السبت، 21 جمادى الأولى 1446| 2024/11/23
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

روس اور  چین کے متعلق امریکہ کی اصل پالیسی

سوال:

امریکی صدر اوباما نے  اپنی رخصتی سے تین ہفتہ قبل 29 دسمبر2016 کو روس پر بہت سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا، جس میں امریکہ سے35 روسی  سفیرں کا اخراج،  جاسوسی کرنے  کے بہانے متعدد سفارتی مشنز اور میری لینڈ اور نیو یارک میں روسی سفارتی احاطوں  کو بند کرنا  شامل ہے۔ تناؤ میں اس اضافے کو روس کے امریکی صدارتی انتخابات کی سائبر ہیکنگ(cyber hacking) کےامریکی  الزامات کے تناظر میں  دیکھا جا سکتا ہے۔کیا اس کے لیے یہ سارے اقدامات ضروری ہیں؟ یا شام میں روس کے کردار میں تبدیلی  آنے کی وجہ سے ان اقدامات کو کرنا ضروری ہو گیا ہے؟ یا پھر اس کی دوسری وجوہات ہیں خاص طور سے جبکہ ٹرمپ روس سے رشتوں کو بہتر بنانے کی فکر میں ہے جبکہ اوباما  اس کو بدتر بنا رہا ہے!

اللہ آپ کو جزا ئے خیردے۔۔۔

 

جواب:

واضح جواب کے حصول کی خاطر ہمیں حالات کی حقیقت کے ادراک کی ضرورت ہے پھر ہم آپ کے سوالات کا جائزہ لیں گے:

اوّلاً:  جہاں تک اصل معاملات کا سوال ہے تو یہ سچ ہے کہ موجودہ امریکی (اوبامہ)انتظامیہ امریکہ روس تعلقات کو  بدتر بنا رہی ہے۔ روس نے معاملے کو جلد ہی بھانپ لیا  اور کریملن(Kremlin) ترجمان پیسکوو(Peskov) نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ روس نے امریکی پابندیوں کے عائد کرنے پر"مناسب جوابی کاروائی" کرنے کا  عہد کیا ہے اورامریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے 'بے بنیاد' الزامات لگا کراس نے  امریکہ پر رشتوں کو ختم کرنے کا الزام بھی لگایا۔ امریکہ ،امریکہ- روس تعلقات کو"یقینی طور پر تباہ کرنے کے درپے ہے جو کہ پہلے ہی کافی پست ہو چکے ہیں" ، مزیداس نے کہا کہ روس  اس معاملے میں مناسب طریقے سے  ردعمل دے گا(Russia Today, French Channel ،29 دسمبر2016)۔

تعلقات کو خراب کرنے کے لیے  امریکہ نے  درج ذیل اقدامات کیے:

 

1-      امریکی صدر باراک اوباما نے15 دسمبر2016 کو بیان دیا کہ امریکہ امریکی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی روسی ہیکنگ  کا مناسب جواب دے گا۔ اوباما نے NPR ریڈیو کو واضح کرتے ہوئے بتایا:"میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی  شک نہیں کہ جب کوئی بیرونی حکومت ہمارے انتخابات کی سالمیت  پر اثر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔ہمیں ضروری کاروائی کرنی پڑے گی"۔ مزید کہا کہ،"اور اس کا جواب ہم خود منتخب کئے گئے  وقت اور جگہ پر دیں گے"۔  امریکی صدر نے آگے کہا کہ"بعض جواب ظاہر اور عیاں ہو سکتے ہیں اور بعض نہیں" (NPR, France 24،16 دسمبر 2016)۔امریکی انتظامیہ کا جواب اوباما کے ذریعہ  اعلان کی گئی پابندیوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔

 

2-      امریکی صدر اوباما نے روس پر طنز کرتے ہوئے  اس کو ایک "چھوٹے ملک" کے طور پر بیان کیا اور کہا کہ،" وہ چھوٹا ہے اور کمزور ہے، ان کی معیشت کوئی بھی قابل قدر اشیا ء  پیدا نہیں کرتی سوائے تیل، گیس اور اسلحے کےاور وہ ترقی یافتہ نہیں ہے(Russia Today ،17 دسمبر2016) ۔

 

3-      رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق امریکی  دفتر خزانہ نے روس کے کریمیا کو قبضے میں لینے اور یوکرین میں ہو رہے تنازعہ پر احتجاج ظاہر کرتے ہوئے20 دسمبر2016 کو روس کی سات کاروباری شخصیات اور آٹھ کمپنیوں پر نئی  پابندیاں عائدکرنے کا اعلان کیا۔۔۔یہ پابندیاں سات لوگوں پر لگی ہیں،  اور اس میں  روسی بینک کی کئی شخصیات شامل ہیں جو کہ روسی حکام سے بہت قریب ہیں، اور ان کےعلاوہ ماسکو کے قبضہ شدہ کریمیا کی چارتعمیراتی  کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے کہا کہ یہ قدم" روس کے کریمیا پر قبضے کو مسترد کرتاہے اور جزیرہ نماکے الحاق کی کوششوں  کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے"(dotmsr.com، 20 دسمبر 2016)۔

 

4-      امریکہ اسٹار وارس(Star Wars) کے پروگرام کی طرز پر  روس کے نیوکلئیر اسلحے کے مسلسل فروغ کا جواب دے رہاہے، اور اس ڈھانچے کے تحت خلا ء کی عسکریت کاری   (militarization)کرنے کی خاطر امریکی قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔"اس کی نشاندہی کی جانی ضروری ہے کہ توثیقی  مرحلے پر امریکی کانگریس نےاس بل میں  دو اہم ترمیمات شامل کیں،پہلی تو امریکی میزائل شیلڈ(missile shield) کی محدود تعیناتی  کو ختم کرتی ہے، جبکہ دوسری اس نظام میں نئے اجزا ء کے ڈیزائن پر ہونے والے کام کی شروعات کی متقاضی ہے تاکہ مستقبل میں اس کی تعیناتی  خلا ء میں کی جا سکے۔ امریکی اخبار Los Angeles Times نے  رپورٹ کیا کہ   ترامیم کو متعارف کرنے  والےٹرینٹ فرینکس، ری پبلکن پارٹی کے کانگریسی  اور ایک بہت ہی سینئر رکن، نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ "دفاعی حکمت عملی کی ابتداء" کے پروگرام  پر منحصر ہے جو کہ  صدر رونالڈ ریگن نے 1983 میں چلایا تھا اور جس کو "اسٹار وارس" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے (Dar News Website،24 دسمبر2016)اور یہ سب روس سے تناؤ میں اضافہ کرنے کا موجب بنا ہے۔

 

5-      امریکی ایوان نمائندگان نے2 دسمبر2016  بروز جمعہ ایک بل  منظور کیا جس کے تحت 2017 میں 3.4 ارب ڈالر امریکی دفتر دفاع  کو دینا طے پایا   تاکہ اس سے" روس کو روکا جا سکے"۔ اس کی تائید ایوان نمائندگان کے 390 اراکین نے کی، اور صرف 30 نے مخالفت کی۔ امریکہ کے سیکریٹری دفاع ، ایشٹن کارٹر نے  دفاعی اخراجات کے بل کو کانگریس میں پیش کرتے ہوے اعلان کیا کہ"  امریکہ روس  کی جارحیت کے مدنظر یورپ میں نیٹو حلیفوں سے اپنی پوزیشن کو مضبوط کر رہا ہے"(Sputnik Russian Agency،3 دسمبر2016)۔

 

6-      مزید براں ، امریکہ نے شامی بحران کو حل کرنے میں روس کے درجے کو  پست کر دیا ہے، اور کیری-لاوروف جوڑے کو روس-ترکی جوڑے سےتبدیل کر دیا ہے، جس کی ماسکو نے بہت خوشیاں منائیں تھی کیونکہ وہ اس کو  روس  کی کھو ئی ہوئی  عظمت  کی بحالی کے نشان  کے طور پر دیکھتا تھا۔امریکہ حالانکہ ہمیشہ سے شام میں  روس-ترک کوششوں کا حمائتی رہا ہے اوراس دوران  ان سے مسلسل رابطہ قائم رکھا ہے تاکہ شام میں  مختلف پارٹیوں کے منصوبوں کو نافذ کیا جا سکے لیکن روس –امریکی  ڈھانچے کے بجائے روس-ترکی  ڈھانچے نے روس کے رتبے کو بین الاقوامی کھلاڑی کے طور پر پست کر دیا ہے اوراس کو ترکی جیسے عام معیار کے ملک کے مساوی بنا دیا ہے اور اس کا اثر امریکہ کے روس پر بنائے گئے دباؤ کے سیاق و سباق میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 

7-      معاملات کی اس شدّت نے روس کو واقعتاً خوف زدہ کر دیا۔ اوباما کے ذریعے عائد کی گئیں امریکی  پابندیوں کے جواب میں روسی صدر نے کہا کہ اس کے خلاف عائد کی گئیں امریکی پابندیوں کا جواب دینے کا حق اس نے محفوظ کر رکھا ہے ، لیکن وہ موجودہ امریکی انتظامیہ کی حد تک نہیں گرے گا اور سفارت کاروں کو نشانہ نہیں بنائے گا۔ اس نے اضافی طور پر کہا" ہم امریکی سفارت کاروں کے لیے مسائل نہیں کھڑے کریں گے، اور کسی کو خارج نہیں کریں گے، اور ہم ان کے خاندان کے افراد اور ان کے بچّوں کو نئے سال کی چھٹی میں تفریح کی جگہوں پر جانے سے بھی نہیں روکیں گے۔اس سے بڑھ کر ہم روس میں امریکی سفارت کاروں کے بچّوں کو کریملن میں نئے سال کا جشن منانے کی دعوت دیتے ہیں"(30 دسمبر 2016،Russia Today)۔   ماسکو کا معیاری ردعمل یعنی برابری کے جواب  سے انحراف دو  چیزوں کی طرف اشارہ کرتا ہے:

پہلا: ماسکو واشنگٹن کے ساتھ بحران کے نتائج سے سخت کوفزدہ ہے

دوسرا:  ماسکو ٹرمپ انتظامیہ کی تاج پوشی کے انتظار میں ہے  جو کہ ماسکو کے موافق دونوں ممالک کے تعلقات کو ہموار کرنے کا ضامن بنے گا۔اور روس اپنی سیاسی بصیرت و علم کے فقدان کی وجہ سے   یہ سوچتا ہے کہ نئے صدر ٹرمپ اپنے پیش رو اوباما سے روس کے متعلق کچھ مختلف ہوں گے اس بات  کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ کسی بھی صدر یا پارٹی  کی قیادت مستقل حکومتی ادارے  کرتے ہیں،  تاکہ وہ  اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کے نفاذ کی  طرف گامزن ہو سکے، اور اوباما اور ٹرمپ میں فرق  جو بھی واقع ہو  اس کا مقصد صرف اپنے ملک  کی طے شدہ  پالیسی کا نفاذ ہوگا۔

 

دوئم: اوپر اٹھائے گئے سوالات کا جائزہ:

1۔روس کے خلاف اوباما انتظامیہ کی طرف سے عائد کی گئیں پابندیاں شام میں بین الاقوامی مشن کونافذ کرنے   کے لیے   روس کے کردار کے استحکام کی یقین دہانی ہے اور اس کام کو روس بخوبی انجام دے رہا ہے۔امریکہ نے روس کو شام میں اس حد تک  ملوث کیا ہے کہ اب اس کا وہاں کی دلدل سے نکل پانا  ناممکن ہے اور جب امریکہ کو مکرّر یقین دہانی ہو گئی تو اس نے شام میں روس کے معیار کے مطابق  امریکی  حکومت  کو رفیق  بنانے کے بجائے اُس  کو  اِس مرتبے سے گراکر اس کو ترکی  کی ایجنٹ حکومت کا رفیق بنا دیا۔  اس لیے روس سے امریکی تعلقات کی بگاڑ کی شدّت  اور اس پر ڈالے جا رہے دباؤ کاشام  کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

روس شام   میں ثابت قدمی  سے امریکی  مفادات کی  خدمات انجام دے رہا ہے اور اس بارے میں امریکہ کو بالکل شک نہیں ہے،  بلکہ شام میں روس کی پالیسی امریکہ ، ایران اور اس کے حمائتی،شامی حکومت، ترکی اور اس سے منسلک  مخالف گروہوں کی پیروی کرنے پر مجبور ہوگئی ہے اور وہ اپنی پالیسی کو اپنانے سے قاصر ہے،  اس لیے نہ تو وہ شام سے پسپائی  اختیار کر پا رہا ہے اور اس لیے وہ  لتاکیا  اور تارتوز(شام کے شہر) میں اپنے جنگی اڈوں کو  قائم اور توسیع دے رہا ہے،  اور  نہ ہی وہ تیار شدہ زمینی  افواج کے فقدان کی وجہ سے   وہاں  جنگ کی رفتار کو کنٹرول کر  پا رہا ہے ۔ ان سب کی وجہ سے شام میں روس کا کردار مستحکم ہو گیا ہے اور امریکی پالیسی ، اس کےپیرو کاروں اور شامی بحران کے حصّہ داروں   سے وہ بندھ چکا ہے۔اس لیے تعلقات میں یہ تناؤ روس کے اپنے کردار سے دستبرادی کی وجہ سے نہیں ہوا ہے جسے   امریکہ نے اس کے لیے تیار کیا ہے کیونکہ روس نے اس  کردارکو چھوڑا ہی نہیں  ہے۔

 

2۔  یہ بات ہمیں دماغ سے خارج کر دینی چاہیے کہ صدر اوباما  کامعاشی پابندیاں عائد کرنا   اس وجہ سے تھا کہ انتخابات میں الیکٹرونک ہیکنگ کا معاملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی  کی صدارت کے لیے امیدوار ہلیری کلنٹن کو ہار کا سامنا کرنا پڑا،کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اوباما انتظامیہ  ،الیکٹورل کالج  کی ٹرمپ کو19 دسمبر2016کو   امریکہ کے   صدر   کے طور پر سند دینے سے پہلے ہی معاشی پابندیا ں عائد کرنے کے لیے متحرک ہو جاتی۔ بہر حال اب  منتخب صدر کی کامیابی کے بعد اور آئینی اداروں کی توثیق کے بعد اس کیس کو کھولنا انتخابات  اور نئے صدر کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگانے کے مترادف ہے جس میں  امریکی انتظامیہ بالکل ملوث نہیں ہوگی۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ  کچھ ایسے حالات پیش آگئے تھے جو انتخابات کے نتائج سے قبل پابندیاں عائد کرنے میں مانع تھے  تب بھی  بڑے ممالک کی سیاسی سمجھ کی ضروریات  اس بات کو گوارا نہیں کرتیں  ،اگر صدارت کے نتائج کی توثیق  سے قبل وہ   نتائج کے اعلان کرنے  پر مجبور نہ ہوں، تو  وہ ہیکنگ کے علاوہ دوسرے بہانے تلاش کریں گے تاکہ نئے صدر کے کامیاب انتخاب پر  شک و شبہ نہ ظاہر کیا جائے اور چونکہ رو س کی جانب سے انتخابات میں مداخلت کے  بہانے  نئے صدر کے انتخاب کے بعد معاشی پابندیاں عائد کی  گئیں اس لیے یہ اس کی اصل وجہ نہیں ہے۔

 

3۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روس کے نیوکلیائی ہتھیاروں اور  میزائلوں کی تیاری امریکی دباؤ کی وجہ بنا ہے۔ روسی صدر نے  دفاعی وزارت کے قاعدین سے ملاقات میں  ماسکو میں یہ بات کہی ہے کہ" ہمیں  نیوکلیئر حکمت عملی پر مبنی  طاقتوں کی کارگزاری کے معیار و کیفیت کو اعلیٰ درجے کا بنانا ہے تاکہ تمام جنگی خدشات سے ہم روس کا دفاع کر سکیں"(Anatolia Website،22 دسمبر2016) حالانکہ اس کا اثر تھا مگر روس کی چھوٹی معیشت اس کی ان کوششوں کو پھیکا کر دیتی ہے  خاص طور سے اس کے بعد جب  امریکہ اور مغرب عام طور پر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس کی صنعت کی ایک وسیع لائن کے ستونوں کے خاتمے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ روس  خام مال کی برآمد کرنے والا  ملک  بن گیا ہے جبکہ جنگی صنعت کو کافی حد   تک  اس نے برقرار رکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ سے مقابلے کی دوڑ میں نہیں ہے مگر  وہ امریکہ کو دعوت دے رہا ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں  وہ اس کا کردار تسلیم کرے۔ان مانگو ں کو امریکہ مکمل طور پر مسترد کرتا رہا ہے یہاں تک کہ شام میں  امریکہ کے لیے روسی خدمات امریکہ کے روس کو عالمی طاقت کے طور پر تسلیم کرنے اور اس کو دوسرے بین الاقوامی معاملات میں ملوث کرنے کی توجیہ نہ بنی۔ شائد کیونکہ روس نے سوویت  یونین کی وراثت پائی ہے اور ساتھ ہی  امریکہ-سوویت  معاہدات کی تاریخ  بھی وراثت میں پائی ہے۔ روس کو یہ توقع تھی کہ شائد شام میں  امریکہ کی تائید و  تعاون امریکہ  کی مکمل خوشنودی حاصل کرنے کا باعث بنے۔ روس بین الاقوامی سطح پر امریکہ سے اور زیادہ تعاون کا طلب گار تھا  اور اس سے روس کی سیاسی کمزوری اورزیادہ عیاں ہوتی ہے  کیونکہ  امریکہ نے  سوویت یونین سے مفاہمت کے اوراق تب چاک کر دیے تھے جب اس کا   عالمی سطح  پر ایک واقعی موثر اور ٹھوس وجود  باقی تھا تو اب  وہ روس کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے جبکہ وہ واقعتاً ایک  چھوٹا ملک رہ گیا ہے جیسا کہ اوباما نے اپنے بیان میں کہا تھا؟

روس اپنی اس نئی چھوٹی  شکل میں امریکہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے جس کو حالات سنگین کرنے کی ضرورت پڑے، ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ  روس سے تناؤ بھرے تعلقات کے اضافے میں   نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے متعلق روسی بیانات  اس کی اصل  وجہ نہیں ہے۔

 

سوم: اس لیے مندرجہ بالا وجوہات تناؤ میں اضافے کی اصل وجوہات نہیں ہیں،  مندرجہ ذیل معاملات پر غور کرنے سے  سمجھ میں آتا ہے کہ اصل وجہ کچھ اور ہے :

1۔کوئی بھی سیاست داں اس بات کا بخوبی ادراک کر سکتا ہے کہ  امریکہ کی سب سے بڑی بین الاقوامی مشکل چین کا عالمی عروج ہے، اور اس کی قدآور معیشت  کو کھڑا کرنے کی صلاحیت جو کہ اپنے اندر  ایسی امکانی قوت  رکھتی ہے جو امریکی معیشت کی انفرادیت کے لیے خطرہ  ثابت ہو سکتی ہے۔اگر اس میں ہم چین میں ہونے والے جنگی اخراجات کا  اور اضافہ کر لیں جو کہ روس ، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک  کے مجموعی اخراجات  سے بھی زائد ہیں  اور یہ بھی کہ  اس کے بہت سے جنگی منصوبے خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ امریکی سیاست دانوں کے لیے چین ایک بہت بڑی پریشانی کا سبب بن گیا ہے،  اور حال میں امریکہ کے تمام  عہدے داروں کے  اسی  موضوع پر بیانات آتے رہے ہیں۔ امریکی  سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر  یہ مانتے ہیں کہ چین نے مزید عسکریت (militarization)کے  امکانات کو بڑھا  دیا ہے اور یہ کہ امریکہ اب   ایک  عبوری حالت  میں ہے۔۔۔

امریکی سیکریٹری دفاع ایشٹن کارٹر نے کیلیفورنیا  میں ایک دفاعی فورم میں بات کرتے ہوئے کہا کہ"چودہ سال تک شورش اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے بعد ۔۔۔ہم اب ایک ایسی عبوری حالت میں ہیں جو کہ ہمارے مستقبل کا تعین کرے گی"۔  کارٹر نے کہا کہ چین کا جنوبی  چینی بحر میں مزید زمین پر دعوے نے  مزید عسکریت  اور غلط اندازوں کے خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔۔۔"(Al Quds Al Arabi،8 نومبر 2015)۔ صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ کے مستقبل کا فیصلہ   آج ایشیا میں ہورہا ہے۔ اس نے کہا کہ "امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایشیا مرتکز ہونا ان کی صدارت کا  کوئی "عارضی شوق" نہیں ہے۔۔۔"(Vientiane, Reuters, the Seventh Day،6 ستمبر2016)  اور اس کا ایشیا پر ارتکاز چین سے تصادم کا باعث بنے گا۔

 

2۔سوویت یونین کے دور میں چین کی  کمیونسٹ پارٹی  کےاتحاد کی وجہ سے اس کے چین سے کافی قریبی مراسم اور اتحاد تھا۔ تب امریکہ سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے کوشاں تھا، اس نے روس کےچین سے قرابت کو بہت سنجیدگی سے لیا تھا، اور سوویت یونین کو کمزور کرنے اور اس کو شکست دینے کے لیے  اس ارتکاز  کو  منتشر کرنے کے لیے امریکہ نے کام کیا تھا۔ اسی مقصد کے تحت  کسنجر نے  سویت یونین اور چین  کے رشتوں کو ختم کرنے کے لیے منصوبہ بنایا اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوا۔۔۔پر اب حقیقت بدل چکی ہے،  امریکہ چین کی طاقت سے خوف زدہ ہے اور اب پھر اس نے روس اور چین کے اتحاد کو بھانپ لیا ہے جس کو وہ روکنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری قدم چین کو کمزور کرنا  اور اس کو  الگ تھلگ کرنا ہے، جیسا کہ اس نے پہلے کیا تھا اور اس کی نشاندہی واشنگٹن پوسٹ اخبار نے کی ہے۔رشیا ٹوڈے (Russia Today) نے18 دسمبر2016 کو اس اخبار کو نقل کرتے ہوئے   لکھا:"مضمون کے مطابق  45 سال پہلے سابق امریکی صدر نکسن نے  سویت یونین-امریکہ-چین کی مثلث کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔چین سے رشتوں کو پروان چڑھانے میں اس نے  اس کی خلاف ورزی کا جوا  کھیلا۔4 فروری1972 کو نکسن نے اپنے چین کے دورے کے متعلق  قومی  سلامتی مشیر کسنجر سے ملاقات  کی۔کسنجر نے نکسن کو بتایا کہ "چین بھی اتنا ہی  خطرناک ہے جتنا کہ روس اور تاریخی پس منظر  میں وہ روس سے زیادہ خطرناک  ثابت ہو سکتاہے۔" اس نے مزید  اسے بتایا:" 20 سال کے بعد اگر کوئی صدر آپ جیسا عقلمند نکلا تو وہ اپنی پالیسی میں  چین کے خلاف روس پر اعتماد کرے گا"۔

 

 

3۔ اس طرح سے ، روس کے خلاف حال کی معاشی پابندیوں کا جوازاور کچھ وقت سےروس پر مسلسل دباؤکو سمجھا جا سکتا ہے، اور اس دباؤکو کانگریس میں ری پبلکن  پارٹی  ( نئے صدرٹرمپ  کی پارٹی )کے زیادہ تر ممبران  نے اپنایا  اور ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اپنایا۔ یہ دباؤ روس کے خلاف امریکہ کی نئی پالیسی ہے تاکہ  اس کو امریکہ کے اتحاد میں چین کے خلاف  گھسیٹا  جا سکے جیسا کہ امریکہ کہہ رہا ہے  جو کہ  روس اب کھلے عام کہہ رہا ہے  کہ اوباما انتظامیہ نے امریکی روسی تعلقات کو بالکل منہدم کر دیا ہے۔ حالانکہ   نئے صد ٹرمپ کی آمد سے روس کو امریکہ سے تعلقات سنوارنے کا ایک سنہرا موقع  ہاتھ آیا ہے! اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے مستقل ادارے  روس سے تعلقات میں جلد تناؤ بڑھانے میں اوباما انتظامیہ کے بقیہ عرصے کو  استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ روس کے پاس ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مفاہمت کے علاوہ    اپنی بقاء  اور امیدکی کوئی صورت باقی نہ رہے اور چونکہ ٹرمپ انتظامیہ سودے بازی میں یقین رکھتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ روس  امریکہ کے تعلقات کی بحالی چین کے متعلق کسی بڑے سودے  کے عوض میں ہی ہو سکے گی۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے منتخب صدر ٹرمپ کا پوٹن کے لیے  عزت و احترام  کی افواہوں کا استعمال کیا جا رہا ہے  اور یہ بھی کہ وہ چین کے خلاف روس کے حلیف بن سکتے ہیں۔

 

4۔ اس کا امکان اس سے اور ظاہر ہوتا ہے کہ منتخب صدر ٹرمپ نے صدارت  کی کرسی سنبھالنے سے پہلے ہی چین سے امریکی  تعلقات کو خراب کرنا  شروع کر دیا ۔اس نے کہا کہ چینی سازو سامان پر زیادہ ٹیکس لگاکروہ اپنے انتخابی مہم کے وعدوں کو پورا کرے گا  اور امریکی کمپنیوں کو واپس آنےکی حوصلہ افزائی کرےگا،  اور یہ چین کے لیے ایک بہت بڑا معاشی  خطرہ ہے۔ ٹرمپ نے  چین پردباؤ بنانے کے لیے ایک خطرناک نظیر  کی  ابتداءکرکے تائیوان کے صدر سے اس کے کاغذات کا جائزہ لینے کے لیے رابطہ  قائم کیا  جو اس بات کا اشارہ  تھا کہ امریکہ" ایک چین" کی پالیسی کو ترک کر سکتا ہے  اور یہ چین کے لیے ایک بہت بڑا سیاسی خطرہ ہے۔اس طرح سے  اس نئی امریکی انتظامیہ کی پہلی ترجیح چین کے عروج کو روکنا ہے۔ رشیا ٹوڈے  نے18 دسمبر2016 کو واشنگٹن پوسٹ کا حوالہ دیا۔ امریکی منتخب صدر  کا رویہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ امریکہ کی چین پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے امکانات تلاش  کررہے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے بیانات اور ٹیلیفونک گفتگو سے یہ ظاہر کیا ہے  کہ  وہ  بیجنگ سے ایک سخت پالیسی اپنانے کے داعی ہیں۔  منتخب صدر ٹرمپ نے پہلی  بار  تائیوان کے صدر سے  ایک دہائی سے زیادہ وقت کے بعد رابطہ قائم کیا ہے۔بعد میں   امریکن فوکس نیوز سے ایک انٹرویو کے دوران  ٹرمپ نے امریکہ کے  "ایک چین" کی پالیسی کے  عہد کے متعلق  شبہات کا اظہار کیا جس پالیسی کی اتباع امریکہ صدر نکسن کے زمانے سے کرتا چلا آ رہا ہے۔

 

5۔ اب سوال یہ ہے کہ روس کے ساتھ  چین کے خلاف  ٹرمپ کی کیا پالیسی رہے گی، یقیناً امریکہ روس کی کمزور معیشت کو چین کے سامنے کھڑا کرنے کی حماقت نہیں کرے گا اور نہ ہی روسی کلچر کو چین کے مدمقابل لائے گا۔ سوشلزم کے زوال کے بعد  روس نے اپنا کوئی کلچر نہیں اپنایا ہے۔ بحرحال امریکہ روس کی جنگی صلاحیتوں کا اعتراف  کرتا ہے،جس کو امریکہ چین کے آس پاس استعمال کر سکتا ہے جیسے شمالی کوریا کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے خلاف  روس کو استعمال کرنا یاروس کو چین کے خلاف اس دہمکی کے لیے استعمال کرنا کہ چین کوروس سے یا وسط ایشیا سے توانائی کی رسد  بند کردی جائے گی یا پھر خاص طور سے چینی بحر میں جہاز رانی(navigation)  کی آزادی کو یقینی بنانے والی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں روس کو بھی شامل ہونے کی دعوت دینا خصوصاً چینی سمندروں میں  اور روس کو امریکہ کی ان کوششوں میں شمولیت کی دعوت دینا جس کے تحت چین ان جزائر سے نکلنے پر مجبور ہوجائے۔یہ سارے  کام   بشمول  چین سے براہ راست تصادم  ، روس کے لیے بین الاقوامی خود کشی کے مترادف ہیں۔ لیکن روس ان امریکی پالیسیوںمیں ملوث ہو سکتا ہے جس کے عوض میں وہ ایک عالمی سوپر پاور  کا تاثر قائم  رکھ سکے!!

 

یہ تصوّر کرنا مشکل ہے کہ روس  چین سے تصادم   کرنے کے امریکی دباؤ سے نکل پانے میں کامیاب ہو پائے گا۔  روس  سیاسی مختصر نظری کی بیماری کی گرفت میں  ہے اور یہ بیماری اب بہت پیچیدہ  ہو گئی ہے اس لیے اب وہ نتائج کا تخمینہ نہیں لگا سکتا جیسے کہ وہ شام میں اپنے ظالمانہ کردار کی وجہ سےمسلمانوں کے احساسات سے لاتعلق ہے۔ اپنی مختصر نظری کی وجہ سے وہ  مسلمانوں کو بادشاہوں، صدرات اور حالیہ سیاسی شخصیات میں دیکھتا ہے جو کہ اس  کے لیے کسی  خطرے کا باعث نہیں ہیں۔ وہ اس بات کو محسوس نہیں  کرتا کہ امریکہ نے خود وہ کام  شام میں نہیں کیا جو اس سے کروایا کیونکہ امریکہ کو پتہ ہے کہ ان  صدرات اور  بادشاہوں  کے علاوہ بھی  امت مسلمہ  ہے ۔روس کو کنارے کرنے کی خاطر ہی اوباما نے قصداً اس سےتعلقات میں تناؤ  بڑھایا اور اس پر معاشی پابندیاں عائد کیں تاکہ وہ ٹرمپ  کو "اپنا دوست"  سمجھے! اس طرح سے روس سے سودا کرکے چین سے اس کوعلیحدہ کرکے ٹرمپ کے لیے راستہ ہموار کیا جائے اور ہو سکے تو  چین سے بلواسطہ  تصادم  کے لیے اسے تیار کیا جائے۔ اپنے دور عہد  کے خاتمے پر اوباما کا قصداً تناؤ  میں اضافہ کرنا اس کی سب سے زیادہ ممکنہ  وجہ ہے تاکہ نئے عہد  کےلیےامریکی اداروں  کی وضع کی ہوئی   امریکہ کی پالیسی  کے مقصد کو ٹرمپ حاصل کر سکے جیسا کہ حالات و اشارات سے ثابت ہوتا ہے۔ امریکی سیاست  کو امریکی ادارے تشکیل کرتے ہیں اور صدارات صرف اس کا نفاذ کرتی ہیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہو۔

 

6۔ چین اس پیش کردہ خطرے سے واقف ہے، اسی لیے وہ روس کو  اپنے یہاں سرمایہ کاری کرنے کا لالچ دے رہا ہے اگر چہ وہ اس میں محتاط ہے اور اس کے ساتھ  مشترکہ فوجی مشقیں کر رہا ہے،  اور سیکیورٹی کونسل میں  شامی مسئلے پرروسی ویٹو میں اس کا ساتھ دیتا ہے ۔ یہ سب اس لیے تاکہ  واشنگٹن  اس کے خلاف  روس کو استعمال نہ کر پائے۔لیکن چینی سیاست دانوں کے دماغ میں  روس کا معاندانہ  رویہ بہت گہرا  گھر کر گیا ہے۔ لیکن چین کی بڑھتی ہوئی معیشت  کی دلچسپیاں اور خام مال اور توانائی کے وسائل کی فوری ضروریات جو کہ  دونوں روس کے پاس ہیں، اس معاندانہ اور جارہانہ نظریے کو پردے کے پیچھے ڈال دیتےہیں۔

جہاں تک چین کا سوال ہے  تو وہ   جانتا ہے کہ امریکہ  اس کے خلاف  معاندانہ رویہ  رکھتا ہے،  اور چین کے حالیہ دورے میں ہوئی اوباما کی توہین اس کا واضح اشارہ ہے۔

امریکی صدر کی حیثیت  سے چین کے اپنے  حالیہ دورے میں صدر اوباما  کو پہلے مذاکرات میں حصّہ لینے  کے لیے گوانگھزو ہوائی اڈے پر پہنچ کر ہوائی جہاز پرسے  اترنے کے لیےاس کے پیچھےکی ہنگامی سیڑھی کا استعمال کرنا پڑا۔یہ کسی آگ یا تکنیکی خرابی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیے   کہ چینی حکاّم نے جہاز کے آگے کے حصّے  سے باآسانی اترنے کے لیے اوباما کو خصوصی سیڑھی فراہم نہیں کی تھی۔ مشاہدین کا ماننا ہے کہ چین نے قصداً امریکی صدر کی توہین کی ہے اور یہ کہ اس سے  ان دو ممالک  کے تعلقات کے بیچ پیدا ہوئے تناؤکی شدّت  کا اندازہ ہوتا ہے جو کہ کئی معاملات میں اختلاف رکھتے ہیں، جس کی شروعات امریکہ اور جنوبی کوریاکے اس اعلان سے ہوتی ہے جس میں میزائل شیلڈ کو جنوبی کوریا  کی سرزمین پر تعینات کرنا شامل تھا، اس کے ساتھ ہی چین اور فلیپائن  کے مابین جنوبی چینی بحر  پر تنازعہ کو لے کر امریکی موقّف  اور حال ہی  میں چین  کے اسٹیل کی درآمد پر اضافی فیس کا عائد کرنا  ان کے بیچ کے اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں(الجزیرہ،5 ستمبر2016)۔

 

7۔اس وقت سب سےعجیب با ت یہ ہے کہ سابق  قومی سلامتی کے مشیر اور سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر بہ ذات خود اپنے بڑھاپے کے باوجود روس اور اگلے صدر ٹرمپ کے درمیان  مفاہمت کے سب سے بڑے داعی ہیں۔ وہ خود ماسکو کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور اس تعلق سے پوٹن سے ملاقاتیں کرتے ہیں تاکہ چین کے خلاف روس سے اتحاد مکمل کیا جا سکے۔کسنجر کی روسی مفاد سے دلچسپی کے حوالےسے روس بہت پُرجوش ہے! ڈمٹری پیسکوو روسی صدر کے پریس سیکریٹری نے کہا کہ  ماسکو سابقہ امریکی سیکریٹری خارجہ ہنری  کسنجر کا  روس اور امریکہ کے تعلقات کو پھر سے بحال کرنے  میں حصّہ لینے کا خیر مقدم کرتا ہے۔پیسکوو نے منگل کو ایک پریس کے بیان میں کہا کہ سابقہ سیکریٹری خارجہ کسنجر ایک بہت ہی  عقلمند ،  ہوشیار  اور تجربے کار  سیاست داں ہیں اور ان کو  روسی معاملات کا بہت گہرا تجربہ ہے(عرب میڈیا نیٹ ورک،27 دسمبر2016)۔

 

اس سمت روی کے اشارات یورپ میں کچھ باخبرذرا ئع بھی  کرتے ہیں، روس ٹوڈے نے 28 دسمبر2016 کو مندرجہ ذیل رپورٹ   شائع کی:  جرمن اخبار بلڈ  نے لکھا کہ کسنجر کے نزدیک  روس  سے تعلقات کی بحالی   کی ضرورت  چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مدّنظر ہے۔ اور چونکہ  سابقہ سیکریٹری خارجہ  ایک تجربہ کارمزاکرات کار ہیں اور وہ ذاتی طور پر پوٹن سے ملاقات بھی کر چکے ہیں، وہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو ہموار کرنے کے لیے ایک موثر ثالث کا کردار ادا کریں گے۔ جرمن اخبار کے مطابق، "ہنری کسنجر کے مشورے پر" ٹرمپ روس پر سے  معاشی پابندیاں ہٹانے کا ارادہ  رکھتا ہے،اور اس کا اشارہ"یورپ کے متعلقہ شعبوں کی درخواست پر کیے گئے تجزیے "سے بھی ہوتا ہے جس  کی بنیاد ٹرمپ کی عارضی ٹیم کے ذریعہ حاصل  معلومات تھیں۔

 

ان ساری چیزوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  امریکہ روس اور چین کے متعلق ایک موثر پالیسی کا نفاذ کر رہا ہے۔ اور اس کا مرکزی مقصد چین کے معاملے میں روس کی خدمات حاصل کرنے  کے لیے اس کو آمادہ کرنا ہے۔  اس کی ابتداء اوباما انتظامیہ نے روس پر دباؤ  ڈال کر کی ہے،  اور اگلا  منصوبہ ٹرمپ کا اس سے سودے بازی کرنے کا ہے۔ امریکہ روس پر دباؤ سے اس کے رد عمل کی ضرورت کے  متعلق بالکل مشتبہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کو چین کے خلاف رکھنے کی جلدی میں ہے۔

 

چہارم: اس طرح سے بڑے ممالک مقابلہ آرائی کرتے ہیں اور کمزور ان کے مفاد کی پیروی کرتے ہیں بس ان ممالک کے درمیان مختلف اثر و رسوخ کے مطابق تفاوت رہتا ہے، بس ان کا  مشترک نسب نما(denominator) وہ یہ مصائب اور برائیاں  ہوتی ہیں جو کہ دنیا میں پھیلی نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو چیز تکلیف کا باعث ہے وہ یہ کہ اسلام کی کوئی ریاست نہیں جو حالات کو قابو اور دنیا کو دوبارہ ہوش میں لائے اور اپنے سرزمین پر خیر پھیلائے بلکہ نہ صرف اسلامی سر زمین پر بلکہ اس کے آس پاس بھی۔ لیکن اسلام کے پاس ایسے افراد ہیں جو یہ کرسکتے ہیں۔

 

 

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا

"مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے اللہ سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا" (الاحزاب:  23)

یہ لوگ وہ ہوں گے جوکہ دولت اسلامیہ یعنی خلافت راشدہ کو دوبارہ قائم کریں گے، انشاء اللہ، جو کہ دنیا کا توازن بھلائی کی طرف پلٹ دے گی۔ 

 

انَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا

"اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کردیتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے"(الطلاق: 3)

 

7 ربیع الثانی1438  ہجری

05جنوری2017

Last modified onبدھ, 25 جنوری 2017 22:37

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک