ مثال کے طور پر  محاصل کو بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف ٹیکسوں میں اضافے کا کہتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ قرض لینے والے ملک میں ٹیکس کی شرح پہلے ہی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جس سے زیادہ ادا کرنا لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ قرض لینے والے ملک میں اشیاء کی قیمتیں پہلے سے ہی  زیادہ ہوتی ہیں  اور اس کے پیش کردہ حل کی وجہ سے قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہوجائے گا کہ کئی لوگوں کی قوت خرید ہی ختم ہوجائے گی۔  لیکن اس کے باوجود آئی ایم ایف ضروری اشیاء ، روٹی، دودھ، گندم، چینی،ادویات،  توانائی،  پر بھی زرتلافی (سبسیڈی)کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے۔  آئی ایم ایف اچھی طرح سے جانتی ہے کہ قرض لینے والے ملک کی برآمدی اشیاء کی پیداواری استعداد کمزور ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود کرنسی کی قدرمیں کمی کامطالبہ کرتی ہے اور اس طرح سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔  ایک مخلص مسلم قیادت آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کو مسترد کردے اور معیشت کو اسلام کی مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،


 يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِنْ تُطِيعُواْ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُواْ خَاسِرِينَ
"مومنو! اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر کر (مرتد کر) دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے"(آل عمران:149)۔

 

پی ٹی آئی حکومت چھوٹی سی اشرافیہ کوسہولیات سے نواز رہی ہے جبکہ عام آدمی پر بوجھ بڑھاتی جارہی ہے

 
اسٹاک مارکیٹ کی مندی کوختم کرنے کے لیے حکومت نے شئیرز کی خرید و فروخت پر ایڈوانس انکم ٹیکس اور کیپیٹل گین ٹیکس  کی شرح میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس اس ماہ کے پہلے دوہفتوں  میں 10 فیصد یعنی 4200 پوائنٹس گر گیا اور دو سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا۔ 15 اکتوبر 2018 کو پی ایس ایکس کے اسٹاک بروکرز کی ایسوسی ایشن کے وفد نے وزیر خزانہ اسد عمر ، وزیر مملکت برائے مالیات حماد اظہر اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کے چیرمین شوکت حسین سے ملاقات  کی جس کے بعد حکومت نے اسٹاک بروکزر کے مطالبات کو ماننے کا اعلان کیا۔

 

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)  حکومت  چھوٹی سی سرمایہ دار اشرافیہ کو سہولیات فراہم کررہی ہے  جبکہ عام آدمی پر مزید بوجھ ڈال رہی ہے جس کی کمر پہلے سے پڑے بوجھ سے جھکی ہوئی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے عام آدمی کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ کیا  ہے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ  کے کرایوں اور ساتھ ہی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا جبکہ گیس پیدا کرنے والی کمپنیوں  کے نفع میں زبردست اضافہ ہوگیا جنہوں نے پہلے ہی سال 18-2017 کے مالیاتی سال میں ریکاڑ منافع کمایا ہے۔ اس طرح اب جبکہ ضمنی انتخابات کا مرحلہ گزر گیا ہے  تو حکومت کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی  بجلی کی قیمت میں اوسطاً دو روپے فی یونٹ کا اضافہ کرنے جارہی ہے جبکہ کے -الیکٹرک اور حب پاور جیسی پاور کمپنیاں زبردست نفع کما رہی ہے جنہوں نے بلترتیب 32 اور 12 ارب روپے کا ریکارڈ منافع کمایا ہے۔ پاکستان میں چھوٹی سے سرمایہ دارانہ اشرافیہ کو نوازنا اور عام آدمی پر کمر توڑ بوجھ ڈالنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔  اسی طرح پوری دنیا  کی جمہوریتوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ جمہوریت نے منتخب نمائندگان کے ایک چھوٹے سے گرو ہ کو قوانین  بنانے کا اختیار دیا ہوا ہے۔ یہ چھوٹا سا گروہ انتخابات جیتنے کے لیے اربوں روپے خرچ کرتا ہے۔ اور جب یہ منتخب ہوجاتے ہیں تو اپنے  یا اپنے سرپرستوں  کے فائدے کے لیے قوانین بناتے ہیں۔ 2014میں پرنسٹن یونیورسٹی  کے پروفیسر مارٹن گیلنز اور نارتھ وسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر بینجمن کی ایک تحقیق  میں دنیا کی سب سے  زبردست جمہوریت،امریکا، کےمتعلق کہا کہ "کئی زاویوں سے کیے جانے والے تجزیے  سےاس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ معاشی اشرافیہ اور منظم گروہ کاروباری مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں  اور ان کی امریکی حکومت کی پالیسیوں  پر بہت زیادہ اثرات ہوتے ہیں جبکہ عام شہری اور عوام  کے مفادات کی نگہبانی کرنے والے گروہوں کا یا تو سرے سے کوئی اثر ہی نہیں ہے یا وہ اثر بہت ہی محدود ہے“۔

 

لہٰذا جمہوریت نے خودیہ ثابت کیا ہے کہ یہ اشرافیہ کا ، اشرافیہ کے لیے اشرافیہ پر نافذ ہونے والا نظام ہے۔ صرف اسلام کامعاشی نظام خلافت کے نظام حکمرانی کے سائے میں پاکستان کے معاشی مسائل کو حل کرسکتا ہے۔ دولت کی تقسیم کی بنیادی پالیسی نافذ کر کے یہ نظام عام آدمی کے بوجھ کو کم اور پھر ختم ہی کردے گا۔ اسلام دولت کی تقسیم پر توجہ مرکوز کرتا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،


 كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ
"اور ان کی دولت ان کے امیروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے"(الحشر:7)۔


اسلام توانائی، ٹیکسیشن، سرمایہ کاری،کرنسی، زراعت اور صنعت کے حوالے سے منفرد قوانین دیتا ہے جو ہر ایک فرد کو اس قابل کرتا ہےکہ وہ اس میں سے اپنا حصہ دوسرے کواس کے حصے سے محروم کیے بغیر  لے سکے۔ مثال کے طور پر اسلام تیل، گیس، معدنیا ت جیسا کہ کوئلے جیسے وسیعی ذخائر اور ان سے حاصل ہونے والی دولت کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے  اور جنہیں کسی صورت نجی ملکیت میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے غریب کو ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنی رکھا ہے۔ اسلام نے سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دے کر مہنگائی کی بنیادی وجہ کا خاتمہ کردیا ہے۔ اسلام نے  زرعی زمین کی کاشت کو لازمی قرارر دیا ہے اور اگر اس پر تین سال  مسلسل  کاشت  نہ کی جائے  تو اس کا مالک اس کی ملکیت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یہ اقدامات اور اس طرح کے درجنوں احکامات دولت کے ارتکاز کو روکتے ہیں اور اس بات کویقینی بناتے ہیں کہ غریب مزید غریب نہ ہو۔     

 

لوگوں کے مال کو  ہڑپ کرجانے کو جمہوریت قانون سازی کے ذریعے قانونی قرار دیتی ہے


16 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کررہے تھے یہ حکم جاری کیا کہ موبائل فون  کے پری پیڈ صارفین کوجو سہولت فراہم کرنے کا  عدالت نے اس سے پہلے حکم دیا تھا اسے جاری رکھا جائے۔ عدالت نے حکومت  اور موبائل فون کی سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں  کو حکم دیا کہ وہ صارفین سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کریں جب تک  اس مسئلے کےحوالے سے کوئی باقاعدہ قانون سازی نہ ہوجائے ۔ جون 2018 میں عدالت نے موبائل نیٹ ورک فراہم کرنے والی کمپنیوں اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کو پری پیڈ کارڈ پر سروس ٹیکس وصول کرنے سے یہ کہہ کر  روک دیا تھا کہ یہ غیر قانونی اور استحصالی ہے۔ عدالت کے حکم سے پہلے صارفین 10 فیصد سروس ٹیکس کے ساتھ ساتھ 5.5فیصد وید ہولڈنگ ٹیکس اور 19 فیصد سیلز ٹیکس ادا کررہے تھے۔ان ٹیکسوں کی کٹوتی کے بعد  100 روپے کے پری پیڈ کارڈ پر صارف کو صرف 64 روپے استعمال کرنے کے لیے میسر ہوتے تھے۔

 

جمہوریت میں حکومت کو لوگوں کے مال کو ہڑپنے کا   اختیار حاصل ہوتا ہےکیونکہ وہ اپنے عمل کے حق میں قانون سازی کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ  حکومت نے اپنے عمل کو قانونی بنانے کے لیے قانون سازی نہیں کی ہوئی تو اس طرح سے عدالت نے حکومت کو ایک راہ فراہم کردی ہے۔ لہٰذا جب ایک بار نیا قانون بن جائے گا تو حکومت جس طرح مناسب سمجھے گی لوگوں کے مال کو ہڑپ کرسکے گی۔  جمہوریت میں ایک معقولہ بہت مشہور ہے کہ "بغیر نمائندگی کے کوئی ٹیکس نہیں لیا جاسکتا"(No Taxation Without Representation) ۔ اس طرح بنیادی طور پر منتخب حکومت کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ  قانون سازی کر کے لوگوں کے ذاتی مال سے دولت  لے سکتی ہے  اور  اس کا ڈاکا قانونی قرار پاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے کہ معاشرے کے دولت مند اور طاقتور افراد حکمرانی کا حصہ بننے کی خواہش اور کوشش کرتے ہیں۔ حکمرانی میں آنے کے بعد وہ اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ  ٹیکسوں کا بوجھ عام عوام پر پڑے اور دولتمندوں کو ٹیکس سے استثناء حاصل ہو۔

 

اسلام کسی کو بھی قانون سازی کا حق اور اختیار نہیں دیتا ، لہٰذا حکمران یہ فیصلہ اور قانون سازی نہیں کرسکتا کہ لوگوں کی ذاتی دولت کے کس حصے کو  ہڑپ کر کے ریاست کے امور چلانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔  اسلام نے لوگوں کے ذاتی مال کو ایک خصوصی تقدس اور حرمت دی ہے۔ لوگوں کی ذاتی دولت کے کسی بھی حصے کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں لیا جاسکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا

"بے شک تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں ایسے ہی حرام ہیں جیسا کہ اس دن(عرفہ) کی اس شہرمکّہ اور اس مہینے (ذوالحجہ) کی حرمت ہے"۔

 

یہ ایک عام خطاب ہے جس میں تمام انسان شامل ہیں۔اس لیے کسی بھی شخص سے خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس کا مال چھیننا حرام ہے سوائے شرعی سبب کے اور ریاست کے لیے بھی بغیر شرعی سبب کے کسی شہری کا مال لینا حرام ہے۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ رعایا کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر ایسا کرسکتی ہے کیونکہ ریاست کا کام لوگوں کے امور کی دیکھ بھال شرعی احکامات کے مطابق کرنا ہے نہ کہ لوگوں کے مفاد کے مطابق ان کے امور کی دیکھ بھال کرنا ہے۔  لہٰذا جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہو اس کو حلال کرنے کاریاست کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر اس نے ایسا کیا  تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگا اور اس کا احتساب کیا جائے گا اور وہ مال واپس مالک کو دیاجائے گا۔  لہٰذا خلافت میں سروس ٹیکس، وید ہولڈنگ  ٹیکس اور سیلز ٹیکس نہیں ہوں گے۔     

Last modified onہفتہ, 20 اکتوبر 2018 02:10

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک