بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز26 اکتوبر 2018
۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری : فائدہ یا لعنت
- امریکی ایجنٹ سعودی بادشاہت سے رقم کے بدلے عمران خان نے خود کو فروخت کردیا
- حکومتی ہاوسنگ اسکیم سے فائدہ تعمیراتی کمپنیوں اور بینکوں کو پہنچے گا جبکہ مالیاتی بوجھ اور سود کا گناہ غریبوں پر پڑے گا
تفصیلات:
براہ راست بیرونی سرمایہ کاری : فائدہ یا لعنت
23 اکتوبر 2018 کو وزیر اطلاعات نے وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کے متعلق بتاتے ہوئے کہ اس کا مقصد بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کرنا ہے یہ کہا کہ حکومت نے یہ اعلان کردیا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنا اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ اس بات کی اہمیت پر مزید روشنی وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے بیرونی سرمایہ کاری کی تعیناتی سے بھی ہوتا ہے۔ یہ تیسری اہم ترین تعیناتی تھی جس کا کام سرمایہ کاری کے معاملات کو دیکھنا ہے۔ پاکستان جیسی کم آمدنی اور ڈالر پر انحصار کرنی والی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے کام پر لگایا دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ مارکیٹ میں آنے والی مختصر مدتی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوتی جس کی وجہ سے زرمبادلہ میں ایک خاص قسم کا تسلسل اور استحکام پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بیلنس آف پیمنٹ میں مضبوطی آتی ہے۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود طویل مدتی لحاظ سے بیلنس آف پیمنٹ بحران کا شکار ہوجاتا ہے جب سرمایہ کار ایک بار نفع کمانا شروع کردیتا ہے۔ جیسے ہی سرمایہ کار کو اپنے سرمائے پر نفع آنا شروع ہوتا ہے تو وہ لازمی طور پر اپنے سرمائے کو واپس اسی ملک بھیجنا شروع کردیتا ہے جہاں سے لایا ہوتا ہے۔
جمہوری سرمایہ دارنہ نظام میں کسی بھی کم آمدنی والی معیشت میں ترقی کا ایک معیار سرمائے میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ ترقی پزیر معیشت ترغیبات دے کر سرمایہ کاری میں اضافہ کرسکتی ہے اور ایسا عموماً براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو ترغیبات دے کرکیا جاتا ہے۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری پیداواری طریقہ کار میں بہتری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے مختصر مدت کے لیے ملک کی پیداوار میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن کئی ترقی پزیر ممالک کی ہوش مند اور مخلص قیادت نےغیر ملکی سیاسی و معاشی اثرورسوخ کے اندیشے کی وجہ سے براہ راست بیرونی سرمایہ کو محدود بلکہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ اس اندیشے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کئی ترقی پزیر ممالک اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا انجام جدید معاشی استعماریت کے شکل میں نکلے گا جس میں ملک اور اس کے وسائل کا بیرونی کمپنیاں استحصال کریں گی۔ بلوچستان میں تانبہ، سونا اور گیس نکالنے ، ملیشیا میں غیر قانونی درختوں کی کٹائی، افغانستان میں ماربل کی تجارت اور عراق میں تیل وگیس کی دولت کی لوٹ مار تک، ہماری دنیا میں ملٹی نیشنل کمپنیاں ترقی پزیرمالک کاخون چوس رہی ہیں۔ افریقا میں لوٹ مار مچانے کے بعد کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیا کے دوسرے خطوں کا رخ کرلیا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے تا کہ کرپٹ حکمران اشرافیہ کے مددو معاونت سے قدرتی وسائل کو لوٹا جائے۔ بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے ریکو ڈک میں دنیا کے دوسری بڑی تانبہ اور سونے کی کان کی دریافت نے کئی کمپنیوں کو اس کی جانب متوجہ کیا ہے تا کہ کرپٹ معاہدوں کے ذریعے ان وسائل کولوٹ لیا جائے۔ یہ صورتحال اربوں ڈالر مالیت کے تانبے و سونے کی سیندک کی کان کی بھی ہے۔ آسٹریلیا اور چینی کمپنیوں نے ان کانوں کو اپنے کنٹرول میں لے کر اربوں کا فائدہ اٹھا یا ہے جبکہ حکومت کا اس میں حصہ رائی کے دانے کے برابر ہے۔
سرمایہ کار اپنے سرمائے پر زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول کے لیے دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں اور عموماً ایسے ممالک کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جہاں زبردست قدرتی وسائل موجود ہوتے ہیں لیکن وہاں پر ماحولیاتی اور لیبر قوانین کمزور یا غیر موثر ہوتے ہیں۔ اس بات کی توقع کرنا ہی فضول ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اخلاقی اصولوں کی پیروی کریں گی۔ تمام تر کارپوریٹ معاشرتی ذمہ داریوں اور اخلاقی قدروں کے نعروں کے باوجود ان کمپنیوں کا مقصد صرف اور صرف نفع کمانا ہے چاہے اس کے لیے انہیں کوئی بھی طریقہ کار اختیار کرنا پڑے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی ان کی یہی تاریخ ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام دولت کا ارتکاز کرتا ہے جس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی معاشی پالیسی پر چلنا، سیاسی اثرورسوخ اور طاقتور اشرافیہ ،اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ داروں اور ان کے مقامی سہولت کاروں کی ہوس کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو۔ یقیناً اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں نجکاری کی حمایت کرتی ہیں، معیشت کو آزاد کرنے پر ایمان رکھتی ہیں اور بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ ہر قیمت پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دنیا بھر میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے نیولبرل معاشی ڈاکٹرائن اور ٹریکل ڈاون ایفیکٹ کی ناکامی کے باوجود پاکستان کے معاشی مینجرز انہیں ناکام تصورات کو سینے سے چمٹائے ہوئے ہیں۔
امریکی ایجنٹ سعودی بادشاہت سے رقم کے بدلے
عمران خان نے خود کو فروخت کردیا
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان 23 اکتوبر 2018 کو "صحرا میں ڈیوس " کانفرنس میں شرکت کے لیے سعوی عرب گئے۔ ایکپریس ٹریبیون کے مطابق نے اس سے پہلے 22 اکتوبر 2018 کو انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ حکومت معیشت کی بحالی کی لیے ممکنہ سعودی قرضوں کی فراہمی چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب جانے سے قبل انہوں نے کہا کہ اگرچہ خوشگی کے قتل پر انہیں تشویش ہے لیکن وہ اس کانفرنس کو نہیں چھوڑ سکتے جبکہ ریاض سے امداد کی امید ہے۔ انہوں نے مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو میں کہا، " جب تک ہمیں دوست ممالک یا آئی ایم ایف سے قرضے نہ مل جائیں ، تو ہمارے پاس اگلے دو یا تین مہینوں کے لیے قرضوں اور درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ کے کافی ذخائر موجود نہیں ہیں۔ تو اس وقت ہم بہت بیتاب ہیں"۔
سعودی عرب کے حکمران امریکی ایجنٹ ہیں اور اس لیے وہ پاکستان کی اس طرح مدد نہیں کریں گے کہ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو سزا دینے کا امریکی منصوبہ ناکام ہو جائے۔ یہ معاشی گلا گھوٹنے کی صورت ہے جہاں امریکا کا مفاد یہ ہے کہ موجودہ بحران کو پاکستان پر دباؤ کے طور پر استعمال کر کے اس سے اپنے مفاد میں کام کرنے پر مجبور کرے چاہے اس کا تعلق "دہشت گردی کے خلاف جنگ"سے ہو، طالبان کو مذاکرات پر مجبور کرنا ہو، بھارت کے لیے مراعات حاصل کرنا ہو، سی پیک منصوبوں پر اثر انداز ہونا ہو یا معاشرے میں کرپٹ مغربی اقدار کو فروغ دینا ہو۔ کون جانتا ہے کہ پردے کے پیچھے اس بار قومی مفاد کو آئی ایم ایف یا سعودیوں سے قرضہ لینے کے لیے کس "ڈیل"کے تحت بیچ دیا جائے گا؟ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس نے سی پیک کی صورت میں جو بہترین چیز دے سکتا تھا دے دیا۔ سی پیک نے پاکستان کو زبردست قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے اور یہ بوجھ اسے آہستہ آہستہ ڈیفالٹ کی طرف لے جارہا ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے صورتحال میں کسی بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ چین کی جانب سے مزید کوئی بھی مالیاتی مدد ہمارے قرضوں کے بحران میں مزید اضافے کا ہی سبب بنے گی۔
اگر عمران خان معاشی صورتحال کے حوالے سے اتنے ہی پریشان ہیں اور پاکستان کو "ریاست مدینہ" کا نمونہ بنانے میں مخلص ہیں تو پھر وہ کیوں نہیں امریکی ایجنٹوں اور استعماری طاقتوں کو چھوڑ کر اسلام کے معاشی نظام کو اختیار کرتے؟ وہ ریاست کے محاصل میں اضافے کے لیے کیوں نہیں اسلامی معاشی نظام میں دیے گئے طریقہ کار کو اختیار کرتے اور توانائی اور قدرتی وسائل کو عوامی ملکیت قرار اور زکوۃ اور خراج لاگو کرتے؟ وہ کیوں نہیں لوگوں کو ، زرعی اور صنعتی شعبے کو بجلی و گیس پیداواری لاگت پر فراہم کرتے تا کہ مقامی پیداوار کو آگے بڑھنے کے لیے زبردست قوت ملے اور آخر کار برآمدات میں بھی اضافہ ہو؟ وہ کیوں نہیں پاکستان میں بھاری صنعتوں کی بنیاد ڈالتے تا کہ اسے درآمدات پر انحصار نہ کرنا پڑے؟ وہ کیوں نہیں اسلامی قوانین کے مطابق زرعی اصلاحات لاگو کرتے تا کہ زیادہ سے زیادہ زرعی زمین پر کاشتکاری کی جاسکے؟ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کا "تبدیلی" اور "ریاست مدینہ" کا دعویٰ کھوکھلے نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ایک طرف "ریاست مدینہ" بنانے کا دعویٰ ہے لیکن دوسری جانب استعماریت اور سرمایہ داریت کے سامنے جھک جانا ثابت کرتا ہے کہ ہمیں دھوکہ دیا جارہاہے۔ موجودہ بحران صرف اورصرف نبوت کے طریقے پرخلافت کے قیام کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کو نافذ کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
" کیا یہ زمانہٴ جاہلیت کے حکم کے خواہش مند ہیں؟ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اللہ سے اچھا حکم کس کا ہے؟ "(المائدہ:50)
حکومتی ہاوسنگ اسکیم سے فائدہ تعمیراتی کمپنیوں اور بینکوں کو پہنچے گا جبکہ مالیاتی بوجھ اور سود کا گناہ غریبوں پر پڑے گا
11 اکتوبر 2018 کو وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے نیا پاکستان ہاوسنگ اسکیم کے افتتاح کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو اس کی رجسٹریشن کا آغاز بھی ہوگیا۔ اس اسکیم کے تحت معاشرے کے غریب افراد کے لیے اگلے پانچ سال کے دوران 50 لاکھ گھر تعمیر کیے جانے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ، "اس منصوبے کا ہدف عام آدمی ہے جو اپنے گھر کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا"۔ اس منصوبے کی لاگت کا اندازہ 180 ارب ڈالر ہے جو کہ پاکستان کی سالانہ کُل ملکی پیداوار کا 60 فیصد بنتا ہے۔ اس منصوبے کی سالانہ لاگت کا اندازہ 7800 ارب روپے ہے جبکہ وفاقی حکومت ہر سال صرف 4400 ارب روپے خزانے میں محاصل کی صورت میں جمع کرتی ہے۔ جو سوال سب سے پہلے اس منصوبے کے حوالے سے ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ اتنے مہنگے منصوبے کے لیے پیسے کا بندوبست کہاں سےکیا جائے گا۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ منصوبے پر تعمیراتی کام مقامی اور غیر ملکی کمپنیاں کریں گی۔
اگرچہ اب تک حکومت نے اس بات کا اعلان نہیں کیا ہے کہ اس منصوبے پر سرمایہ کاری کہا ں سے کی جائے گی لیکن اس منصوبے میں حکومت کے شراکت دار چیرمین آف دی ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) محمد حسن بخشی نے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیرمین آباد نے اس منصونے کے مالیاتی ماڈل پر بات کی۔ ایک گھر کی قیمت کا 20 فیصد ماہانہ اقساط کی صورت میں گھر والے کی جانب سے دیا جائے گا جبکہ 40 فیصد رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کمرشل بینکوں کو ایک فیصد کی شرح سود پر دے گا۔ جس کے بعد گھر بنانے والوں کو یہ رقم 4 سے 5 فیصد شرح سود پر دی جائے گی۔ باقی 40 فیصد رقم کراچی انٹربینک آفر ریٹ (کائی بور) سے تین فیصد زائد کی شرح سود پر دی جائے گی۔ لہٰذا اس منصوبے کے ذریعے بینکوں کو سود کی شکل میں نفع ملے گا جبکہ نجی سرمایہ کاروں کو اس منصوبے کے لیے درکار سریہ ، سیمنٹ اور دیگر تعمیراتی اشیاء فراہم کرنے پر نفع ملے گا۔ بینکوں کا تمام تر سود کا بوجھ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عام عوام پر ہی پڑے گا۔ تو پھر کس طرح یہ منصوبہ عام عوام کے فائدے کے لیے ہے؟
تو ایک بار پھر جمہوریت چھوٹے سے سرمایہ دار اشرافیہ کے مفاد کے لیے کام کرتی نظر آرہی ہے جبکہ عام آدمی نہ صرف گھر کی اصل قیمت بلکہ اس پر سود بھی ادا کرے گا۔ اسلام نے گھر کو انسانوں کے لیے بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
لَيْسَ لابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ: بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ
"ان چیزوں کے علاوہ کسی چیز پر ابن آدم کا حق نہیں: رہنے کے لیے گھر ، ستر چھپانے کے لیے کپڑا، بھوک مٹانے کے لیے روٹی و پانی “۔
لہٰذا ریاست خلافت میں یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کے لیے گھر کی سہولت کویقینی بنائے۔ گھر کی تعمیر کی لاگت کو کم سے کم رکھنے کے لیے ریاست بنیادی ضروریات پوری مملکت میں فراہم کرے گی۔ ریاست صرف شہری علاقوں تک اس سہولت کو محدود نہیں رکھے گی کیونکہ اسی وجہ سے شہری علاقوں میں آبادی اور زمینوں کی قیمتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں جبکہ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد کے روزگار کا انحصار زراعت پر ہے۔ ریاست خلافت اسٹاک شئیر کمپنی کو غیر قانونی قرار دے گی جس کی وجہ سے نجی شعبہ بڑے تعمیراتی منصوبوں میں کلیدی کرادر ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس کی جگہ ریاست خلافت بڑے تعمیراتی کام خود کروائے گیا اور تعمیراتی لاگت انتہائی کم ہو جائے گی کیونکہ ریاست کا مقصد اس سے نفع کمانا نہیں ہوگا۔ اگر اس کے بعد بھی ریاست کی کچھ شہری اپنے وسائل پر گھر کی تعمیر کے قابل نہیں ہوں گے تو پھر یہ ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ ان کے لیے گھر کا انتظام کرے جس کے لیے درکار دولت ریاست کے خزانے میں موجود ہو گی کیونکہ اسلام کے معاشی نظام کی وجہ سے خزانہ خالی نہیں ہوگا۔