بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 21 دسمبر 2018
۔ جمہوریت نے سرکاری شعبے میں تعلیم کی فراہمی سے غفلت کامظاہرہ کیا جس کی وجہ سے نجی اسکولوں کی فیسوں کا بحران پیدا ہوا
- باجوہ-عمران حکومت مذاکرات کے ذریعے، ریاستوں کے قبرستان، افغانستان، میں امریکی موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہے
- جمہوریت کے برخلاف خلافت کرپشن کو پھلنے پھولنے ہی نہیں دیتی
تفصیلات:
جمہوریت نے سرکاری شعبے میں تعلیم کی فراہمی سے غفلت کامظاہرہ کیا- جس کی وجہ سے نجی اسکولوں کی فیسوں کا بحران پیدا ہوا
13 دسمبر 2018 کو نجی اسکولوں میں بہت زیادہ فیسوں کےمقدمے کی سماعت کرتے ہوئے پاکستان کے چیف جسٹس نے تبصرہ کیا کہ ،"بچوں کو دو روپے کی سہولت نہیں مل رہی ۔۔۔پیسہ کمانے کے لیے آپ نے شہریوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے"۔ دراصل مسئلے کی جڑ نجی اسکولوں کی بھاری فیسیں نہیں ہے۔ مسئلہ کی جڑ یہ ہے کہ حکومت معیاری تعلیم فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے والدین مجبور ہو کر اپنے بچے نجی اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تعلیم کے شعبے پر پاکستان کُل ملکی پیداوار کا محض 2.8فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ جنگ زدہ افغانستان کُل ملکی پیداوار کا 4 فیصد، بھارت 7 فیصد جبکہ اتنہائی غریب افریقی ملک روانڈہ 9 فیصد خرچ کرتا ہے۔ پاکستان میں 154144 اسکولوں کے 2016 میں کیے جانے والے سروے کے مطابق صرف 52 فیصد اسکولوں کے پاس چار بنیادی چیزیں : چار دیواری، بجلی، پانی اور ٹوائلٹ موجود ہیں جبکہ 11 فیصد اسکولوں کے پاس ان چار بنیادی سہولتوں میں سے کوئی ایک سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ یونیسکو کی جانب سے فراہم کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں پاکستان کی کلاس رومز سب سے زیادہ پُرہجوم ہیں جہاں 500 بچوں کے لیے صرف تین اساتذہ میسر ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
« مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ»
" جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے"۔
انقلابی حل یہ ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کی جائے جو اسلام کا تعلیمی نظام نافذ کرے۔ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ریاست کے سربراہ کے طور پر کافر قیدیوں کی آزادی اس بات سے مشروط کی کہ وہ دس مسلمان بچوں کو تعلیم دیں گے۔ یہ بات اس کا ثبوت ہے کہ اسلامی ریاست کے حکمران پر لازم ہے کہ وہ تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ریاست خلافت میں ہر بچے اور بچی کو پرائمری اور سیکنڈری تعلیم مفت فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ جہاں تک ممکن ہوا ریاست خلافت مفت یا انتہائی کم قیمت پر یونیورسٹی کی تعلیم بھی فراہم کرے گی۔ ریاست میں صرف ایک تعلیمی نصاب ہوگا جو کہ ریاست تشکیل دے گی اور اس کے علاوہ کسی دوسرے نصاب کو پڑھانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نجی اسکول قائم کیے جاسکے گے اگر وہ ریاستی نصاب پڑھانا چاہیں اور ریاست کی تعلیمی پالیسی کی پیروی کریں۔ یہ نصاب اسلام کی اقدار کی ترویج کرے گا اور ایسا کوئی تصور اس میں شامل نہیں ہوگا جو مسلمانوں کو اپنے دین حق سے دور کردے۔ لائبریریوں، تجربہ گاہوں اور تحقیقی مراکز کے قیام کے لیے وافر وسائل فراہم کیے جائیں گے۔
- باجوہ-عمران حکومت مذاکرات کے ذریعے، ریاستوں کے قبرستان، افغانستان،
- میں امریکی موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہے
18 دسمبر 2018 کوپاکستان کی حکومت نے اس بات کا علان کیا کہ وہ افغانستان کے امن عمل کے لیے جو ہو سکا کرے گی۔ یہ بات اس وقت کہی گئی جب متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت میں حکومت پاکستان کی حمایت سے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات دوسرے دن بھی جاری تھے۔ ابوظہبی میں ہونے والے مذاکرات پر اپنے پہلے ردعمل میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا "پاکستان نے ابوظہبی میں طالبان اور امریکاکے درمیان ہونے والے مذاکرات میں مدد فراہم کی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ عمل امن کی جانب لے جائے گا اور بہادر افغان عوام کی تقریباً تین دہائیوں سے جاری تکالیف کاخاتمہ ہوگا۔ پاکستان امن عمل کومزید آگے بڑھانے کے لیےہر وہ عمل کرے گے جو اس کے اختیار میں ہے"۔
برطانوی استعمار اور سوویت روس کی طرح امریکا نے یہ جان لیا ہے کہ وہ بہادر اور سخت جان افغان مسلمانوں کے خلاف فوجی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ لہٰذا، واشنگٹن ایک ایسا سیاسی حل حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا ہے جس کے ذریعے وہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی دہلیز پر اپنی فوجی، انٹیلی جنس اور غیر سرکاری موجودگی کو برقرار رکھ سکے۔ اس وقت امریکا نے اگر فوجی آپریشنز کا دائرہ کم بھی کیا ہے تو اس لیے تا کہ سیاسی بات چیت شروع ہو سکے۔ 22 اگست 2017 کو اس وقت کے امریکی سیکریٹری دفاع ریکس ٹیلرسن نے اعلان کیا تھا، "میں سمجھتا ہوں کہ صدر (ٹرمپ) جانتے ہیں کہ اس تمام(فوجی) کوشش کا مقصد طالبان پر دباؤ ڈالنا ہے، تا کہ طالبان یہ سمجھ جائیں کہ تم میدان جنگ میں فتح حاصل نہیں کرسکتے۔۔۔ ہم شاید جیت نہ سکیں لیکن تم بھی جیت نہیں سکتے"۔ اسی پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لیے ٹرمپ نے عمران خان کو خط لکھ کر پاکستان سے مذاکرات میں مدد دینے کا حکم دیا جس کی تصدیق عمران خان نے 3 دسمبر 2018 کو کی تھی۔
یقیناً امریکی کٹھ پتلیوں کی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ وہ امریکی منصوبوں کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے یہ ان کے ذہن کی اختراع ہے اور مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔ لہٰذا، جب امریکا سات سمندر پار بیٹھ کر افغانستان پر قبضہ نہیں کرسکتا تھا تو مشرف نے پاکستان کی انٹیلی جنس اور ہوائی اڈے فراہم کیے اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ یہ سب کچھ "پہلے پاکستان" کے نظریے کے تحت کررہا ہے۔ پھر جب انتہائی ہلکے ہتھیاروں سے لیس لیکن جوش و جذبے سے بھر پور مجاہدین نے امریکا کی بزدل افواج کے چھکے چھڑادیے تو کیانی اور راحیل نے ہماری قابل افواج کو قبائلی علاقوں میں مجاہدین کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بھیجا اور یہ دعوی کرتے رہے کہ یہ صلیبی جنگ نہیں بلکہ "ہماری جنگ ہے"۔ اور اب باجوہ-عمران حکومت افغان مسلمانوں میں موجود ہمارے علماء اور انٹیلی جنس ادار وں کے اثرورسوخ کو استعمال کررہی ہے تا کہ امریکا کے ساتھ افغان مزاحمت کے مذاکرات شروع ہو سکیں جبکہ یہ ایک سیاسی جال ہے جس کے ذریعے واشنگٹن فتح حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ میدان جنگ میں کبھی حاصل نہیں کرسکتا۔
جمہوریت کے برخلاف خلافت کرپشن کو پھلنے پھولنے ہی نہیں دیتی
19 دسمبر 2018 کو ڈان نیوز ٹی وی نے خبر دی کہ قومی احتساب بیورو کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف دائر فلیگ شپ اور العزییہ مقدمات میں احتساب عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ یہ فیصلہ 24 دسمبر 2018 بروز پیر سنایا جائے گا۔ پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے کیسا طویل ڈرامہ کھیلا جارہا ہے۔ 2016 میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے خاندان کے خلاف کرپشن کے مقدمات کے طویل سماعت شروع ہوئی تھی۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سرکاری حکام میں کرپشن اس قدر عام ہے کہ لوگ اس کے حل کے حوالے سے تمام امیدیں کھو چکیں ہیں۔
جمہوریت کے برخلاف خلافت کرپشن کے پیچھے پیچھے نہیں بھاگتی بلکہ اسے پہلے قدم پر ہی پکڑ لیتی ہے۔ اسلامی خلافت اپنے حکام اور حکمرانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے منصب اور اختیارات کو لوگوں اور قوم کے معاشی استحصال کے لیے استعمال کرسکیں۔ بلکہ خلافت ان کا احتساب ایسے کرتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے عمال کاکیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے گورنرز اور عاملین کی آمدن کا احتساب کرتے تھے اور اس حوالے سے فرمایا،
من استعملناهُ على عملٍ فرزقناه رزقاً فما أَخَذَ بعد، فهو غُلُول
" ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیں اور ہم اس کی کچھ روزی (تنخواہ) مقرر کر دیں پھر وہ اپنے مقررہ حصے سے جو زیادہ لے گا تو وہ خیانت ہے “۔
عمر بن خطاب ؓ سے منصوب ہے کہ وہ منصب پر فائز کرنے سے پہلے اور منصب سے ہٹائے جانے کے بعد اپنے گورنرز اور حکام کی جائیدادوں کاجائزہ لیا کرتے تھے۔ اور اگر ان کی جائیدادوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھتے تو اسے ضبط کرلیتے تھے۔ انہوں نے اپنے کئی حکام کی زائد دولت کوضبط کرلیا تھا جو انہوں نے اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھا کر جمع کی تھی۔ وہ ایسی د ولت کو ضبط کر کے بیت المال میں جمع کرادیتے تھے۔ اس طرح حکام کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ تقوی کے احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ پھر شرعی احکام کا نفاذ کیا جاتا تھا جو اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ حکام کا انصاف کے ساتھ احتساب کیا جائے تا کہ امت کی دولت کا تحفظ ہو۔