الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

علاقے میں امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ کی حقیقت

(ترجمہ)

سوال:

امریکہ نے یکا یک ایران اور اس کے حواریوں کی طرف سے اپنی افواج کو لاحق خطرات اور خلیج میں اپنے مفادات کے تحفظ کا اعلان کیا۔ اس نے اپنی تیاریاور چوکس ہونے میں اضافہ کر دیااور طیارہ بردار بحری جہاز اور لڑاکا بحری جہاز روانہ کر دیے، حتیٰ کہ خلیج میں ممکنہ جھڑپ کے پیش نظر ایک بحری اسپتال بھی روانہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے ایرانی تیل درآمد کرنے والے ممالک کے لیے چُھوٹ کی پالیسی ختم کردی تاکہ ایرانی تیل کی برآمدات کو روکا جا سکے۔ ایران نے آبنائے ہرمز کو خلیج کے ممالک کی تیل کی برآمدات کیلئے بند کر دینے کی دھمکی دی اور نتیجتاًعلاقے میں مسلسل تناؤ ہے! کیا یہ علاقے میں امریکہ کی طرف سے جنگ شروع کرنے کی ابتداء ہے؟ یا اس کا کوئی اور مقصد ہے؟ جزاک اللہ خیراً

 

جواب:

معاملے کو واضح کرنے کے لیے آئیں مندرجہ ذیل معاملات کا جائزہ لیتے ہیں:

بے شک ،علاقے میں تناؤ میں کافی اضافہ ہوا ہے، جیسا کہ آپ نے امریکہ کی طرف سے بحری جہاز بھیجنے کا ذکر کیا جس میں لنکن طیارہ بردار بحری جہاز شامل ہے جو 90 لڑاکا طیاروں کے ساتھ سب سے بڑا طیارہ بردار بحری جہاز ہے، اور B-52 (بمبار طیاروں) کا ایک سکواڈرن خلیجی علاقے میں موجود اڈوں پر بھیجا گیا، جس سے علاقے میں موجود اس کی افواج خبردارہوئیں اور بغداد میں موجود سفارت خانے سے غیر ضروری عملے کو نکال لیا گیا۔ اس کے فوراً بعد ایران کو دی گئی دھمکیاں ان الفاظ میں سامنے آئیں:"امریکہ نے ایک طیارہ بردار بحری جہاز مشرق وسطیٰ کی جانب روانہ کیا ہے تاکہ ایران کو ایک واضح اور غلطی سے پاک پیغام دے سکے۔ ملکی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا کہ ان کا ملک کثیر تعداد میں موجودمسائل ، بڑھتی ہوئی کشیدگی اور انتباہ کے اشاروں کے جواب میں کاروائی کر رہا ہے۔ رائٹرز کے مطابق، جس نے نام ظاہر کیے بغیر ایک امریکی عہدے دار کو نقل کیا: خلیج کی جانب جنگی جہاز بھیجنے کے بعد امریکی افواج پر ممکنہ حملے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔۔۔ بولٹن نے ایک بیان میں کہا کہ، امریکہ یو ایس ایس ابراھم لنکن طیارہ بردار بحری جہاز اور ایک بمباری کرنے والی ٹاسک فورس کو امریکی سنٹرل کمانڈ کے علاقے میں بھیج رہا ہے تاکہ ایرانی حکومت یہ واضح اور غلطی سے پاک پیغام دے سکے کہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے مفادات پر کسی بھی قسم کے حملے کا جارحانہ جواب دیا جائے گا" (BBC 6/5/2019)۔دراصل طیارہ بردار جہاز سویز کینال میں 2019/5/9 کو ہی داخل ہو گیا تھا اور پھر 2019/5/14 کو عرب کے سمندری پانیوں میں داخل ہو گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ علاقے میں ایک لاکھ بیس ہزار فوجی بھیجنا چاہتا ہے جس کی امریکی صدر ٹرمپ نے ابھی اجازت نہیں دی، مگر قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شاناہن نے یہ پلان ٹرمپ کو پیش کر دیا ہے۔۔۔ ( RT 14/5/2019، نیویارک ٹائمز کو نقل کرتے ہوئے) ۔  یہ سب ممکنہ ایرانی خطرے کےپیشِ نظر ہے ۔ 7 مئی کو CNN نے اپنے ذرائع کے  توسعت سے کہا کہ امریکی حکومت کو خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران خلیج میں موجود ان کے چھوٹے جہازوں پر اپنے کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ (RT 14/5/2019)

 

ماحول میں جس چیز نے امریکی پریشانی کو فقط بیانات سے بڑھا دیا وہ یو اے ای (متحدہ عرب امارات) میں فجیرہ بندرگاہ کے قریب 4 تجارتی جہازوں کے ساتھ ہونے والا واقعہ اور تیل کی اہم سعودی تنصیبات پر حملہ ہے، اور اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

الف۔   اتوار کو امارات کی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق امارات کے علاقائی پانیوں کے قریب 4 تجارتی جہازوں کو سبوتاژ کیا گیا جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ تب ہوا جب ایران پر امریکی دباؤ بڑھ رہا ہے، جس کے متعلق صدر حسن روہانی نے پچھلے دنوں اقرار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے (Middle East Online 12/5/2019

ب۔ بروز منگل، یمنی گروہ "انصار اللہ" نے اہم سعودی تنصیبات پر ڈرون کے ذریعے حملے کا اعلان کیا۔۔۔ المصیرۃ چینل نے فوجی ذرائع کو نقل کرتے ہوئے تصدیق کی کہ "7 ڈرون طیاروں نے اہم سعودی تنصیبات پر حملے کیے"، ذرائع نے اشارہ کیا کہ "یہ بڑے پیمانے پر ہونے والا فوجی آپریشن ہمارے لوگوں پر مسلسل ظلم اور محاصرے کا جواب ہے"، مزید بیان کیا کہ "انصار اللہ اس کے لیے تیار ہیں کہ اگر مسلسل زیادتی اور ظالمانہ محاصرہ جاری رہتا ہےتوو ہ مزید خاص اور سنگین حملے کریں"۔ (Sputnik Russian Agency 14/5/2019)۔ ان دو واقعات کے بعد امریکی بیانات خلیج میں ایک واضح خطرے کے بیانیے میں ڈھل گئے جنھیں مضبوط جواز حاصل ہو گیا ، اور امریکی پریشانی اور خلیج  میں حالات کی تازہ کشیدگی ماضی کے اسی طرح کے واقعات سے مختلف ہے۔

 

لیکن خلیج میں اس تمام تناؤ کے باوجود، جو دروازے پر دستک دیتی جنگ کا اشارہ دیتے ہیں، دونوں اطراف یعنی امریکہ اور ایران کے بیانات ایک اور تصویر پیش کرتے ہیں جس میں جنگ موجود نہیں! ان بیانات میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔

-  بروز جمعرات وائٹ ہاوس میں، ٹرمپ نے ایک سوال، کہ کیا امریکہ ایران پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے، کے جواب میں بیان دیا: "میں امید کرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو"۔(RT 16/5/2019)

- امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پلوسی نے جمعرات کو کہا: مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر ٹرمپ انتظامیہ کے پاس کانگرس کی طرف سے ایران پر جنگ مسلط کرنے کا مینڈیٹ موجود نہیں۔ پلوسی نے صحافیوں کو بتایا کہ جمعرات کو ریپبلیکن انتظامیہ بند کمرے کے اجلاس میں Gang of Eight کو ایران پر بیانیہ دے گی(رائٹرز 2019/5/16)۔

- دی نیویارک ٹائمز نے جمعرات کو بغیر نام لیے امریکی انتظامیہ کے عہدہ داروں کو نقل کیا:صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک شاناہن کو بتایا کہ وہ ایران سے جنگ نہیں چاہتے۔ اخبار کے مطابق صدر نے بروزبدھ شاناہن سے یہ کہا(رائٹرز 2019/5/16) ۔

- ایران کے سربراہ علی خامنه‌ای نے کہا کہ امریکہ سے جنگ نہیں ہو گی۔ ریاستی میڈیا اور سوشل میڈیا نیٹ ورک پر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بیانات میں آیت اللہ علی خامنه‌ای نے کہا: "ہم جنگ نہیں چاہتے، نہ ہی وہ چاہتے ہیں" (BBC 14/5/2019)

-امریکی قائم مقام وزیر دفاع پیٹرک نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ عرب خلیج میں امریکی انتظامیہ کا اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط کرنے کا مقصد دفاعی روک تھام ہے، جنگ کرنا نہیں"۔ (فرانس 24، 2019/5/22)

یہ امریکی اور ایرانی بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ میڈیا جو امریکہ ایران جنگ کے بارے میں خبر دے رہا ہے وہ غیر یقینی ہے۔ ایرانی لیڈر کا اپنے عوام کو بیان کہ نہ ایران جنگ چاہتا ہے نہ امریکہ چاہتا ہے، مضبوط ترین ہے۔ یعنی جنگ سے متعلق بیانات کے مطابق خلیج میں امریکی جہازوں پر حملہ امکانی نہیں  ۔ اور بعید از امکان حالات میں اگر فوجی کاروائی ہوتی بھی ہے تووہ دونوں فریقین کی عزت بچانے تک ہی محدود ہو گی۔ امریکی عہدہ داروں کے بیانات تسلسل سے ہیں کہ وہ حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتے۔ امریکی ملکی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا: "ہماری پالیسی ایرانی حکومت کی تبدیلی نہیں ہے، لیکن ہم ایرانی حکومت پر سخت دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے"۔ (الدستور ویب سائٹ 2018/10/3)

 

تو پھر علاقے میں کشیدگی اور تناؤ کی وجوہات کیا ہیں؟ بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ اس کی وجوہات تین ہیں:

پہلی وجہ تیل کی عالمی منڈی ہے: آج امریکہ کا تیل کے معاملے پر نقطہ نظر اس سے مختلف ہے جو ایک دہائی پہلے تھا۔ چونکہ امریکہ کی شیل تیل نکالنے کی ٹیکنالوجی کامیاب ہوئی اور امریکہ نے اسے برآمد کرنے کے قابل بنایا جبکہ وہ خود تیل درآمد بھی کرتا ہے اور چین امریکہ کا تیل درآمد کر کے اس کا تجارتی خسارہ کم کر رہا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ خلیجی ممالک کے سستے حکمرانوں سے سستے داموں تیل درآمد کرتا ہے، خصوصاً سعودی عرب، جس کے تیل کا پیسہ امریکہ میں جمع ہو رہا ہے جسے وہ ضرورت کے علاوہ نکال بھی نہیں سکتا، لہٰذا وہ قرض لیتا ہے اور اس کے پیسے کو امریکہ کے علاوہ کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اس حقیقت کے مطابق امریکہ کا ایران پر دباؤ اور تیل کی برآمدپر پابندی دنیا میں تیل کی قیمت کو بڑھا دے گی جس سے امریکہ کو فائدہ ہو گا، کیونکہ تیل کی قیمت کا بڑھنا شیل تیل کے پیداواری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے موزوں ہے۔ عالمی ادارہ برائے توانائی نے "تیل کی ترسیل میں کنفیوژن " میں اضافے پر بات کی ہے اور اس نے امریکہ کی ایران اور وینزویلا کی تیل کی برآمدات میں کمی کو پورا کرنے کی صلاحیت کی بات کی ہے۔ "عالمی ادارہ برائے توانائی نے بدھ کے روز کہا اس سال دنیا کو OPEC سے بہت کم وافر تیل کی ضرورت ہو گی کیونکہ امریکی پیداوار کی واپسی ایران اور وینزویلا کی برآمدات میں کمی کو پورا کر دے گی" (رائٹرز 2019/5/15)۔ اس کے علاوہ "عالمی ادارہ برائے توانائی نے کہا کہ 7 بڑے ذرائع سے امریکی تیل کی پیداوار جون میں ریکارڈ 8.49 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ جائے گی"۔ (رائٹرز 2019/5/17)، یعنی امریکی تیل کی کمپنیاں خلیجی تناؤ کے چکر میں مزید تیل نکال رہی ہیں اور ایران کی پیداوار کو پابندیوں کے ذریعے پیچھے دھکیل رہی ہیں۔

اہم ترین یہ کہ جیسے جیسے امریکی تناؤ کی وجہ سے تیل کے ٹینکروں اور تیل کی تنصیبات کو سبوتاژ کرنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے ۔ "تیل کے معاہدوں کی قیمت بروزبدھ مشرق وسطیٰ کی بڑھتی کشیدگی کے باعث بڑھ گئی جس سے تیل کی عالمی ترسیل کو نقصان پہنچا، جس نے امریکی خام تیل میں غیر متوقع یک دم اضافے کو دبا دیا۔ Brent خام تیل کے فیوچرز کی قیمت میں 53امریکی سینٹ اضافہ ہوااور یہ بڑھ کر 71.77ڈالر ہو گئی جبکہ امریکی خام تیل کے"فیوچرزکے سودے" 62.02 ڈالر فی بیرل پر ہوئے،یعنی 24 سینٹ یا 0.4% اوپر۔ تیل کی قیمتیں کا تعین تب ہوا جب بروز منگل سعودی عرب نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے قریب تیل کے ٹینکروں پر سبوتاژ حملوں کے دو دن بعد تیل کی دو تنصیبات پر ڈرون سے سے بمباری کی گئی (رائٹرز 2019/5/15)۔

لہٰذا یہ واضح ہے کہ امریکہ ایران کے متعلق ماحول میں کشیدگی سے تیل کی اونچی قیمتوں کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنی شیل تیل کی پیداوار کو بڑھا سکتا ہے اور جتنی تیل کی قیمت زیادہ ہو گی، امریکی کمپنیاں شیل تیل کی پیداوار کو کہیں زیادہ بڑھانے کے لیے اتنا ہی بھاگیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ کشیدگی اس کی تیل کی کمپنیوں کے فائدے میں ہے، خصوصاً اس کاروباری سوچ کے لحاظ سے جو ٹرمپ انتظامیہ پر حاوی ہے۔

 

دوسری وجہ: ایران کے ساتھ نیا جوہری معاہدہ قلمبند کرنا امریکی کمپنیوں کو ایرانی منڈی میں بڑا حصہ دینے کی یقین دہانی ہے۔

یہ سب جانتے ہیں کہ امریکہ ایران کے ساتھ ایک نیا جوہری معاہدہ کرنے کے لیے کُھل کر کھیل کھیل رہا ہے، جس میں اس کا میزائل پروگرام اور علاقے میں اثرورسوخ شامل ہے۔ جب امریکی وزیر خارجہ نے عراق کا دورہ کیاتو جو پومپیو نے عبدالمہدی کوبتایا، وہ اس ملاقات کی تفصیلات کو جاننے والے ذرائع کے مطابق بہت مختلف بات تھی اور حتیٰ کہ عراقی وزیراعظم بھی پومپیون کے لہجے پر حیران ہوا ۔ پومپیو نے اسے کہا کہ وہ تہران کو پیغام دے کہ امریکہ کی جنگ میں دلچسپی نہیں اور ٹرمپ صرف ایک نیا جوہری معاہدہ کرنا چاہتا ہے ، ایک معاہدہ جسے وہ اپنی کاوش قرار دے سکے۔۔۔ (نون پوسٹ 2019/5/15، British Middle East Eye کو نقل کرتے ہوئے) ۔  اور امریکی صدر اس مقصد کو چھپاتا نہیں ہے: امریکی صدر نے ایرانی لیڈروں سے رابطے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ بحران کو حل کیا جا سکے، جو مزید نازک ہوتا جا رہا ہے، اور اس کی انتظامیہ نے اس کا ٹیلی فون نمبر سوئس حکام کو دیا تاکہ اگر ایرانی مذاکرات کرنا چاہیں تو رابطہ کر سکیں۔ امریکی صدر نے کہا: "جو انھیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ مجھے کال کریں، ہم بیٹھیں اور ایک معاہدہ کر سکیں، ایک منصفانہ معاہدہ"، ٹرمپ نے کہا: "ہم بس یہ نہیں چاہتے کہ ان کے پاس جوہری ہتھیار ہوں۔ یہ بہت بڑا مطالبہ تو نہیں ہے۔ اور ہم انھیں اچھی حالت میں لانے میں مدد دیں گے، ہم ایران کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتے"۔ ٹرمپ نے صحافیوں کو بیان دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں کہا: "میں چاہتا ہوں کہ وہ مضبوط اور عظیم ہوں اور عظیم معیشت ہو۔ لیکن انھیں کال کرنی چاہیے اور اگر انھوں نے ایسا کیا تو ہم ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں"۔

وائٹ ہاؤس نے ایک فون نمبر سوئس حکام کو دیا جو امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات میں ایران کی نمائندگی کرتا ہے، تاکہ وہ رابطے کا ذریعہ بن سکے اگر تہران واشنگٹن سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے (CNN 11/5/2019)۔ اسی طرح جو RT نے 2019/5/15 کو خبر دی کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسے یقین ہے کہ ایران مذاکرات کرنا چاہے گا۔ اسی سیاق و سباق میں، اصلاح پسندوں سے قربت رکھنے والی ایرانی سائٹ، "انتخاب" نے بروز منگل عمانی وزیر خارجہ یوسف بن علاوی کے دارالحکومت تہران کے دورے کے مقاصد آشکار کیے۔ سائٹ نے 2019/5/21 کو ایک رپورٹ میں کہا کہ "دورے کا مقصد امریکہ اور ایران میں ثالثی کروانا اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کونشانہ بنانے کے موضوع پر بات کرنا اور دیگر علاقائی معاملات پر بات کرنا تھا۔۔۔"۔ سائٹ نے مزید بتایا کہ"عمانی وزیر یوسف علاوی اپنے غیر متوقع دورہ تہران میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایک پیغام بھی لے کر گئے" جس کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔

 

تیسری اور سب سے اہم وجہ ایران کے خلاف ایک امریکی عرب اتحاد بنانے کا عمل ہے جس میں یہودی وجود بھی شامل ہو گا۔

علاقے میں امریکی پالیسی مقاصد کی تعداد اور علاقائی پوزیشن کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ آج امریکہ کے لیے ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی سب سے اہم وجہ اس اتحاد کو بنانا اور اسے باقاعدہ باہر لے آنا ہے، یعنی علاقے میں اسرائیلی ظلم اور فلسطین کی پاک زمین پر قبضہ ،کہ جسے لڑ کر ختم کرنا چاہیے اور فلسطین کو واپس دارالاسلام بناناچاہیے، کےتنازعے کو ایران کے ساتھ علاقے میں ایک فرقہ واریت پر مبنی تنازعے میں تبدیل کر دیا جائے! دوسرے الفاظ میں یہودی ریاست کو علاقے کا  ایک جزوِ لاینفک بنایا جائے۔ یہ مقصد جو امریکہ اور برطانیہ دہائیوں سے حاصل نہیں کر پائے، وہ آج غدار حکمرانوں کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں، خصوصاً خلیج کے حکمران جو امریکی ایجنڈے "ایران کا ڈر" کے تحت یہودی وجود کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے دوڑے جا رہے ہیں۔

 

یہ یہودی وجود کی پوزیشن میں بالکل واضح ہے: خلیج کے تناؤ کے پیش نظر، یہودی ریاست کے وزیراعظم نے امریکی سفارتکار فریڈمین کی موجودگی میں کہا: "ایک نئی بہار ہے، ایک نئے دور کا آغاز ہے ان تعلقات کے لیے جو ہمارے اور ہمارے عرب ہمسایوں اور کچھ غیر عرب مسلم ممالک کے درمیان ہیں۔ ہم ایرانی جارحیت کو روکنے کی خواہش میں اکٹھے ہیں۔ اسرائیل اور علاقے کے تمام ممالک اور دیگر تمام ممالک جو دنیا میں امن کے خواہاں ہیں، انھیں امریکہ کےساتھ مل کر ایرانی جارحیت کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمیں اسرائیل کی ریاست کو مضبوط کرتے رہنا ہے اور امریکہ کے ساتھ ناگزیراتحاد کو مضبوط کرتے رہنا ہے"۔ (RT 14/5/2019)۔ ایرانی جارحیت کو روکنےکے لیے یہودی ریاست کا عرب اور شاید اسلامی ممالک کے ساتھ اور امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونا یہ اشارہ دیتا ہے کہ امریکہ کی کشیدگی منصوبے کی بات ایران کے خلاف ایک اتحاد کھڑا کرنے سے متعلق ہے جس کی قیادت امریکہ کرے گا اور اس میں یہودی وجود بھی شامل ہے۔ کشیدگی، شعلہ بیانات اور کچھ عسکری کاروائیاں جیسے فوجیرہ میں اور ارامکو تنصیبات پرہونے والی کاروائیاں ، یہ علاقائی نیٹو پیدا کرنے کا عمل ہے اور اسے ترتیب دینے کاعمل ابھی بھی جاری ہے۔ اس کی ابتدا پیر 2019/4/6 کو ریاض کی عرب امریکی ملاقات کی مہمان نوازی ہے جس میں قطرنے مشرق وسطیٰ اسٹریٹیجک اتحاد (Middle East Strategic Alliance)کو منظر عام پر لانے کی تیاریوں میں حصہ لیا، جو میڈیا میں "عرب نیٹو" سے جانا جاتا ہے۔ سعودی خبررساں ایجنسی نے خبر دی: اس اجلاس میں جن ملکوں کے اعلیٰ سطح کی شرکت تھی ان میں سعودی عرب، امریکہ، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، عمان، قطر اور اردن شامل ہیں"۔ مزید وضاحت کی کہ یہ اجلاس "اتحاد کو شروع کرنے کے عمل کی جانب اہم قدم ہے، جس کا مقصد علاقے اور دنیا میں امن اور استحکام بڑھانا ہے"۔ (RT 10/4/2019)۔ لہٰذا اس فوجی اتحاد کو بنانے کا عمل زور ں پر ہے۔ایران کے خلاف عرب اور (اسلامی) ممالک کے ساتھ سیکیورٹی تعاون پریہودی وجود کی خوشی کا مطلب ہے کہ یہودی وجود ان حکمرانوں کے ساتھ امریکی کاروائیوں میں شامل ہے، اگرچہ اس کاباضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔ اس کا اعلان شاید امریکی امن منصوبے کے بعد تک متاخر رہے گا، جس میں سب سے اہم معاملہ خلیج کے غدار حکمرانوں کا یہودی وجود سے تعلقات استوار کرنا ہے۔

 

اختتامیہ:

حالات کی خرابی اور کشیدگی امریکہ اور ایران کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ کا اشارہ نہیں ہے لیکن اس کے پیچھے تین مندرجہ بالا معاملات ہیں۔، لیکن یہ اس امر میں مانع نہیں ہے کہ دونوں فریقین اپنی عزت رکھنے کے لیے چھوٹے درجے کے محدود حملے کریں، تاکہ وہ اپنی شعلہ بیانیوں، دہشت آمیز بیانات، دھمکیوں، دفاعی روک تھام اور رویوں کے تبدیلی پرشرمندگی سے بچ سکیں ۔

 

یہ تکلیف دہ ہے کہ اگرچہ امریکہ اپنے بیانات اور دھمکیوں میں اپنے مقاصد چھپاتا نہیں، ہمارے ممالک کے حکمران، خصوصاً خلیجی علاقے کے، امریکی غرور اور علاقے پر اس کی چودھراہٹ کے ایسے جواز پیش کرتے ہیں جیسے وہ بہرے، اندھے اور بیوقوف ہیں اور سمجھتے نہیں، اوریوں اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حق بیان کیا:

 

﴿وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلاً

"اور جو کوئی اس (دنیا) میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا اور راستے سے مزید بھٹکا ہوا" (الاسراء 72)

 

19 رمضان 1440 ہجری

2019/5/24 CE

Last modified onہفتہ, 10 اگست 2019 23:36

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک