الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال کا جواب: لبنان کے صدارتی انتخابات اور سعودی – ایران اختلافات

بسم الله الرحمن الرحيم

 

 

سوال کا جواب

لبنان کے صدارتی انتخابات اور سعودی – ایران اختلافات

 

سوال :

یہ دیکھا جارہا ہے کہ جمہوریہ لبنان کے صدر کا انتخاب  پیچیدہ ہوتا جارہا ہے  اور پارلیمنٹ میں کوٹہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔   یہ عمل کئی بار دہرایا گیا  اگرچہ سب جانتے ہیں کہ  موثرمتحرک قوتیں  حزب اللہ اور اس کے حامی  اور  المستقبل پارٹی اور اس کے حمایتی ہیں۔  یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ  ان دونوں گروہوں کے پس پشت  ایران اور سعودی عرب ہیں۔  تو پھر کوٹہ پورا نہ ہونے کا کیا مطلب ہے جبکہ دونوں فریقوں کے پشت پناہ یعنی ایران اورسعودی عرب اس وقت امریکہ کے وفادار ہیں؟  ایسا کیوں ہے کہ یہ کوٹہ پورہ ہونے نہیں دے رہے ؟ ایک اور بات یہ ہے کہ  لبنان میں سعودیہ اور ایران کے درمیان  کشیدگی میں شدد پیداہو گئی ہے حالانکہ یہ دونوں امریکہ کے وفادار ہیں، اس کا سبب کیا ہے ؟جزک اللہ خیر۔

 

جواب:

مندجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنے سے جواب واضح ہوجائے گا:

 

1 ۔ لبنان کے لیے صدر کے انتخاب اور وہاں صورت حال میں استحکام  کا موضوع  فی الحال امریکی ترجیحات کی فہرست میں شامل نہیں۔  وہ لبنان کے موضوع کو شام کی صورت حال سے جوڑ  رہا ہے۔ چونکہ اس کو شام میں بشار کا متبادل ایجنٹ دستیاب نہیں چنانچہ اس نے لبنانی صدر کے انتخاب کے موضوع کو لبنان میں گروہ بندیوں کے شکار لوگوں کے درمیان رسہ کشی کے کھیل کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔۔۔ مگر اب جنگ بندی اور مذاکرات کے موضوع میں کسی حد تک کامیابی کے بعد خاص کر  بعض نام نہاد اسلامی گروپوں کو  خیانت پر مبنی ان مذاکرات میں شامل کرنے کے بعد۔۔۔اگر وہ مذاکرات کے تمام فریقوں کو حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل مشترکہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔۔۔اور اگر معاملات اسی طرح آگے بڑھتے رہے ،  جنگ بندی برقرار رہتی ہے اور مذاکرات جاری رہتے ہیں تب لبنانی صدر کا انتخاب قریب ہوجائے گا،  یعنی لبنانی صدر  کا انتخاب  شام میں امریکہ کے لبرل منصوبے کی کامیابی کے تناسب سے آگے بڑھتا رہے گا۔  جیسے جیسے وہ اس حل کے قریب ہو گا لبنان میں صدر کا انتخاب بھی قریب ہوجائے گا۔ یہ سب امریکی منصوبے کے مطابق ہے۔۔۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی جنگ بندی  جاری رہنے اور مذاکرات میں کامیابی،  لبنان میں صدر کے انتخاب کے مسئلے کے حل کو قریب کر دے  گا جبکہ  اس سے پہلے وقت کو ٹالنے کے لیے لبنانی گروپوں کے درمیان تماشا لگا رہے گا۔ لبنان  میں جاری واقعات کو دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ: حریری  فرنجیہ سے اتفاق کر تا ہے تو   اس کا ساتھی جعجع جا کر عون سے اتفاق کرتا ہے!اگرچہ ایران کی حزب(حزب اللہ) فرنجیہ اور عون دونوں کا دوست ہے مگر وہ  ایک طرف ہو جاتے ہیں! کیونکہ یہ جس  کی طرف داری کریں گےتو وہ ان کے اثرو رسوخ کے نتیجے میں   صدر منتخب ہوجائے گا۔ ۔۔۔یہ سب اس پر دلالت کر تا ہے کہ  اس کھینچا تانی کا مقصد  صدر کےموضوع کو حل کرنا مقصود نہیں ہے ۔

 

2 ۔ جہاں تک سعودی -ایران اختلافات کی بات ہےجبکہ دونوں  امریکہ کے وفادار ہیں۔ ۔۔تویہ اختلافات  لبنان میں  امریکی اجازت کے ضمن میں ہے۔ امریکہ فی الحال لبنان میں کوئی مستحکم حل نہیں چاہتا اس لیے ایران اور سعودی عرب کو  اپنے اندرونی مفادات  کے مطابق کھینچا تانی کے لیے ڈھیل دی ہوئی ہے۔۔۔ شاید آپ نے10 مارچ2016 کو اوباما کا  امریکی میگزین 'اٹلانٹک 'کو دیا گیا انٹرویو دیکھا یا پڑھا ہو  جس میں وہ سعودیہ اور ایران کو خطے میں  پر امن بقائے باہمی کے ساتھ رہنے کی تلقین کر تا ہے: " امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ " سعودیہ اور ایران کو چاہیے کہ  وہ مل کر رہنا سیکھیں اور امن کے حصول  کے طریقوں کو سمجھیں۔۔۔"۔ اوباما نے کہا کہ "سعودی عرب اور ایران لازمی امن قائم کریں۔۔۔ اور ایران کوئی ایسا راستہ تلاش کرسکتا ہے کہ وہ اپنے پڑوس کی جگہ کو دوسروں کے ساتھ بانٹ سکے اور کسی قسم کا امن قائم کرسکے"۔ اوباما نے مزید کہا کہ " ایران اور سعودیہ کے درمیان مقابلے بازی ، جس سے شام،عراق اور یمن میں لڑائی  اور انارکی کو ہوا ملی، کی وجہ سے  ہم اپنے سعودی اور ایرانی دوستوں سے کہتے ہیں کہ  ان کو باہمی روابط اور مل کر رہنے کی ضرورت ہے"۔( بی بی سی ، رائٹرز 10/3/2016 )۔۔۔ایسا  لگ رہا ہے کہ وہ دو نوں  ملکوں کا ذمہ دار ہے،  دونوں کے امور کی دیکھ بھال کر رہا ہے  اور ان کو نصیحت کر تا ہے کہ خطے میں  ان کو کیا کرنا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ  ان کے درمیان اتفاق ہو یا اختلاف ، وہ امریکی وائٹ ہاوس کی جانب سے  متعین کیے گئے  کردار کے لحاظ سے ہی ہے! لہٰذا جب اتفاق کی ضرورت ہو تو دونوں متفق ہو جاتے ہیں، اور یہ  امریکہ کی سیاسی ترجیحات کے مطابق ہوتا ہے ۔۔۔

واقعات  اور پالیسیوں کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ  امریکہ کی ترجیح شام کی صورت حال ہے۔ اسی لیے وہ جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے شام کے مسئلے کو حل کرنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ اس مسئلے میں سعودیہ، ایران اور ترکی ایک دوسرے کےشانہ بشانہ   چل رہے ہیں اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔  ان تینوں نے جنگ بندی اور مذاکرات  کی حمایت اور اس کی کامیابی کے لئے کام کیا ہے ۔۔۔ جوں ہی امریکہ لبنان کے موضوع کو حل کرنے میں سنجیدہ ہو گا  تو سعودیہ اور ایران انہی خطوط پر فوراً ایک ہو جائیں گے۔  یقیناً آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ شدید اختلافات کے باوجود ایران اور ترکی  کس طرح پے درپے دوروں کے ذریعے متفق ہو گئے  کیونکہ امریکہ چاہتا تھا کہ جنگ بندی اور مذاکرات کو کامیاب بنا نے کے لیے  ان دونوں کا مل کر کام کرنا ضروری ہے۔۔۔

 

امید ہے یہ اس حوالے سے کافی ہے انشاء اللہ۔

 

28 جمادی الثانیہ 1437 ہجری

بمطابق 6 اپریل 2016

Last modified onہفتہ, 01 اکتوبر 2016 17:01

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک