بسم الله الرحمن الرحيم
سوال وجواب
موصل واپس لینے کے معرکے کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں؟
سوال:
17 اکتوبر2016 کو موصل واگزار کرانے کا معرکہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا، اس کا کیا مقصد ہے؟ امریکی ذمہ داروں کے سابقہ بیانات کوکس نظر سے دیکھنا چاہئے جو چند سالوں کے بعد موصل کی لڑائی کی توقعات کا اظہار کرتے تھے؟ اور کیا موصل سے نکالے جانے کے بعد داعش تنظیم ختم ہوجائے گی ؟ نیز ترک حکومت اور عراقی حکومت کے درمیان طعن وتشنیع کا تبادلہ یا لفظی جنگ کیوں ہورہی ہے ؟ ترک حکومت اس جنگ میں شراکت پر کیوں اصرار کر رہی ہے؟
جواب :
1-موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے ایک ہی ڈرامے کی پیش کی جانے والی قسطوں میں سے ایک اور قسط ہےجس کا مقصد سنیوں اور شیعوں کے لیےالگ الگ علاقوں کے قیام کے ذریعے تقسیمِ عراق کے منصوبے کو مکمل کرنا ہے جبکہ کرد علاقے کا قیام پہلے ہی عمل لایا جا چکا ہے۔ امریکہ کی یہ پالیسی آج کی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی عراق پر قبضے کے وقت کی ہے، بلکہ قبضے سے پہلے سے اس کی پالیسی یہی تھی۔ جب امریکہ نے 1991 میں شمالی عراق کو نو فلائی زون قرار دیا تھا، جس کے نتیجے میں کردستان ریاست نما علاقہ بن گیا ۔ اور جب 2003 میں عراق پر قبضہ کرلیا تو اسی مقبوضہ عراق پر حکومت کرنے کے لیے بریمر نے حکومت تشکیل دی جس کی عمارت مذہبی اور فرقہ واریت کی بنیادوں پر کھڑی کی گئی، جس میں مسلکوں اور فرقوں کے لیے کوٹے مختص کیے گئے تھے.... بریمر نے جولائی میں نام نہادعراقی حکومتی کونسل تشکیل کی، پھر اگست 2003 میں اس نے 25 ارکان پر مشتمل تمہیدی دستوری کمیٹیPreparatory constitutional committee تشکیل دی.... اس کمیٹی نے ایک آئینی بل تیار کیا جس کی رو سے عراق کو کردستان خطے جیسے علاقوں کی بنیاد پر ایک وفاقی ریاست کی شکل دی گئی.... پھر اس دستور کے حوالے سےرائے دہی کے لیے 31 جنوری 2005 کو عام انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا گیا ،انتخابات کامقصددستورسازی کو قانونی شکل دلوانا تھا۔ انتقالِ اقتدار کے انتظامی قانون میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ بروئے کار لائے جانے والے تمام تر ٹیڑھےطریقوں کے باوجود جس میں تشدد بھی شامل تھا، صرف58فیصدرجسٹرڈ ووٹر ز نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا، اور اس دستور کو منظور کروایا گیا! اس کے چند شقیں مندرجہ ذیل ہیں:
سال 2005 کے لیے جمہوریہ عراق کے دستور کی آرٹیکل(1) یہ واضح کرتی ہے کہ" جمہوریہ عراق ایک وفاقی ریاست ہے۔" آرٹیکل (116) میں بتایا گیا ہے کہ" جمہوریہ عراق کا وفاقی نظامِ حکومت عدم مرکزیت کی بنیاد پر بنائے گئے دارالحکومت، خطوں، صوبوں اور مقامی انتظامیہ پر مشتمل ہے۔" آرٹیکل 1/117 میں قرار دیا گیا ہے کہ" یہ دستور اپنے نفاذ کے ساتھ ہی کردستان کے خطے کو اور موجودہ وفاقی خطوں کے اختیارات کو تسلیم کرتا ہے"۔ ان خطوں کے اختیارات استعداد ِکار اور وسائل کو دیکھتے ہوئے مستقبل ِقریب میں عراق کی تقسیم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے! بالخصوص آرٹیکل 119 جو یہ کہتا ہے کہ" دیگر خطوں کی تشکیل دینے کے امکان" کی بات کرتی ہے ۔ یوں امریکہ نے اس ناپسندیدہ مسودہ کے ذریعے عراق کی تقسیم کے بیج بودیے ۔
2- امریکہ کو عراق کی تقسیم کرنے والے اس دستور کی منظوری کروانے میں کامیابی کا احساس ہوا اور اپنے ایجنٹوں کو حکم دیا کہ وہ اس کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھیں، تاکہ اس کو قبولیت دلوانے کے لیے ماحول کو ساز گار بنایا جاسکے مگر انہیں اس میں ناکامی ہوئی، کیونکہ وہ علاقے جن کو شیعہ اور سنی علاقوں کانام دیا جانے لگا تھا، ان میں بھی علیحدگی کی سرگرمیاں نظر نہیں آتیں ، اس حد تک کہ علاقائی عنوان کے تحت بھی اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا ،شیعہ اور سنی علاقوں میں اس قسم کے الفاظ سے لوگ نا آشنا ہیں۔ امریکہ نے اپنے طریقۂ کار کے مطابق فضا تیار کرنا شروع کیا، چنانچہ المالکی کو جس کا سینہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور بغض وعناد سے لبریز ہے ،20 مئی2006 کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ اس شخص کو سنیوں اور شیعوں کے درمیان نفرت وعداوت کے رجحانات کو ہوا دینے کی مہم سونپی گئی ، اس طور پر کہ ان کے اندر فرقہ وارانہ رجحانات کو مضبوط کرنے اور ان کی شدت میں بتدریج وسعت اور تیزی لائی جائے! امریکہ کے پروردہ مالکی نے،جو غیر معمولی حد تک فرقہ پرست شخص ہے، کچھ دیگر لوگوں کو اُ کسایا اور ان کو اشتعال دلایا، جس کی وجہ سے تقسیم کے لیے ماحول اور علاقہ دونوں ساز گارہوئے ا ور یہ کردار ادا کرنے میں اسے کامیابی ملی۔
مالکی نے کرد اور سنیوں کے ساتھ عداوت و دشمنی کے بیج بو دیے، تا آنکہ لوگ خود ہی عراق کی تقسیم کا مطالبہ کرنے لگے۔ مالکی اس عداوت کو پیدا کرنے اورعراق کی نئی علاقائی تقسیم کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوا ، یہی اس کا وہ اصل مقصد تھا جس کی تکمیل کے لیے امریکہ نے اسے بطور وزیر اعظم مقرر کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی مدتِ وزارت میں 8 ستمبر 2014 تک توسیع کی گئی، اس کی وزارت عظمیٰ کا زمانہ سرزمین ِعراق کے لیے ایک تاریک اور منحوس دور تھا۔ دسمبر 2011 کو جب امریکہ عراق میں اپنی فوجی موجودگی کو ختم کرکے وہاں سے نکل رہا تھا ، جبکہ سیکورٹی اور سیاسی کنٹرول کےحوالے سے اس کی موجودگی بدستورباقی تھی،اُس وقت سے ہی فتنے کا شجرۂ منحوسہ بار آور ہوچکا تھا، مالکی نے آکر اپنی نوعیت کے انوکھے جبر وتشدد کے ذریعے اس کی خوب دیکھ بھال کی۔ جب بھی فتنے کی یہ آگ کہیں ٹھنڈی پڑ جاتی ، وہ اس کو اپنے اشتعال انگیز بیانات اور کاروائیوں کے ذریعے پھونکیں مار مار کر پھر سے بھڑکا دیتا۔ مسلکی اُکساہٹ کو وسعت دے کر شیعہ ملیشیاؤں کی تخلیق کے لیے لوگوں کو بھرتی کیا ۔
امریکہ کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی، جومسلمانوں کے درمیان خلیج کو گہرا کر دے ،وہ اس کو نوری المالکی کی شکل میں دستیاب ہوا۔ چنانچہ اپنے بغض،سازش، ظلم وجبر اور تشدد کو بروئے کار لا تے ہوئے جان بوجھ کر اہل سنت کو مشتعل کرتا تھا۔ جب لوگ اس ظلم کے خاتمے یا اپنے حقوق کے لیے مطالبات کرنے لگتےتو وہ ان پر جبر کرتا ، ان کو گرفتار کرتا اور ان سے متعلق کسی بھی قسم کا حق تسلیم کرنے سے انکار کرتا۔ سنی علاقوں میں یہی کچھ ہوتا رہا، جب وہ 2012 میں پرامن احتجاج میں اکٹھے ہوکر عام قسم کے مطالبات کر رہے تھے جو ان کے خلاف ظلم کے خاتمے اور ان کے قیدیوں بالخصوص خواتین کو رہا کرنے اور رات کے وقت چھاپے بند کرنے سے متعلق تھے، اور وہ حکومت کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کررہے تھے ، مگر مالکی حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی اور کہا کہ ان مطالبات سے دہشت گردوں کو فائدہ ہوگا۔ اس نے لوگوں کو مزید بے چینی سے دوچار کرنے کے لیے ان پر اُمن مطالبات کو کچلنا شروع کیا تاکہ یہ لوگ تنگ آکر اکٹھے ہو کر علیحدگی یا ایک فیڈرل علاقے کے قیام کا مطالبہ کریں۔ مالکی اور اس کی حکومت اپنے امریکی آقاؤں کی رضامندی اور اشارے پر ہی یہ گھناؤنا بلکہ گھناونے سے بھی بد تر کردار ادا کرتی رہی، کیونکہ ان کی باگیں امریکی ہاتھوں میں تھی۔ دوسری جانب بعض شیعہ تحریکیں سر اٹھانے لگیں جوالانبار کے پُر امن مظاہروں کےآغاز سے پہلے جنوبی عراق میں کردستان طرز پر شیعہ علاقے کے قیام کا مطالبہ کررہی تھی.... بات یہاں ختم نہیں ہوئی، بلکہ پڑوسی ریاستوں نے مذہبی پہلو کو اچھالنے میں مقابلہ بازی شروع کی.... یہ سب کچھ امریکی پالیسی کے نفاذ کے لیے تھا جس کو متحدہ عراق ایک آنکھ نہیں بھاتا، بلکہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار، باہمی تنازعات اور خونریزی میں اُلجھا ہوا عراق اس کی دیرینہ خواہش ہے! جہاں ہر ایک اپنے لیے الگ علاقے کے مطالبے پر اَڑا ہوتا ہے اور کھل کر اس کا اعلان کرتا پھرے۔
3- ان حالات میں داعش نے موصل میں اپنے لیے ٹھکانہ ڈھونڈنے کی غرض سےچھیڑ خانی شروع کی، امریکہ نے دیکھا کہ اگر ان حالات میں داعش کا شیعہ ملیشیاؤں کے ساتھ معرکہ آرائی شروع ہوجاتی ہے تو اس سے سنی شیعہ تنازع مزید گھمبیر شکل اختیار کر لےگا اور سنی وشیعہ اختلاف بڑھانے کے امریکی ہدف کی تکمیل میں معاون ثابت ہوگا۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے مالکی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس نے اپنی فوج کو موصل سے اس طرح نکالا کہ فوج اسلحہ اور بینک کی خطیر رقوم اپنے پیچھے چھوڑ کرنکلی.... یہ جون 2014 کی بات ہے جب امریکہ نے داعش کے ہاتھوں موصل کے سقوط کا اعلان کیا.... جبکہ تواتر کے ساتھ ایسی رپورٹیں آنے لگیں کہ عراقی افواج نےکسی حقیقی معرکے کے بغیر وہاں سے پسپائی اختیار کرلی ہے، اور یہ کہ موصل کے بینکوں میں اپنی رقوم چھوڑ کر اپنی وردیوں سمیت اسلحہ اور تمام ساز و سامان داعش تنظیم کو سپرد کرکے پسپا ہوئی ہیں ، فوج ، افسران اور امن فورسز بھاگ نکلیں حالانکہ انہیں عددی اور جنگی ساز وسامان میں برتری حاصل تھی۔ اس سے ہر ایک کے ذہن میں شکوک وشبہات اُبھرنے لگے اور ہر کوئی یہ سمجھ رہا تھا کہ مخصوص مقاصد کے لیے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اس خطے کو داعش کے سپرد کیا گیا ہے۔ یہ خیال اس حدتک مضبوط تھا کہ مالکی نے خود اعتراف کرلیا کہ یہ سب کچھ سازش تھی ( مالکی نے اپنے فیس بک پیج پر 18 اگست2015 کو پوسٹ کیا ،نیز امریکی الحرۃ نے بھی ذکر کیا کہ" موصل نے جو حالات دیکھے وہ سازش تھی") مگر اس کی کوشش تھی کہ اس سے اپنے آپ کو بری ثابت کردے ، لیکن چونکہ اُن دنوں مالکی وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ آرمی چیف کمانڈر اور میدان جنگ کا اولین ذمہ دار تھا، اس وجہ سے اس کے لیے اس دھبے کو دھونا مشکل تھا! الرمادی میں بھی یہی کچھ دہرایا جاتا رہا کہ کسی بھی مزاحمت کے بغیر وہاں پر تعینات نام نہاد گولڈن گروپ فوج کو نکالا گیا۔ پھر مالکی اور اس کے ذمہ داروں کے احتساب کا مطالبہ زور پکڑتا گیا مگر اس موضوع کو پس پردہ دھکیل دیا گیا ....لگتا ایساہے کہ امریکہ کو اس موضوع کو بند کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، کیونکہ فوج کو نکالنے میں اسی کا ہاتھ تھا ۔ آرمی کو نکالنے کا مقصد داعش تنظیم کو وہاں سکہ جمانے کا موقع اور سہولت فراہم کرنا تھا۔ داعش سنی تنظیم ہے ، لہٰذا شیعہ ملیشیا کے بالمقابل اس کی موجودگی اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان نفرت کے خلیج کو وسعت دینے میں اضافے کا باعث ہوگی ،جو ایک وفاقی علاقے کے قیام پر منتج ہوگا....یہی وجہ تھی کہ تنظیم کے لیے سہولت پیدا کرنے کی غرض سے فوج کو وہاں سے واپس بلایا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ نے تنظیم پر اس وقت بمباری کرنے سے انکار کیا جب وہ موصل میں داخل ہورہی تھی۔ اوبامہ نے13 جون2014 کو واضح کہا کہ واشنگٹن " عراقیوں کی جانب سے پیش کردہ سیاسی لائحہ عمل کی غیر موجودگی کی صورت میں ہر گز کسی عسکری کاروائی میں حصہ نہیں لے گا" اور اس کے باوجود کہ امریکہ اور عراق کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا اور اس کے باوجود کہ عراقی حکومت نے داعش پر بمباری کرنے کا مطالبہ کیا ،عراقی وزیر خارجہ زیباری نے جدہ میں بدھ کی شام18 جون 2014 کو کہا" بغداد نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلح افراد پر فضائی حملے کرے" ۔ اس کے علاوہ امریکی چیفس آف آرمی سٹاف کے چئیر مین جنرل ڈیمپسی نے کانگرس کے جلسےمیں اس پر اس کی توثیق کی تھی، جس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو موصل میں مداخلت کی کوئی جلدی نہیں تھی، بلکہ وہ نئے علاقوں کی تشکیل کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے حالات ساز گار ہو نے تک اس کو مؤخر کرنا چاہ رہا تھا۔ جس کے لیے سنی شیعہ فرقوں کے درمیان حالات کو گرمانا اور کشیدگی پیدا کرنا ضروری تھا۔اس طرح دونوں گروہ اپنے لیے علیحدہ صوبے یا علاقے پر متفق ہوجائیں گے ، جیسا کہ عراقی کردستان کے معاملے میں ہوا،بعد ازاں امریکہ داعش کے خلاف جنگ اور موصل سے اس کو مار بھگانے کا حکم صادر کرے گا۔
با شعور سیاستدان جومسلسل ان حالات کا جائزہ لیتے اور کھوج میں لگے رہتے ہیں، وہ ان حالات کا ادارک رکھتے ہیں ۔ ہم یہاں 6 دسمبر2015 کو "عراق الیوم" (روزنامہ عراق) کی ویب سائٹ کی شائع کردہ ایک خبر کا ذکر کریں گے۔ ویب سائٹ کو ایک اعلیٰ سطحی سفارتی ذرائع کی طرف سے کچھ خبریں بلاواسطہ موصول ہوئیں جو ملک سے داعش تنظیم کے خاتمے کے لیے امریکی شرائط سے متعلق تھیں۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ" بغداد کی وفاقی حکومت کے تابع تین مرکزی علاقوں کے قیام پر عراقیوں کی رضامندی داعش تنظیم کے معاملے کو حل کرنے اور عراق کو اس سے پاک کرنے ،نیز اِس وقت بغداد میں حکومتی اتھارٹی کی جگہ لینے والی تمام ثانوی قوتوں ، بالخصوص ایرانی احکامات پر چلنےوالے ملیشیاؤں کے خاتمے کے لیے بنیادی شرط ہے۔" انہی ذرائع نے یہ خبر بھی دی کہ".... واشنگٹن نے سیکورٹی کونسل کے ذریعے عراق کی نئی وفاقی حکومت کی حمایت کا وعدہ کیا ہے...."
اس طرح امریکہ مالکی سے اس کے فرقہ پرستانہ ذہن کی بنا پر کام لیتا رہا ، اس کو سنی وشیعی مسلمانوں کے درمیان عداوت پیدا کرنے کی غرض سے سنی مسلمانوں کو اشتعال دلانےکے لیےاستعمال کیا، جس کے نتیجے میں عراق کو چیر پھاڑکراس کے ٹکڑے کیے جائیں، جہاں وفاق کے ساتھ صوبوں کا کمزور سا رابطہ ہو جس کے ٹوٹنے اور منقطع ہونے کا ہر لمحہ کھٹکا لگا رہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے شیعوں کے بارے میں داعشی نظریات سے فائدہ اٹھانا چاہا ،اس لیے موصل میں داعش کے داخل ہونے میں سہولت فراہم کی، جس کا مقصد شیعہ سنی عداوت کی آگ بھڑکا کر فریقین کے درمیان منافرت میں اضافہ کرنا تھا۔ موصل میں داخل ہوکر داعش کی طرف سے خلافت کے اعلان سے بھی امریکہ نے فائدہ اٹھایا۔ اس دفعہ امریکہ نے ان کی قتل وغارت گری ، جلاؤ گھیراؤ اور شہریوں کو بے گھر کرنے جیسی مبنی بر تشدد کاروائیوں پرتوجہ مرکوز کرکے ان کاروائیوں کو خلافت سے جوڑ دیا، مگر اللہ نے انہیں ناکام کردیا اور لوگوں نے جان لیا کہ بغدادی کی خلافت محض ایک ڈھکوسلا ہے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیں، اور جس خلافت کے قیام اور اس کے لیے کام کو اللہ نے فرض کردیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے جس کے دوبارہ قیام کی بشارت دی ہے وہ سچ ہے جو عدل وانصاف ،چین و سکون اور امن کو فروغ دے گی، وہ جہاں قائم ہوگی لوگ وہاں سے بھاگ جانے کی بجائے اس کی پناہ میں آنے کے لیے اس کی طرف ہجرت کریں گے، وہ خلافت نہ صرف اپنے شہریوں کے درمیان بھلائی کو عام کرے گی، بلکہ پوری دنیا تک بھلائی اور خیر کے پیغام کو لے کر جائے گی۔
4- رہا شمالی عراق میں ترکی افواج کی موجودگی کا سوال تو یہ بھی اسی غرض کے لیے ہے، یعنی عراق میں سنیوں کو پھلنے پھولنے اور توانا ہونے کی چھوٹ دینا،جیسے ایران شیعوں کو عیاشیاں کرنے کی رعایت دیتا ہے....دوسری طرف علاقائی حالات بھی ایسے ہیں جونئے علاقوں کے قیام کی حوصلہ افزائی میں معاون ہیں ! چنانچہ ترکی کی مداخلت اسی تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے ہے، اس نے ایسا باور کرایا کہ گویا وہ سنیوں کی حفاظت کرنے کے لیے آیا ہے ، جیسے ایران شیعوں کی حمایت کے لیے اقدامات کرتا ہے.... اس سب کا نتیجہ اور مقصد وہی مخصوص ہدف ہے ، یعنی تقسیم کے لیے سہولت کاری کا کردار۔
جہاں تک ترکی کا اس معرکے کے اندر شرکت پر اصرار اور ایردووان اور العبادی کے درمیان لفظی جنگ اور اس موضوع کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات کے تبادلے کا تعلق ہے ، یا ایردووان کاعراقی حکومت کے اس مطالبے پر حیرت کااظہار کہ وہ موصل کے شمال مشرق میں واقع "بعشیقہ" کیمپ سے ترک افواج کو واپس بلائے، حالانکہ عراقی حکومت کو اس کا علم تھا.... کہ یہ معاملہ نہ تو عراقی حکومت کے ہاتھ میں ہے نا ہی ترک حکومت کے ہاتھ میں ، بلکہ یہ سارا کچھ امریکی پالیسی کے عین مطابق ہورہا ہے۔ لہٰذا اسی کے مطابق اردووان یہ ظاہر کرنا چاہتاہے کہ وہ العبادی کے مقابلے میں سنیوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور علاقوں کی امریکی منصوبے کی حوصلہ افزائی بھی اسی لیے کرتا ہے۔ العبادی بھی یہی کچھ کرتا ہے، وہ ترک افواج کے موضوع کو تو اچھالتا رہتا ہے مگر دوسری قوتیں جن سے عراقی سرزمین اور اس کی فضائیں بھری ہوئی ہیں، ان کی موجودگی پر اس کو کوئی اعتراض نہیں! صرف شیعوں کے جذبات کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے یہ سب کچھ کررہا ہے.... ثابت ہوا کہ یہ دونوں اسی ایک مقصد کی خاطر یہ کام سر انجام دے رہے ہیں ۔ یعنی امریکی خدمت بجالانے کے لیے شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دے کر مسلکی اور فرقہ واریت کی بنیادوں پر عراق کی تقسیم….. لفظی جنگ جاری رہے گی یا رک جائے گی ؟ اس کا فیصلہ امریکی منصوبے کے تحت ہوگا۔ ایسا پہلی بارنہیں ہوا کہ عراقی حکومت نے ترک افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے ، گزشتہ سال کے آخر میں بھی اس نے یہی مطالبہ کیا تھا اور اس کے لیے عرب لیگ کا اجلاس بلایا تھا ، عرب لیگ نے اس کی تائید کی تھی اور سلامتی کونسل میں اس معاملے کو اٹھایا تھا تاکہ ترکی کو قصور وار ٹھہرانے کی قرار داد منظور کروائی جائے اور اس سے افواج کی واپسی کا مطالبہ کیاجائے، مگر یہ پیالی کے ابال کی طرح ٹھنڈا پڑ گیا! اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترک افواج کی موجودگی امریکی منصوبے "regions"کے نفاذ کے لیے ہے۔ یہ معاملہ اب مخفی بھی نہیں رہا، بلکہ ایردووان نے شمال کے صوبے جیسا موصل صوبہ کا مطالبہ کرتے ہوئے کھل کر اس مریکی منصوبے کو سامنے لایا، اس نے ان لوگوں کی مذمت کی جنہوں نےشمالی عراق میں لوکل گورنمنٹ کے قیام یعنی کردستان صوبہ پر تو اتفاق کیا مگر موصل میں اسی نہج پر صوبائی علاقہ کی مخالفت کی۔ اس نے "بیش تبہ " (Beştepe)میں موصل میں ہونے والی تبدیلیوں پر اپنے بیان میں کہا: "….. جنہوں نے شمالی عراق میں مقامی حکومت کے حق میں "ہاں" کا ووٹ دیا ہے، موصل میں اسی جیسے مقصد کے لیے "ہاں " نہیں کیا۔" ( ترک ٹائم نیوز پیپر مورخہ 18/10/2016)
5- اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ امریکیوں کے سابقہ بیانات کے برعکس موصل کی جنگ پر اب کیوں اصرار کیا جارہا ہے؟ تو مسئلہ کچھ اس طرح ہے کہ:
امریکہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ وقت داعش تنظیم کے خلاف جنگ اور موصل سے ان کے اخراج کے لیے موزوں نہیں، اوبامہ کواس کی کوئی جلدی نہیں تھی کہ یہ معاملہ اسی کے عہد صدارت میں انجام پائے، بلکہ بعض امریکی ذمہ دار ان نے کہا کہ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں….. مگر کچھ ایسے حالات پیش آئے، جن کی وجہ سے اوباما کو جلدی کرنی پڑی….. اوباما کی خواہش تھی کہ اپنے منحوس دور کا اختتام کسی ایسی کامیابی خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو، کے ساتھ کرے جو اس کی طرف منسوب کی جائے….. بہر حال اس حوالے سے اس نے ایرانی دستوں ،اس کے ملیشیاؤں اور شدید روسی فضائی بمباری کے ذریعے شام کو نشانہ بنانے پر انحصار کیا، مگر ایسا لگتا ہے کہ اہل شام خاص کر حلب والوں کی طرف سے زبردست ثابت قدمی نے اس کی امیدوں کو رزقِ خاک بنادیا، اس لیے وہ عراق کی طرف دیکھنے لگا اور موصل پر اس امیدسے توجہ مرکوز کی کہ شاید وہاں کامیابی کی کوئی نہ کوئی جھلک دیکھنی نصیب ہو! چنانچہ موصل آنے کی جلدی میں اپنے پیچھے کچھ رخنے چھوڑیں جن میں سے الحویجہ بھی ہے…..( وال سٹریٹ جرنل نے کہاہے کہ موصل کی طرف آنے والی عراقی فورسز نے اپنے پیچھے الحویجہ جیسے بعض رخنے چھوڑے ہیں جن پر داعش تنظیم کا کنٹرول ہے ، جو صوبہ کرکوک کے عین درمیان میں واقع ہے۔ الحویجہ وہ مقام ہے جو داعش کو عراق کے دیگر مقامات میں مخالف حملے کرنے کو ممکن بناتا ہے۔ اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا کہ عراقی قائدین نے الحویجہ کو واپس لینے کو اپنی ترجیحات میں نہیں رکھا ، اس کے باجود کہ یہ دارالحکومت بغداد اور ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل کو ملانے والے راستے پر واقع ہے ….. کرکوک میں شیعی ملیشیاؤں کے ایک کمانڈر میثم الزیدی نے الحویجہ کے بارے میں یوں کہا"یہ شمالی عراق کے پہلو میں خنجر جیسا ہے۔" اس نے کہا: حکومت نے کچھ سیاسی اسباب اور عالمی دباؤ کی بنا پرالحویجہ کو واپس لینے سے پہلے موصل واگزار کرالینے میں جلدی کی….. ( الجزیرہ 28/10/2016)
یوں موصل کا معرکہ17 اکتوبر2016 کو شروع ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ 140 ہزار عراقی فوجی ،بشمول ِبشمرگہ فورسز ،قبائلی آبادیاں اور قومی دستے وغیرہ اس میں حصہ لیں گے۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے ترجمان پیٹر کوک نے کہا: " واشنگٹن کی زیر قیادت عالمی اتحاد موصل کے معرکے میں مکمل طور پر عراقی فورسز کے ساتھ تعاون کررہا ہے"۔ اس نے " موصل لینے کے معرکے میں بیک گراونڈ میں امریکی فورسز کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا ، ان فورسز کا کام یہ ہے کہ وہ عراقی فوج اور پشمرگہ فورسز کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کریں….." (رائٹرز 17/10/2016)۔ امریکہ نے گزشتہ ستمبر کے اواخر میں اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم حیدر العبادی کے مطالبے پر 600 سے 4400 اضافی فوجی بھیج کر عراق میں اپنی افواج کی تعداد بڑھائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس معرکے کے بارے میں طے پایا ہے کہ یہ امریکی انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد بھی جاری رہے ، تاکہ وہ اپنے اور ڈیموکریٹس کے لیے کچھ ایسی کامیابیاں جیت لیں،جنہیں امریکی تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ اور اس کے باوجود کہ داخلی اورعلاقائی طاقتوں " ترکی وایران" کے باہمی نوک جھونک اور جھگڑوں کے سبب موصل معرکہ لڑنا آسان نہیں ، انہی جھگڑوں کے سبب موصل کی جنگ میں کبھی تیزی آجاتی ہے تو کبھی ٹھنڈی پڑ جاتی ہے….. لیکن ان قوتوں پر وہی عامل اثر انداز ہوتا ہے یعنی امریکہ۔ یہ کشاکش اس حد مؤثر نہیں جس سے زیادہ دیر تک موصل معرکے کو روکے رکھنےکی توقع کی جائے….. بلکہ ایسا امریکی پالیسی کی ضرورت کے مطابق ہوگا۔
6- امریکہ نے عراق میں یورپ کو غیر مستقل کردار ادا کرنے کا موقع دیا، یہ بھی اس لیے کہ وہ اس اتحاد کا حصہ ہے، بالخصوص فرانس اور برطانیہ کو، تاکہ انہیں امریکہ کی قیادت تلے اس اتحاد کے ذریعے کنٹرول میں رکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اتحاد سے دور ہونے کی صورت میں یورپ اس جنگ کے پیچھے کار فرما امریکی مقاصد کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرسکتا ہے، یعنی عراق کی علاقائی تقسیم کے راستے میں….. ان جیسےحالات میں فرانس اپنی عادت کی وجہ سے اور داعش کی طرف سے فرانس میں ہونے والے نقصانات کے رد عمل میں نمایاں اور ممتاز کردار دکھانے کا خواہاں ہے۔ چنانچہ20 اکتوبر2016 کو " موصل شہر کے سیاسی مستقبل " پر بحث کے لیے پیرس میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں 20 ممالک کے وزرائے خارجہ ،نمائندوں اور شہری تحفظ کے آرگنائزیشنز کو شمولیت کی دعوت دی۔ اسی طرح25 اکتوبر2016 کو داعش کے خلاف منعقد کیے جانے والی کانفرنس میں عالمی اتحاد کے وزرائے دفاع کو دعوت دی۔ اس کانفرنس کے بعد امریکی وزیر دفاع آشٹن کارٹر نے اپنے ملک کو اس اتحاد کا سربراہ گردانتے ہوئے کہا:" بحث اس پر مرکوز تھی کہ الرقہ پر داعش تنظیم کے تسلط کو کس طریقے سے ختم کیا جائے …... اتحاد کے لیےاس منصوبے کے جلد از جلد نفاذ کے لیے کون سے امور انجام دینا ممکن ہیں، اور رکن ممالک کو داعش کے حملوں سے کیسے محفوظ کیا جاسکتا ہے ،ان جیسے امور کو طے کیا گیا …... الجزیرہ 26/10/2016 ) ۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان ممالک کی سربراہی امریکہ کر رہا ہے ،کیونکہ امریکہ ہی داعش تنظیم کے حملوں سے ممبر ممالک کے تحفظ سے متعلق بات کر تا ہے۔
7- رہی یہ بات کہ داعش کے ہاتھوں سے موصل نکل جانے پر اس کی انتہاء بھی ہوجائے گی ؟ تو ایسا نہیں، داعش تنظیم پلٹ جھپٹ کے اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اِدھر اُدھر سے حملے کرتی رہے گی جو اس کی مجبوری ہے۔ انہی شہروں کے بیرونی اطراف سے اپنی کاروائیاں جاری رکھے گی۔ الرمادی سے ان کو نکالا گیا تھا مگر وہ اس کے آس پاس موجود تھے، اسی طرح اگر ان کو موصل سے نکال دیا گیا تو وہ اس کے ارد گرد چکر لگاتے رہیں گے ، تاکہ 2014 کی پوزیشن پر آجائے، یا جیسا کہ وہ اس وقت ایک مسلح تنظیم کی صورت میں نمایاں ہے، صحراؤوں ، پہاڑوں اور دیہات اور شہروں کے اطراف میں لڑتے رہیں گے…... اور چونکہ ان کے اندر سیاسی شعور کا فقدان ہے ، اس لیے وہ ایسے کام کرتے ہیں جن کو استعماری کافر ممالک کے مفاد میں استعمال کیا جاتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ کبھی ان کو اس بات کا احساس ہو جائے…...
8- جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو یہ ممکن نہیں کہ تین فیڈریشنوں میں عراق کی تقسیم کے لیے اپنے منصوبے سے پہلو تہی کرے، بلکہ عراق کے حوالے سے اب یہی اس کی پالیسی بن چکی ہے۔ کانگرس نے 2006 میں عراق کی تقسیم سے متعلق منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے مطابق کرد، سنی اور شیعہ صوبوں میں عراق کو تقسیم کیا جائے گا، لیکن اس قرار داد پر عمل کرنا اوبامہ پر لازم نہیں تھا۔ بہر حال بش نے اسی دن اعلان کیا کہ "اس قرار داد پر عمل در آمد کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں"۔ قرار داد کا مسودہ سنیٹر جوزف بائیڈن نے پیش کیا تھا، جو بعد میں( 2009 میں )امریکی صدر اوباما کا نائب بنا ۔ بائیڈن نے کسی سرکاری اعلان کے بغیر اس قرارداد پر عملدر آمد میں پھرتی دکھائی ۔ بائیڈن ہی تھا جس کو اوبامہ نے عراق کی فائل سپرد کی تھی۔۔۔۔ پھر امریکہ نے عراقی دستور کو اسی اساس پر ڈھالا۔ اس کی حالیہ اور آئندہ کی کاروائیاں اسی کے نفاذ کے لیے عمل میں آئیں گی۔ موصل کو واپس لینے کے بعد سنی علاقے کہلائے جانے والے علاقوں کے انتظام کے لیے سیاسی فارمولے کی تلاش شروع کی جائے گی، جو شیعہ علاقوں کی بنسبت ایک مشکل ترین خطہ ہے…... اس کے باوجود اس منصوبے پر عمل کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ عراق میں اللہ سبحانہ کے مخلص بندے اور رسول اللہﷺ کے سچے پیروکار زندہ ہیں، وہ ہرگز اپنے ملک کے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے اور غالب اور طاقتور اللہ کے اذن سے ان منصوبوں کو ناکام بنانے کے راستے میں کھڑے ہوں گے۔
9- آخر ی بات ، اے اہل عراق، اے دجلہ وفرات والو! ہم پہلے کی طرح آج بھی آپ لوگوں سے مخاطب ہیں: صدیوں تک اسلام نے آپ کو اکٹھا رکھا اور طویل زمانے تک اسلامی پرچم تمہارے او پر سایہ فگن رہا، اسی وجہ سے تمہارے اندر قوت وشوکت اور عزت برقرار تھی، ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی بانٹتے تھے اور ایک ساتھ برائی اور شر کا مقابلہ کرتے تھے…... تمہاری سرزمین تو فتوحات کی سرزمین ہے ، قادسیہ ، البویب کی سرزمین ہے ، یہ ہارون الرشید ،معتصم اورصلاح الدین الایوبی کا وطن ہے، پہلے اور بعد کے فاتحین کا وطن ہے ، انشاء اللہ…... ایک عراق کے اندرہی عراق کے لوگوں کی قوت مضمر ہے اور منقسم عراق میں وہ کمزور ہوں گے…... اگر کرد یہ سمجھتے ہیں کہ کردستان صوبہ یا کردستان ریاست کے قیام سے ان کو عزت ملے گی تو انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ کچھ عرصے کی عزت کے بعد وہ ان کامقتل گاہ بنے گا…... اور اگر سنی یہ سمجھتے ہیں کہ شمالی اور مغربی عراق میں کسی صوبے کے قیام سے عزت پالیں گے اور سکون کی زندگی نصیب ہوگی ، ایسا ہو بھی جائے تو تھوڑے عرصے کے لیے ہوگا، جو بعد میں ان کی پریشانی اور بدحالی پر منتج ہوگا…... اور اگر شیعہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جنوب میں علیحدہ صوبے کا وجود ان کو قوت فراہم کرے گا جہاں ان ہی کا حکم چلے گا، تو تھوڑے عرصے کے لیے ایسا ممکن ہے ، مگر اس کے بعدکمزوری اور ذلت وخواری کے حالات سے ان کو سابقہ پڑے گا۔
دجلہ وفرات کی سرزمین میں بسنے والو! تعصب اور فرقہ واریت کو اپنے سےدور پھینکو(دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ) "اس کو چھوڑدو کیونکہ یہ بدبودار ہے" (بخاری عن جابر) …... فرقہ وارانہ القابات اور مذہبی شناختیں چھوڑ دو،ہمیں جو نام اللہ نے دیا ہے ، وہی نام اپناؤ،﴿هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ﴾" اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا" اسی نام کی طرف لوٹ کر آؤ اور اسی کو مضبوطی سے پکڑو ، تم عزت پالوگے، ورنہ ہر طرف سے ذلت منہ دکھائے گی۔
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ﴾.
"یقینا ً اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے"(ق:37)
29محرم الحرام 1438هـ
الموافق 30/10/2016م