بسم الله الرحمن الرحيم
جنرل باجوہ کا مخمصہ
تحریر: خالد صلاح الدین
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرنا اور اس کو بھارتی یونین میں انضمام کرنے کا فیصلہ پاکستان، اس کی حکمران اشرافیہ اور خصوصاً آرمی چیف جنرل باجوہ کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ موجودہ بحران اورمشرف دور کے بحران کے درمیان بہت ہی منفرد مماثلت ہے کیونکہ یہ دونوں بحران خطے میں امریکی اسٹریٹیجک منصوبے پر عمل درآمد کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔
مشرف سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ افغانستان میں امریکا کی فوجی موجودگی اور اس کی کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے لیے کام کرے جس پر پاکستان کا کوئی براہ راست اثرورسوخ نہیں ہوگا۔ جبکہ آج باجوہ سے یہ تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کیے جانے کے عمل کو ناصرف کامیاب بنائے بلکہ بھارتی فوج کی اس طرح سے مدد کرے کہ اگر اس آئینی تبدیلی کے خلاف کشمیر میں بغاوت پھوٹ پڑے تو وہ اسے کچل سکے۔ لہٰذاایک عمل نے افغان عوام کے ساتھ ہمارے تعلقات کو شدید متاثر کیا تو دوسرے عمل نے کشمیر اور بھارت پر ہمارے اثر انداز ہونے کی صلاحیت کونا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح مشرف اور باجوہ دونوں نے جس امتحان کا سامنا کیا اس میں کامیابی کے لیے امت کو اس طرح سے دھوکہ دیا کہ وہ یہ تصور کرے کہ ہماری فوجی قیادت تو ہمارے ملک کے تحفظ کے لیے کام کررہی ہے۔
امریکا کو غیر مشروط اور مسلسل حمایت فراہم کرنے کے مشرف کے فیصلے کو افواج پاکستان اور امت نے انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ لیکن مشرف نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے "پہلے پاکستان" کا نعرہ لگایا اور یہ توجیح پیش کی کہ امریکا کے ساتھ مخاصمانہ تعلقات نہیں رکھے جاسکتے۔ اس کے برخلاف کئی اصولی افسران، جیسا کہ جنرل مظفر عثمانی اور جنرل محمود ، نے مشرف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی، لیکن اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ مختلف رستہ بھی اپنایا جاسکتا تھا۔ اس طرح مشرف نے اپنی غداری کو پاکستان کی بقاء کے پردے میں چھپایا اور کامیابی سے افغانستان کے لیے امریکی منصوبے کو نافذ کیا۔ مشرف نے امریکی اتحاد میں شمولیت کو جائز اور درست ثابت کرنے کا یہ جواز پیش کیا تھاکہ، "۔۔۔ہماری خودمختاری، دوسرا ہماری معیشت، تیسرا ہمارے اسٹریٹیجک اثاثے(ایٹمی اور میزائل)، اور چوتھا ہمارا کشمیر کاز "۔ ان چار شرائط کے متعلق جھوٹی تسلی آج سب کے سامنے واضح ہے۔
باجوہ جس بحران کا سامنا کر رہا ہے وہ زیادہ سنجیدہ نوعیت کا ہے کیونکہ اسے کشمیر پر بھارتی جارحیت کا جواب دینا ہے۔ یہ وہ بات ہے جس پر افواج پاکستان بلکہ پاکستان کے معاشرے کی تعمیر کی گئی ہے۔ لہٰذا باجوہ اس مخمصے کا شکار ہے کہ وہ اپنی غداری پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا جواز اور کہانیاں پیش کرے جس کے ذریعے وہ نہ صرف امریکی منصوبے کو مکمل کرے بلکہ اپنے عہدے کو بھی برقرار رکھ سکے۔ باجوہ کو جس مخمصے کا سامنا ہے وہ بہت شدید ہے کیونکہ بھارت کے خلاف جہاد کے حوالے سے افواج اور امت میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ اس صورتحال کے موجودگی میں جنرل باجوہ اور عمران خان کو بہت چالاکی سے حکمت عملی بنانی ہے کہ جس سے وہ امت کو کامیابی سے دھوکہ دے سکیں۔ درج ذیل میں جو بحث پیش کی جارہی ہے وہ اس غداری کی تفصیل ہے جو امت کو یہ یقین دلانے کے لیے کی جارہی ہے کہ ہم بھارت کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے فیصلے کو واپس لے۔
آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے انتخابی منشور اور اس کی انتخابی مہم کا ایک اہم حصہ تھا۔ لہٰذا پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کے لیے 5 اگست 2019 کو بی جے پی کے جانب سے آئین کے ان آرٹیکلز کی منسوخی کوئی اچانک اور باعث حیرت عمل نہیں تھا۔ یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ، "پلواما حملے(14 فروری) کے دو دن بعد 16 فروری 2019 کو بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے اپنے امریکی ہم منصب جان بولٹن کو فون کیا اور خصوصی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سے منصوبے پر بات کی"(1)۔
لہٰذا امریکا بھارتی منصوبے سے باخبرتھا۔ بالاکوٹ کے واقع اور دو بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرانے کے بعد بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے واپس بھیجنے میں جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا ،اس کا مقصد کشیدگی کو نیچے لاتے ہوئے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کو قابو میں رکھنا تھا۔ اگر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت اس معاملے کو طول دیتی تو پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت مخالف جذبات میں شدید اضافہ ہوجاتا اور امت شاید فوجی ایکشن لینے پر مجبور کرتی۔ 8 اپریل 2019 کو ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ، "۔۔۔خبردار کیا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی ریاست(مقبوضہ کشمیر) کی بھارت سے آزادی کا سبب بنے گی"(2)۔
لہٰذا اس بات سے ہر ایک آ گاہ تھا کہ بھارت آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ یہاں تک کہ نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ کہتے ہوئے خبردار کیا کہ آرٹیکل 370 سے چھیڑ چھاڑ مت کرنا۔ اس طرح باجوہ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ جب بھارت اپنے منصوبے پر عمل درآمد کی تیاری کررہا تھا تو دفتر خارجہ کا انڈین ڈیسک اور آئی آیس آئی کیا کررہے تھے؟ یہ معاملہ کچھ ویسا ہی ہے جب امریکا نے یکطرفہ طور پر پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو قتل کیا تھا ۔ یہ کوئی بھول یا غلطی نہیں تھی بلکہ سازش میں شرکت تھی۔
وزیر اعظم عمران خان 20 جولائی 2019 کو امریکا کے دورے پر روانہ ہوئے اور ان کے ساتھ آرمی چیف جنرل باجوہ، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد بھی گئے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے سے ہی واشنگٹن میں موجود تھے۔بظاہر 22 جولائی 2019 کو باجوہ، عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں زیادہ توجہ پاکستان کی معیشت، افغانستان اور جہادی گروہوں اور ان کی کارروائیوں کے خاتمے پر مرکوز رہی۔ لیکن ملاقات کے بعد ہونے والی بریفنگز میں دفتر خارجہ کے ایک سینئر افسر نے یہ انکشاف کیا ، "فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تحت بین الاقوامی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پاکستان نے اعادہ کیا اور اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ دہشت گردی کے لیے فراہم کی جانی والی مالی معاونت کے خلاف سلسلہ وار اقدامات لیے جائیں گے تا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افراد کو گرفتار اور ان کے خلاف مقدمے چلائے جاسکیں۔ یہ بات کل دفتر خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہی۔۔۔۔ ایک ایکشن پلان ہے جو کہ عمدہ، ٹھوس اور قابل پیمائش ہے۔۔۔اور اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے فرائض ،وزیر اعظم کے 'نئے پاکستان' کے ویژن کا حصہ ہے ۔ اہلکار نے مزید کہا۔۔۔۔فوجی معاونت کی معطلی، غیر فوجی معاونت میں کمی، اور پچھلے دو سال کے دوران ہمارے سفارتی تعلقات میں کھچاؤ کو ختم کرنے کے حوالے سے اس حکومت اقدامات اس کی ترجیحات کی نشاندہی کرتے ہیں- جو کہ بھارت، اس خطے اور بین الاقوامی برادری کا بڑی حد تک مشترکہ ہدف ہے"(3)۔
آئی ایس آئی کے سربراہ اور عبدالحفیظ شیخ کی موجودگی اہم تھی۔ ٹرمپ کا معاملات کی نزاکت کو سمجھنے سے عاری ہونا اس کی جانب سے بات چیت کے دوران کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی پیشکش سے ہوتا ہے۔ اس نے کہا، "دو ہفتے قبل میں وزیر اعظم مودی کے ساتھ تھا اور ہم نے اس موضوع کے متعلق بات کی اور اُس نے کہا'کیا آپ ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیں گے'، میں نے پوچھا'کہاں'، اس نے کہا'کشمیر'۔ کیونکہ یہ معاملہ کئی سالوں سے چل رہا ہے"(4)۔
اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار جمو ں و کشمیر میں بھارتی فوج میں اضافے کی خبر 26 جولائی 2019 کو سامنے آئی جب عمران اور ٹرمپ کی واشنگٹن میں ملاقات کو صرف تین دن ہی گزرے تھے۔ اگلے ایک ہفتے کے دوران تقریباً ایک لاکھ بھارتی افواج کو جموں و کشمیر منتقل کیا گیا۔ جس دن، 5 اگست 2019، کو بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35Aکو منسوخ کیا، اسی دن ایف اے ٹی ایف کے امریکی ماہرین کی ٹیم اسلام آباد پہنچی۔ اس دورے کا مقصد بظاہر اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ پاکستان 13 اگست کو اپنی رپورٹ جمع کرائے۔ 6 اگست 2019 کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے resident نمائندے ٹیریسا ڈبن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، "ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں ناکامی کی صورت میں حال ہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ خطرے کا شکار ہوسکتا ہے"۔ اس نے مزید کہا، "۔۔۔آ ئی ایم ایف مالیاتی نظام میں استحکام کا ذمہ دار ہے اور ایف اے ٹی ایف سے متعلق امور ٹیکس کے امور کو متاثر اور بینکنگ کے نظام کو کمزور کرتے ہیں"۔
ٹھیک 5 اگست کے اگلے ہی دن ایف اے ٹی ایف کے اس وفد کی آمد کا مقصد 5 اگست کی بھارتی اقدام کے خلاف افواج پاکستان کو جہادی تنظیموں کو حرکت میں لانے سے روکنا نہیں تھا کیونکہ باجوہ تو پہلے سے ہی انہیں ختم کرنے کا کام کررہا تھا بلکہ اس دورے کا مقصد باجوہ کی بے عملی کو جواز فراہم کرنا تھا۔ ایف اے ٹی ایف کے اس دورے کا مقصد اثرورسوخ رکھنے والے حلقوں میں غلط بیانیہ پھیلانے کے لیے معاونت فراہم کرنا تھا کہ دیکھیں ہماری معیشت اس حالت میں نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کی جارحانہ پالیسی کے نتائج کو برداشت کرسکے یہاں تک کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض معطل بھی ہوسکتا ہے۔ تو مندرجہ بالا پیش کیے گئے اقوال امریکا کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح مندرجہ بالا پیش کیے گئے ثبوت کہ بھارت نے پلوامہ حملے سے دو دن قبل ہی امریکا کو آرٹیکل 370 اور 35Aمنسوخ کرنے کے اپنے منصوبے سےآگاہ کردیا تھا(5)، اس حقیقت نے مزید تنقید میں اضافہ کیا کہ امریکا اور باجوہ ایک ساتھ کام کررہے ہیں۔
سیاسی وفوجی قیادت کی جانب سے اپنائے گئے دفاعی موقف کی امت نے شدید مخالفت کی۔ اس مخالفت کو ختم کرنے کے لیے ممکنہ ایٹمی جنگ کا بیانیہ پیش کیا گیا۔ تاریخ سے یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان روایتی جنگ کبھی بھی ایٹمی جنگ میں تبدیل نہیں ہوئی بلکہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ایٹمی طاقتیں روایتی جنگ شروع کرتی ہیں اور خود کو اسی تک محدود رکھتی ہیں۔ ممکنہ ایٹمی جنگ کے بیانیے نے جوابات سے زیادہ سوالات پیدا کردیے۔ کوئی یہ بات کیسے کرسکتا ہے کہ جبکہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہوں کہ جنگ شروع ہوئی تو فوری طور پر خود بخود ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی اور اسی لیے روایتی جنگ کی سوچ کو بھی قریب نہ آنے دیا جائے۔ عجیب مضحکہ خیز بات ہے کہ پاکستان نے لاکھوں ڈالر خرچ کرکے ایٹمی ہتھیار بنائے تا کہ بھارت کی روایتی جنگ میں برتری کو ختم کیا جاسکے لیکن اب یہ کہا جائے کہ ہم روایتی جنگ میں بھی ملوث نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس وجہ سے فوجی قیادت پر الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ جنگ لڑ سکتے ہیں لیکن وہ درحقیقت لڑنا ہی نہیں چاہتے۔
تو پھر کس اصول کی بنیاد پر فوج خود کو جنگ میں اتارےگی؟ ہم سرحد پار دیکھتے ہیں کہ سادہ لوح طالبان نے یہ بات بالکل اچھی طرح سے سمجھ لی تھی کہ کس بات کے لیے لڑنا چاہیے اور قربانی دینی چاہیے۔ کیا انہوں نے امریکا کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کیا تھا؟ تو کیا ہم بھارت کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کرسکتے؟ مجاہدین کی طاقت کا سرچشمہ جہاد سے محبت ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے۔ اللہ کے قانون پر مکمل اعتماد ہونے کی وجہ مجاہدین ان ذرائع کو تلاش کرتے ہیں جن کے ذریعے وہ جہاد کے حکم کو نافذ کرسکیں اور اسی لیے وہ صرف چھوٹی موٹی چھڑپیں نہیں کرتے بلکہ دشمن کے خلاف پورے محاذ کو گرم کردیتے ہیں۔ یہ وہ سوچ اور طرز عمل ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں نے بدر، احد، احزاب، قادسیہ اور کتنی ہی جنگوں میں کامیابیاں حاصل کیں تھیں۔ اس ذہنیت اورسوچ کی غیر موجودگی ہی آج ہماری کمزوری کی بنیادی وجہ ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کریں تا کہ مسلمانوں کو ایسی قیادت نصیب ہو جو ہمیں ایک کے بعد ایک کامیابی دلائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
فَلاَ تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمْ الأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ
"تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ۔ اور تمہی غالب ہو۔ اور اللہ تمہارے ساتھ ہے وہ ہرگز تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا"(محمد 47:35)۔
اور رسول اللہﷺ نے فرمایا،
مَا تَرَكَ قَوْمٌ الْجِهَادَ إلاّ ذُلّوا
"جس قوم نے جہاد چھوڑا وہ ذلیل و رسوا ہوئی"(احمد)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] https://tribune.com.pk/story/2029616/9-us-knew-india-rob-occupied-kashmir-special-status/