بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 2 اگست 2019
۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ ہی گردشی قرضوں کے مسئلے کا حل ہے
-جرمنی سے 22.4 ملین یورو کے معاہدے کے تحت امداد یا سرمایہ کاری پاکستان کے مفاد میں نہیں
-افواج پاکستان پر حملے افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے ہورہے ہیں
تفصیلات:
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ ہی گردشی قرضوں کے مسئلے کا حل ہے
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق حکومت توانائی کے شعبے میں کھڑے ہونے والے گردشی قرضے کی ادائیگی کے لئے اسلامی بونڈ کے نام پر بینکوں سے سود پر دو سو ارب روپے اکھٹے کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔اس سلسلے میں وزارتِ خزانہ نے 10 کمرشل بینکوں کے سربراہان سے بروز پیر ملاقات طلب کی تھی تاکہ پاکستان انرجی سکوک -2کے نام سے 200 ارب روپے کے بونڈز کو حتمی شکل دی جا سکے ۔یہ بات یاد رہے کہ یہ محض چھ ماہ کے اندر دو سو ارب روپے کا دوسرا بونڈ ہوگا جو توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی ادئیگی کے لئے لیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک بھر میں آئی پی پی ز کے ڈالروں میں طے کردہ نرخوں، گردشی قرضوں اور کپیسیٹی چارجز پر بحث جاری ہے۔
ان گردشی قرضوں کی اصل وجہ 1994 اور 2002 کا آئی پی پی ایکٹ ہے جس نے ملک میں توانائی کے شعبے میں آنے والے بیرونِ سرمایہ کاروں کو ایسی مرعاتیں دیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ 1994 اور 2002 کےآئی پی پی ایکٹ کے مطابق سرمایہ کاروں کو بجلی کے کارخانے لگانے میں درکار رقم کا 20 فیصد ملک میں لانے پر 80 فیصد قرض مہیا کرنے کی سہولت دی گئی جبکہ ان قرضو ں کا سود بجلی کے نرخوں کا حصہ بنا دیا گیا۔ 20 فیصد آنے والے سرمائےپر سرمایہ داروں کو 30 سال تک 15 فیصد منافع کی گارنٹی دی گئی اور اس منافع کو بھی بجلی کے نرخ کا حصہ بنایا گیا۔ اور ان سب پر ستم ظریفی یہ کہ نرخوں کو ڈالر میں طے کیا گیا جس سے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں گرنے سے بجلی کے نرخ میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ مزید براں اگر بجلی کی ضرورت میں کمی یا ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے حکومت ان کارخانوں سے بجلی نہ خریدے تو بھی ان کارخانوں کو کپیسٹی چارجز دینے کی مجاز ہوگی۔ صرف پچھلے سال کپیسٹی چارجز کی مد میں تقریباً 642 بلین روپے ان آئی پی پی ز کو قابلِ ادا ہیں جو موجودہ گردشی قرضے کا بڑا حصہ ہے۔ اس سب کے باوجود، پچھلی تین دہائیوں میں آنے والی کسی حکومت نے اس کالے قانون میں تبدیلی کی کوشش نہیں کی،کیونکہ یہ تمام حکومتیں نہ صرف سرمایہ داریت کے نظریئے پر یقین رکھتی ہیں جو کہ ملکیت کی آزادی کے نام پر عوامی ضرورت کے اثاثوں کو بھی نجی اور بیرونی ہاتھوں میں دینے کا قائل ہےبلکہ یہ تمام حکومتیں عالمی استعماری ممالک کی غلام ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ آئی پی پی ز کا یہ منافع خزانے پر بوجھ ہیں اور ان کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کو بجلی کےنرخ میں اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، موجودہ حکومت بھی اس کالے قانون کے خاتمے کے بجائے مزید دو سو ارب کا قرض لے کر ان سرمایہ کاروں کا پیٹ بھر رہی ہے۔
سرمایہ داریت،چاہے وہ جمہوریت یا آمریت کسی بھی ذریعے سے پاکستان میں نافذ ہو،نجکاری اور قانون سازی کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کردیتی ہے اس کے برعکس اسلام میں توانائی کے ذخائرعوامی ملکیت میں شامل ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے
((الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ))
”تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراہ گاہیں اور آگ“(ابو داؤد)۔
لہٰذا آنے والی خلافت سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ کرے گی اور اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرے گی۔ اسلام کا نظام دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ بجلی کے پیداواری یونٹس کے ساتھ ساتھ کوئلہ ،تیل اور گیس کو عوامی اثاثہ قرار دینا ہے۔ یہ اثاثے نہ تو نجی ملکیت میں دیےجا سکتے ہیں اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں۔ ان اثاثوں کا انتظام ریاست سنبھالتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے فوائد رنگ،نسل،مسلک اور مذہب سے قطع نظر ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچیں۔ خلافت توانائی اور پیٹرول،ڈیزل،فرنس آئل وغیرہ پر عائد ٹیکسز کا خاتمہ کردے گی جس سے ان کی قیمت میں واضح کمی واقع ہوگی۔ اگر ضرورت ہو تو ان چیزوں کی قیمت، ان کی پیداوار اورانھیں عوام تک پہنچانے پر اٹھنے والی لاگت کے مطابق لی جائے گی۔ اور امت کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد وسائل کوغیر مسلم غیر حربی ممالک کو فروخت کیا جا سکتا ہے اوراس سے حاصل ہونے والی آمدن کو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔ اسلام کی بجلی کی پالیسی خلافت کے زیرِ سایہ پاکستان میں زبردست صنعتی ترقی کا باعث بنے گی۔
جرمنی سے 22.4 ملین یورو کے معاہدے کے تحت امداد یا سرمایہ کاری پاکستان کے مفاد میں نہیں
ٹریبیون اور بزنس ریکاڈر نے 27 جولائی2019 کویہ خبر شائع کی کہ 26 جولائی 2019بروز جمعہ، وزیر برائے اقتصادی امور، حماد اظہر، کی موجودگی میں پاکستان اور جرمنی کے درمیان 22.4 ملین یورو کی مالیت کا ایک معادہ طے پایا۔ اس معاہدے کی رو سے جرمنی اس رقم کو پاکستان میں قابل واپسی (renewable) توانائی، گرِڈ کے حالات بہتر کرنے اور کچھ مالی خدمات کی سہولیات کے لیے استعمال کرے گا۔ علاوہ ازیں، یہ رقم خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں صحت سے متعلقہ کچھ پروگراموں میں بھی سرف کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اس رقم کا ایک مسرف حکومتی سرپرستی میں پولیو کا خاتمہ بھی ہے۔
پاکستان ماضی میں بھی جرمنی سے امداد اور قرضوں کی صورت میں رقم لیتا رہا ہے۔ سال19-2018 میں پاکستان نے جرمنی سے تقریباً 15.23 ملین ڈالر کی رقم وصول کی۔ اسی طرح دیگر یورپی ممالک جیسے برطانیہ اور فرانس بھی اسی عرصے میں پاکستان کو 160 ملین ڈالر سے زیادہ کی خطیر رقم دے چکے ہیں۔ یہ رقوم تجارت، امداد، قرض یا بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں وصول کی جاتی ہیں۔ جرمنی اور اس جیسے دیگر مغربی ممالک جو سرمایہ داریت کےعلمبردار ہیں، اپنی سوچ اور افکار کو فروغ دینے کے لیے امداد اور سرمایہ کاری کو استعماری ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں، خصوصاً اس وقت جب پاکستانی معیشت اپنی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑی ہے۔ وہ رقوم جو امداد یا سرمایہ کاری کی مد میں وصول کی جاتی ہیں، وہ اپنے ساتھ کچھ شرائط لاتی ہیں جن کا مقصد مسلم علاقوں پر مغربی ثقافت اور سوچ کو پروان چڑھانا اور سیاسی اثرورسوخ استعمال کرنا ہوتا ہے۔ جرمن اخبارWelleDeutsche (DW) میں چھپنے والے ایک حالیہ کالم کے مطابق جرمنی پاکستان کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک روابط بڑھا کر تجارت، علاقائی امن اور جمہوریت کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ ماضی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ یورپ نے پاکستان کی طرف امداد کی بحالی کو آسیہ بی بی کی رہائی سے مشروط کیا۔ اسی طرح پاکستان پر جی ایس پی پلس (GSP+)درجے پر رہنے کے لیے یورپ کی طرف سے کم از کم برآمدات کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ مزید براں ، جو رقم سرمایہ کاری کی مد میں حاصل بھی ہوتی ہے، وہ غیرملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے سے مشروط ہوتی ہے جس کی بدولت وہ رقم واپس بیرونِ ملک چلی جاتی ہے۔
یورپی ممالک ان غیر ملکی رقوم کے ذریعے مسلم ممالک میں وفاداریاں خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، جن کے ذریعے وہ مسلم علاقوں میں اپنے سیاسی مقاصد پورے کر سکیں۔ اسلام ملکی ترقی کے لیے بیرونی قرضوں، بیرونی سرمایہ کاری اور امداد کی صورت میں کفار پر انحصار سے منع کرتا ہے۔ اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا،
وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
"اللہ تعالٰی ایمان والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کفار کو اپنےمعاملات پر اختیار دیں " (النساء4:141)۔
مزید براں ،وہ ممالک جو مسلمانوں کے خلاف براہِ راست جنگ کر رہے ہیں جیسا کہ امریکہ، برطانیہ ، جرمنی یا ان جیسے دیگر کافر حربی فعلی ممالک ، اسلام نے ان سے براہِ راست کسی بھی قسم کی تجارت کو منع فرمایا ہے۔ لہٰذا ایک اسلامی ریاست میں کسی بھی قسم کے فلاحی اور کاروباری کاموں کے لیے حربی فعلی ممالک کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاری کی ممانعت ہوتی ہے اور ریاست اندرونی سرمایہ کاری پر توجہ دیتی ہے یا وہ کافر جو معاہد یا مستعامن ہوں کو سرمایہ کاری کی اسطرح اجازت دیتی ہے ان کا مسلمانوں کے معاملات میں اثرورسوخ قائم نہ ہو ۔ صحت کا جہاں تک تعلق ہے، یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے تمام شہریوں کے لیے صحت عامہ کی سہولیات مہیا کرے جو کہ معاشرے کا بنیادی حق ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ توانائی کی سہولت تمام لوگوں کو مہیا ہو۔ اس پالیسی کو حقیقت بنانے کے لیے اسلام نے تفصیلات کے ساتھ ایک جامع اقتصادی نظام دیا ہےجو ریاست کے محصولات کو اس قابل بناتا ہے کہ ریاست کا بیرونی قرضوں اور امداد پر انحصار ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے ملک نہ صرف استعمار کے چنگل سے آزاد رہتا ہے بلکہ معیشت بھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے جس کے مستقبل میں بہت مثبت اقتصادی نتائج نکلتے ہیں۔
افواج پاکستان پر حملے افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے ہورہے ہیں
27 جولائی 2019 کودہشت گردی کی دو مختلف واقعات میں افواج پاکستان کے دس سپاہی شہید ہوگئے جس میں ایک کیپٹن بھی شامل تھے۔ یہ حملے صوبہ خیبر پختوانخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان اور صوبہ بلوچستان کے شہر تربت میں ہوئے۔ پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان حملوں کو "جارح قوتوں کا مایوسی کے عالم میں" کیے جانے والے حملے قرار دیا ۔
جب سے امریکا افغانستان پر قابض ہوا ہے افواج پاکستان کے افسران و سپاہی اور پاکستان کے عوام کا خون مسلسل بہہ رہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان امریکا کا اتحادی ہے اور افغانستان پر قبضے کو برقرار رکھنے کے لیےمسلسل امریکا کی سیاسی و فوجی مدد کررہا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری افواج اور عوام افغان سرزمین سے ہونے والے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں جبکہ وہاں پر امریکی افواج موجود ہیں ۔ اس کے برخلاف جب افغانستان پر سوویت روس کا قبضہ تھا ، پاکستان افغان مسلمانوں کی تحریک مزاحمت کی مکمل سیاسی و فوجی مدد بھی کررہا تھا اور صرف سپر پاور روس کی خفیہ تنظیم "کے جی بی" ہی نہیں بلکہ بھارتی "را" اور افغان "خاد" کا بھی سامنا کررہا تھا تو ہماری افواج پر ایسے حملے شاذ ونادر ہی ہوئے تھے۔ لیکن جب سے امریکا افغان سرزمین پر قابض ہوا ہے پاکستان کی افواج اور عوام مکمل طور پر غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں رہتا کہ یہ حملے امریکا کی مکمل آگاہی اور حمایت سے ہوتے ہیں اور انہیں کروانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ 19 سال گزرجانے کے باوجود آج بھی پاکستان کی افواج اور عوام امریکا کی نام نہاد "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کو اپنی نہیں بلکہ امریکا کی ہی جنگ سمجھتے ہیں۔ لہٰذ ا پاکستان کی افواج اور عوام کو یہ باور کرانے کے لیے کہ یہ آپ کی بھی جنگ ہے "نامعلوم دہشت گردوں" کے ذریعے افواج پاکستان اور پاکستان کے عوام پر حملے کروائے جاتے ہیں اور پھر امریکا یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ وہی ہیں جن کے خلاف امریکا لڑ رہا ہے۔ لیکن امریکا تو افغان طالبان کے خلاف لڑرہا ہے اور وہ تو پاکستان کے دشمن ہر گز نہیں ہیں۔
اس صورتحال کاخاتمہ صرف اور صرف اسی صورت ممکن ہے کہ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت افغان مزاحمت کی مکمل سیاسی و فوجی مدد کرے تا کہ سابق سوویت روس اور برطانیہ کے طرح امریکا بھی ذلیل و رسوا ہو کر افغانستان سے بھاگے اور پھر خواب میں بھی ہمارے خطے میں آنے کا سوچ بھی نہ سکے۔لیکن یہ بہادارنہ قدم پاکستان کی موجودہ سیاسی و فوجی قیادت نہیں اٹھائے گی کیونکہ ان کی زندگی کا مقصد امریکا کہ بندگی اور خوشنودی ہے۔ یہ بہادرانہ قدم صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت ہی اٹھائے گی کیونکہ اس کی سیاسی و فوجی قیادت کا مقصد حیات صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی اور خوشنودی ہوتا ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے،
وَاَخۡرِجُوۡهُمۡ مِّنۡ حَيۡثُ اَخۡرَجُوۡكُمۡ
"اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے وہاں سے تم بھی ان کو نکال دو"(البقرہ 2:191)۔