بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
جلباب،اس کا نیچے تک لٹکنا اور یہ ایک آزاد اورغلام عورت میں کیسے فرق کرتا ہے
(ترجمہ)
منجانب : محمد ابو یوسف
سوال:
ہمارے محترم شیخ عطاء بن خلیل ابو رِشتہ، اللہ آپ کی حفاظت کرے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ،
"اسلام کا معاشرتی نظام" کی کتاب میں درج ہے (عربی تصنیف صفحہ 49): "جلباب کے لئے لازمی ہے کہ یہ جسم کے نچلے حصے تک پہنچے اور قدموں کو چھپا لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ]
'وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔' (سورۃ الاحزاب: 59)
یعنی وہ اپنے جلباب اپنے اوپر اوڑھ لیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ آیت میں لفظ مِنْ سے مرادجزو کی تخصیص نہیں بلکہ یہ اشاردِبیانی ہے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنے جلباب کو اوڑھ کر اسے نیچے تک لائیں"۔ مکمل آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
[يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً]
"اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتیں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔" (سورۃ الاحزاب :59)
اگر لفظ إدناء (نیچے گرانا) کے معنی نیچے لٹکانا کے لیے گئے ہیں جیسے اوپر ہے، تو میں پورے الفاظ سے مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں، [ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ] " اس سے ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی" یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتا جب عورتوں کو ان کے جلباب نیچے لٹکانے کا کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ ایک جاننے کا طریقہ ہے تاکہ انہیں پریشانی نہ ہو۔ تو جلباب کو زمین تک لٹکانے کا ان کوجاننے اور پریشانی سے بچنے سے کیا تعلق ہے؟ جبکہ تفسیر کی کتابوں میں لفظ إدناء خمار کے لیے ہے اور اس حکم کی وجہ کے لیے [ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ] " اس سے ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی " جیسے کے شانِ نزول میں موجود ہے کہ آزاد عورت اور غلام عورت سے متعلق ہے، لہٰذا آیت کے آغاز کا معنی اس کے اختتام کے معنی سے ہم آہنگ ہے۔ برآئےمہربانی وضاحت کریں، اللہ آپ پر رحم کرے، اور میری اس الجھن کو دور کریں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
جواب:
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ
آپ کا سوال اس موضوع سے متعلق ہے جو اسلام کے معاشرتی نظام میں جلباب اور اس کے لٹکانے اور اس کے آزاد اور غلام عورت میں تفریق کرنے سے متعلق ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کے سوال کا میں موجود "یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتا" کا جواب دوں، اس سے پہلے میں آپ کے لیے معاشرتی نظام میں موضوع سے متعلق موجود متن (صفحات68-70)سے دھرانا چاہوں گا:
"اس کے بعد جہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے جہاں اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا،
[ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ]
'وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں' (سورۃالاحزاب:59)،
اس آیت سے کسی بھی طرح چہرے کو ڈھانپنے کی دلیل نہیں ہے، نہ آیت کے لفظِ منطوق کے لحاظ سے اور نہ ہی اس مفہوم کے اعتبار سے اور نہ ہی اس میں کوئی فقرہ یا لفظ ہے جو بذات خود یا جملے کے ساتھ مل کر اس جانب اشارہ کرتا ہو کہ یہی حکم سبب ِ نزول ہے۔ اس آیت میں کہا گیا ہے،
[يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ]
'وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں'،
اس آیت میں لفظ ِ "مِنْ" خصوصیت کیلئے نہیں بلکہ ایک بیانی کیفیت کیلئے ہے کہ وہ اپنی چادر اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ اپنے جلباب یا چادر سے اوپر سے نیچے تک ڈھانپ لیں۔ جلباب ایک باہری لباس ہوتا ہے جو کپڑوں کو ڈھانپ لیتا ہے یا یہ کوئی چادر ہوسکتی ہے جو پورے جسم کو ڈھک دے۔ قاموس المحیط میں کہا گیا ہے کہ جلباب ایک سنمار یا سرداب ہے جوایک قسم کے خواتین کے ڈھیلے لباس (gown) کی طرح ہے جس سے پورا جسم ڈھک جائے۔ الجوہری اپنی تصنیف الصحاح میں لکھتے ہیں کہ جلباب ایک ملحاف (جس سے ڈھک لیا جائے) یا مُلاہ (چادر)ہے۔ جلباب کا لفظ حدیث میں بھی مُلاہ (چادر) کے طور پر آیا ہے جس کو عورت اپنے لباس کے اوپر اوڑھ لیتی ہے۔ ام عطیہ ؓسے مسلم میں مروی ہے کہ ((أمرنا رسولُ الله ﷺ أن نخرجهن في الفطر والأضحى، العواتق والحيض وذوات الخدور، فأما الحيض فيعتزلن الصلاة ويشهدن الخير، ودعوة المسلمين. قلت: يا رسول الله، إحدانا لا يكون لها جلباب. قال: لتلبسها أختها من جلبابها)) " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحی میں عید گاہ لے جائیں جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اور پردہ نشین خواتین کو بھی ، ہاں حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہیں لیکن وہ اخیر میں مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں ،میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی ایک کے پاس جلباب نہ ہوتو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بہن اس کو اپنی چادر اڑھادے۔" اس کے معنی یہ ہوئے کہ اُن کے پاس جلباب نہیں تھا جو وہ اپنے لباس کے اوپر پہن لیتیں، لہٰذا اُنھیں حکم ہوا کہ وہ اپنی کسی بہن سے ادھارلے کر اپنے لباس کے اوپر پہن لے۔ چنانچہ مذکورہ آیت کے معانی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج، اپنی بیٹیوں اور مسلم خواتین سے کہیں کہ وہ اپنے لباس کے اوپرچادر یا جلباب پہن لیں جو جسم کے نیچے تک پہنچتا ہو۔ اس کی تائید ابن عباس ؓوالی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں کہا کہ جلباب (بڑی چادر)وہ لباس ہے جو اوپر سے نیچے تک ڈھانپ لیتا ہے۔ لہٰذا آیت ِ مبارکہ صرف جلباب پہننے کا اشارہ کرتی ہے جو ایک ڈھیلا لباس ہے جو نیچے تک پہنچتا ہے۔ پس جب جلباب کے یہ معنی ہیں تو یہ کیونکر سمجھا جا سکتا ہے کہ جلباب پہننے سے مراد چہرے کو ڈھک لینے کے ہوتے ہیں؟ خواہ لفظ ِ جلباب اور پہننے کے فعل لغوی اور شرعی معانی کے اعتبار سے کسی بھی طرح سمجھا جائے اس سے مراد صرف یہی ہو سکتی ہے کہ چادر یا جلباب کو نیچے تک پہنچنا ہے نہ کہ اوپر تک۔ چنانچہ اس آیت سے کسی بھی زاویہ سے حجاب پر استدلال نہیں ہوتا۔ قرآن حکیم کے الفاظ و آیات کی تفسیر لغوی اور شرعی لحاظ ہی سے کی جاسکتی ہے نہ کہ کسی اور لحاظ سے۔ لغوی معنی واضح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جلباب اپنے اوپر ڈالیں جو اُن کے لباس ڈھانپے ہوئے نیچے تک پہنچیں اوراُن کے قدموں کو چھپا لیں۔ جلباب کے یہی معنی حدیث میں وارد ہوئے ہیں، ترمذی میں عبداللہ بن عمرؓسے نقل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((من جرَّ ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة، فقالت أُم سلمة: فكيف يصنعنَ النساء بذيولهن، قالَ يرخين شبراً فقالت إذا تنكشف أقدامهن، قال: فيرخينه ذراعاً لا يزدن عليه))
"اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس شخص کی جانب نظر ِ کرم بھی نہیں فرمائے گا جس نے اپنا لباس تکبّر میں پیچھے تک لٹکایا۔ ام سلمہ ؓنے پوچھا کہ عورتیں اپنے حاشیہ کا کیا کریں؟ فرمایا وہ اپنے لباس کے حاشیہ کو ایک بالشت تک بڑھا لیں۔ ام سلمہ ؓنے پوچھا کہ اس طرح تو اُن کے قدم نظر آئیں گے۔ فرمایا: کہ پھر وہ اسے ایک ہاتھ کے برابر بڑھا لیں لیکن اس سے زیادہ نہیں"۔ اختتام۔۔۔
لہٰذا جلباب اوپر سے نیچے تک ایک ڈھیلا ڈھالا لباس ہے اور إدناء کا معنی اس کا نیچے تک لٹکنا ہے۔
ثانیاً یہ کہ اس آیت کے نزول کی وجہ آزاد عورتوں کو غلام عورتوں سے فرق کرنا تھا کیونکہ جلباب غلام عورت پر واجب نہیں۔ لہٰذا کچھ منافق غلام عورتوں کے پاس جا کر ان سے نازیبا الفاظ کہتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک غلام عورت سے بدتمیزی کی سزا ہلکی تھی جو کہ آزاد عورت کا معاملہ نہیں تھا۔ لہٰذا جب کوئی کسی آزاد عورت سے ایسی بات کرتا پکڑا جاتا تو عدالت میں کہتا کہ میں سمجھا یہ غلام عورت ہے، تاکہ اسے ہلکی سزا ملے۔ ان کے اس بہانے کو ختم کرنے کے لیے یہ آیت اتری، لہٰذا اس سے آزاد عورتوں پر یہ واجب ہوا کہ وہ اپنے آپ کو غلام عورتوں سے فرق کرنے کے لیے جلباب پہنیں اور اسے پیروں تک لٹکائیں تاکہ منافق یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم سمجھے یہ غلام عورت ہے اور ان پر سزا میں نرمی نہ ہو سکے کیونکہ اب ان کے لیے کوئی بہانہ نہیں۔
ابن سعد نے طبقات میں کہا کہ ابو مالک نے کہا کہ جب نبی ﷺ کی بیویاں حاجت کے لیے باہر جاتی، کچھ منافق ان کے پاس آتے اور تنگ کرتے۔ جب ان منافقین سے پوچھا جاتا تو کہتے کہ ہم یہ صرف غلام عورتوں سے ہی کرتے ہیں، پھر یہ آیت اتری۔
[يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً]
"اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتیں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔" (سورۃ الاحزاب :59)
لہٰذا آزاد عورتوں کو غلام عورتوں سے فرق کرنے کے واسطے جلباب کو نیچے تک لٹکانے کے معنی سمجھنے میں غیر یقینی کہاں ہے؟ آپ نے کہا:
(اگر لفظ إدناء (نیچے گرانا) کے معنی نیچے لٹکانا کے لیے گئے ہیں جیسے اوپر ہے، تو میں پورے الفاظ سے مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں، [ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ] " اس سے ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی" یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتا جب عورتوں کو ان کے جلباب نیچے لٹکانے کا کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ ایک جاننے کا طریقہ ہے تاکہ انہیں پریشانی نہ ہو۔ تو جلباب کو زمین تک لٹکانے کا ان کوجاننے اور پریشانی سے بچنے سے کیا تعلق ہے؟ جبکہ تفسیر کی کتابوں میں لفظ إدناء خمار کے لیے ہے ۔۔۔)
پھرآپ کو اس کی سمجھ کیوں نہیں آ رہی؟ یہ لباس اور اس کو نیچے لٹکانا آزاد عورت کو غلام عورت سے فرق کرنے کے لیے ہے تاکہ منافقین ایک آزاد عورت کو تنگ کر کے اس سزا سے بچ نہ سکیں کہ میں سمجھا یہ غلام عورت ہے! کیونکہ ایک آزاد عورت کا جلباب کو نیچے تک لٹکتا ہے اسے ایک غلام عورت سے فرق کرتا ہے، کیونکہ غلام عورت پر جلباب پہننا فرض نہیں، لہٰذا وہ اپنے آپ کو پورا یعنی پاؤں تک نہیں ڈھانپتی۔۔۔ لہٰذا جلباب کو پہننا جو آزاد عورتیں نیچے تک لٹکاتی ہیں، انھیں غلام عورتوں سے فرق کرتا ہے اور یہی اس آیت کا مرکزی معنی ہے، [ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ] " اس سے ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی"
لہٰذا آیت کا مطلب آزاد عورت کو غلام عورت سے فرق کرنا ہے اور جلباب کو نیچے تک لٹکانا اس پہچان کے لیے ہے، [ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ]"اس سے ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی" یعنی یہ اس لیے نہیں کہ اسے جانا جائے۔۔۔ قرطبی کی تفسیر کے مطابق (14/24): "تاکہ انھیں پہچانا جائے (ایک آزاد عزت دار عورت کے طور پر) تاکہ کوئی انھیں تنگ نہ کرے"۔ یعنی آزاد عورت جس کے بارے میں غلام عورت کا ابہام نہ ہو۔۔۔ اور ان کے بارے میں خیالات جنم نہ لیں، اور معنی یہ نہیں کہ انھیں پہچانا جائے یہاں تک کہ یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کون ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ آپ کو معنی درست لگنے کے لیے کافی ہو گا اور اس کی بدولت آپ کے پیغام میں یہ جملہ ختم ہو جائے گا: " یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتا"۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو رشتہ
7 محرم 1440 ہجری
17/09/2018 عیسوی