الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

ترکی کا روس سےایس-400 میزائل سسٹم خریداری کا معاہدہ اور اس کے نتائج

(ترجمہ)

 

[(واشنگٹن: امریکہ نے ترکی کو F-35 سٹیلتھ لڑاکا طیارے دینے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔۔۔ پینٹاگون کے ترجمان نے کہا،"ترکی کی جانب سے ایس-400  کی (روس سے)خریداری سے دستبردار ہونے سے انکار  پر ، ترکی کے F-35 کی آپریشنل صلاحیت سے متعلق ترسیل اور معاملات کو روک دیا گیا ہے"، مزید کہا کہ "ترکی سے اس اہم معاملے پر مذاکرات جاری ہیں"۔۔۔) i24news.tv 2019/4/1]

 

سوال:

ترکی کا روس سےایس-400 کا معاہدہ ستمبر 2017 سے شروع ہے۔ اس وقت امریکہ نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ فقظ تحفظات کا ہی اظہار کیا تھا ۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ایسا کیا ہوا کہ اس کا رویہ اتنا سخت ہو گیا کہ اس نے ترکی کو روس سے یہ معاہدہ کرنے پر دھمکی دی؟ جزاک اللہ خیر

 

جواب:

سوال کے جواب کی وضاحت کے لیے آئیں ہم مندرجہ ذیل نکات کا جائزہ لیتے ہیں:

 

       1۔30 ستمبر 2015 کو امریکہ کی حمایت سے روس نے شام پر حملہ شروع کیا،"بمباری 2015/9/29 کو اوبامہ اور پوٹن کی ملاقات کے فوراً  پہلے ہوئی جو 90 منٹ جاری رہی۔۔۔ ملاقات کا پہلا حصہ یوکرین کے بحران پر تھا جبکہ دونوں صدور نے دوسرے حصے میں شام کی صورتِ حال پر توجہ دی۔ اس ملاقات کے نتائج فوراً سامنے آئے اور 2015/9/30 کو روسی فیڈریشن کی کونسل نے متفقہ طور پر پوٹن کی درخواست پر شام میں روسی فضائیہ کے استعمال کی اجازت دے دی۔۔۔" رشیا ٹوڈے2015/9/30)۔ امریکہ جانتا تھا کہ اگر یہ جنگ طویل ہوئی اور مسائل نے روس کو گھیرلیا تو وہ امریکہ کے خلاف غیر متوقع اعمال کر سکتا ہے۔ لہٰذا وہ ترکی کے اردوان کو اپنی آنکھوں کے طور پر استعمال کرنا چاہا   تا کہ  روس کی حرکات و سکنات امریکہ کی مرضی کے  مطابق ہی رہیں ۔ لہٰذا اس نے ترکی کو روس کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کا کہا تاکہ ترکی روسی حملوں کو قابو میں رکھ کر مطلوبہ حدود میں رکھ سکے، جس کے مطابق شام کے بحران کے حتمی حل کے امریکی منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے تک ادلب میں جمع مزاہمت کو ختم نہ کیا جائے کیونکہ امریکی مزاحمت اور حکومت کے درمیان حتمی حل کے لیے مذاکرات چاہتا ہے۔

 

       2۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ترکی بظاہر واضح طور پر روس اور حکومت کے خلاف تھا، یعنی وہ دشمن تھے۔ معاملہ اس وقت مزید خراب ہو گیا جب24 نومبر 2015 کو ترک پائلٹ نے روسی جہاز مار گرایا اور اردوان کامیابی کے تمغے سجانے لگا اور معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ چونکہ امریکہ ترکی کی روس سے مفاہمت چاہتا تھا اس لیے اس کی رائے تھی کہ ترکی معافی مانگے اور روس سے مل جائے، لہٰذا یہی ہوا۔ ترکی کے یہ کہنے کے بعد کہ روسی جہاز نے فضائی حدود پامال کیں اور اس سلسلے میں اسے کسی معافی مانگنے کی ضرورت  نہیں، لیکن اس کے بعد اس نے 27 جون 2016کو معافی مانگی۔ (کریملن کے پریس سیکٹری، ڈمٹری پیسکوو نے کہا: "ترکی کے صدر نے ہلاک ہونے والے روسی پائلٹ کے خاندان سے اظہار افسوس کیا اور معافی مانگی،" اور کہا، "اردوان ترکی اور روس کی روایتی دوستی کو بحال کرنے میں ہر ممکن قدم اٹھائے گا"۔ العربیہ 2016/6/27)۔اس میں ایک معاوضہ بھی تھا (ترک کیمر کے میئر نے روسی کونسل سے جمعہ کو ہونے والی ملاقات میں ہلاک روسی پائلٹ کے خاندان کو انتالیا شہر میں مکان دینے کی بھی تجویز دی۔۔۔ رشیا ٹوڈے، 2016/1/7)۔ اس کے باوجود کہ پوٹن وہ دشمن تھا جس نے لوگوں پر بم گرائے، خصوصاً ترکمان پہاڑی پر، اس سے بات چیت ایک دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ اردوان نے پوٹن سے فون پر29 جون 2016 کو رابطہ کیا۔ (ترک صدارتی دفتر کے ذرائع کے مطابق، فون کال نہایت دوستانہ ماحول میں ہوئی۔۔۔ العربی الجدید 2016/6/29)۔ اور ترکی اور روس دوست بن گئے اور اردوان پوٹن کو اپنا دوست کہتا ہے، اس کے باوجود کہ روس مسلسل شام کے مسلمانوں پر بمباری کر رہا ہے!

 

       3۔ لہٰذا دوستی بڑھتی گئی اور اردوان پوٹن سے معاہدے اور ملاقاتیں کرنے لگا۔ ہم نے5 فروری 2017 کو ایک پچھلے سوال کے جواب میں کہا تھا: ( ترکی امریکی خدمت میں ایک وفادارکی طرح یہ کردار ادا کرتا رہا، حتیٰ کہ صدر ٹرمپ کی9 نومبر 2016 کو انتخاب جیتنے کے بعد بھی اور اس نے اس کے20 جنوری 2017 کو دفتر سنبھالنے کے بعد بھی اس میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

چونکہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں روس کی طرف نرمی دکھائی تھی، لہٰذاروس کا خیال تھا کہ ٹرمپ کے استقبالیہ کے بعد آستانا کانفرنس کرنے سے امریکہ اسے اہمیت دے گا اوراہم وفد بھیجے گا۔ روس بےصبری سے ٹرمپ کاکرسی صدارت پر بیٹھنے کا انتظار کر رہا تھا، اس امید پر کہ ٹرمپ کا وزیر خارجہ اس کانفرنس میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ روس آستانا کانفرنس کو ،ٹرمپ کی حمایت کے ساتھ، شامی باغیوں اور بشار کی حکومت کے درمیان جامع امن کے مذاکرات کے آغازکے طور پردیکھتا تھا۔ لیکن یہ روس کی سیاسی بے وقوفی تھی کہ ٹرمپ روس کی حمایت کرتا ہے! لہٰذا روس نے واشنگٹن کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے وفد کے ساتھ شرکت کرے گا۔ لیکن یہ روس کے منہ پر طمانچہ تھا جب امریکہ نے آستانا میں اپنے سفیر کو مبصر کے طور پر بھیج دیا! لہٰذا آستانا مذاکرات23جنوری 2017 کو شروع ہوئے اور24 جنوری 2017 کو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے بلکہ وادی برادۃ میں بمباری تیز ہو گئی! بے شک یہ سب کسی سیاسی حل کے بغیر تھا۔ لہٰذا آستانا مذاکرات اس درجے سے نیچے تھے جو روس کی توقع تھی اور وہ جنگ بندی میں ناکام ہو گیا) اختتام اقتباس

 

       4۔ یہ صورتحال 2017 کے آخر تک موجود رہی۔ روسی صورتحال خراب ہوگئی اور روس نے ادلب میں مزاحمت کو ختم کرنے کی دھمکیوں کا آغاز کر دیا۔ یہ امریکہ کے لیے اہم تھا کیونکہ امریکہ کو ڈر تھا کہ روس ڈھیٹ ہو کر امریکہ کے قابو سے باہرنہ ہو جائے اور شامی بحران کے حتمی امریکی حل سے قبل ادلب پر آخری حملے کی تیاری نہ کر لے۔ اس وقت ترکی کو روس سے ایک اتحاد کی صورت میں دونوں کی مرضی کے برخلاف ملانا لازمی تھا تاکہ ادلب پر بڑے حملے کو روکا جا سکے، اور پھر 2.5 ارب ڈالر کی ایس-400 کا معاہدہ آیا جو روس کے لیے، خصوصاً اس کے معاشی بحران میں، دلچسپی کا باعث ہے۔ اردوان نے اس کی توجیح یوں دی کہ وسط جولائی 2016 میں حکومت کا تختہ الٹانے کی ناکام کوشش میں ترکی کے آدھے پائلٹ گرفتار ہو گئے اور اب ترک فضائیہ کے پاس ترکی کے F-16 طیارے اڑانے کے لیے موجود پائلٹ ناکافی ہیں۔ لہٰذا اسے روس کے ایس -400 میزائل حاصل کرنے کے معاہدے کی ضرورت ہے تاکہ لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں کی کمی کا ازالہ کر سکے اور ترکی اپنے فضائی دفاع کے حوالے سے محفوظ ہو سکے۔

 

       5۔ روس معاہدے سے خوش تھا کیونکہ اس کی توجہ حاصل ہونے والے مادی فائدے پر تھی۔ ترکی سے ایس-400 میزائل کا معاہدہ تقریباً 2.5 ارب ڈالر کا ہے۔ ماسکو یورپی امریکی پابندیوں اور تیل اور گیس کے بائیکاٹ سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ یہ معاہدہ روس اور ترکی کے درمیان ایک نیا تعلق ہے اور تب ترکی نے مشترکہ پیداوار کے معاہدے کو مکمل کرنے کی شرط رکھی۔ (ترک اخبار، اکشام، نے ترک وزیر خارجہ مولود اوگلو کے بیان کو پیر9 اکتوبر 2017 کو نقل کرتے ہوئے کہا کہ اگر روس نے ایس-400 میزائل نظام کی مشترکہ پیداوار پر حامی نہ بھری تو ان کا ملک دوسرے ملک سے دفاعی میزائل نظام کا معاہدہ کر سکتا ہے۔۔۔ DW 2017/10/9) ۔ روس نے مشترکہ پیداوار سے انکار کیا، لہٰذا ترکی پیچھے ہٹ گیا اور ادلب پر روسی حملے کو، جو دراصل شروع ہو چکا تھا، روکنے کے معاہدے پر تیارہو گیا۔ (AFP۔ جمعہ/ہفتہ کی شب کو فضائی حملوں میں صوبے ادلب کے گاؤں ارمناز کے کم ازکم 28 شہری ہلاک ہوئے۔ یہ علاقہ مشرقی مغربی شام کے ان علاقوں میں سے ہے جہاں معاملات بہتر ہو رہے ہیں۔ شامی مبصر برائے انسانی حقوق کے مطابق جمعہ کی رات کو 12 افراد ہلاک ہوئے۔۔۔ ادلب صوبہ آستانا معاہدے کے مطابق ایسا علاقہ ہے جہاں حالات بہتر ہو رہے تھے لیکن پھر بھی روس نے وہاں حملہ کیا۔۔۔ رامی عبدالرحمٰن ،جو مبصر کے ڈاریکٹر ہیں، نے اس طرف اشارہ کیا: "جنگی جہازوں نے ادلب صوبے کے شمال مشرقی گاؤں، ارمناز کو دوسرے حملے میں نشانہ بنایا، جہازوں نے پہلے حملے کے علاقے کو اس وقت ہدف بنایا جب زخمیوں کو تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے نکالا جا رہا تھا۔ دوسرے طرف مبصر نے کہا کہ صوبے میں مختلف علاقوں پر حملوں میں 13 شہری ہلاک ہوئے۔ ادلب صوبہ دو ہفتے تک روسی حملوں کانشانہ بنا اور ایک اور شدید شامی حملےکانشانہ بنا ۔۔۔ گلف نیوز 2017/9/30) ۔ لہٰذا معاہدہ بغیر مشترکہ پیداوار کے طے پایا! اردوان نے یوکرین اور سربیا کے دورے سے واپسی پر کہا، "ایس-400 میزائلوں کے پہلے دور میں، جو اس کا ملک خریدے گا، مشترکہ پیداوار نہیں ہو گی، لیکن دوسرے دور میں، ہم مشترکہ پیداوار پر اقدامات کریں گے۔۔۔" اورایس-400 ایک دقیق میزائل ہے جو ہدف کو لمبے فاصلے سے نشانہ بنا سکتا ہے، اور بیک وقت 300 اہداف کا پیچھا کر سکتا ہے اور 3 سے 240 کلومیٹر کے فاصلے سے ہوائی جہاز کو تباہ کر سکتا ہے اور تمام طرح کے جنگی طیاروں اور دفاعی میزائلوں کو تباہ کر سکتا ہے۔۔۔ اپنی تباہ کن صلاحیت کے علاوہ ایس-400 نظام کو چلنے کے لیے تیار ہونے میں صرف 5 منٹ درکار ہوتے ہیں۔ یہ نظام روسی فوج کو 2007 میں دیا گیا تھا ۔۔۔ الجزیرۃ 2017/12/29)۔

 

       6۔ فطری طور پر امریکہ اس معاہدے پر آرام سے بیٹھا تھا اور تقریباً پیچھے ہی تھا، بجز اس کے کہ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ اور اس اتحاد میں ہتھیاروں کی تنظیم ایک مغربی تنظیم ہے جو روسی ہتھیاروں سے مطابقت نہیں رکھتی، خصوصاً ایس-400 سے، جو اتحاد کے مغربی نظام میں گھس سکتا ہے۔ لیکن امریکہ اور اتحاد نے دو وجوہات کی بنا پر نرم رویہ رکھا: اول یہ کہ امریکہ کو روس اور ترکی کی قربت کی ضرورت تھی اور ہے تاکہ روس کو شامی بحران کے حتمی امریکی حل کے مکمل ہونے تک ادلب پر حملے سے روکا جا سکے۔ اور دوئم یہ کہ جب تک ترکی نیٹو کا حصہ ہے، امریکہ اس معاہدے پر عمل درآمد روک سکتا ہے۔ امریکہ ترکی کو نیٹو کے مغربی نظام میں روسی نظام متعارف کروانے کی اجازت نہیں دے گا۔ ان دو وجوہات کی بنا پر امریکہ مطمئن رویہ اختیار کیے ہوئے ہے! (۔۔۔ واشنگٹن مسلسل ترکی کے ان میزائلوں کی خریداری پر تحفظات کا اظہار کر رہا ہے اور نیٹو کا ماننا ہے کہ انقرہ کے اس بیان کے بعد، کہ اس نظام کو نیٹو کا حصہ نہیں بنایا جائے گا، ترکی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار لے سکتا ہے۔۔۔ الشرق الاوسط 2017/12/28)۔

 

       7۔ معاہدے کے نتیجے میں روس اور ترکی کے درمیان تعلقات کافی بہتر ہو تے گئےاور ادلب محاذ پر قدرے خاموشی رہی۔ روس کا ماننا تھا کہ ترکی سے یہ دوستی اور مشترکہ مذاکرات جلد ہی ایسا حل نکالیں گے جو روس کو اس کے مسئلے سے باہر نکال سکتا ہے۔ لیکن یہ صورتِ حال 2018 کے آخر تک تقریباً ایک سال رہی اور روس کے مسائل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکہ نے مذاکرات پر کوئی خصوصی توجہ نہیں دی، خصوصاً آستانا مذاکرات، اور وہ ایک مبصر کے طرح شامل ہوا، جیسے کہ اس نےاردن، یا قازغستان میں اپنے سفیر کو بھیجا! روس جانتا تھا کہ اگر امریکہ سنجیدگی سے شامل نہیں ہوتا تو مسئلے کا حل نہیں نکلتا۔ ایسا لگتا ہے کہ روس نے امریکی چال بھانپ لی اور ادلب پر حملے کا فیصلہ کیا۔ اپنی بے وقوفی کی وجہ سے، روس نے سوچا کہ ترکی اس کا ساتھ دے گا، لیکن اس کے انکار سے اسے دھچکا لگا اور پھر اس نے اپنی طاقت کا رخ بیرکوں کی طرف کر لیا! ہم نے اس صورتحال کو 22 ستمبر 2018 کے ایک پچھلے جواب میں بیان کیاتھا: "جب ادلب میں شامی عسکری انقلاب کو کچل دیا گیا، روس اپنی فوجی کاروائیاں جاری رکھنا چاہتا تھا؛ لہٰذا وہ اپنی فوجوں کو حرکت میں لایا اور بحیرہ روم میں بڑے بحری جہازوں اوراسٹریٹیجک فضائی لانچرز کے ذریعے فوجی مشقیں کیں اور اپنی تاریخ میں پہلے مرتبہ مشرقی بحیرہ روم کی فضائی حدود کو بند کر دیا۔ لیکن وہ شدید مسئلے میں پھنس گیا؛ روس پر وہ سب آشکار ہوا جو اس کے گمان میں نہیں تھا، مثلاً:

 

       ا۔ ترکی ادلب پر ایک جامع حملے کے حق میں نہیں تھا۔ (ترک وزیر کی رائے میں "دہشت گردوں" کو پہچان کر لڑنا چاہیے اور ادلب پر ایک بڑے درجے کی جنگ شروع کرنا اور بغیر کسی تفریق کے بمباری کرنا درست نہیں) اِناب بلادی 2018/8/14۔ ترکی کا جنگ سے اختلاف ترکی، روس اور ایران کے صدور کی تہران کانفرنس میں کھل کر سامنے آیا۔ ترکی نے روس سے غیر متوقع طور پر، ادلب پر جنگ اور نتیجاً آنے والے پناہ گزین کے ڈر کا اظہار کیا۔ اس نے روس کو شام کی سیاسی صورتحال کے حل کے لیے جنگ کو چننے پر شرمندہ کر دیا۔ (رجب طیب اردوان، ترک صدر نے جمعہ کو کہا کہ صوبے ادلب پر مسلسل حملے، جنہیں مزاحمت کنٹرول کر رہی ہے، شام میں سیاسی عمل کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔۔۔ الیوم الثابی 2018/9/7) ،اور روس کے ادلب پر حملے کی کوششوں کے خلاف امریکی لہجے کے سخت ہونے کے ساتھ ترکی نے ادلب میں کنٹرول کے مقامات پرہتھیار نصب کر دیے ہیں؛ وہ مقامات جو معاہدے کے مطابق روس اور ایران کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے طے کیے گئے تھے، (اتوار کو کچھ عینی شاہدین اور مقامی ذرائع نے سکائی نیوز عربیہ کو بتایا، ایک ترک فوجی قافلہ ترکی کی حدود کے ساتھ موجود ادلب شہر کی طرف گیا، جو علاقہ شامی باغی طاقتوں اور گروہوں کے قبضے میں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ترک فوجی قافلہ شامی علاقے میں کافرلوسن سے داخل ہو کرادلب اور شام کے شمال کی طرف گیا، اس میں ٹینک، فوجی سامان اور بارود تھا۔۔۔ سکائی نیوز عربیہ 2018/9/9)۔

لہٰذا ترکی روس کے ادلب میں عسکری گروہوں کے خاتمے کے عزائم کی راہ میں ایک رکاوٹ بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے اردوان اور پوٹن کے درمیان 16 ستمبر 2018 کو سوچی میں دوسری ملاقات ہوئی یعنی تہران ملاقات کے صرف نو دن بعد۔

 

       ب۔ لہٰذا امریکہ یہ چاہتا ہے کہ روس شام میں پھنسا رہے، اور امریکہ کے اپنے منصوبوں کے تحت سیاسی حل کا نفاذ مکمل ہونے تک نکل نہ سکے۔

روس امریکہ کی اس پالیسی کو بھانپ چکا ہے اور شاید امریکہ کے اس کو شام میں پھنسانے کے اثرات کا ادراک کر چکا ہے۔ وہ واقعی اس میں پھنس چکا ہے اور امریکہ کی اجازت کے بغیر نہیں نکل سکتا، جس کے پاس شام میں اثرورسوخ کے تمام لوازمات ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اس حملے کو مکمل نہیں کر سکا جس کی تیاری اس نے ادلب میں بحران ختم کرنے کے لیے کی تھی کیونکہ (امریکی ایماء پر)ترکی نے اختلاف کر دیا  اور ایران خاموش رہا۔ لہٰذا 7 ستمبر 2018کو ایرانی ملاقات روس کے ادلب پر حملے کے منصوبے اور روسی طریقے سے بحران کے خاتمے کی اجازت دینے میں ناکام ہو گئی۔ اردوان اور پوٹن کی ملاقات کو کچھ ہی دن ہوئے تھے اور حملے کو ایک غیر عسکری (demilitarized) علاقے کے قیام سے بدل دیا گیا!

یہ امریکہ کی کرم نوازی سے تھا۔ نووستی نیوز ایجنسی نے18 ستمبر 2018 کو ایک امریکی عہدیدار کا بیان نقل کرتے ہوئے بتایا: ("ہم روس اور ترکی کا خیرمقدم اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اسد حکومت اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے ادلب صوبے پر فوجی حملے کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔۔۔" روسی صدر نے روس کی سیرگاہ، سوچی پر اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا: "ہم نے اس سال یکم اکتوبر سے جنگی محاصرے سے 15 سے 20 کلومیٹر اندر تک ایک "غیر عسکری علاقے" پر اتفاق کیا ہے"۔ روسی وزیر دفاع، سرجئی شؤیگو نے روسی ایجنسیوں کو بتایا کہ یہ معاہدہ شام میں گروہوں کے مضبوط علاقوں پر حملے کو روک دے گا، جس کا کئی دنوں سے امکان تھا۔انٹرفیکس اور ٹس ایجنسیوں کے مطابق ایک سوال کہ کیا اس معاہدے کا مطلب ہے کہ ادلب پر حملہ نہیں ہو گا، کے جواب میں وزیر نے کہا "ہاں"۔ اس کے برعکس، دونوں صدور کی ملاقات کے بعد اردوان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا: "ادلب میں غیر عسکری علاقے پر حملہ نہ ہونے کی یقین دہانی کے لیے روس ضروری اقدامات کرے گا" (فرانس 24 / AFP 17/9/2018)۔ لہٰذا روس نے ادلب پر بمباری روک دی اور اپنے بحری جہاز واپس لے گیا جو بحیرہ روم میں جنگی مشقیں کر رہے تھے۔ یعنی ادلب پر روسی حملہ روکنے میں ترکی اور اس کے پیچھے امریکہ کی دلچسپی دراصل امریکہ کا مفاد تھا، نہ کہ اس کا مقصد حکومت کو ادلب پہنچنے سے روکنا یا شہریوں کی حفاظت تھی، بلکہ یہ کہ جب امریکہ اپنا حل نافذ کرے تو روس کو مجبور کرڈالے۔ تب ان کو ادلب، شہری و غیر شہری، غیر عسکری اور عسکری کے خون سے کوئی غرض نہیں ہو گی اور ان کی تاریخ شام کے مختلف علاقوں میں اس کا ثبوت ہے اور ان کے جرائم اچھی طرح جانے جاتے ہیں۔۔۔) اختتام اقتباس

 

       8۔ اور تب امریکہ کو اس کے منصوبے کی یقین دہانی ہو گئی اور یہ کہ ترکی اس قابل ہے کہ شامی بحران کے امریکی حل کو مکمل ہونے سے قبل ادلب پر کسی بھی روسی حملے کو روک سکتا ہے؛ اور وہ حل یہ ہے کہ امریکہ موجودہ ایجنٹ کے بعد ایک ایسا نیا ایجنٹ ڈھونڈ لے جو موجودہ مزاحمت کے لیے قابلِ قبول ہو، جس کے لیے فطرتاً مزاحمت کو ادلب میں رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ امریکی منصوبے کے مطابق حکومت سے نئے انتظام / حکومت پر حمایت کے لیے بحث کی جا سکے، جس کے بعد امریکہ کو روس کے ساتھ ترکی کی حمایت کی ضرورت نہیں رہے گی۔ روس اس قابل نہیں کہ رائےعامہ بنا کر ادلب پرحملہ کر سکے اور اس لیے امریکہ ایس-400کے ترک-روس معاہدے پر خاموش رہا۔ اس لیے اب ترکی کی طرف امریکہ کا رویہ سخت اور دھمکی آمیز ہے کہ اگر وہ مغربی نیٹو نظام میں اس روسی میزائل نظام کی اجازت دیتا ہے، تو معاہدے کے خلاف امریکی مؤقف سخت ہو جائے گا۔ شروع میں یہ نرم تھا، کیونکہ امریکہ یہ چاہتا تھا کہ ترکی روس کے قریب ہو جائے جب 2017 میں یہ معاہدہ ہوا، لیکن اب 2019 میں یہ ضرورت ختم ہو گئی ہے۔

 

       9۔ اس سخت مؤقف میں یہ شامل ہیں:

       ا۔ امریکہ اور نیٹو حکام نے انقرہ کو خبردار کیا کہ روسی نظام (نیٹو)اتحاد کے میزائل نظام میں شامل نہیں کیا جا سکتا اورایس-400 کی خریداری امریکی "لاک ہیڈ مارٹن" سے ترکی کی F-35 کے حصول کے امکانات کوکمزور کر دے گی اور واشنگٹن کی طرف سے پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔۔۔ سکائی نیوز عربیہ 2019/2/26)

 

       ب۔ وزارتِ دفاع کے ترجمان چالز سمرز نے جمعہ8 مارچ 2018 کو اعلان کیا کہ اگر ترکی نے روسی دفاعی نظام خریدا تو اسے سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور پینٹاگان میں ایک نیوز کانفرنس میں مزید کہا: "اگر ترکی نے ایس-400 لیے تو ہمارے عسکری تعلقات اور پیٹریاٹ اور F-35کی فراہمی کے لحاظ سے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں،" (DW 8/3/2019))۔

 

       ج۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک عہدیدار نے منگل کو کہا کہ امریکہ نے ترکی کو بتا دیا ہے کہ اگر اس نےایس-400 کے معاہدے میں پیش رفت جاری رکھی، تو وہ اس کی F-35 پروگرام میں شمولیت کے لیے اور واشنگٹن کے ساتھ مستقبل میں کسی ہتھیاروں کے معاہدے کے لیے خطرہ ہے۔ ترکی کو F-35 کی ترسیل روکنے کے اولین امریکی عمل میں، پنٹاگون کے ترجمان نے پیر کو کہا کہ امریکہ نے انقرہ کو ان جہازوں سے متعلق پرزوں کی ترسیل روک دی ہے۔۔۔ دو ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ پچھلے کچھ دنوں میں امریکی عہدیداران نے اپنے ترک ہم منصبوں کو بتایا کہ اب وہ F-35 سے متعلق ان پرزہ جات کی دیگر ترسیل موصول نہیں کریں گے جو لاک ہیڈمارٹن کے تیارکردہ سٹیلتھ طیاروں کی تیاری کے لیے ضروری ہیں۔ پنٹاگون کے ایک ترجمان، لفٹیننٹ کرنل مائک انڈریوز نے ایک بیان میں کہا: " ترکی کے ایس-400 کی خریداری کو چھوڑ دینے کے ایک واضح زیرِ التواء فیصلے کے پیشِ نظر، ترکی کے F-35 کی آپریشنل صلاحیت سے متعلق ترسیل اور معاملات کو روک دیا گیا ہے" العربیہ نیت 2019/4/2)۔

 

       د۔ امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ پلاڈینو نے کہا کہ واشنگٹن معاہدے کے بارے میں پریشان تھا اور زور دیا کہ ترکی کے ساتھ F-35 کی مشترکہ پیداوار اور مستقبل کے ہتھیاروں کے معاہدوں پرممکنہ نظرِثانی کی جائے۔ اس نے مزید کہا کہ ریاست اور نجی ادارے اور افراد جوایس-400 کی خریداری میں شامل تھے، ان کو CAATSA ایکٹ کے تحت ممکنہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کرد سٹریٹ 2019/3/11)۔

 

       10۔ معاہدے کے حمایت کی امید ان ممکنات کے درمیان موجود ہے:

 

       ا۔ ترکی یہ فیصلہ کرے کہ اس نے معاہدہ نہیں کرنا کیونکہ اس کے امریکہ سے قریبی سیاسی اور اقتصادی روابط ہیں، اور ایس-400 معاہدے کی جگہ برابر کرنے کے لیے وہ روس سے TACTICAL ہتھیار جیسے ہیلی کاپٹر خریدے۔ ایسے ہتھیاروں پر امریکہ یا نیٹو کا رویہ دشمنی والا نہیں ہو گا۔ پھر ترکی اپنی حفاظت کے لیے دفاعی سامان لے سکے گا۔ قائم مقام امریکی وزیر دفاع پیٹرک شیناہن نے منگل کو پینٹاگون میں رپوٹروں کو بتایا: "مجھے امید ہے کہ ہم مسئلہ حل کر لیں گے تاکہ ترکی کے پاس مناسب دفاعی سامان ہو جیسے پیٹریاٹ اور F-35"۔ العربیہ نیت 2019/4/2)

 

       ب۔ امریکہ "یونانی حل" پیش کرے، یعنی روسی میزائل ڈپو میں پڑے زنگ آلود ہوتے رہیں جس کے بدلے امریکہ سے پیٹریاٹ بیٹریاں خریدی جائیں جن کی قیمت 3.5 ارب ڈالر ہے۔ یونان میں روسی میزائیلوں کی کہانی کا پسِ منظر یہ ہے کہ ماسکو نے دراصل وہ قبرص کو بیچے جس نے ان کی قیمت ادا کی، لیکن انقرہ کے شدید اعتراضات نے ایتھنز کو انھیں رکھنے پر مجبور کیا تاکہ ترکی کے ساتھ کوئی سنجیدہ بحران نہ کھڑا ہو جائے۔ جس کا مطلب ہے کہ ترکی روسی میزائلوں کے لیے یہ قیمت 3.5 ارب ڈالر کے اوپر اضافی ادا کرے گا! یقیناً یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اچھا ہے، لیکن یہ زیادہ قیمت ترک حکومت کو ترک حزب اختلاف کے حملوں کے سامنے کر دے گی، جن کے پاس یہ حق ہو گا کہ حکومتی خارجہ پالیسیوں کی غلطیوں کی وجہ سے ترک لوگوں کا پیسہ ضائع کرنے پر حکومت پر الزام تراشی کی جائے۔

 

       ج۔ یہ معاملہ کسی تیسرے ملک کو بیچا جائے جیسے بھارت، جو چین کا محاصرہ کرنے کے لیے امریکی حکمت عملی کا حامی ہے، تاکہ روس کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔

ایسا لگتا ہے کہ سب سے زیادہ امکان پہلے ممکنہ نکتے (ا) کا ہے، کیونکہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں اطراف کے بیانات اس کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں، مثلاً شیناہن کا2 اپریل 2019 کو مندرجہ بالا بیان، اور روسی نائب وزیراعظم برائے فوجی صنعت کا بیان:"اس کا ڈر نہیں کہ ترکی ایس-400 کا معاہدہ ختم کر دے گا۔ الجزیرہ 2019/4/3، اور جو الجزیرہ نے اسی دن 2019/4/3 کو رپوٹ کیا: "روسی ڈوما کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین، ولادمر شمانوو نے ترکی کے روس کے ساتھایس-400 میزائل معاہدے کے ختم کرنے کے امکان کا انکار نہیں کیا۔۔۔ الجزیرہ نیٹ 2019/4/3، اور جو العربیہ الحدث الیوم نے 2019/4/4 کو بیان پیش کیا: "ترکی واشنگٹن کے ساتھ مل کر روسی ایس-400 میزائل نظام کے خطرات پر بحث کرنا چاہتا ہے"۔ یہ تمام پہلے ممکنہ نکتے کا امکان ظاہر کرتا ہے، یعنی روس کے ساتھ میزائل معاہدہ نہ کیا جائے، یعنی معاہدہ ختم کر دیا جائے۔

 

29 رجب 1440 ہجری

2019/4/4 ء

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک