السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز21  جون 2019

۔ اسلام کا محصولات کا نظام معاشی ترقی کو پروان چڑھاتا ہے

-پاکستانی صنعت کی ابتر صورتحال صنعتی شعبے کو دفاعی صنعت سے علیحدہ کرنے کی وجہ سے ہے

-پاکستان کو مزید ٹیکسوں کے نفاذ کی  نہیں بلکہ ملکیت کے قوانین کی تبدیلی کی ضرورت ہے

تفصیلات:

اسلام کا محصولات کا نظام معاشی ترقی کو پروان چڑھاتا ہے

15جون 2019 کو پانچ برآمدی صنعتوں کے نمائندگان  نے بجٹ 20-2019 میں تمام برآمدات پر 17فیصد سیلز ٹیکس کے فیصلے کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ کراچی پریس کلب میں کاروباری رہنما زبیر موتی والا نے کہا کہ ٹیکسٹائل، چمڑے، قالین، کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی بنانے والے پانچ شعبوں  کی نمائندہ تنظیمیں روزانہ مظاہریں کریں گی۔ انہوں نے موجودہ بجٹ کو "آئی ایم ایف کا بجٹ" قرار دیا اور الزام لگایا کہ اس کا مقصد پوری برآمدی صنعت کو تباہ کرنا ہے۔

 

                     سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں صنعت کاروں اور تاجروں سے اس و قت ٹیکس لے لیا جاتا  ہے جب یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آیا انہیں منافع بھی ہوگا یا نہیں۔  سرمایہ دارانہ نظام یہ بھی نہیں دیکھتا کہ کیا صنعتکار اور تاجر کے اخراجات پورے ہونے کے بعد اس کے پاس  فاضل دولت ہوگی۔ اس نظام کو صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے معاملات کوچلانے کے لیے کسی پر بھی ٹیکس لگادے۔ ملک کے صنعتکار، تاجر اور کسان پچھلے کئی سال سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ "پیداواری  اورکاروباری لاگت" بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے ناصرف ان کی چیزیں بین الا قوامی مارکیٹ میں دوسرے ممالک کی چیزوں کامقابلہ نہیں کرپارہی ہیں بلکہ مقامی مارکیٹ میں بھی بیرونی اشیاء کامقابلہ نہیں کرپارہی ہیں۔  تبدیلی کے نام پر آ نے والی موجودہ حکومت نے پہلے صرف چند برآمدی صنعتوں کو ٹیکس کی چھوٹ دی    تھی  تا کہ برآمدات میں اضافہ ہو ، ڈالر کے ذخائر بڑھیں اور اس طرح کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی وا قع ہو۔  لیکن آئی ایم ایف کے دباؤپر  چند برآمدی صنعتوں کی دی جانے والی رعایت واپس  لے لی گئی  تا کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع ہوسکیں اور استعماری اداروں کے قرضے سود سمیت بغیر کسی رکاوٹ کے واپس کیے جاتے رہیں جو ہمارے  وفاقی بجٹ کا ایک 40 فیصد سے زیادہ حصہ کھا جاتے ہیں ۔

سیلزٹیکس کا خاتمہ صرف برآمدی صنعتوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام صنعتوں اور تجارتی اشیاء  کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ ایک غیر اسلامی ٹیکس ہے۔  اسلام میں کوئی ٹیکس بغیر شرعی دلیل کے کسی پر کوئی عائد نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا نہ صرف سیلزٹیکس بلکہ ہر اس ٹیکس کا خاتمہ ضروری ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔

 

كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ

"ایک مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، اس کا مال،اور عزت و آبرو"(مسلم)۔

 

اسلام بنیادی طور پر صنعتوں اور تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں لگاتا۔ اسلام صنعتوں  میں استعمال ہونے والے سامان  اور تجارتی مال پر سال گزرنے کے بعد صرف زکوۃ عائد کرتا ہے۔ اس طرح صنعتوں پر کسی بھی قسم کا کوئی ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے "پیداواری     اور کاروباری لاگت" میں زبردست کمی آتی ہے اور صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں زبردست تیزی آتی ہے۔ لہٰذا صرف اور صرف اسلام  کے محصولات کے نظام کو نافذ کرکے ہی پاکستان کی معیشت اور برآمدات میں تیز رفتار ترقی ممکن ہے۔ اور جو ریاست اسلام کے محصولات کو نافذ کرے گی وہی ریاست مدینہ یعنی خلافت ہوگی۔

  

پاکستانی صنعت کی ابتر صورتحال صنعتی شعبے کو دفاعی صنعت سے علیحدہ کرنے کی وجہ سے ہے

ڈان میں شائع ہونے والے 15 جون2019 کے آرٹیکل کے مطابق دفاع کے شعبے میں ایک خَطِیر رقم خرچ کرنے کے باوجود پاکستان میں صنعت اور دفاعی شعبے میں عدم روابط کی وجہ سے اس کا معیشت پر کوئی اثر نہیں  پڑا ۔دفاعی صنعتوں جیسے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا کو صنعتی شعبےاور تحقیقی اداروں کے ساتھ ملانے سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دفاعی صنعت اور نجی صنعتی شعبے میں تعاون وہ عوامل ہیں جن پر پالیسی سازوں کو توجہ دینی چا ہیے۔

 

اگر چہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اِس کا میزائیل پروگرام بھی دنیا کے جدید پروگراموں میں سے  ایک ہے مگر پِھر بھی پاکستان اس کا دائر ہ وسیع کرکے دفاعی خود مختاری حاصل کر نے کے بجائے فوجی سازوسامان دشمن ممالک سے حاصل کرنے پر مجبور ہے اور نہ ہی  عام صنعتی شعبے میں کوئی فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔ معیشت کے اہم شعبے ٹیلی کمیونی کیشن سے لے کر انجن  سازی اور بھاری صنعتیں تک ،بیرونی اشیاءاور ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہیں ۔ اس  کی وجہ پاکستان کے حکمرانوں کا نظریاتی وژن سے عاری ہونا اور استعماری پالیسیوں کا نفاذہے ۔ ایجنٹ حکمران استعماری ممالک سےایسی شرائط پر قرضے لیتے ہیں ،جیسے نجکاری  ، حکومت کا معاشی میدان میں کم سے کم عمل دخل، ڈالر کی  ضرورت کو پورا کرنے کے لئےبرآمدات پر مبنی معیشت وغیرہ ،جس کے ذریعے مقامی سطح پر نجی اور ریاستی شعبے میں زبردست صنعتی ترقی کو روکا جاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف خود ان مغربی ممالک کی صنعتی ترقی ریاست کی طرف سےہونےوالی ریسرچ اور ڈیولپمینٹ اور خاص طور پر دفاعی شعبے کی ریسرچ اور ڈیولپمینٹ کی وجہ سے ہے۔امریکہ جوکہ دنیا کا طاقتور ترین صنعتی ملک ہے اس نے جنگی صنعتوں پر توجہ مرکوز کی جس میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی، سپر کمپیوٹرز اور خلائی ٹیکنالوجی وغیرہ شامل ہیں ۔ جنگ عظیم دوئم سے قبل جاپان اور جرمنی نے جنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جس صنعتی پالیسی کو اختیار کیا تھا وہ پالیسی آج تک انھیں فائدہ پہنچا رہی ہے ۔

چونکہ اسلام کی  خارجہ پالیسی جہاد ہے اس لئے خلافت کے قیام کے پہلے دن سے اسلامی ریاست اس بات کی بھر کوشش کرے گی کہ فوجی صنعت پر توجہ مرکوز کی جائے جو کہ ایک طاقتور صنعتی شعبے کے قیام کے لیے لازمی ہے۔ اس کے ساتھ اسلامی ریاست کےلئے  دوسری ریاستوں پرانحصار کرناجائز نہیں کیونکہ  اللہ پاک نےارشاد فرمایا،

 

((وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا)) 

" اور اللہ نے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ کافر ان کے معاملات پر غالبہ پائیں" (النساء:141)،

 

اس لئے اسلامی ریاست پر فرض ہے کہ وہ خودمختاری حاصل کرے ۔ اوریہ  اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ریاست بھاری صنعتوں کو اپنی نگرانی میں قائم نہ کرے،  ا ن کو ترقی نہ دے اور وہ فیکٹریاں اور کارخانے قائم نہ کرے جو بھاری صنعت کے لیے ضروری ہیں چاہے ان کا تعلق فوجی صنعت سے ہو یا غیر فوجی صنعت سے۔چنانچہ اسلام کی دیے ہوئے وژن کے مطابق ہی صحیح معنوں میں صنعتی ترقی ممکن ہے۔

 

پاکستان کو مزید ٹیکسوں کے نفاذ کی  نہیں بلکہ ملکیت کے قوانین کی تبدیلی کی ضرورت ہے

30مئی کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا" 22کروڑ عوام میں سے صرف ایک فیصد پاکستانی ٹیکس فائلر ہیں یعنی کہ ایک فیصد پاکستانی 22 کڑوڑ پاکستانیوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، یہ ناممکن ہے اس صورتِ حال میں کوئی بھی ملک اپنی عوام کی خدمت نہیں کر سکتا، ٹیکس نہ دینے کی وجہ سے ہم لوگوں کی صحیح معنوں میں خدمت نہیں کر سکتے ، اسپتال بنا سکتے ہیں ، نہ بچوں کے لیے سکول بنا سکتے ہیں  اور نہ ہی انفراسٹرکچر ٹھیک کر سکتے ہیں ، جب عوام ٹیکس نہیں دیتے تو حکومت کو قرضے لینے پڑتے ہیں"۔

 

پاکستان کی موجودہ حکومت  بار بار اپنے بیانات سے یہ تائثر دیتی ہے کہ پاکستان کے لوگ بہت کم ٹیکس دیتے ہیں اور ملک کی معیشت کی خرابی اور سہولیات کے فقدان کی وجہ لوگوں کا ٹیکس نہ دینا ہے ۔ اور یہی تائثر ہمیں وسیع پیمانے پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی نظر آتا ہے۔ لیکن اس دعوے کا تفصیلی جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ  حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد عورتوں پر مشتمل ہے، جو بنیادی طور پر اسلام کے اصولوں کے مطابق گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کو ادا کرتی ہیں۔  پاکستان کی آبادی کا 50 فیصد 23 سال سے کم عمر ہے، گویا پاکستان کی آبادی کے 6.5کروڑ افراد ایسے ہیں جو کما نہیں رہے۔ پاکستانی حکومت کے 2016 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جو حکومت نے اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام UNDPکے اشتراک سے تیار کیے ، پاکستان میں غربت کی شرح 40فیصد ہے۔ 2016کے بعد مسلسل گرانی اور موجودہ حکومت کے دس ماہ کے عرصے کے دوران مہنگائی کی شرح میں خوفناک حد تک اضافے کے نتیجے میں غربت کی شرح میں  مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ گویا پاکستان کی آبادی کے 6.5کروڑ کمانے والے افراد میں سے تقریباً 3کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔  باقی کے 3.5کروڑ کی آبادی میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو شدیدغربت کی لکیر سے اوپر ہیں مگر ان کے اخراجات اور ذمہ داریاں  ان کی تمام تر آمدن کو کھا جاتی  ہے کیونکہ ریاست صحت ، تعلیم اور تحفظ کی فراہمی کی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ، دوسرے لفظوں میں ان کی ماہانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے کم ہے۔ باقی کے امیر طبقے میں سےچند لاکھ لوگ بلا واسطہ یعنی  Direct ٹیکس دیتے ہیں جبکہ  امیر طبقہ سمیت ملک کے تمام عوام بل واسطہ یعنی Indirectٹیکس دے رہے ہیں اوران میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو زکٰوۃ و صدقات کے حقدار ہیں۔

 

پاکستان کے عوام کوشرمندگی کا احساس دلاکر ان سے ظالمانہ ٹیکس وصول کر کے اسے قرضوں کے سودکی ادائیگی پر خرچ کرنے والے یہ حکمران خود ہر شرم سے عاری ہیں، جو نہایت بے رحمی سے  پاکستان کی 12 کروڑ انتہائی غریب عوام سے بھی ٹیکس وصول کر رہے ہیں ۔ بجائے یہ کہ یہ حکمران آزادی ملکیت کی اساس پر کھڑے اس سرمایہ دارانہ نظام کو تبدیل کرتے کہ جو عوام کو تیل، گیس ، بجلی، معدنی ذخائر جیسے عوامی اثاثہ جات سے محروم کرتا ہے اورچند افراد اور کمپنیوں کو اربوں کھربوں روپے منافع والے ان اثاثوں پر حقِ  ملکیت عطا کرتا ہے ، اوران اثاثہ جات کو ریاست کے لیے آمدنی کا ذریعہ بناتے، یہ حکمران پاکستان کے عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں مطعون بھی کر رہے ہیں ، جبکہ دوسری طرف پاکستان کے عوام ان حکمرانوں کو ان کے ظلم پر لعنت ملامت کر رہی ہے۔ بے شک رسول اللہ ﷺ کا قول سچا ہے جب آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

((خیار آئمتکم الذین تحبونھم و یحبونکم و تصلون علیھم و یصلون علیکم ، و شرار آئمتکم الذین تبغضونھم و یبغضونکم و تلعنونھم و یلعنونکم))

"تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اوروہ تم سے محبت کریں ، وہ تمہارے لیے دعائیں کریں اور تم ان کے لیے دعائیں کرو۔ اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں ، تم ان پر لعنتیں بھیجو اور وہ تم پر لعنتیں بھیجیں"(مسلم)۔

Last modified onجمعہ, 21 جون 2019 03:33

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک