الثلاثاء، 22 جمادى الثانية 1446| 2024/12/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

 

سوال کا جواب

شام اور لیبیا میں تازہ ترین سیاسی پیش رفت

سوال:

شام میں تازہ ترین جنگ بندی کے حوالے سےآج تک ہونے والی پیش رفت کو دیکھنے سے یہ لگ رہا ہے کہ اس بار امریکہ جنگ بندی اور شام میں سیکولر حکومت تشکیل دینے کے لیے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بات چیت کے انعقادکے معاملے میں سنجیدہ ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟  کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے موجودہ ایجنٹ بشار کی جگہ کسی دوسرے متبادل ایجنٹ کو لانے کی کوششوں کو ختم کردیا ہےاور بشار کو ہی باقی رکھنے کافیصلہ کیا ہے؟

دوسرا سوال اگر آپ اجازت دیں تو یہ ہے کہ : جب کبھی لیبیا میں صورت حال کسی  حل کے قریب پہنچنے لگتی ہے تو یکا یک صورتحال پھر پیچیدہ ہو جاتی ہے۔لہٰذا   انہوں نے  الصخیرات میں معاہدہ کیا ،اور اس معاہدہ نے طبرق پارلیمنٹ کی توثیق کی تھی جو طبرق کی کامیابی تھی۔۔۔اس کے باوجود حکومت کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیا جارہا جبکہ سراج نے ان کی بات مان لی اور وزراء کی تعداد 32 سے کم کر کے 18 کر دی،  توپھر اس ٹال مٹول کو کیا سمجھا جائے؟ اللہ آپ کو بہترین جزاء دے۔

 

جواب:

  ہم نے 19 جنوری2016 کے 'سوال وجواب' میں " لیبیا کے بحران میں تازہ ترین پیش رفت"کے عنوان سے لکھا تھا  اور اس میں لیبیا کے مسئلے کو واضح کیا تھا۔۔۔ اسی طرح شام کے بارے میں11 دسمبر2015 کو ایک پمفلٹ شائع کیا جس کا عنوان تھا:" دو شر انگیزیاں ساتھ ساتھ۔۔۔" جس میں ریاض کانفرنس اور  مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل پر بات کی تھی۔  ہم نے24 فروری2016 کو ایک اور پمفلٹ شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا :" میو نخ میں حکومت کو بچانے کے لیے جنگ بندی  کا جال امریکہ کا بنایا ہوا ہے۔۔۔"، جس میں ہم نے موجودہ  جنگ بندی اور مذاکرات کے موضوع کی وضاحت  کی تھی۔ یہ کافی تفصیلی تھا اور  اسی سے جواب سمجھنا ممکن تھا کیو نکہ واقعات انہیں خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں  جو ہم نے اپنے بیانات میں بتائے تھے۔۔۔اس کے باوجود مندرجہ ذیل  مزید وضاحت بیان کی گئی ہے۔۔۔ مگر اس سے پہلے میں شام اور لیبیا  میں ہونے والی کشمکش کے درمیان  فرق کو واضح کرنا چاہوں گا:

  لیبیا کا موضوع  شام کے موضوع سے مختلف ہے۔ شام  کی کشمکش امریکہ، اس کے اتحادیوں، ہمنواوں اور شام کے مسلمانوں کے درمیان ہے۔ یہ کشمکش امریکہ اور کسی دوسری بڑی ریاست کے درمیان نہیں ہے،  یہ  اس لیے کہ روس ایک گندی سودےبازی کے ذریعے  امریکی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنا رہا ہے کیونکہ  پوٹین کا یہ خیال ہے کہ  شام میں امریکہ کی خدمت کرکےیوکرائن کے حوالے سے روس کی جنوبی سرحدوں پر مسائل کو کم کیا جاسکتا ہے۔۔۔جہاں تک یورپ کا تعلق ہے وہ بھی امریکہ کے گرد گھومتا ہے،  امریکہ جو کہتا ہے وہ اسی کو دہراتا ہے تاکہ امریکہ سے تھوڑا بہت کچھ حاصل کرسکے! روس اور یورپ  کو شام میں امریکی اثرو رسوخ کا علم ہے اور وہ اس کی مزاحمت  کا نہیں سوچتے۔۔۔ یعنی یہ رسہ کشی امریکہ اور اہل شام  اور ہر مخلص مسلمان کے درمیان ہے۔

  مگر لیبیا میں کشمکش  امریکہ اور یورپ کے درمیان  بالادستی کی رسہ کشی ہے،یا یوں کہہ لیں کہ امریکہ کی یہ کشمکش  خاص کر برطانیہ اور کسی حد تک فرانس اور تھوڑی بہت اٹلی کے ساتھ ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ  امریکہ اہل شام کی جانب سے گزشتہ پانچ سالوں  سے شامی تحریک کے دوران امریکی منصوبوں  کے سامنے ڈٹے  رہنے سے حیران وپریشان ہے۔ لیکن دوسری جانب وہ لیبیا میں یورپ کے مقابلے میں اپنی قوت سے مطمئن ہے، اس لیے وہ اپنی قوت سے مطمئن ہو کر یورپ کے ساتھ رسہ کشی میں مصروف ہے۔۔۔

اس فرق کو بیان کرنے کے بعد  سوال میں جو کچھ ہے اس کی مزید وضاحت یہ ہے:

پہلا: شام کا موضوع:

جہاں تک یہ بات ہے کہ امریکہ  جنگ بندی اور مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو یہ بات درست ہے۔۔۔رہی یہ بات کہ اس نے موجودہ ایجنٹ بشار  کے متبادل ایجنٹ کی تلاش کو چھوڑ دیا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ امریکہ کو جیسے ہی بشار کا متبادل مل جائے گا اسی لمحے بشار کا کردار ختم ہو جائے گا جیسا کہ اس نے بشار جیسوں کے ساتھ پہلے بھی کیا ہے،  اوراس کی وضاحت یوں ہے:

امریکہ نے تحریک کو روکنے اور اس کو کچلنے کے لیے جنگ بندی ،  فائر بندی، لڑائی روکنے اور  جارحانہ کاروائیوں کو روکنے کے نام پر اپنی بھر پور قوت  استعمال کر لی ۔۔۔جنیوا،ویانا اور ریاض میں کانفرنسیں کی، سلامتی کونسل میں قرار دادیں منظور کیں۔۔۔یہ  تحریک کو ناکام بنانے کے لیے اس کی عسکری کاروائیوں کے علاوہ ہے  جو اس نے اپنے ایجنٹ بشار، ایران،  لبنان میں اس کی تنظیم اور روس کے ذریعے کیا اور امریکہ نے خود بھی  مداخلت کی اور دوسرے ممالک کو بھی بین الاقوامی اتحاد کی چھتری تلے  الدولۃ تنظیم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر  اپنے ساتھ لیا۔۔۔ اور حال ہی میں امریکہ کو کچھ سانس لینے کا موقع ملا  جب 12 فروری2016 کو  میونخ ملاقات کے ذریعے ایک ہفتے میں فائر بندی کے ذریعے تحریک کو روکنے کی کوشش کی ۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوسکا تو امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے22 فروری2016 کو اپنے روسی ہم منصب لا روف کے ساتھ ملاقات  کی اور مشترکہ بیان میں  کہا کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات27 فروری2016 کو جنگ بندی کو عملی جامہ پہنایا جا ئے گا اور یہ سب  مذاکرات میں طے پانے والے سیکولر منصوبے  کی توثیق  کی تمہید تھی  جس کو آنے والے دنوں میں جنیوا میں تیار کیا جائے گا۔۔۔امریکہ کے سنجیدہ ہونے کی دلیل اس کے وہ اقدامات ہیں جو اس نے اس سمت کیے ہیں خاص کر9 سے 10 دسمبر2015 میں ریاض کانفرنس،  جو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپوزیشن کی کمیٹی تشکیل دینے کی تیاری کے لیے تھی،  اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات درج ذیل ہیں :

1 ۔ امریکہ کی جانب سے اپنے پیرو کاروں" ترکی اور سعودیہ" پر اثر انداز ہونا اور پھر ان  کی جانب سے شام کے اندر مذاکرات کے لیے ماحول ساز گار  اور اعتراض کو ختم کرنے  کوشش کرنا جس  کے اشارے یہ ہیں:

ا ۔ سعودیہ نے ریاض میں اپنے تمام  پیرو کاروں اور آلہ کاروں خاص کر مسلح گروپوں اور مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے والوں  کے ساتھ گاجر اور لاٹھی کا اسلوب استعمال کیا اور مال اور اسلحے سے کام لیا۔۔۔اس میں کامیاب بھی ہوا اور ان لوگوں میں سے کمیٹی تشکیل دی گئی جنہوں نے اپنی آخرت کو دوسروں کی دنیا کے لیے بیچ دیا ہے۔۔۔یوں امریکہ شام کی تحریک کے برپا ہونے کے بعد پہلی مرتبہ  مسلح گرپوں کو مذاکراتی کمیٹی میں شامل کرنے  اور  حکمرانی میں حکومت  کا شریک بننے کے لیے مذاکرات کو قبول کرنے پر تیار کرنے میں کامیاب ہوا۔" جمعرات کی شام کو پریس کانفرنس  میں خلیف ریسرچ سینٹر کے سر براہ  عبد العزیز  الصقر نے کہا کہ اپوزیشن کا ایک وفد  جنوری کے پہلے دس دنوں کے اندر حکومتی وفد سے ملاقات کرے گا۔۔۔معاہدے میں  اعلیٰ سطحی کمیٹی نے 32 ارکان پر مشتمل  وفدتشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے،  جس میں سے دس گروپوں کے،  نو کونسل کے، پانچ  انتظامی کمیٹی کے اور آٹھ  آزاد  ارکان ہوں گے" (الجزیرہ 11 دسمبر2015 )۔ پہلے مذاکرات  میں شامل ہونے والے وہ لوگ ہوتے تھے جن کا شام کے اندر کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔۔۔اسی لیے  اس کمیٹی میں شامل ہونے والے گروپوں نے  لوگوں کو مایوس کیا خاص کر ان لوگوں کو جو ان کے حمایتی تھی  کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ سرکش سے ان کی جان چھڑائیں گے!

ب ۔ اردگان کا سعودیہ کا دورہ  اور شام میں امریکی منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے جنگ بندی اور مذاکرات کے موضوع پر تبادلہ خیال،شام  میں اپنے گروپوں کو جنگ بندی اور مذاکرات میں شرکت کے لیے کمیٹی تشکیل دینے پر قائل کرنا۔ " ترک صدر  اردگان منگل کو دورے پر سعودیہ پہنچے جس میں وہ ذمہ داروں کے ساتھ خطے خصوصاً شام اور یمن کے موضوع پر گفت وشنید کریں گے۔ ریاض کے شاہ خالد ائر پورٹ پہنچتے ہی اردگان یمامہ محل روانہ ہوئے جہاں سعودی فرمان روا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ان کا استقبال کیا،  جیسا کہ سعودی سرکاری نیوز ایجنسی  نے خبر دی ہے" ( القدس29 دسمبر2015 )۔

ج ۔ امریکہ نے  مذاکرات کاروں کے لیے تمہیدی اجلاس منعقد کیےجن کا مقصد  امریکی حل سے ان کو روشناس کرانا تھا تا کہ معاملا ت پر توقع کے مطابق  آگے بڑھنے کی یقین دہانی حاصل ہو اور اس کے اختتام پر ترکی اور ایران کے درمیان  اچانک قربت  پیدا کی گئی چنانچہ دوطرفہ سخت بیانات  کے باوجود  اوگلو نے ایران کا دورہ کیا جس کا مقصد  ان کے درمیان گٹھ جوڑ  کر کے شام میں ان کے گروپوں اور پیرو کاروں پر  ان کے اثرو رسوخ کو استعمال کرنا تھا تا کہ شام میں امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔۔۔" ترک وزیر اعظم احمد داود اوگلو  وزراء کے ایک وفد سمیت جمعہ کی رات 4 مارچ کو ایرانی دار الحکومت طہران پہنچے ، یہ گزشتہ دو سالوں میں ترک وزیر اعظم کا ایران کا پہلا دورہ تھا۔۔۔ ایرانی نیوز ایجنسی "فارس" نے کہا کہ ترک وزیر اعظم  اعلیٰ ایرانی عہدہ داروں  کے ساتھ ملاقاتوں میں   دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کو فروع دینے  پر تبادلہ  خیال کریں گے۔۔۔"( رشیا ٹو ڈے4 مارچ2016 )۔ ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے دورے کے مقاصد کو پوشیدہ رکھا تا کہ  سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دیا جا سکے، اس لیے دورے کے اغراض و مقاصد کو تجارتی قرار دیا!!

2 ۔ان خبیث سیاسی اقدامات کے ذریعے امریکی ایجنٹوں نے علاقائی اور داخلی فضاء کو مذا کرات کے لیے ماحول ساز گار بنا یا اور  یہ سب امریکی منصوبے  کے نفاذ کے لیے دباؤ کا ماحول پیدا کرنے کے لیے تھا۔  ان اقدامات کے ذریعے حقائق کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا گیا جس کا مقصد  یہ ظاہر کرنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے پیش کیا جانے والا  مذاکراتی حل  ہی شام کے مسئلے کا بہترین حل ہے۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے عسکری کاروائیاں بھی جاری رکھیں یا اپنے پیروکاروں اور علاقائی اور مقامی آلہ کاروں کے ذریعے یا روس کے ذریعے جاری رکھیں جس نے اس کے ساتھ ایک گندی سودےبازی کر رکھی ہے،  ۔۔۔یہ  اقدامات درض ذیل ہیں:

ا ۔ امریکہ نے اس سوچ کو پروان چڑھانےپر توجہ مرکوز رکھنے کے لئے کام کیا کہ  اہل شام کے پاس صرف دو اختیار ہیں، شام کے لیے امریکہ کے لبرل منصوبے کو مذاکرات کے ذریعے قبول کریں ورنہ شام کو تقسیم کیا جائے گا۔۔۔وہ یہ جانتا ہے کہ شام کے لوگ تقسیم سے نفرت کرتے ہیں اس لیے  اس کے گمان کے مطابق   شامی اس کے لبرل منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے مذاکرات  کو قبول کریں گے جس کی رو سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشترکہ حکومت تشکیل دی جائے گی۔۔۔اس سوچ کو تقویت دینے کے لیے امریکہ  اور روس نے  شام کی تقسیم کے حوالے سے  بیانات دئیے  جن کا مقصد  مذاکرات کے لئے دباو ڈالنا اور مذاکرات کاروں کو خوفزدہ کرنا تھا۔  اسی طرح ان بیانات کا مقصد اہل شام  کے لیے ماحول کو گرمانا تھا کہ اگر  انہوں نے شام کے لیے امریکہ  کے منصوبے کے مطابق   حکومت اور اپوزیشن  پر مشتمل   لبرل ریاست کی حمایت نہیں کی  تو پھر شام  ایک نہیں رہے گا  بلکہ تقسیم ہو گا۔۔۔اسی لیے کیری نے یہ بیان دیا" اگر ہم نے زیادہ انتظار کیا تو شام کو ایک رکھنے کا موقع کھو دیں گے" (رائٹرز23 فروری2016 )۔۔۔روس نے شام میں فیڈریشن کی بات کی چنانچہ روس کے نائب وزیر خارجہ  سرگئی ریابکوف نے کہا:" ماسکو  امید کرتا ہے کہ شام کے مذاکرات کے شرکاء  ایک فیڈرل جمہوریت  کے قیام   کے نقطہ نظر تک پہنچیں گے  جو کہ  کردوں کا بھی مطالبہ ہے" (الحدث چینل29 فروری2016 )۔۔۔یہ سب اپوزیشن کے مذاکرات کاروں پردباو ڈالنے کے لیے کیا گیاتا کہ  وہ اس سیاسی  حکومت کو قبول کریں  جو امریکہ مسلط کرے گا ورنہ تقسیم کے لیے تیار ہوجائیں۔۔۔امریکہ اور اس کے اتحادی یہ بھول گئے یا بھولنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ  اہل شام جس طرح تقسیم کو مسترد کرتے ہیں اسی طرح  امریکہ کے  لبرل منصوبے کو بھی مسترد کرتے ہیں،   وہ ان دونوں منصوبوں کو دو ایسی شر انگیزیاں سمجھتے ہیں   جن کا  کرتا دھرتا امریکہ ہے، اور  اس کی تائید امت کے خائن ہی کریں گے جن کا زوال اللہ کے اذن سے قریب ہے۔۔۔

ب ۔ مذاکرات کے دوران  بمباری میں اضافہ  بھی مذاکرات کاروں کے لیے ایک پیغام تھا کہ  وہ امریکی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے مذاکرات کو قبول کریں  ورنہ  بمباری بڑھتی رہے گی۔  یہی وجہ ہے کہ  'جنیوا- 3 '،جو کہ فروری 2016 سے شروع ہوئی، کے دوران  روسی فضائی حملوں میں قابل ذکر تیزی دیکھی گئی،   مذاکرات کاروں پر دباؤ میں اضافہ کے وسیلے کے طور پر حلب کے محاصرے کو بھی سخت تر کر دیا گیا۔۔۔

ج ۔ مذاکرات کو مسترد کرنے والے ہر شخص کو اشاروں سے بلکہ کھل کر دھمکیاں دیں گئیں،  اسی پس منظر میں کیری نے 24 فروری2016 کو کہا :" اگر میز پر مسئلہ حل نہیں ہوا تو متبادل منصوبے کے حوالے سے  بھی اہم بات چیت جاری ہے" (رائٹرز24 فروری2016 )۔   جبیر نے بھی اپنے اس آقا کا مقولہ دہراتے ہو ئے کہا :" ۔۔۔  اگر ہم جنگ بندی کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو دوسرے منصوبے بھی ہیں، جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جیسے ہی  شامی حکومت  یا اس کےاتحادیوں کی جانب سے غیر سنجیدگی نظر آئی تو دوسرا منصوبہ بھی ہے ،  پھر اس دوسرے منصوبے پر غور کیا جائے گا اور اس پر توجہ دی جائے گی "( CNN  عربی سائٹ 28 فروری2016 )۔

ان تمام باتوں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ شام میں اپنے لبرل منصوبے کے حصول کے لیے مذاکرات میں عملاً سنجیدہ ہے۔

   ایسا لگ رہا ہے کہ  یہ تمام اقدامات  اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی  کے حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے جواز اور ذریعہ ہونے میں کامیاب ثابت ہوئے، اس لیے"شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی  اسٹیفن ڈی میسٹورا نے اعلان کیا کہ شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے مذاکرات  کا نیا دور 14 سے 24 مارچ تک بین الاقوامی ادارے کی سر پرستی میں جنیوا میں ہو گا۔۔۔" ( الریاض، جمعرات 10 مارچ 2016 )۔ اس کے بعد مذاکرات کے لیے اپوزیشن کی کمیٹی نے مذاکرات کی حمایت کے لیے ماحول ساز گار بنانے کی کوشش شروع کر دی۔" مذاکرات کی اعلیٰ سطحی کمیٹی ،جو کہ شام کے مختلف گروپوں کی نمائندگی کرتی ہے، نے بدھ 9 مارچ 2016 کو کہا کہ  وہ اقوام متحدہ کی جانب سے امن کوششوں کے مجوزہ لائحہ عمل کو مثبت سمجھتی ہے اور  انہوں نے ایک دن پہلے سے حکومتی فورسز کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی میں کمی کا مشاہدہ کیا ہے۔ مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سربراہ  سالم المسلط نے کہا کہ  جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے حوالے سے حتمی فیصلہ جلد کیا جائے گا" ( اے ایف پی  DW9 مارچ2016 )۔ اس کے بعد 11 مارچ2016 کو رشیا ٹو ڈے نے  خبر شائع کی کہ"شام کی اپوزیشن کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ  اگلے پیر سے جنیوا میں شروع ہو نے والے مذاکرات میں شرکت کرے گی۔۔۔" (رشیا ٹو ڈے سائٹ11 مارچ2016 )۔

3۔ رہی  بات امریکہ کی جانب سے متبادل ایجنٹ کی تلاش سے نظریں پھیرنے کی  تو یہ درست نہیں۔۔۔یہ اس وجہ سے کہ بشار شام میں مستحکم حکومت  برقرار رکھنےکی قدرت کھو چکا ہے جس کے ذریعے امریکی مفادات کی خدمت کی استطاعت رکھ سکے۔ امریکہ اس کو عبوری مرحلے کے دوران  بر قرار رکھنا چاہتا ہے تا کہ  اس دوران وہ  نئے ایجنٹ   تلاش کرے جس کا چہرہ  بشار سے کم سیاہ ہو اور لوگوں کو دھوکہ دے  کر امریکہ کے مفادات کو پورا کر ے۔ امریکہ شام میں ایسی لبرل حکومت چاہتا ہے جو بشار اور اس کے باپ کی طرح امریکہ کے مفادات کو پورا کرے،  حتی کہ بدبودار تقسیم کی جو امریکہ ترویج کر رہا ہے  اس پر عمل بھی اس وقت تک بعید از قیاس ہے جب تک وہ موجودہ ایجنٹ بشار  کی جگہ دوسرا ایجنٹ لانے میں ناکام نہ ہو۔۔۔اس وقت امریکہ کی خواہش صرف یہ ہے کہ جنگ بندی کے ذریعے  صورت حال کو پر سکون کر کے  اپنے منصوبے کے لیے  حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل لبرل  حکومت قائم کی جائے  یہاں تک بشار کی جگہ لینے کےلئے متبادل دستیاب ہو۔۔۔امریکہ  اس جنگ بندی کو اہمیت دیتا ہے کیونکہ اپوزیشن خاص کر چند نام نہاد اسلامی گروپوں کی جانب سے جنگ بندی اور مذاکرات کو قبول کر لیا گیاہے، اور  اس بات کو امریکہ   اپنے اور شام میں اپنے ایجنٹوں کے خلاف گزشتہ پانچ سالوں کی شامی تحریک کے دوران اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کر تا ہے۔۔۔روس نے بھی اس کو بڑی کامیابی اور حکومت کو مضبوط کرنے کا بہترین موقع قرار دیا ہے  اسی لیے اقوام متحدہ میں روسی مندوب  ویٹالی چورکین نے  میونخ معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار کومرزانٹ سے باچیت کے دوران کہا کہ " مجھے امید ہے کہ دمشق یہ بات جانتا ہے کہ  پانچ سال کی مسلسل تباہی کے بعد یہ شام کے لیے بہترین موقع ہے" ( فرانس پریس19 مارچ2016 )۔ اس کے بعد بشار نے بھی جنگ بندی قبول کرنے کے لیے تیار ہونے کا اعلان کر دیا۔

4 ۔ یہ تو امریکہ، روس اور ان کے ہمنواوں کے منصوبے ہیں۔۔۔ جہاں تک شام کے مخلص لوگوں کے منصوبے کی بات ہے تو وہ الگ بات ہے جو استعماری کفار، ان کے ایجنٹوں اور ان کے مدار میں گردش کرنے والوں  کے منصوبوں کو لرزادے گا۔  اللہ کے اذن سے ان کی سازش  انہی کے گلے میں پھنس جائے گی  ﴿وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾ "اور کافروں  کی چال ہی گمراہی کی چال ہے"(غافر:40)۔

کیونکہ شام کے جواں مرد وہ نہیں جو ریاض کے "انٹرکانٹی نینٹل" میں   دولت اور گمراہی کے لیے پڑے ہوئے ہیں اور مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا رہے ہیں۔۔۔ کیا وہ امت کے خائن نہیں کہ جہاں گندہ مال ہو اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔۔۔اور کیا یہ وہ دھوکےباز نہیں جو حکومت سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ  حکومت کے سربراہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں کیونکہ جس کی گنجائش نہ ہو اس کے ساتھ مذاکرات کوئی نہیں کرتا!کیا یہ وہ لوگ نہیں کہ جن کو عوامی جمہوری ریاست   کی سرگوشی کی جاتی ہے تو یہ اللہ کے حکم کی جگہ اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن امت کے سامنے خود کو اسلام کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں!کیا یہ وہ نہیں جو جمہوریت کی بات کرتے ہیں  اور تمام انسانوں کے رب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جگہ انسان کو حلال و حرام قرار دینے کا حق دیتے ہیں ،  اللہ سبحانہ و تعالیٰ ،جو تمام فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والےہیں، فرماتے ہیں: ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ﴾ " حکمرانی اللہ کے سوا کسی کی نہیں"(یوسف:40)۔

  یہ وہ لوگ نہیں ۔۔۔بلکہ وہ لوگ شام کے  وہ شیر ہیں جن کو امت ان کی صداقت اور خلوص کے لیے ہی پہچانتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ یہ امت قیامت تک خیر سے خالی نہیں۔۔۔یہی لوگوں  اپنے دل اور زبان سے "یہ اللہ کے لیے ہے یہ اللہ کے لیے ہے" کا نعرہ لگاتے ہیں۔۔۔یہی لوگ شام کو ایسے شام میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند ہے  : «عُقْرُ دَارِ الْإِسْلَامِ بِالشَّامِ» " شام اسلام کا مسکن ہے"( اس کو الطبرانی نے الکبیر میں سلمہ بن نفیل سے روایت کیا ہے)۔یہی وہ لوگ ہیں  جو قوت سے تقسیم کی مخالفت کرتے ہیں اتنی ہی قوت سے امریکہ کے لبرل منصوبوں اور استعماری کفار اور منافقین کے تمام منصوبوں کو  مسترد کرتے ہیں۔۔۔یہی سرزمین شام کے صادق اور مخلص لوگ ہیں،  یہی اس حق پر ثابت قدم ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ باطل  کی ایک ہی باری ہے ہے جبکہ حق کی باری باربار ہے۔  یہی لوگ اپنے دین اور اپنی امت کے بارے میں سودے بازی نہیں کرتے ۔۔۔ انہی لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ ان کی تحریک  نے بہت سوں کو رسوا اور بے نقاب کیا ہے،   سازشیوں کو بے نقاب اور منافقین کو رسوا کیا،   جو کہ سب ایک جیسے ننگے ہوگئے ہیں،   کوئی غافل ہی ان سے دھوکہ کھا سکتا ہے اور کوئی جاہل ہی ان کی مکاری سے بے پرواہ ہو سکتا ہے۔۔۔ ان لوگوں کو اطمینان ہے کہ  استعماری کفار کے منصوبے ایسی ناکامی سے دوچار ہوں گے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں  ﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ﴾ "اور عنقریب ظالم جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ گرتے ہیں"(الشعراء:227)۔

دوسرا: لیبیا کا موضوع:

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ لیبیا کا موضوع شام کے موضوع سے مختلف ہے، کیونکہ شام میں کشمکش امریکہ ،اس کے اتحادیوں ، اس کے ہمنواوں اور اہل شام کے درمیان ہے۔  یہ کشمکش امریکہ اور کسی دوسری بڑی ریاست کے درمیان نہیں  جیسا کہ لیبیا میں کشمکش امریکہ اور یورپ خاص کر برطانیہ، کسی حد تک فرانس اور کچھ نہ کچھ اٹلی کے مابین ہے۔  یوں یہ بین الاقوامی رسہ کشی ہے اگر چہ اس میں مقامی آلہ کاروں سے بھی کام لیا جارہا ہے۔۔۔

اس فرق کو بیان کرنے کے بعد ہم لیبیا کے بارے میں پوچھے گئے سوال کی مزید یوں وضاحت کرتے ہیں:

1 ۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ  امریکہ لیبیا میں سیاسی حل اور اس کو کامیاب بنانے پر توجہ نہیں دے رہا ہے اور یہ شام کے بالکل برعکس ہے، بلکہ وہ عسکری مداخلت کے اشارے دے رہا ہے، سلامتی کونسل میں اس کا مطالبہ بھی کیا ہے  اور سیاسی حل کو ناکام بنانے کی کوشش بھی کی ہے۔  امریکہ گزشتہ سال کے نومبر کے مہینے سے ہی  فضائی حملے بھی کر رہا ہے۔ اس نے ایک  مطلوب شخص کو مارنے  کا اعلان بھی کیا ،  اسی لیے اس کے 20 فوجی  لیبیا کے ایک اڈے میں گھسے اور پھر نکل آئے۔  یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں19 فروری2016 کو امریکی طیاروں نے  آپریشن کیا جس میں 49 لوگوں کو مارا گیا جن کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا کہ ان کا داعش سے تعلق تھا اور  جن میں سے بیشتر کا تعلق تیونس سے تھا۔  اس کو سب سے بڑا آپریشن کہا جا رہا ہے جس میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس قسم کے حملے جاری  رکھے گا:" اوباما نے28 جنوری2016 کو  قومی سلامتی کے بارے میں اجلاس کو لیبیا کے موضوع پر بحث کے لیے مخصوص کیا  کیونکہ بڑے مغربی ممالک اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ آئینی خلاء کی وجہ سے لیبیا دہشت گرد تنظیم کی  نشونما کے لیے زرخیز زمین ثابت ہو سکتی ہے۔۔۔ اوروائٹ ہاوس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ :" صدر نے  قومی سلامتی کی ٹیم سے  لیبیا اور دوسرے ممالک میں حکومت کو مضبوط کرنے اور دہشت گردی کی سرکوبی کی  موجودہ کوششوں کی حمایت  کرنے کا کہا ہے۔۔۔" ( میڈل ایسٹ آن لائن 29 جنوری2016 )۔

2 ۔ یہ فیصلہ  لیبیا میں صورت حال کے امریکہ کے لیے خطرناک ہونے  پر دلالت کر تا ہے۔   اس کا سبب کسی تنظیم  کا خطرہ نہیں جیسا کہ ظاہر کیا جا رہا ہے،   کیونکہ اس کو تو مداخلت کے لیے ذریعہ بنایا جا رہا ہے،  بلکہ یہاں  بڑے ممالک لیبیا میں امریکی اثرو نفوذ کی راہ میں روکاوٹ بن رہے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ  اس کو  مراکش کے الصخیرات  میں17 دسمبر 2015 کو ہونے والے معاہدے  کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی اس  کو عملی جامہ پہنانے پر توجہ دے رہا ہے۔  زیادہ تر بات چیت  نام نہاد دہشت گردی کا بہانہ بنا کر لیبیا میں عسکری مداخلت کے بارے میں ہو رہی ہے۔  اگر یہ معاہدہ امریکہ کے مفاد میں ہوتا تو اس پر عملد درآمد کے لیے وہ سردھڑ کی بازی لگاتا۔۔۔ یہ سب 2014 میں اپنے ایجنٹ حفتر کے ذریعے  لیبیا میں اپنی بالادستی قائم کرنے ، کنٹرول  اور حکومت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد کر رہا ہے۔ اس لیے  سلامتی کونسل کی قرار داد کے ذریعے اجازت حاصل کیے بغیر ہی  براہ راست مداخلت شروع کر دی  کیونکہ برطانیہ نے لیبیا میں عسکری مداخلت کے لیے قرارداد پاس کرنے کی راہ میں روکاوٹ ڈال دی۔  یہی وجہ ہے کہ سیاسی حل  پر عمل  یوں ہی لٹکا رہے گا۔

3 ۔ امریکہ بظاہر الصخیرات کے سیاسی معاہدے  کو قبول کرنے  کا عندیا دیتا ہے مگر ساتھ ہی اس پر عمل درآمد میں تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے۔ اس بات کی تائید امریکی سی۔آئی۔اے کے ڈائریکٹر جون برنان کے25 فروری2016 کے بیان سے ہو تی ہے جب اس نے کہا:" امریکہ لیبیا میں  دو رویہ پالیسی پر عمل پیرا ہے،  ایک طرف  دونوں مقابل حکومتوں کو  ایک کرنے کے لیے سفارتی کوششیں کر رہا ہے تو دوسری طرف  الدولہ تنظیم کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کر رہا ہے" ( اے ایف پی 25فروری 2016 )۔ اس کے وزیر خارجہ جان کیری نے کہا :"ہم نے گزشتہ مہینوں کے دوران  خاص طور پر بڑی محنت سے طرابلس میں حکومت کی تشکیل کے لیے کام کیا۔ اگروہ معاہدے میں ناکام ہوگئے تو لیبیا ایک ناکام ریاست بن جائے گی" (رائٹرز 24فروری2016 )۔ انہوں نے دعوی کیا کہ حکومت کی تشکیل میں بڑی سنجیدگی سے کوشش کی ہے، یعنی امریکہ کے معیار پر اترنے والی حکومت ورنہ  اس کو ناکام بنا یا جائے گا۔ چونکہ الصخیرات  حکومت  اس کے معیار کے مطابق نہیں تھی  اس لیے طبرق پارلیمنٹ میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس کو ناکام بنانے کی کوشش کر تا رہا  اور ان لوگوں نے کہا کہ وہ 32 وزراء کی تشکیل کو مسترد کرتے ہیں۔  حکومت کے سربراہ فایز سراج 22 جنوری2016 کو مصر کے 6 روزہ دورے پر گیا اور مصر کے حکمران سیسی سے  ملاقات کی۔   سراج نے امریکی ایجنٹوں کو منانے کی کوشش کی،  چنانچہ اپنے دورے کے اختتام پر کہا کہ  وہ وزراء کی تعداد مختصر کرنے پر تیار ہے۔  سراج کے  قاہر ہ سے نکلتے ہی  حفتر  قاہرہ پہنچا  جس کا مقصد  نتائج سے باخبر ہو نا اور احکامات لینا تھا  کہ آگے کیا کرنا ہے،اور  مزید حمایت بھی حاصل کی جائے۔  جس کا یہ مطلب ہے کہ امریکہ حکومت کی تشکیل سے راضی نہیں،  کیونکہ حکومت کی تشکیل ایسی نہیں تھی جیسا امریکہ چاہ رہا تھا۔۔۔سراج نے وزراء کی تعداد کم کر کے 18 کر دی  پھر اس کو23 فروری2016 کو طبرق پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا تو اس کو مسترد کر دیا گیا،   یہاں تک کہ نا معلوم مسلح افراد نے ووٹنگ کے لیے آنے والے اراکین پارلیمنٹ پر فائرنگ کر دی ، ان کو داخل ہونے نہیں دیا گیا اور  اس وجہ سے کورم پورا نہیں ہوا کیونکہ 200 میں سے صرف 89 اراکین پہنچ سکے۔ اسپیکر نے اجلاس بر خاست کردیا  اور  یوں امریکہ اپنے گروہوں  اور اپنے ماتحت اراکین کے ذریعے اس کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔

4 ۔ امریکہ کی جانب سے حکومت کو نا کام بنا نے کی کوششوں کی وجہ یہ ہے کہ لیبیا کا بیشتر سیاسی میدان قذافی کے باقیات پر مشتمل ہے یعنی یورپ کے وفاداروں پر۔۔۔ کوئی بھی وزارتی تشکیل  اسی معیار پر ہوگی جیسا کہ  نئی وزارت میں ہے۔ امریکہ حفتر  اور اس کے آس پاس چند دوسرے عسکری لوگوں پر اعتماد کر تا ہے  اور یہ سوچتا ہے کہ وہ نئے سیاسی میدان میں اس کے لیے  بنیاد فراہم کریں گے  جس میں اس کا حصہ وافر ہو گا اور وہ اس پر حاوی ہو  گا مگر اب تک  وہ ایسا نہیں کر سکا اور  تمام عسکری کاروائیاں بھی کامیاب نہیں ہوئیں، اسی وجہ سے امریکہ  ممکن حد تک سیاسی حل کو  عسکری مداخلت  اور حفتر اور اس کے پیرو کاروں کے ذریعے ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سلسہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک امریکہ کو ایسی حکومت کی یقین دہانی نہیں ملتی جس میں  اس کا حصہ یورپ کے مقابلے میں بڑا  ہوگا ۔۔۔ یوں عسکری مداخلت لیبیا میں سیاسی بالادستی کے لیے ہے۔   ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اپنے مقصد کے حصول تک جاری رہے گی۔

5 ۔ اس کے برعکس یورپ  معاہدے کو کامیاب بنانے، حکومت تشکیل دینے اور اس کو تسلیم کرنے کی کوشش  کر رہا ہے کیونکہ اب تک سیاسی میدان پر اس کی گرفت ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کےلئے بہت دلائل  ہیں۔    فرانس کے صدر ھولاندی نے فرانس میں  مراکش کے صدر اور برطانیہ کے ایجنٹ محمد السادس  سے 17 فروری2016 کو ملاقات کی جس میں دونوں نے لیبیا کی صورت حال پر گفت وشنید کی اور اعلان کیا کہ دونوں  لیبیا کی پارلیمنٹ کو سراج کی قیادت میں وفاقی قومی  حکومت پر اعتماد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ فلپ ھامونڈ نے الجزائر کا دورہ کیا اور اس کے وزیر خارجہ رمطا ل عمامرہ سے19 فروری2016 کو ملاقات کی اور کہا کہ "لیبیا میں عسکری مداخلت   موجودہ بحران  کا بہترین حل نہیں ، دونوں نے سیاسی حل پر زور دیا"۔ الجزائری وزیر نے بھی اپنے برطانوی ہم منصب کی تائید کرتے ہوئے کہا:"  ہم نہیں سمجھتے کہ عسکری مداخلت سے لیبیا کے بحران کو حل کیا جا سکتا ہے۔  تمام کوششوں کا مقصد  لیبیا میں  ایک متحدہ قومی حکومت کا قیام ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فعال کردار ادا کرے گی۔۔۔"(الخبر الجزائریہ19 فروری2016 )۔ یوں برطانیہ، جس کو فرانس کی حمایت حاصل ہے،  علاقائی قوتوں کو لے کر  سیاسی عمل کو کامیاب بنا نے اور اس عسکری مداخلت کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس کی ترویج امریکہ کر رہا ہے۔۔۔

رہی بات  بعض یورپی ممالک کی جانب سے عسکری کاروائیوں کے بیانات کی، تو یہ احتیاطی طور پر ہیں  تا کہ میدان اس وقت امریکہ کے لیے خالی نہ رہے جب  عسکری مداخلت کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے۔ ذرائع ابلاغ نے  بتا یا کہ برطانیہ نے لیبیا فوج بھیج دی ہے۔  چنانچہ  بوابہ افریقیا یوم نے12 جنوری2016 کو  برطانوی سائٹ سوشلسٹ ورکر کے حوالے سے یہ خبر دی کہ " کنزرویٹیو حکومت نے ایک ہزار برطانوی فوجی  تیل کے کنووں کی حفاظت کے لیے  لیبیا بھیج دیے جن کو  داعش تنظیم کی پیش قدمی کی وجہ سے خطرہ لا حق ہے۔ اسی طرح بر طانوی  تباہ کن بحری جہاز شمالی افریقہ کے ساحل  کی طرف روانہ ہوے۔ فضائیہ کو بھی  لیبیا میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے تیار رہنے کا  کہا گیا  ہے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے"۔ فرانسیسی اخبار لومونڈ نے 24 فروری2016 کو  خبر دی کہ " اسپیشل فورس کے دستے لیبیا میں داعش کے خلاف خفیہ جنگ میں شریک ہیں"، یعنی فرانس ضرورت پڑھنے پر مداخلت کے لیے تیار ہے،  مگر خفیہ طور پر اور  اسپشیل فورس  برطانیہ کے ساتھ بھیج رہا ہے  تا کہ امریکہ کی جانب سے عسکری کاروائی کو روکا جا سکے۔ فرانس  نے اس کو خفیہ اس لیے رکھا کہ وہ  فی الحال  عسکری مداخلت کو  معمول کی کاروائی اور منصوبہ نہیں بنا نا چاہتا ہے،  وہ برطانیہ کے ساتھ مل کر  سیاسی معاہدے کو عملی جامہ پہنانے،  حکومت تشکیل دینے اور اس کی حمایت پر کام کر رہا ہے۔۔۔ پہلےجب  امریکہ یورپ کو زچ کرنے کے لئےعسکری مداخلت کی بات کرتا تھا اور ساتھ ہی یہ تاثر دیتا تھا کہ یورپ بھی ایسا ہی چاہتا ہے تو   یورپ پہلے ان بیانات کی تردید میں جلدی کر تا تھا۔۔۔"اٹلی کے وزیر اعظم  ماٹیو رینسٹی نے  پانچ ہزار فوجی لیبیا بھجنے  کے ارادے کی تردید کی ہے، انہوں نے کہا کہ  اٹلی کی سابقہ کالونی میں عسکری مداخلت کے لیے حالات سازگار نہیں۔اور رینٹسی نے  ٹی وی پروگرام میں کہا کہ :" جب تک میں وزیر اعظم ہوں اٹلی  لڑائی کے لیےپانچ ہزار فوجی لیبیا نہیں بھیجے گا"۔ انہوں نے مزید کہا " اگر مداخلت کی ضرورت ہوئی تو اٹلی  پیچھے نہیں ہٹے گا۔  مگر یہ آج موضوع نہیں۔ پانچ ہزار فوجی بھیجنے  کا موضوع  ہی زیر بحث نہیں"۔ رینٹسی  اٹلی میں امریکی سفیر جون فلپ  کو جواب دے رہا تھا جس نے  جمعہ کو  کورییری دیلا سیرا  اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ روم پانچ ہزار تک فوجی بھیج سکتا ہے ( مصدر: نیوز ایجنسی ، رشیا ٹوڈے7 مارچ2016 )۔۔۔ " اٹلی نے یہ بھی کہا کہ ان فوجیوں  کووہاں تعینات کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد لیبیا کی حکومت سے رسمی طور پر اجازت لینا پڑے گی"(العربیہ8 مارچ2016 )۔ یہ امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرار داد اور  لیبیا کی قانونی حکومت سے اجازت سے  پہلے عسکری مداخلت    پر نکتہ چینی تھی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ لیبیا میں  جلد صورت حال مستحکم نہیں ہوگی اوراس بات کی توقع بھی نہیں کہ لیبیا میں کوئی قابل ذکر حکومت قائم ہو جو  امن وامان اور استحکام قائم کر سکے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ تیسری حکومت قائم ہو سکتی ہے  جس کے پاس کوئی قابل ذکر طاقت نہیں ہو گی،  خاص کر امریکہ قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کو کمزور کرے گا: "۔۔۔ماہرین نے  قومی حکومت کے معاہدے پر طبرق اور طرابلس پارلیمنٹ  کے اراکین کے دستخط سے خبردار کیا ہے،جس سے صرف ملک میں تیسری حکومت قائم ہو گی،   جو  انارکی اور انتشار  کی صورت حال میں مزید اضافے کا باعث بنے گی ۔۔۔  امریکی تحقیقی مرکز"صوفان" گروپ، جس کا ہیڈ کواٹر نیو یارک میں ہے،   کی رپورٹ  کے مطابق  "جب قومی اتحاد کی حکو مت  تشکیل دی جائے  گی تو دو نوں متحارب حکومتوں  کے ماتحت گروپوں کی جانب سے  اس کو مسترد کرنے کا امکان ہے ،  رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ "  بننے والی حکومت  سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی  مسائل میں مبتلا ہوجائے گی" (گارڈین  برطانیہ16 دسمبر2015 )۔   اس طرح اگر ایسی حکومت بن بھی جائے تو یہ  کچھ دیر کے لیے ہی ہو سکتی ہے پھر  بات بگڑ جائے گی  اور ایسا نظر آرہا ہے کہ اس بار امریکہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھے گا جب تک  لیبیا میں اس کا بنیادی کردار نہ ہو،  کیونکہ اس طرح پہلی بار اس کو ایجنٹ  میسر ہوئے ہیں،اور  پھر وہ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر مداخلت کرے گا۔

   خلاصہ یہ ہے کہ لیبیا میں استحکام اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک کہ مداخلت کر نے والے  ان  استعماری  ممالک  کے ہاتھ نہیں کاٹ دئیے جاتے۔ اہم چیز ان کے سستے مقامی آلہ کاروں کا خاتمہ ہے،   جو ان ریاستوں میں حکومت کرتے ہیں اور یہ  خریدے اور بیچے جاتے ہیں  جس سے مداخلت کی راہ ہموار ہوتی ہے،  بلکہ ان کی خدمت کرتے ہیں اور ان کے مفادات کے لیے  کرائے پر لڑتے ہیں!  مخلص اور بیدار لوگوں کو چاہیے کہ ہر قسم کی بیرونی مداخلت کو روکنے کے لیے سنجیدہ جدو جہد کریں،  استعمار کو بھگا دیں  چاہے وہ یورپی ہوں یا امریکی، ان کے تمام حل اور منصوبوں  کو مسترد کردیں،  ان کے ایجنٹوں کو برطرف کر دیں، معاملات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیں اور زمین پر  اللہ کی حکمرانی کو قائم کریں۔۔۔  ہم جانتے ہیں کہ اہل لیبیا میں خیر ہے،  یہ قرآن کے حافظوں کی سرزمین ہے،  یہاں مخلص اور سچے لوگ موجود ہیں جو  اللہ کے اذن سے  اسلام دشمنوں کے منصوبوں کو نا کام بنا سکتے ہیں۔  اللہ غالب اور حکمت والا ہے ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کریں ۔

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ * وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُم

" اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا  اور تمہیں ثابت قدم کرے گا۔ جو لوگ کافر ہیں ان کی بربادی ہے  اور ان کے اعمال رائیگاں ہیں"(محمد:8-7)

 

3 جمادی الثانی 1437 ہجری

12مارچ2016

Last modified onہفتہ, 01 اکتوبر 2016 16:47

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک