بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
حلب اور شام میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟
سوال:
شام میں امریکی تصفیاتی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی بابت ترکی نے روس سے رابطہ قائم کرنا شروع کر دیا ہے۔بی بی سی نے2 دسمبر 2016 کو بتایا:" میولوت کاو سوگلو(Mevlut Cavusoglu ) نے کہا کہ شامی بحران کے حل کے لیےترکی روس سے مشاورت کر رہا ہے۔ صدر رجب طیب اردگان نے گزشتہ ہفتے میں کم سے کم تین بار روس کے صدر ویلادمیر پٹن سے ٹیلی فون پر شام کے موضوع پر بات چیت کی جبکہ کاوسوگلو نے جمعرات کو روس کے وزیر خارجہ سرجی لاوروو(Sergei Lavrov) سے اسی موضوع پر ترکی میں بات چیت کی ہے"۔
ان ساری چیزوں کے بعد بھی روس حلب پر جارہانہ حملے کررہا ہے ۔ اس نے اپنی ویٹو(veto) کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے5 دسمبر 2016 کو سلامتی کونسل میں پیش ہوئے اس بل کو مسترد کردیا جس میں حلب میں کچھ دنوں کے لیے جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ ترکی اس معاملے میں روس کے مظالم کے باوجود مذاکرات پر زور کیوں دے رہا ہے؟ حلب اور شام کے موجودہ حالات کیا ہیں ؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب:
مکمل جواب کے لیے ہمیں کچھ چیزوں کا جائزہ لینا ہوگا:
اولاً، دو ماہ سے امریکہ روس کے ساتھ مل کر حالات کو سنگین کرتا جا رہا ہے، اور یہ اس تناظر میں ہے جبکہ یورپی ممالک روس کے حلب پرشدید ظالمانہ ہوائی حملوں کی کڑی مذمّت اورشام میں امریکہ کے کردار کو شدّت سے رد کررہے ہیں اور یہ اس وقت اپنی انتہاء پر پہنچ گیا جب جنگجو گروہوں نے امریکی مخصوص افواج کی موجودگی میں ترکی کی فوجی مہم Operation Euphrates Shield میں حصّہ لینے سے انکار کر دیا۔ اور اس کے بعد امریکہ نے اس بات کا احساس کر لیا کہ شامی عوام اور انقلابیوں کو جھکانے کے لیے مزید جارہانہ جنگی مہمات کو انجام دینا مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کی کسی بھی درجے میں کامیابی کے لیے اوّلین شرط ہے۔ تب سے امریکہ نے کئی محاذوں پر منصوبہ بندی شروع کر دی :
1:اس نے روس کواوربھی زیادہ مہلک فوجی ہتھیاروں کے استعمال پر آمادہ کر لیا جس کے بعد روس نےیکم نومبر2016 کوشام کے ساحل پرکزینٹسوو طیارہ بردار جہاز کو لاکھڑا کیا جس پر خصوصی کروز میزائل نصب تھے۔ اس جہاز کی آمد کے فوراً بعد شام خاص طور سے حلب کی جائزاتی مہم(surveying campaign) شروع کر دی گئی۔ یہ جنگی سازوں سامان شام، خاص طور سے ہومیمن فوجی ہوائی اڈے میں پہلے سے موجود روس کے طیاروں اور فوجی آلات کے علاوہ ہے ۔
2:امریکہ نے حلب میں ایران کی خصوصی افواج اور ان کے حامیوں کو بھی طلب کر لیا۔
3: اس نے سعودی عرب ، ترکی اور دوسروں کی مدد سے شام کے زیادہ تر محاذوں کو ٹھنڈا کر دیا کیونکہ شام میں جنگجو گروہوں پر ان ممالک کا مالی اثرورسوخ ہے، اس کے نتیجے میں عارضی صلح اور مفاہمت کےخطرناک طریقے سے ختم ہونے کے امکانات بڑھ گئے اور انقلابیوں اور ان کے خاندان کے لوگوں کے بسوں میں سوار ہو کر ادلب جانے کے مناظر نے شامی حکومت کی جانب سے ان خاموش محاذوں سے حلب کی طرف کمک کی فراہمی کو یقینی بنا دیا۔ اس پر مزید یہ کہ یہ ممالک حلب میں بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لیے کوشاں ہیں جس کی وجہ سے ہم نے پھنسے ہوئے انقلابیوں کے مابین تصادم کا مشاہدہ کیا۔
4: مزیدیہ کہ ، اردگان کی مسلسل Operation Euphrates Shieldمہم اور ترکی کے وفادار جنگجو گروہوں کو جربلوس (Jarablos)کے بعد الباب( Al-Bab) کی جنگ کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ہے تا کہ حلب کے حقیقی محاذ کو کمزور کیا جا سکےجن پر یہ یقین تھا کہ وہ شہر کی بازیابی اور دم گھوٹ دینے والے محاصرے کو ہٹا سکیں گے۔جنگی میدان کی رپورٹوں سے پتہ چلا کہ شام کے مسلح مخالف گروہوں نے اپنے کنٹرول والے مشرقی حلب کی ایک تہائی زمین پر اپنا قبضہ کھو دیا کیونکہ متعدد جنگجووں نے شام میں اپنے محاذوں سے پسپائی اختیار کر لی اور ترک افواج کی داعش اور کُرد گروہوں کے خلاف Operation Euphrates Shield کے تحت مدد و تاعید کرنے لگے۔سیرین آبزرویٹری آف ہیومن رائٹس(Syrian Observatory of Human Rights) کے ڈائریکٹر رمی عبدالرحمٰن نے پیر کے روز سکائی عرب نیوز(Sky Arab News) سے بات چیت میں کہا کہ"آزاد شامی فوج میں سے وفادار جنگجووں کو Operation Euphrates Shield مہم کے تحت داعش کے خلاف جنگجو افواج میں شامل ہو جانے کے ترکی کے احکام پہنچ گئے جس مہم کو ترکی نے ابھی ایک مہینہ پہلے ہی داعش اور کردوں کےاس کے سرحدی علاقوں پر قبضے کے خوف سے شروع کیا تھا۔ عبد الرحمٰن نے بتایا کہ شامی جنگجووں کی شکست کی ایک اہم وجہ ترکی کی مداخلت ہے جس کی وجہ سے وہ آزادشامی فوج میں شامل ہو گئے اورشامی حکومتی افواج اور ان کے حلیفوں کے خلاف محاذوں کو جہاں پر ان کی موجودگی کی توقع تھی اس کو انہوں نے خالی چھوڑ دیا"(سکائی نیوز عربی، 28 نومبر 2016)۔
دوئم: اس کا بہت بڑا اثر حلب اور اس کے انقلابیوں پر پڑا کیونکہ وہ آزاد کردہ وسیع علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم نہ رکھ سکے جس کی وجہ سے ان کو ایک تنگ علاقے میں مقیّدکر دیا گیا اور شدید گولاباری نے باقی کے نزدیک علاقوں کو غرقاب کر نے کے خطرے سے دو چار کر دیا۔ اس وقت جب جنگ بندی کی بین الاقوامی اپیلیں ہورہی تھیں ، امریکہ کو لگا کہ شام کے حل کے لیے سیاسی عمل کو پھر سے زندہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے ، اور اس نئی صورتحال میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس میں تاخیر نہیں کی جاسکتی، اور اس بات کے ثبوت درج ذیل حقائق سے ظاہر ہوتے ہیں:
- امریکہ یہ بات جانتا ہے کہ مشرقی حلب کے اہم علاقوں کو حاصل کرکے شام کے انقلاب کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا اور شام کے مختلف علاقوں سے انقلابیوں کا صفایا کرنا تقریباً ناممکن سا کام ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان انقلابی سالوں نے شام میں ایک پُر خطر اسلامی ماحول تیار کر دیا ہے اس لیے وہ اس ماحول کے خاتمے کی جلدی میں ہے اور اس ماحول کو ختم کرنے کے لیے سیاسی اصلوب اختیار کررہا ہے اور اس میں انتہائی جلدی کا مظاہرہ کررہا ہے کیونکہ یہ طریقہ کار زیادہ کار آمد ہےبہ نسبت جنگی حکمت عملی کے جو کہ اس ماحول کو بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ اس لیے امریکہ اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ اور زیادہ قتل عام اور تباہی اب شام کے لوگوں کو مطیع و تابع بنا سکتی ہے اس لیے کئی سالوں سے وہ اپنے منصوبوں کے مطابق ایک سیاسی حل تلاش کرنے کے مواقع ڈھونڈھتا رہا ہے۔
- 20 جنوری 2017 کو موجودہ اوباما انتظامیہ وہائٹ ہاوس کو الوداع کہےگی۔ وہ اس کو اس حال میں چھوڑنے کے خواب دیکھ رہی ہے کہ اس کی انتظامیہ کو کسی کارنامے کے حوالے سے بعد میں یاد کیا جا تا رہے اس لیے شامی حکومت کی افواج کے حلب میں گھسنے کے بعد، روس نے اس بات کا انکشاف کیا کہ امریکہ کے سیکریٹری خارجہ جان کیری نے حلب میں بدحواسی کے عالم میں سودا کرنا چاہا ہے۔ روس نے 28 نومبر2016 کو بتایا کہ:"روسی صدر کے مددگار یوری اوشاکوو نے28 نومبر پیر کے دن بیان دیا"اگر آپ کیری کی کوششوں کے بارے میں پوچھیں تو وہ واقعی بہت پر زورہیں۔" اور اس نے آگے بتایا"ہم ان کوششوں کو نا قابل یقین کہہ سکتے ہیں، اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ کس شدّو مد سے امریکی اور روسی وزرائے خارجہ نے بے مثال ٹیلی فونی رابطہ قائم کر رکھاتھا جس کی ساری توجہ کا مرکز صرف شام ہی تھا""۔
- امریکہ کی ترکی کو دی جانے والی ذمہ داری اور اس کی تربیت تاکہ وہ امریکہ کی جانب سےایک اہم سیاسی کردار ادا کرے، اس حد تک کہ کیری –لاوروف(امریکہ و روسی وزرائے خارجہ)کےتعلقات کی جگہ روس –ترکی تعلقات نے لے لی اور یہی مشرقی حلب کے قریبی علاقوں پر قبضہ جمانے کے دوران ترکی کی بے انتہامواصلات(communication)، ترکی اور روس کےافسران کے مابین ہونے والی بے پناہ ملاقاتوں اور ترکی کے افسران کی لبنان اور ایران میں ان کے دوروں کی توجیہ کرتا ہے۔ترکی کے دورے اور ان کی ملاقاتیں بہت پُر زور ہیں:
ا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے ہفتے کے دن26 نومبر 2016 کو تہران میں ترکی کے وزیر خارجہ میولوت کو سوگلی(Mevlut Cavusoglu) سے شامی بحران اور دوسرے مقامی مسائل کے متعلق بات کی اور یہ ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات سے بڑھ کر تھا۔ ایرانی اسلامی رپبلک نیوز ایجنسی نے بتایا کہ ترکی کے وزیر خارجہ ایرانی وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف سے اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔(الجزیرہ نیٹ، 26 نومبر 2016)
ب۔ اناتولیا نیوز ایجنسی نے کہا: ترکی کے وزیر خارجہ نے ریاض حجاب سے فوری جنگ بندی اورحلب میں انسانی ضروریات کی امداد کی فراہمی کے ساتھ ملک میں چل رہے تنازعہ کے سیاسی حل کو تلاش کرنے کی ضرورت پر بات چیت کی۔(الجزیرہ نیٹ، 26 نومبر 2016)۔
ج۔30 نومبر2016 کو لاوروف (Lavrov) کا دورہ ترکی:"روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اعلان کیا کہ شام کے تعلق سے جنگی، سفارتی اور سیاسی سطحوں پرروسی –ترکی معاہدے طے ہونے کی راہ پر ہیں(یکم دسمبر 2016Russia Today ) لاوروف نے مزید بتایا:"روس اور ترکی جتنی جلدی ہو سکے گا اتناشامی بحران کے حل کو تلاش کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھیں گے(یکم دسمبر 2016Al Jazeera Net,)۔
د۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ٹیلی فون کے ذریعہ روسی صدر ولادمیرپٹن سے گزشتہ ہفتے کم سے کم تین بارشام کے بحران کے متعلق بات چیت کی۔(2 دسمبر 2016، بی بی سی)
ھ۔ترکی کے وزیر خارجہ ، مولوت کووسوگلو(Mevlut Cavusoglu) نے ترکی کے شہر علینا میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کو بتایا،" اس المیے کو ختم کرنےکے لیے ہم جنگ بندی کی طرف پیش قدمی کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں"(بی بی سی عربی،2 دسمبر 2016)۔
ر۔ اسپٹنک نےجمعرات یکم دسمبر کو مخالف اتحاد کےایک رکن سمیر نشر کا ایک بیان نقل کیا: "ترکی کی کوششوں سے تین دنوں سے اجلاس چل رہے ہیں، اور وہ بہت محتاط رہی ہیں اور جن جنگجو گروہوں سے ملاقات ہوئی ان پر ترکی نے اپنا کچھ تو اثر ڈالا ہے لیکن ان ملاقاتوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا"(Russia Today یکم دسمبر 2016) ۔ The Financial Times اخبار نے جمعرات کے دن یکم دسمبر کو ایک رپورٹ دی کہ متعدد شامی حزب اختلاف کی رہنما "حلب میں جنگ کو ختم کرنے کے لیے ترکی کی کہنے پر روسی عہدیداروں کے ساتھ خفیہ مذاکرات کررہے ہیں"۔ اخبار نے مزید بتایا کہ شمالی شام کے چار حزب اختلاف کےممبران نے اس کو بتایا کہ ترک دار الحکومت انقرہ میں روسی عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کی سرپرستی کر رہا ہے"(بی بی سی عربی، یکم دسمبر2016) ۔ اسلامی احرار الاشام، اسلامی محاذ کے نام پر قیادت کر رہا ہے، حلب میں جنگ بندی کے خاطر روسی عہدیداروں سے مذاکرات کی وجہ سے سے الکیسٹلو(Alcastelo) سے فتح الشام کے جنگجو محاذ کو چھوڑگئے اور زخمیوں اور بیماروں کواقوام متحدہ کی ٹیم کی سرپرستی میں محفوظ طریقے سے نکالنے کے لیے سڑکیں کھول دی گئیں ۔المدن(Al Mudn) کے مطابق،"فتح الشام کا محاذ کو چھوڑنا ترکی منصوبے کے ذریعے ہی ہوگا؛ پھر بعد میں انقرہ محصور شدہ علاقوں کو امداد فراہم کرنےکے کام کو انجام دے گی۔(Al Mudn ،3 دسمبر 2016)
ڈ۔ جہاں تک ترکی کے ان اقدامات سے امریکہ کی تشفّی کا سوال ہے؛ تو امریکہ کے دفتر خارجہ نے ان مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایک پریس بریفنگ میں دفتر کے ترجمان مارک ٹونر نے یکم دسمبر ، جمعرات کے دن بیان دیا کہ"ہم نے روس اور شام کے باغیوں کے مذاکرات کی رپورٹیں دیکھی ہیں۔۔۔ اوراس پر ہمارا ردعمل یہ ہے کہ ہم شام اور خصوصاً حلب کے لوگوں کی تکالیف و پریشانیوں کو ختم کرنے کی ہر مخلص کوشش کا خیر مقدم کرتے ہیں"(Russia Today یکم دسمبر2016)۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے امریکہ ہے اورساتھ ہی مذاکرات میں پیش قدمی پر وہ روس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ روس کے وزیر خارجہ نے 3 دسمبر ہفتے کے دن یہ انکشاف کیا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے بھی حلب کے تصفیے کے متعلق وہ تجاویز پیش کی ہیں "جو روس کے موقف سے موافقت رکھتی ہیں"(Russia Today 3 دسمبر 2016)۔
لاوروف نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ روس اور امریکہ انخلاء (withdrawl)کے متعلق کل شام یا بدھ کی صبح جنیوا(Geneva) میں بات چیت کی شروعات کریں گے، اور آگے یہ بتایا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے اس بابت انخلاء (withdrawl) کےراستوں اور اوقات کی تجاویز بھیج دی ہیں(Dar Al Hayat ، 5 دسمبر2016)۔اس نے زور دے کر کہا کہ روس 5 دسمبر پیر سے مشا ورت شروع کرنے کے لیے تیا ر ہے لیکن ماہرین کے اس اجلاس کو وقتی طور پر امریکہ نے ملتوی کرنے کو کہا ہے اور یہ متوقع ہے کہ یہ اجلاس یا تو منگل کی شام یا بدھ کی صبح شروع ہوں گے(Russia Today، 5 دسمبر2016)۔ اس لیے، حالانکہ ترکی کے اقدامات اس لحاظ سے کہیں بڑے ہیں کہ ترکی ان کو اکیلا انجام دے سکے، اس لیے بلا شبہ امریکہ اس کی پشت پر ہے جو اس کو قدم بہ قدم سہارا دے رہا ہے۔ اور وہی روس سے ہو نے والے مذاکرات کا منتظم ہے، روس کو دی ہوئی اس کی تجاویز کے مطابق، خاص طور سے جب اوباما انتظامیہ کسی ایک کارنامے کو اپنے نام کرنے کی امید میں اپنے آخری دن گن رہی ہے چاہے اس انتظامیہ کے بچے ہوئے کچھ ہفتوں کا ہدف پھر حلب ہی کیوں نہ ہو۔
سوم:جہاں تک جنگجو گروہوں کو مذاکراتی میز پر لانے میں امریکہ کے کامیاب ہونے کے امکانات اور شام میں سیاسی عمل کے احیاءکا سوال ہے تو اس کا فیصلہ مندرجہ ذیل حقائق سے ہوگا۔
1.شام کے اندر امن پر مبنی حل کو رد کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ شام کے لوگ امریکہ اور روس کے ساتھ عرب ممالک اور ترکی کی ان کے خلاف سازشوں سے بیدار ہوگئے ہیں۔ یہ بلا شبہ شفّاف بات ہے کہ یہ ممالک شام میں چلنےوالے انقلاب کے خلاف ہیں۔ اس لیے اس سے جنگجو گروہوں پر دباؤ پڑا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل کو درست کریں خاص کر جب کہ کثیر گروہوں نے بیرونی وفاداری اختیار کر لی ہے، اور ان پر غلیظ معاشی حمایت کا اثر ہے اور اس کا اظہار جنگ بندی اور ٹھنڈے پڑتے محاذوں اور ملٹری آپریشنز سینٹر (Military Operations Center) کی اطاعت و فرماں برداری سے عیاں ہے۔شام کے اندر لوگوں کی بغاوت نے جنگجو گروہوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ مشرقی حلب میں حکومتی مہم اور اس کے اتحادیوں کے سامنے آئیں ۔ مگر اب بغاوت بڑھ گئی ہے، خوشنودی کرنے والے گروہوں کی دغابازی کو بیان کرتے ہوئے ان کے قائدین کو راستے سے ہٹانے کے مطالبے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔اور ان شدید جنگی حملوں کے مدّنظر حلب کے اندر گروہوں نے اپنے آپ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ لیا اور ایک طاقتور فوج(جیش حلب) کو تشکیل دینے کا فیصلہ لیا جو کہ اچھا قدم ہے اور شائد اس موجودہ خطرے میں بیرونی وابستگیوں سے آزادی دینے کا ضامن بنے۔
سمیر نشر جو کہ شامی حزب اختلاف کے اتحاد کے ایک رکن ہیں وہ ترکی میں روس اورگروہوں کے درمیان مذاکرات کے نتیجہ خیز نہ ہونے کہ وجہ حلب میں محصور شدہ مسلح جنگجووں کے ہاتھ میں فیصلے کی باگ ڈور کو بتاتے ہیں۔ اس نے کہا "ان ملاقاتوں کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل پایا کیونکہ جو لوگ حلب کے شہر میں پھنسے ہوئے ہیں وہ شہر کے باہر اپنے قائدین سے الگ اپنے فیصلوں کےخود مالک ہیں اور اس طرح شہر میں محصور شدہ لوگوں کے تعلق سے ان کا فیصلہ بہت آزادانہ ہو گیا۔"(Russia Today ، یکم دسمبر 2016)۔ حلب کے اندر مسلح جنگجووں نے باہر ہونے والے دغاباز مذاکرات اور ہتھیار ڈال دینے کی جارہانہ دھمکیوں کو رد کر دیا۔ شامی حزب اختلاف کے ایک عہدیدار نے کہا کہ مخالفین گروہ کے قائدین حکومتی افواج کو مشرقی حلب نہیں سوپیں گے، جب روس نے کہا کہ وہ علاقے سے تمام مخالف جنگجووں کے انخلاء کے متعلق امریکہ سے بات چیت کرنے کو تیار ہے، جیسا کہ رائیٹرز خبر ایجنسی نے ہفتےکو بتایا۔"(Al Hurra، 3دسمبر2016)
2۔ اس طرح سے جن لوگوں میں بیداری آئی اور انہوں نے "حلب "کی شکل میں انقلاب کا جوہر پا یا وہ اب موجودہ خطرے میں بھی سیاسی حل کے سامنے سر جھکانے اور ان سے راضی ہونے کے لیے نہیں دوڑے لیکن عرب ممالک اور ترکی کے وفادارگروہوں کے طرز عمل کی اصلاح کی زیادہ دوڑ ہے۔
وہ فرقے جو معاشی امداد کو ایک بڑی رکاوٹ میں بدل دیتے ہیں جو ان کو انقلاب کو جاری رکھنے میں مانع ہوتا ہے۔۔۔اور یہ برے کو اچھے سے بالکل نمایاں کر دیتا ہے۔۔۔برے گروہوں نے ترکی ، سعودی عرب اور دوسرے آقا وں کے سامنے سر جھکا دیا ہے اور وہ امریکہ ، اس کے حلیفوں اور حامیوں کے ماتحت سیاسی طریق کار کی طرف دوڑ پڑے ہیں اور انقلاب کے خلاف بنائی گئی سازشوں کے گڑھے میں گر گئے ہیں۔۔۔اور اچھے لوگ اپنے قصد میں صادق نکلے؛ اور اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکے، اور ان کا یہ خیر انشاءاللہ ایران، روس ، ترکی اور عرب ممالک سے جمع شدہ امریکہ کے عناد کو ضائع کر دے گا۔
حلب کے استقامت کے لیے ان کی باہمّت مزاحمت کے خلاف یہ جارہارنہ حملہ صرف ان کی ظالمانہ روش کو ہی ظاہر نہیں کرتا بلکہ تمام تر مقامی ممالک جیسے ایران، سعود ی عرب اور ترکی کی بھی ظالمانہ موزی پن ظاہر کرتا ہے۔ ایران شدید قتل عام میں تعاون کر رہا ہے اور اس کو صرف امریکی منصوبے کے مطابق اس معاملے میں روس ہی نے پیچھے چھوڑا ہے، اور سعودی عرب صرف غلیظ دولت سے کچھ گروہوں کے پیٹ بھرتا ہےتاکہ وہ دغابازی کے مذاکرات میں حصّہ لے سکیں۔ ترکی غلط معلومات کو ہتھیار کی طرح استعمال کرکے امریکہ کے منصوبوں کو پروان چڑھا رہا ہے، اس نے اپنی آواز کو بلند کیا تھا کہ وہ حلب کو نا امید نہیں کرے گا لیکن سب گواہ ہیں کہ اس نے حلب کو ناامید کیا ۔صرف یہی نہیں، اس نے اپنے مدفون شخص کی کوئی حفاظت نہیں کی بس اس کو وہاں سے ایک دور دراز علاقے میں منتقل کر دیا! پھر اس نے اپنی آواز بلند کی کہ وہ "دوسرا حما" نہیں ہونے دے گا، لیکن ہم نے دوسرے اورتیسرے کا بھی مشاہدہ کیا اور انگلی تک کو حرکت میں نہیں لایا۔ جب وہ ان حالات کی پشیمانی سے دو چار ہوا تو پھر حال میں ہی اس نے بیان بازی کا بازار گرم کر دیا اس لیے اردگان نے بتایا کہ'' “Operation Euphrates Shield کا مقصد "بشر کی روانگی" ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے29 نومبر بروز منگل استنبول میں یروشلم پر اپنی ا یک تقریر میں کہا :" اور ہم آزاد شامی فوج کے ساتھ شام میں داخل ہوئے"۔ بہرحال اردگان نے کہا" ہم آخر کیوں داخل ہوئے؟ ہم داخل ہی اس لیے ہوئے تاکہ ظالم اسد کی حکومت کو روک سکیں جو کہ شامی عوام کو دہشت گردی سے دہشت زدہ کر رہا ہے۔ ہماراشام میں جانا اور کسی وجہ سے نہیں تھا"(Russia Today ، 29 نومبر 2016)۔
لیکن اس سے پہلے کی اس کی آواز کی گونج تھمتی، وہ اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹ گیا اور روس کی خوشنودی میں لگ گیا، جو کہ دن رات حلب پر گولا باری کر رہا ہے!"جمہوریہ کے صدر اردگان نے میہتر(Mehter) کی تیرہویں میٹنگ میں "الکلیہ" نامی صدارتی کمپاونڈ میں کہا کہ ترک مسلح افواج کی سرکردگی میں شام میں Operation Euphrates Shield چل رہا ہے جس کا مقصد کسی ایک انسان یا ملک کو نشانہ بنانا نہیں ہے بلکہ" 24 اگست سے یہ آپریشن صرف دہشت گرد تنظیموں کو اپنا ہدف بنا رہا ہے""(TRT Arabic، یکم دسمبر2016)۔ روس کو یہ بات معلوم تھی کہ اسد کی روانگی کے تعلق سے اردگان کا بیان معنی سے خالی ہے۔ روس کے وزیر خارجہ نے یکم دسمبر جمعرات کے دن اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:"ماسکو دونوں صدور کے مابین عملی میدان میں کیے گئے معاہدوں پر یقین رکھتا ہے جن کا نفاذ ہو رہا ہے نہ کہ کبھی کبھار اٹھائے گئے یکطرفہ بیانات پر" (Russia Today، یکم دسمبر 2016)۔ 7 دسمبر 2016 کو یلدرم(Yildirim) کے ماسکو دورے کے دوران، انہوں نے روس کی خبر ایجنسی انٹرفیکس کو دیے ایک انٹرویو میں صاف طور پر کہا کہ Operation Euphrates Shield کا حلب شہر میں ہو رہے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کا شام میں حکومت کی تبدیلی سے کوئی رشتہ ہے (Gulf Online، 7 دسمبر 2016)۔
چہارم: اس طرح سے امریکہ جارہانہ حملے کرنے میں روس کے ساتھ مکمّل طور سے ہم آہنگ ہے اور وہ Operation Euphrates Shield کے بھی پیچھے ہے جس کا مقصد حلب کے محاذسے گروہوں کو Operation Euphrates Shield کی طرف پلٹا لانا ہے تاکہ حلب کا محا ذ کمزور پڑ جائے۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ گروہوں کی روس کے ساتھ مشکوک مذاکرات کی سرپرستی بھی کرنا ہے اور ایران کے ہجوم اور اس کے معاونین کے بھی پیچھے وہی ہے۔ مخالف گروہوں کو موثر ہتھیار نہ مل پانے کے پیچھے بھی امریکہ ہی ہے، اور جو آج میڈیا نے شائع کیا وہ اس سے تبدیل نہیں ہوتا، کہ امریکہ کے ایوان نمائندگان نے ایک بل منظورکیا جو کہ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ شام میں مخالف گروہوں کو زمین سے ہوا میں مارکرنے والے طیّارہ شکن میزائل(anti- aircraft missile)کو بھیج سکے۔ واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ دی کہ قرار داد کے مسودے میں اسلحے کی منتقلی کچھ پابندیوں کی متقاضی ہے (Al Arabiya، 7 دسمبر 2016)۔ یہ "زخمی وقت" میں حلب کے تقریباًتباہ ہونے کے بعد آیا، اور یہ مشتبہ ہے کہ یہ واقعی ہوگا، اگر یہ ہوتا ہے، تو یہ غیر مسلح ہتھیار ہوگا! اس کا استعمال صرف اسلام و مسلمانوں کے دشمنوں کی اجازت سے ہی ہوگا، اور کیا کانٹے بھی انگور پیدا کر سکتے ہیں؟ اور اس مسّودہ قانون کو نافذ نہ کرنے کے لیے منظورکیا گیاہے بلکہ یہ ٹرمپ کے دور حکومت کے لیے ہے جس نے اپنی فرماں روائی سے پہلے ہی مخالفین کے لیے ہتھیاروں کی پابندی کا اعلان کر دیا ہے! اس سب کوگمراہ کن ، غلط اطلاعات اور جھوٹ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
اس سب کے باوجود بھی چاہے کتنا ہی حلب کو تباہ و برباد کر دیا جائے ، وہ پھر اٹھے گا اور پورا شام اورخصوصاً حلب امریکہ، روس، ان کے پیرووں اور معاوین کے حلق کے لیے ایک زہریلے خنجر کی طرح رہے گا۔ یہ ان کی رات کی نیندیں اجاڑ دے گا اور ان کے جرائم کی پاداش میں ان کو ہلاک کرکے چھوڑے گا۔ جس فتح کا وہ دعوی ٰ کر رہے ہیں وہ اس کا مزہ نہیں لے پائیں گے۔ اگر وہ ایک ملک کی مکّمل بربادی کے بعد اس میں داخل ہو رہے ہیں تو یہ ان کی ایک خیالی جیت ہے اور اگر وہ ایک مجاہد کو اس کی شہادت کے بعد ہراتے ہیں تو یہ ایک ہاری ہوئی فتح ہے۔اگر وہ تباہ کن راکٹ اور توپوں اور سینکڑوں یا ہزاروں کی افواج جمع کر لاتے ہیں اور ان سے آمنے سامنے جنگ نہ کرکے صرف ہوائی لڑائی اور جنگی جہازوں سے ان کو شکست دینا چاہتے ہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ان بزدلوں کی جیت ہے جو مَردوں سے لڑنے سے ڈرتے ہیں، اصلی مردوں سے، ایسی جیت زیادہ دیر نہیں چلتی۔۔۔
امریکہ ،روس ، ان کےاتّحادی اور ان کے پیروں کاراپنے بھائیوں یعنی صلیبی، منگول اور تاتارییوں کے عراق اور الاشام پر ڈھائے گئے مظالم اور کئے گئے جرائم کے مثل وحشیانہ جرائم کو دہرانا چاہتے ہیں ، لیکن انہیں ساتھ ہی ان کے انجام کو بھی یاد رکھنا چاہیے ۔ مسلمانوں کے ذریعے ہی ان کے ہی ملک سے ان کو اکھاڑ دیا گیا اور مسلمان پھر سے اٹھے، اور اسلام اور مسلمانوں کا وقار واپس لوٹ آیا، اور ان کی خلافت اور زیادہ مضبوط ہو گئی اور انہوں نے "ہرقل" کے شہر کو فتح کیا اور وہ مسلمانوں کا شہر بن گیا جو 'استنبول 'کے نام سے موسوم ہے۔ وہ ماسکو کے قریب پہنچ گئے اور ویانا(Vienna) میں داخل ہونے کے قریب ہی تھے، آگے آنے والے دن تغّیر دیکھیں گے اور کل اس کے انتظار میں ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔۔۔
وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
"جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں"( الشعراء: 227)
بدھ 8 ربی الاوّل 1438 بعد ہجری
7 دسمبر 2016