بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز28دسمبر 2018
۔ سرمایہ دارانہ نظام کے" ٹریکل ڈاون ایفکٹ" پر انحصار کر کے غربت کبھی ختم نہیں کی جاسکتی
- آئی ایم ایف کے احکامات کی پیروی سے معیشت بہتر نہیں بلک مزید تباہی کا شکار ہو گی
- پاکستان کےوزیر خارجہ امریکی کرائے کے فوجیوں اور سرکاری افواج کی افغانستان میں موجودگی کو مستقل یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں
تفصیلات:
سرمایہ دارانہ نظام کے" ٹریکل ڈاون ایفکٹ" پر انحصار کر کے غربت کبھی ختم نہیں کی جاسکتی
22 دسمبر 2018 کو عمران خان نے پاکستان ٹیکسٹائل میلز ایسوسی ایشن (ایپٹما) کے دفتر میں کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے حضرات سے خطاب میں کہا کہ،"ستر کی دہائی میں پاکستان میں کسی طرح سے یہ ذہن بنالیا گیا تھا کہ دولت پیدا کرنا بُری بات ہے اور یہ سوچ آج بھی افسر شاہی اور سیاسی حلقوں میں پائی جاتی ہے جو (معیشت کی)بڑھوتی میں روکاٹ ہے۔ ہم نفع کمانے اور منافع خوری میں الجھ جاتے ہیں۔ پہلی چیز جائز جبکہ دوسری بُری ہے"۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ خان صاحب نے سرمایہ کاروں کے ذریعے دولت پیدا کرنے کو اپنی حکومت کی ترجیح قرار دیا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے باربار اس بات کو دہرایا ہے کہ غربت بدنام زمانہ سرمایہ دارانہ تصور "ٹریکل ڈاون ایفکٹ" کے ذریعے ختم ہو گی۔ انہوں نے کہا، "جب پیسہ کمایا جاتا ہے تو اس کے ٹریکل ڈاون ایفکٹ کے ذریعے وہ معاشرے کے سب سے نچلے طبقے تک پہنچتا ہے"۔
دولت کی تقسیم کو ایسے یقینی نہیں بنایا جاسکتا کہ چند افراد کو دولت پیدا کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے اور پھر ٹریکل ڈاون ایفکٹ کے ذریعے اس کے دوسروں تک پہنچنے کا انتظار کیا جائے۔ بلکہ ایک فرد کو دولت پیدا کرنے کا حق اس طرح دیا جائے کہ معاشرہ اس شر سے محفوظ رہے جو فرد کو دولت کمانے کے لیے کھلا چھوڑ دینے سے پہنچ سکتا ہے۔ دولت میں اضافے کی خواہش جبلت بقاء کا ایک مظہر ہے جیسا کہ نکاح جبلت نوع(افزائش) اور عبادت جبلت تدین کامظہر ہیں جن کا مقصد ان جبلتوں کو پورا کرنا ہے۔ لیکن اگر ان جبلتوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے کہ جیسے چاہوں ان کی تسکین کرلو، تو غلط طریقے سے ان کی تسکین کی جائے گی اور بدنظمی پیدا ہو گی۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کوئی طریقہ کار واضح کیا جائے جس کے تحت انسان دولت کمائے اور اس کے نتیجے میں دولت چند ہاتھوں میں اس قدرمحدود بھی نہ ہو جائے کہ آبادی کی اکثریت اپنی بنیادی ضروریات کو ہی پورا کرنے سے قاصر ہوجائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ افراد کے لیے دولت کمانے اور اسے بڑھانے کے طریقہ کارکو واضح کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ طریقہ کار بھی واضح کیا جائے جس کے ذریعے دولت معاشرے میں تقسیم ہو گی۔ جمہوریت نے اس تمام معاملے کو "ملکیت کی آزادی" کے نام پر کھلا چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں حکمران طبقے کے چند افراد کے ہاتھوں میں بے تہاشہ دولت جمع ہو گئی ہے۔ جمہوریت نے اس معاملے کو اس قدرخراب کردیا ہے کہ 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد بھی عالمی سرمایہ دارانہ اشرافیہ کی دولت میں اضافہ ہوا اور امیر و غریب کے درمیان خلیج میں مزید اضافہ ہوگیا۔
لیکن اسلام نے دولت کی ملکیت،اس میں اضافے اور اس کی تقسیم کے معاملے کو منفرد طریقے سے حل کیا ہے۔ دولت کی ملکیت اور اس میں اضافہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کے تحت ہی ممکن ہے۔ لہٰذا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کچھ معاہدوں کو جائز اور کچھ کو ناجائز قرار دیا۔ اس طرح نام نہاد ٹریکل ڈاون ایفکٹ پر انحصار کیے بغیر دولت کی تقسیم کو یقینی بنایا گیا ہے۔ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے توانائی اور معدنی وسائل کی نجی ملکیت کو حرام اور انہیں عوامی ملکیت قرار دیا اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد کو تمام لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا ۔ اس طرح دولت کے یہ ذخائر اس حکم کے ذریعے معاشرے میں دولت کی تقسیم کا باعث بنتے ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سودکو حرام قرار دیا جس کے ذریعے بینک دوسروں کو قرض دے کر نفع کماتے ہیں اور دوسروں کے قرضوں کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح بینک کی دولت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جبکہ عوام کی غربت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے منفرد کمپنی ڈھانچہ دیا اور جوائنٹ اسٹاک شیئر کمپنی کو حرام قرار دیا جس کے ذریعے سرمایہ دار اشرافیہ چھوٹے چھوٹے سرمایہ کاروں سے دولت جمع کر کے معیشت کے ان شعبوں میں کام کرنے کے قابل بن جاتے ہیں جہاں بہت زیادہ دولت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کے دیے گئے کمپنی ڈھانچے کی وجہ سے ان شعبوں میں نجی شعبے کا کردار محدود جبکہ ریاست کا کردار بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ
" تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں(دولت) نہ پھرتی رہے "(الحشر:7)۔
آئی ایم ایف کے احکامات کی پیروی سے معیشت بہتر نہیں بلک مزید تباہی کا شکار ہو گی
24 دسمبر 2018 کو وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل اور صنعت عبدالرزاق نے کہا کہ حکومت تمام ضروری اقدامات لے رہی ہے تا کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کی صنعت بین الاقوامی مارکیٹ میں متحرک اور مسابقت کے قابل بنے۔ پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مییوفیکچرر اینڈ ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے وفد،جس کی قیادت اس کے مرکزی چیرمین مبشر نصیر بٹ کررہے تھے، سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ زیرو ریٹڈ برآمدی صنعت کو سیلز ٹیکس میں سہولت فراہم کی جائے گی تا کہ وہ مقابلہ کرسکیں۔
آئی ایم ایف کی ہدایات پر پاکستان کے حکمرانوں نے بجلی، گیس، تیل کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافہ کیا جس کے نتیجے میں پیداواری لاگت اور کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ یہ تمام اقدامات مقامی و بین الاقوامی مارکیٹوں میں ہمارےمال کو مہنگا بنادیتے ہیں اور وہ مسابقت کے قابل نہیں رہتے۔ بجائے اس کے کہ آئی ایم ایف کی ہدایات پر کیے جانے والے ان تمام تباہ کن اقدامات کو واپس لیا جاتا، حکمرانوں نے معیشت کے کچھ شعبوں، خصوصاً برآمدی شعبے، کو چند مراعات دیں۔ صرف برآمدی شعبے کو دی جانے والی یہ مراعات ہماری معیشت کو کسی صورت مضبوط نہیں کریں گی کیونکہ پاکستان کی برآمدات پاکستان کی 315 ارب ڈالر کی کُل ملکی پیداوار کا صرف 8 فیصد ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو صرف ایک ہی صورت میں اپنے پیروں پر کھڑا اور پیداواری انجن بنایا جاسکتا ہے اگر نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیا م کے ذریعے اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جائے۔ اسلام نے تیل، گیس، معدنیات،بجلی کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے ، اس طرح ریاست انہیں کسی صورت نجی ملکیت میں نہیں دے سکتی اور انہیں تمام لوگوں اور معیشت کے مختلف شعبوں کو کم قیمت پر فراہم کرنے کی پابند ہے۔ اسلام جنرل سیلز ٹیکس(جی ایس ٹی)،انکم ٹیکس اور کسی بھی ایسے ٹیکس کو غیر شرعی قرار دیتا ہے جس کا ثبوت قرآن و سنت سے نہیں ملتا۔ اسلام سونے اور چاندی کو ریاست کی کرنسی کا پیمانہ قرار دیتا ہےجس کے نتیجے میں ریاست کی کرنسی مستحکم اور معیشت تباہ کن مہنگائی سے محفوظ رہتی ہے۔ لہٰذا پاکستان کی معیشت کومضبوط ، مستحکم اور متحرک بنانے کے لیے چند ٹیکس مراعات کی نہیں بلکہ نبوت کے طریقے پر خلافت کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ امریکی کرائے کے فوجیوں اور سرکاری افواج کی افغانستان میں موجودگی کو مستقل یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں
24 دسمبر 2018 کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چار ممالک کے دورے پر روانہ ہوئے تا کہ خطے کے ممالک کو افغانستان کے مصالحتی عمل میں پاکستان کی حالیہ کوشش سے آگاہ کرسکیں۔ اپنے دورے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا، "آگے بڑھنے کے لیے ایک اجتماعی نظر ضروری ہے"۔ لیکن آگے بڑھنے کی جس کوشش کا قریشی صاحب ذکر کررہے ہیں اس کا مقصد پاکستان کے تحفظ کو یقینی بنانا نہیں ہے۔ اس کوشش کا مقصد سیاسی معاہدے کے ذریعے افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امریکہ کی کرائے کی اور سرکاری افواج کی موجودگی کو یقینی بنانا ہےجوکہ امریکا زبردست افغان مزاحمت سے لڑ کر کسی صورت یقینی نہیں بنا سکتا۔
امریکا کے افغانستان میں چودہ ہزار فوجی موجود ہیں جو یا تو نیٹو کے جھنڈے تلے افغان فورسز کی حمایت میں کام کررہی ہیں یا انسداد دہشت گردی کے نام پر الگ سے کام کررہی ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل نے یہ بتایا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں سات ہزار فوجی واپس آرہے ہیں۔ لیکن سرکاری امریکی افواج کے علاوہ افغانستان میں پچیس ہزار سے زائد کرائے کے فوجی،جنہیں وہ ڈیفنس کونٹریکٹر کہتے ہیں، بھی موجود ہیں جن کی خدمات امریکی دفتر دفاع نےکرائے پر لے رکھی ہیں۔ پینٹاگون نے ڈیفنس کونٹریکٹر کی وضاحت ایسے کی ہے کہ "کوئی بھی فرد، ادارہ،کارپوریشن،شراکت داریا کوئی بھی قانونی وفاقی شےجو براہ راست دفتر دفاع سےسہولیات، سپلائیز یا تعمیرات کے لیےاپنی خدمات کی فراہمی کا معاہدہ کرتی ہے"۔امریکی فوجی پالیسی میں کرائے کے فوجیوں کا کس قدر کردار ہے تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2001 سے نجی دفاعی صنعت نے بہت زیادہ منافع کمایا ہے جس میں2007 سے افغانستان میں 100 ارب ڈالر کی کمائی بھی شامل ہے۔ دفاعی کنٹریکٹر میں انٹیلی جنس تجزیہ، ترجمے، تشریح اور نجی سیکیورٹی بھی شامل ہے،جنہوں نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد اُن معاملات میں کردار ادا کرنا شروع کردیا جو کبھی سرکاری افواج ادا کرتی تھیں۔ بدنام زمانہ بلیک واٹر کی بنیاد ڈالنے والا ایرک پرنس ان سابق فوجیوں کی خدمات حاصل کرنا چاہتا ہے جنہوں نے افغانستان میں فوجی آپریشنز میں حصہ لیا تھا۔ اسی طرح "جی ایس4" دنیا کے سب سے بڑی سیکیورٹی کمپنی ہے جو اس وقت کابل میں برطانوی سفارت خانے کی حفاظت کی خدمات انجام دے رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں امریکی انٹیلی جنس اور ان نجی دفاعی کنٹریکٹرز کے کردار کے حوالے سے اب کافی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ اس سے قبل کئی کتابیں جیسا کہ"بلیک واٹر:دنیا کی سب سے بڑی کرائے کی فوج کا ظہور"، "خنجر کا طریقہ کار" اور حال میں شائع ہونے والی کتاب "ڈائریکٹوریٹ ایس: سی آئی اے اور امریکا کی افغانستان اور پاکستان میں خفیہ جنگ" میں پاکستان کے خلاف امریکا کے خفیہ آپریشنز کے تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
خطے میں امریکا کی سرکاری افواج اور نجی کرائے کے فوجیوں کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے کرائے کے سہولت کاری کا کردار ادا کرنے سے پاکستان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس طرح مستقبل میں ایک اور "ایبٹ آباد آپریشن" کی راہ ہموار کی جارہی ہے کہ جہاں امریکا پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے خلاف حملہ کرسکے۔ امریکا کی مستقل موجودگی اسے اس قابل بنائے گی کہ وہ ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ، جو کہ ایک نجی دفاعی تنظیم کا ہی کارندہ تھا، کے ذریعے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرسکے۔ ان سب باتوں کے باوجود پاکستان کے حکمران امریکی حکم پر کرائے کے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں اور اس ذلت آمیز کردارپر انتہائی فخر کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ اور یہ اس لیے ذلت قبول کررہے ہیں کیونکہ یہ طاقت کے حصول کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے دین حق سے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا
" جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب اللہ ہی کی ہے"(النساء:139)۔