الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
سوال کا جواب: قحط میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال کا جوا:

 

قحط میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا

 

ام ابراہیم کا سوال

 

سوال : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  ہمارے فاضل شیخ ، اللہ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرما ئے۔

میں ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں مجھے آپ سے قومی امید  ہے کہ آپ جواب دیں گے۔  ہم نے پڑھا ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے الرمادۃ(قحط) کے سال  چور کا ہاتھ نہیں کاٹا۔  کیا اس حالت میں حکم کو معطل کرنا  کسی علت کی وجہ سے تھا  جس کے گرد یہ حکم وجود اور عدم وجودکے اعتبار سے گھومتا ہے؟؟  اگر یہ بات ہے  تو ہاتھ کاٹنے کے حکم کی علت کیا ہے؟ کیا سزاوں کی علتیں ہیں جن کے گرد یہ گھومتے ہیں؟ اللہ برکت دے۔ختم شد

 

جواب :وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

  جہاں تک عمر رضی اللہ عنہ  کے عمل  کی بات ہے تو انہوں نے حکمِ شرعی کو ویسے ہی نافذ کیا جیسا کہ اسلام کہتا ہے۔  یعنی حکم کے نفاذ کو معطل نہیں کیا گیا بلکہ من وعن نافذ کیا ۔  کچھ ایسے حالات ہیں جن میں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں، ان میں سے ایک حالت قحط کی ہے۔ میں  قحط میں ہاتھ کاٹنے کے جائز نہ ہونے کی بعض دلائل کا ذکر کرتا ہوں:

-السرخسی نے المبسوط میں  ذکر کیا ہے کہ مکحول رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  نبی ﷺ نے فرمایا : لا قطع فی مجاعۃ  مضطرۃ " مجبور کرنے والے قحط میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا"۔

-سرخسی کے المبسوط میں یہ بھی ہے  حسن نے ایک آدمی سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رَأَيْت رَجُلَيْنِ مَكْتُوفَيْنِ وَلَحْمًا فَذَهَبْت مَعَهُمْ إلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ صَاحِبُ اللَّحْمِ كَانَتْ لَنَا نَاقَةٌ عُشَرَاءُ نَنْتَظِرُهَا، كَمَا يُنْتَظَرُ الرَّبِيعُ فَوَجَدْت هَذَيْنِ قَدْ اجْتَزَرَاهَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: “هَلْ يُرْضِيك مِنْ نَاقَتِك نَاقَتَانِ عُشَرَاوَانِ مُرْبِعَتَانِ؟ فَإِنَّا لَا نَقْطَعُ فِي الْعِذْقِ، وَلَا فِي عَامِ السَّنَةِ "میں نے دو گوشت اٹھائے ہوئے آدمیوں کو دیکھا  اور ان کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ۔  گوشت والے نے  کہا  ہماری ایک اونٹنی تھی  جو عُشراء(حاملہ جس کا دسواں مہینہ شروع ہو) تھی۔  ہم اس کے بچے کی ولادت کاایسے انتظار کررہے تھے جیسے  بہار کا انتظار کیا جاتا ہے پھر میں نے ان دو آدمیوں کو دیکھا کہ یہ اس کو ذبح کر رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: " کیا تمہیں اپنی اونٹنی کے بدلے دو حاملہ اونٹنیاں قبول ہیں؟ کیونکہ  ہم گوشت کے لیے اور قحط سالی میں ہاتھ نہیں کاٹتے ہیں"۔

  عشراء وہ حاملہ اونٹنی ہوتی ہے  جس کے حمل کا دسواں مہینہ ہو اور  اس کے بچے کی پیدائش کا انتظار ہو  جو مالکوں کے لیے بڑا قیمتی ہوتا ہے  کیونکہ اس کے دودھ کی وجہ سے کشادگی کی امید کررہے ہوتے ہیں، جیسا کہ بہار کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔  یہ جو کہا کہ ہم العذق میں نہیں کاٹتے  اس کو کچھ لوگوں نے العرق کہا ہے جس کا معنی گوشت ہے مگر مشہور العذق ہی ہے،   اس کا یہ معنی ہے کہ ہم ضرورت کے وقت اور قحط کے وقت  یعنی بھوک میں ہاتھ نہیں کاٹتے ۔

-ابن ابی شیبہ نے اپنے منصف میں  معمر سے نقل کیا ہے کہ  یحیی بن ابی کثیر نے کہا: عمر نے کہا ہے کہ :" عذق اور قحط میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا"۔

یوں قحط کے سال ہاتھ نہ کاٹنا  حکمِ شرعی کی وجہ سے ہے۔۔۔ یعنی عمر رضی اللہ عنہ نے  قحط کے سال چوری کی سزا کو نافذ کرنے   کےحکم شرعی پر عمل کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں کی۔۔۔کیونکہ اس صورتحال میں یہی حکم شرعی ہے۔

رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا سزاوں (عقوبات) میں علت ہو سکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں  ایسا ہو سکتا ہے کہ اس میں علت ہواور اس کے اعتبار سے قیاس کیا جائے۔۔۔تاہم حدود میں عقوبت اور حد دونوں کا معنی ہے۔  جہاں تک  حد کا مطلب ہے تو وہ یہ ہے کہ حد کی مقدار اور نوعیت   کیا ہے اور اس میں کوئی تعلیل نہیں ہو سکتی یعنی قیاس کرتے ہوئے کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔  کسی حد میں اضافہ  یا اس میں کمی نہیں کی جا سکتی  چاہے یہ حدد کی مقدار میں ہو یا تعداد میں، یہ شرعی دلائل میں ہی محصور ہے۔ جہاں تک  کسی حد میں عقوبت  کے معنی کا تعلق ہے  تو اس پر اسی کا اطلاق ہو گا  جو عقوبات پر علت اور قیاس  کے لحاظ سے  ہو تا ہے۔

اس مسئلے کو واضح کرنے کے لئےیہ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

مثال کے طور پر روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ  ایک سے زیادہ قاتل ہونے کی صورت میں  ان کو قتل کرنے پر شبہ کا اظہار کرتے تھے جیسے کہ اگر سات آدمی مل کر ایک آدمی کو قتل کریں تو کیا ان ساتوں کو قتل کے مجرم کے طور پرقتل کیا جائے گا۔ اس پر علی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:" اے امیر المومنین  اگر زیادہ لوگ مل کر چوری کریں تو کیا  آپ ان کے ہاتھ کاٹیں گے؟عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا : یہی قتل کے سلسلےمیں بھی ہو گا۔

اس مثال میں سات آدمیوں کی جانب سے مل کر قتل کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے مل کر چوری کرنے والوں کو سزا دئیے جانے پر قیاس کیا گیا ہے۔ یہاں علت ہے کہ "سزا کے قابل کام میں شراکت"۔ یہ عقوبات میں ہو تا ہے،  جس میں  قتل کے شرکاء کو چوری کے شراکاء پر قیاس کیا گیا ہے۔

ایک اور مثال  یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ألا إن قتيل الخطأ شبه العمد قتيل السوط والعصا فيه مئة من الإبل أربعون في بطونها أولادها "قتل خطاء ،جو شبہ عمد ہو،  وہ ہے جو کوڑے اور لاٹھی سے قتل ہو اس میں دیت سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس کے پیٹ میں بچے ہوں"۔ یہاں کوڑے اور لاٹھی سے  قتل کے اندر  علت مستنبط کی گئی  کہ وہ قتل عمد جس میں عموماً قتل نہیں ہو تا جس کو شبہ عمد کہا جاتا ہے۔  اس کو چھوٹے پتھر یا باربار مارنے پر قیاس کیا گیا  یعنی جس میں عموماً قتل نہیں ہو تا۔ اس قتل میں قاتل کوقتل نہیں بلکہ بھاری دیت ہے۔  یہ حکم صرف کوڑے اور لاٹھی تک ہی محدود نہیں  بلکہ ہر  اس چیز کے لیے ہے جس کے ذریعے عام طور پر قتل نہیں ہو تا۔  ہاں اگر قتل  اس چیز سے ہو جس سے عام طور پر قتل ہو جا تا ہے جیسے چھری یا بندوق تب یہ قتل عمد ہے اور قاتل کو قتل کیا جائے گا۔

پہلی مثال میں قیاس کا استعمال کیا گیا جہاں قتل کے جرم میں شریک ایک گروہ پر چوری کے جرم میں شریک ایک گروہ پر قیاس کیا گیا  اور یہ ایسے کام میں شراکت ہے جو قابل سزا ہے۔دوسری مثال میں  چھوٹے پتھر سے قتل کو  لاٹھی سے قتل پر قیاس کر کے شبہ عمد کہا گیا  جیسا کہ  علت والی حدیث میں ہے یعنی ایسے آلے سے قتل جس سے عموماً قتل نہیں ہوتا ۔

 

امید ہے جواب واضح ہو گیا ہو گا

 

آپ کا بھائی عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

10 جمادی الثانی 1437 ہجری

19مارچ2016

Last modified onہفتہ, 01 اکتوبر 2016 16:48

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک