الإثنين، 21 صَفر 1446| 2024/08/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

میڈیا آفس کا حلب شہر کا دورہ

حزب التحریر ولایہ شام کے میڈیا آفس نے حلب شہر کےبعض آزاد کردہ علاقوں کا دورہ کیا ۔ میڈیا آفس کے سربراہ استاذ احمد عبد الوھاب ، رابطہ کمیٹی کے استاذ عبد الحمید عبد الحمید اور میڈیا آفس کے رکن استاذ منیر ناصر نے "امریکی منصوبہ اور اس کا سامنا کرنے کا طریقہ"، " گندہ سیاسی مال اور انقلاب پر اس کے اثرات"، "مسلمان کے خون کی حرمت اور گروہوں کی آپس میں لڑائی"، "مغرب کے لبرل منصوبے کے سدباب کے لیے اسلامی سیاسی منصوبے کی اہمیت" کے موضوعات پر کئی تقاریر اور کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ یہ کانفرنسیں السکری کے علاقے کی جامع مسجد ابو عبیدہ، المشھد کے علاقے کی جامع مسجد حمزہ، بستان القصر کے علاقے کی جامع مسجد بدر، الصالحین کے علاقے کی جامع مسجد الجیلانی میں منعقد کی گئیں۔ امریکی سازشوں کو بے نقاب کرنے، مسلمانوں کو اس حوالے سے بیدار کرنے، ان کے سد باب کی کیفیت کے حوالے سے ان کانفرنسوں کا زبردست اثر ہوا، لوگوں نے اس میں جوق در جوق شرکت کی اور اس دوران تکبیر اور تھلیل کی صدائیں بلند ہو تی رہیں۔
میڈیا آفس نے سیاسی رشوت اور مسلمانوں کی باہمی لڑائی کی حرمت کے حوالے سے بیانات کا اہتمام کیا جو السکری کے علاقے کی جامع مسجد اویس القرنی، الانصاری کے علاقے کی جامع مسجد سعد الانصاری، بستان القصر کے علاقے کی جامع مسجد سکر، الصالحین کے علاقے کی جامع مسجد عمر بن عبدالعزیز، السکری کے علاقے کی جامع مسجد عائشہ میں ہوئے جن کو لوگوں کی طرف سے پذیرائی ملی اور لوگوں نے اس طرح رد عمل کا مظاہرہ کیا گویا ان کے دل کی بات اور ان کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔
میڈیا آفس نے اپنے دورے کا اختتام حلب کے ان علاقوں کے جائزے اور بے پناہ تبا ہی کے مناظر کو دیکھنے کے بعد کیا جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رہائشی علاقوں پر وحشیانہ بمباری سے ہوئی ہے جس کا مقصد عوام سے انتقام لینا اور مجاہدین سے ان کو کاٹنا ہے۔
ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ اللہ شام کے مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں کے پاکیزہ خون کی حفاظت کرے اور ہم یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ اس مبارک انقلاب کے نتیجے میں خلافت راشدہ علٰی منہاج النبوۃ قائم ہو۔

احمد عبدالوہاب
ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ

Read more...

بھارت کے سامنے جھکنا اللہ سبحانہ و تعالٰی، اس کے رسولﷺ اور مؤمنین کے خلاف جرم ہے راحیل-نواز حکومت کشمیر کو ہندوستان کے قبضے سے آزاد کرانے کی ذمہ داری سے دست بردار ہوگئی

راحیل -نواز حکومت نےاُس امریکی منصوبے کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا ہے جس کے تحت بھارت کو طاقتور بنانے اور چین کے سامنے کھڑا کرنے کے لئے پاکستان کو کمزور کیا جانا ہے۔ 27 ستمبر 2014 کو وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے" اور اس نے دنیا کو یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ "جموں و کشمیر کے لوگ اب تک استصواب رائے کے وعدے کے پورا ہونے کے منتظر ہیں"۔ اس خطاب سے چند گھنٹوں قبل 26 ستمبر 2014 کو جنرل راحیل شریف نے کہا کہ "فوج امن کے حق میں ہے"۔
کئی دہائیوں سے بھارت نے مسلمانوں کے خلاف شدید دہشت اور ظلم کا رویہ اپنایا ہوا ہے چاہے وہ مقبوضہ کشمیر میں ہوں یا اس کی سرحدوں میں بسنے والے مسلمان ہوں جیسا کہ گجرات میں رہنےوالے مسلمان یا پاکستان کے خلاف جنگیں مسلط کرنا ہو۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی بدترین عمل کرنے سے باز نہیں رہتا اور اس کی یہ شہرت ہے کہ جہاں وہ ایک طرف امن کی بات کرتا ہے تو اسی وقت اس نے اپنی بغل میں خنجر بھی چھپایا ہوتا ہے۔
لیکن راحیل-نواز حکومت کے واشنگٹن میں بیٹھے آقا یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے ازلی اور ناقابل اعتماد دشمن کے خلاف اقدامات سے گریز کرے اور اپنا دفاع کمزور کرلے۔ وہ یہ مطالبہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ دنیا کی طاقتور ترین مسلم ریاست اور واحد مسلم ایٹمی قوت خطے میں بھارت کو بالا دست علاقائی قوت بننے کی راہ میں روکاوٹ نہ بنے۔ امریکہ کی یہ ضرورت ہے کہ بھارت اس وقت پاکستان سے آگے نکلے تاکہ وہ خطے میں مسلمانوں کو بالادست قوت بننے سے روکے اور امریکہ کے خلاف کھڑے ہونے والے چین کو چیلنج کرسکے۔ لہٰذا پاکستان ہندو کے رحم و کرم پر ہوگا جو اس قدر ظالم ہے کہ جس کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کی اور لاکھوں نے شہادت کو گلے لگایا تاکہ ہندو کی حکمرانی سے نکل کر ایک الگ ریاست پاکستان میں زندگی گزار سکیں۔
حزب التحریر راحیل-نواز حکومت کے اس غدارانہ موقف کی پُرزور مذمت کرتی ہے اور اس بات کو واضح کردینا چاہتی ہے کہ کشمیر کی آزادی کی ذمہ داری افواج پاکستان کی ہے۔ تو کس طرح یہ غافل حکمران اسی بین الاقوامی برادری کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے پکار سکتے ہیں جنھوں نے اس مسئلے کو پہلے پیدا کیا اور پھر جان بوجھ کر اس کے منصفانہ حل کو تاخیر کا شکار کرتے ہیں تا کہ اپنے مفادات کو آگے بڑھا سکیں؟ حزب التحریر خلافت کے فوری قیام کا مطالبہ کرتی ہے جو کشمیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ اس خطے کے 550 ملین مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف یکجا کرے گی۔
إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُواْ عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَـٰئِكَ هُمُ ٱلظَّالِمُونَ
"جن لوگوں نے دین کی وجہ سے تمھارے ساتھ قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے میں دوسروں کی مدد کی اللہ تعالٰی ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے اور جو لوگ ان سے دوستی کرتے ہیں وہی ظالم ہیں" (الممتحنہ:9)۔

Read more...

افواج پاکستان میں ترقیاں اور تقرریاں فوجی افسران کی ذمہ داری مسلم علاقوں کی حفاظت اور اسلام کے نفاذ کے لئے نصرۃ فراہم کرنا ہے

22 ستمبر 2014 کو افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ، آئی۔ایس۔پی۔آر نے چھ میجر جنرلز کی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی اور آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ کے ساتھ پانچ مختلف کور کمانڈرز کی تقرریوں کا اعلان کیا۔ حکومتی حلقوں میں ان تقرریوں کو ملک میں جاری دہشت گردی کے جنگ کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے امریکی ہدایت پر افواج پاکستان کو ان کے اصل کردار یعنی کشمیر کی آزادی و بھارتی جارحیت سے پاکستان کو تحفظ فراہم کرنے سے ہٹا کر انہیں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا ایندھن بنادیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے افواج پاکستان کی گرین بُک میں تبدیلی کی جس کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی کو درپیش سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ بھارت کو۔ یہی وجہ ہے  12 اگست 2014 کو کارگل میں بھارتی افواج سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے قاتل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ "پڑوسی ملک اب روایتی جنگ لڑنے کی صلاحیت کھو چکا ہے" یعنی پاکستان اب بھارت کا سامنا نہیں کرسکتا۔
حزب التحریر مسلمانوں کو یاددہانی کراتی ہے کہ افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں نے اس مسلم سرزمین اور اس پر بسنے والے لوگوں کی حفاظت کی قسم اٹھائی ہے اور اللہ نے اُن پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ مسلم افواج کی طاقت اللہ کے دین، اسلام کے نفاذ اور دعوت و جہاد کے ذریعے اس کی پوری دنیا میں ترویج کے لئے استعمال ہونی چاہیے۔ لیکن سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں نے ہماری افواج کو اس ذمہ داری کی ادائیگی سے ہٹا کر افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین اور پاکستان میں اسلام کے نفاذ اور خلافت کے قیام کی سیاسی و فکری جدوجہد کرنے والے مخلص لوگوں کا قلع قمع کرنے پر لگا دیا ہے اور مسلم فوج کی طاقت کو کفریہ جمہوری نظام کے نفاذ کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ جب تک افواج پاکستان کا مقصد پاکستان کو بھارتی جارحیت سے تحفظ فراہم کرنا اور کشمیر کی آزادی تھا پاکستان اور امت مسلمہ افواج پاکستان کو کس قدر عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتی تھی لیکن جب سے سیاسی و فوجی قیادت میں موجود لوگوں نے ہماری افواج کو امریکی جنگ کی آگ کا ایندھن بنایا ہے ہماری افواج کی عزت امت کی نگاہ میں نہ صرف کھٹتی چلی جارہی ہے بلکہ اس چیز کا فائدہ اٹھا کر دشمن امریکہ ہماری افواج اور عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دینا چاہتا ہے تاکہ فتنے کی آگ جلتی رہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہتا رہے۔
افواج پاکستان اپنا حقیقی وقار اور عزت صرف خلافت کی فوج بن کر ہی حاصل کرسکتی ہے جو خطے سے امریکہ کو اکھاڑ پھینکے گی، کشمیر و فلسطین سمیت تمام مقبوضہ مسلم علاقوں کو کفار کے شکنجہ سے آزادی دلائے گی اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے والی ان سرحدوں کو مٹا کر انہیں ایک طاقتور ریاست خلافت میں یکجا کردے گی۔ لہٰذا افواج پاکستان کے ہر افسر پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی ریاست، خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کریں اور اس دور کے انصار بن جائیں۔ رسول اللہﷺ نے انصار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ، آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ "انصار کی محبت ایمان اور انصار سے نفرت نفاق کی نشانی ہے" (مسلم و بخاری)۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

سلامتی کونسل کو خیر مقدم نہیں کہتے اور نہ ہی اس کی سزاؤں سے خوشی ہوئی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن کے حوالے سے منعقدہ خصوصی مشاورتی نشست کا اختتامی بیان جاری کردیا۔ یہ میٹنگ29 اگست 2014 کو کونسل کے صدر اوراقوام متحدہ میں برطانیہ کے مستقل نمائندے مارک لائل گرانٹ کی صدارت میں ہوئی ۔بیان میں تنبیہ کی گئی کہ سیاسی استحکام میں رکاوٹ بننے والوں، بالخصوص حوثیوں پر سزائیں عائد کی جائیں گی۔ بیان میں کہا گیا کہ: "سلامتی کونسل کو یمن میں امن وامان کی صورتحال پرگہرا افسوس ہے، جو عبد الملک الحوثی کی قیادت میں حوثیوں کی کاروائیوں کے باعث بگڑ چکی ہے اورحوثی لوگ عبد الملک کے ساتھ تعاون اس لئے کرتے ہیں تاکہ سیاسی حکومت کی منتقلی کو سبوتاژ کیا جائے اور یمن کے امن کو تہس نہس کردے"۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ : "سلامتی کونسل عبداللہ یحییٰ الحاکم (ابوعلی الحاکم ) کی امارت تلے حوثی فورسز کی کاروائیوں کی مذمت کرتی ہے، جس نے 8 جولائی کو یمن بریگیڈ ہیڈ کوارٹر اور عمران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سلامتی کونسل حوثیوں کو دعوت دیتی ہے کہ :1۔ عمران سے اپنی فورسز نکال کر اس کو یمنی حکومت کے کنٹرول میں دیدیں، 2۔ یمنی حکومت کے خلاف جوف میں تمام معاندانہ مسلح کاروائیاں بند کردیں، 3۔ صنعاء اور اس کے اطراف میں قائم کئے گئے چیک پوائنٹ اور کیمپس ختم کردیں"۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ: "ایک اور پہلو سے، سلامتی کونسل تمام ممبر ممالک کو دعوت دیتی ہے کہ وہ یمن کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے اندر کشمکش بھڑکانے کے لئے مداخلت سے باز رہیں اور وہ سیاسی حکومت کی منتقلی میں تعاون کریں"۔
ہم پہلے ہی متعدد پریس ریلیز میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ مغرب اور سلامتی کونسل کی آغوش میں اپنے آپ کو پھینک دینا خطرناک ہے ۔ اس کونسل کو اگر کسی چیز کی فکر ہے تو صرف یہ کہ وہ اس کے اندر موجود طاقتور ممالک کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے۔ یہ کونسل لوگوں کو خائف کرنے، ملکوں کے ٹکڑے کرنے اور فتنے کھڑے کرنے کا ایک استعماری آلہ کار ہے جبکہ اس نےمسلمانوں کے کسی ایک مسئلے کی حمایت نہیں کی۔ اگر چہ کچھ لوگوں کو سلامتی کونسل کی کاروائیوں پر بظاہر ہمدردی کا دھوکہ ہوجاتا ہے مگر ایسی کاروائیاں اندرونی طورپر عذاب کا سامان لئے ہوئے ہوتی ہیں، یہ سراب ہوتی ہیں جس سے انسان کو دھوکہ ہوجاتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمارے لئے ان کے ذریعے طاقت حاصل کرنا حرام قرار دیا ہے بلکہ ہمیں ان کے بارے میں چوکنا رہنے کا حکم دیا ہے اور ہمیں بتا یا ہے کہ یہ لوگ آپ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے دین وملت کو نہ اپنا لیں ۔ تو ان کا دین دھوکے اور فریب کا لباس پہن کر آرہا ہے یعنی جمہوریت اور سول وجمہوری حکومت جیسے شرع مخالف افکار اور نظام۔
ہم ریاست اورباہمی گفت وشنید کرنے والی قوتوں، بلکہ جنگجوؤں کو بھی یمن کے اندر ان مداخلتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان مداخلتوں پر دستخط ان ہی لوگوں نے کئے تھے بلکہ ان مداخلتوں کے لئے سرخ جھنڈا ان ہی لوگوں نے لہرایا تاکہ وہ یمن میں آکر اپنے اثر ونفوذ اور اس کے وسائل پر کشمکش اور لڑائی کا آغاز کریں ۔ ان کا مقصد صرف ان حقیر مقاصد کا حصول تھا جو خطے کے ان ممالک نے انہیں سمجھا دیے ہیں، جیسے سعودیہ اور ایران، جن کے مغرب کے ساتھ روابط ہیں۔ یہ ممالک استعماری منصوبے کا حصہ ہیں جن کے اندر سے مغرب یمن میں اپنے مفادات کے لئے کشمکش کے لئے راہ نکالتا ہے۔ یہ وہی اینگلو امریکی تنازعہ ہے جسے سیاست دان تو کیا عام لوگ بھی جانتے ہیں۔ بے شک سیاسی بے وقوفی یمن کی سیاسی طاقتوں کے لئے ایک مصیبت ہے کیونکہ یہ اب بھی اس گھمنڈ میں ہیں کہ وہ اچھا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ ہم سیاسی خود کشی کررہے ہیں۔ جب یہ بے وقوف ایسے کام کر ڈالتے ہیں کہ جن کے خطرناک نتائج کا انہیں کوئی ادراک نہیں ہوتا اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان کی کاروائیاں اس استعمار کے مفاد میں جارہی ہیں جس کو یہ لوگ طرح طرح کی گالیاں دیتے رہتے ہیں بلکہ کبھی کبھار یہ طاقتیں ایک طرف استعمار کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرتی ہیں جبکہ دوسری جانب اسی استعمار کے ثقافتی باقیات اور نظام حیات کو اختیار کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو ملک کو فرقہ واریت اور مذہبی تعصب کی طرف لے جارہے ہیں ۔ ایسا کرکے وہ مغرب کی خدمت ہی کرتے ہیں بلکہ مغرب کو اپنا دل دے بیٹھے ہیں اور مغرب کی مہرومحبت اور عنایات کے حصول کے لئے اس کی پسندیدہ اصطلاحات کو استعمال کرکے اس کی چاپلوسی کرنے سے نہیں شرماتے ، جیسے دہشت گردی، تکفیری یا شیعہ اور روافض وغیرہ جیسی اصطلاحات ؟ اور اللہ کے بندوں کو وہ نام دینے سے شرماتے ہیں جو اللہ نے ان کا رکھا ہے یعنی مسلمان، ﴿هو سماكم المسلمين﴾ "اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا" (الحج:78)۔
سلامتی کونسل کے بیان میں مضحکہ خیز بات یہ کہی گئی کہ "سلامتی کونسل تمام ممبر ممالک کو دعوت دیتی ہے کہ وہ یمن کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے اندر کشمکش بھڑکانے کے لئے مداخلت سے باز رہیں اور سیاسی حکومت کی منتقلی میں تعاون کریں"۔ کیا یہ مداخلتیں اس لئے نہیں ہورہیں کہ اس نے اپنے خوشامدیوں کو اس کے احکامات دیے ہیں تاکہ وہ یمن میں اپنے مفادات پر کشمکش شروع کریں ؟ پھر جب کشمکش کے طرفین (اینگلو امریکن) کسی مصالحت یا یمن کے وسائل میں شراکت پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ نوکر اپنے آقا کے اوامر کے خلاف قدم اٹھائیں گے۔ یہ بہت دور کی بات ہے ۔ تو ان تنظیموں سے وہی لوگ دھوکہ کھا جاتے جن کی سوچ غلاموں کی ہو کیونکہ ایسے لوگ اپنے مفادات خود حاصل نہیں کرسکتے ۔ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا اختیار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو ان کوسرمایہ فراہم کرتے ہیں۔
اے یمن والو! رسول اللہﷺ نے تمہارے جس ایمان اور حکمت کے بارے میں بتایا ہے اس کی رو سے تم پر لا زم ہے کہ اپنے مسائل کو اپنے پروردگار کی کتاب اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں حل کرو اور استعماری کفار سے تقویت حاصل کرنا تمہارے اوپر حرام ہے، خواہ کسی بھی نوع کی ہو۔ تو کفار کو اپنے اوپر اختیار مت دو، اللہ سبحانہ فرماتے ہیں (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا) "اے ایمان والوں! مؤمنین کو چھوڑ کرکفار کو اپنا دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم پر اللہ کی واضح حجت قائم ہوجائے؟" (النساء:144)۔ حزب التحریر تمہیں اس چیز کی طرف بلاتی ہے جس میں تمہارے لئے دنیا او ر آخرت کی خیر ہے ۔ یہ وہ حزب ہے جو اندھا دھند تعصب کرتی نہ ہی کسی کے ساتھ مخاصمت اس کو حکم شرعی کی مخالفت پر کھینچ لاسکتی ہے۔ یہ کبھی بھی اللہ کے غضب اور غصے پر خوش نہیں ہوتی۔ یہ حزب تمہیں ایک امت بنانے کی قابلیت رکھتی ہے اور یہ تمہارے درمیان اختلافات کو دوسری خلافت راشدہ کے سائے میں سدھار سکتی ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے، اور تمہارے نبیﷺ نے اس کی بشارت دی ہے ۔ ہم اسی کی طرف تمہیں بلاتے ہیں تاکہ اپنے حالات کو ٹھیک کرسکو ۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہی تمہارا دوست اور کارساز ہے ۔

Read more...

دنیا اور امریکہ کو مسلمانوں کے خون اور دھماکہ خیز ڈرموں سے شہریوں کے قتل کی کوئی فکر نہیں

پریس ریلیز
اگست 2012 سے سفاک بشارالاسد کی حکومت نے پہلی مرتبہ دھماکہ خیز ڈرموں کا استعمال شروع کیا اور اب تک شام کے معصوم شہریوں پر ان ڈرموں کی بارش کی جارہی ہے جو ان پرتباہی و بربادی لاڈالتی ہیں۔ یہ بیرل دوسرے بموں اور میزائلوں کے مقابلے میں کم قیمت ہوتے ہیں اور حکومتی افواج ان کو دہشت انگیز اسلحے کے طور پراستعمال کرتی ہیں کیونکہ ان کوفضا سے ہیلی کاپٹر کے ذریعےآسانی سے پھینکا جاسکتا ہے اورپھر چشم زدن میں شہریوں پر بلا امتیاز موت چھا جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شام میں اب تک 6000 بیرل بم استعمال کئے گئے ہیں جس کے باعث 20 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ قرارداد نمبر 2139 جس کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے سلامتی کونسل نے 22 فروری 2014 کومنظور کیا تھا جو اس قسم کے اسلحے پر پابندی عائد کرتی ہے ،کے نفاذ کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کااستعمال برابر جاری رہے گا۔ بشار حکومت کی شام کے مسلمانوں کا خون بہانے کی پیاس بڑھ گئی ہے اور ان ڈرموں کا بہت زیادہ استعمال کررہی ہے اور اب اس کا دائرہ نئے علاقوں تک وسیع کردیا گیا ہے۔ چنانچہ صرف حلب میں ہیومن رائٹس واچ نے 650 حملوں کے اعداد وشمار شائع کئے جن میں ان ڈرموں کواستعمال کیا گیا۔ یہ حملے قرارداد کی منظوری اور 14 جولائی 2014 تک کے عرصے میں کئے گئے۔ اس کے باوجود امریکہ اور مغربی ریاستوں نے جنگی جرائم کے ارتکاب پر مشتمل ان رپورٹوں کے حوالے سے بہت محتاط ردعمل دیا اور اس دوران اس کے ایجنٹوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی منظم اور سنگدلانہ کارروائیوں پرمعمولی سی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور ان کا وطیرہ یہی رہے گا۔ اسی قابلِ اعتراض خاموشی نے عراق کے اندر فرقہ وارانہ حکومتی نظام کی حوصلہ افزائی کی تاکہ عراق میں بھی شام کی مثال دہرائی جائے۔ چنانچہ عراق کے مختلف علاقوں، فلوجہ سے لے کر کرمہ، تکریت اور بیجی سے لے کرموصل تک میں بڑے پیمانے پر ان دھماکہ خیز ڈرموں کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔
یہ امریکہ اور یورپین قائدین کی کھلی منافقت ہے جو شام اور عراق میں ان کے ایجنٹوں کے طرف سے مسلمانوں کے اجتماعی قتل پر خاموشی کی صورت میں ہمیں نظرآتی ہے .....جبکہ غزہ پر بدترین انتقامی حملوں کے دوران یہودی ریاست کو ان کا لامحدودتعاون حاصل رہاہے،ان یہودی حملوں نے انسانوں اور درختوں اور پتھروں تک کو بھسم کر چھوڑا۔ یہ سب کچھ بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانیت کی خیرخواہی اور انسانی زندگی کے احترام کے دعوے مکمل طور پر جھوٹے، کھوکھلے اور گمراہ کن دعوے ہیں جو زمینی حقائق سے کسی طرح میل نہیں کھاتے ۔ مجموعی طور پر ان ممالک کو مسلمانوں کے حقوق اور ان کے خون کے ا حترام کی کوئی پرواہ نہیں ۔ وہ بعض اوقات مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں مگر عین اسی وقت وہ اپنے ایجنٹوں اور دوستوں کے جرائم پر چپ سادھ لے لیتے ہیں جب اپنا مفاد پیش نظر ہو.....اس بنا پر موت کے یہ ڈھانچے جو دنیائے اسلام کے اندر بوئے گئے ہیں صرف مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اوران کی قوت کو منتشر کرنے اور ان کے علاقوں کو مختلف ٹکڑوں اور باہمی خون خرابےکے میدانوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہیں تاکہ ان کے ذخائر کو لوٹنے اور ان کے توانائی کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو اور اس سے بھی زیادہ اہم بات ان کے نزدیک یہ ہے کہ نبوت کے نقش قدم پر دوسری ریاستِ خلافت کے قیام کو روکا یا مؤخر کیا جائے.....وہ ریاستِ خلافت جو ان کے جھوٹ اور فریب کاریوں کو بے نقاب کرے گی، ان کی زبانوں کو لگام دے گی اور ان کے ان جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھول کے رکھ دے گی کہ ہم حق، بھلائی، عدل وانصاف اور انسانی احترام کے محافظ ہیں جبکہ دنیا ان کے مظالم اور فساد انگیزیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ مگر ان کی یہ ساری کوششیں ناکام ہوں گی۔ جہاں تک ہم حزب التحریر کی بات ہے تو ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ اب دنیا کی قیادت اور زمام ِ کاراپنے ہاتھ میں لینے کے بہت زیادہ قریب ہے یہ امر اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں، حق تعالیٰ کاارشاد ہے:
﴿يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ ط وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ * هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾
"وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا ،خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے،خواہ مشرکوں کو ناگوار ہی ہو " (الصف :8-9)

Read more...

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جمہوری حکمران اور سیاست دان پاکستان کو سیلاب سے بچانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے

ایک بار پھر جمہوری حکمران پاکستان اور اس کے عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے ممکنہ بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ حکمران خود پر ہونے والی تنقید سے بچنے کے لئے اس کی ذمہ داری محکمہ موسمیات پر ڈال رہے ہیں کہ انہوں نے پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ حزب التحریر ان نام نہاد عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں سے سوال کرتی ہے کہ کیا وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ 2010 سے اب تک پاکستان میں تین سیلاب آچکے ہیں جن میں سے 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا؟ کیا یہ جمہوری و عوامی حکمران اس بات سے بھی بے خبر تھے پاکستان پچھلے تین سالوں میں عالمی موسمی تغیراتی انڈیکس میں پہلے نمبر پر آرہا ہے؟ یہ حکمران جو خود کو عوامی نمائندے کہتے نہیں تھکتے اگر واقعی عوام کی مشکلات اور تکالیف دور کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تو کس طرح ان باتوں سے بے خبر ہوسکتے تھے؟
جمہوریت کے گُن گانے والے حکمرانوں نے 2010 میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب سے نقصانات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور آنے والے دنوں میں ان نقصانات سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنا تو دور کی بات بلکہ اس رپورٹ کو دفن کردیا۔ ان تجاویز پر پہلے پی۔پی۔پی نے اور پھر پی۔ ایم۔ایل(ن) کی جمہوری حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ جمہوری سیاست دان عوام کے خوان پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی رقم کو بڑے بڑے شہروں میں پانی کے نکاس کے منصوبے شروع کرنے کے لئے استعمال تو نہیں کرتے لیکن اربوں روپوں کی لاگت سے تیار ہونے والی میٹرو بس سروس شروع کرتے ہیں کیونکہ زمین کے نیچے بچھنے والے نکاسی کے پائپ کسی کو نظر نہیں آتے اور بارشیں کون سی روز روز ہوتی ہیں لیکن سڑک پر دوڑتی میٹرو بسیں روزانہ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے اور پھر اگلی انتخابی مہم میں اپنی کارکردگی جتانے کے لئے ایسے منصوبوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔
درحقیقت جمہوریت ایسے سیاست دان پیدا کر ہی نہیں سکتی جو عوام کے دکھ درد اور تکالیف کو دور کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہوں۔ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار امریکہ میں بھی عوام کو قدرتی آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔2005 میں امریکہ میں کاترینہ طوفان کے بعد لوگوں کی دیکھ بحال میں ہونے والی ناکامی کی وجوہات کا تعین کرنے کے لئے کانگریس کی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا کہ "F.E.M.A (فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی) اور ریڈ کراس کے پاس وہ صلاحیت موجود نہیں تھی کہ وہ متاثرین کی بڑی تعداد کو مدد فراہم کرسکتے"۔ اس رپورٹ میں طوفان سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ذمہ داری وفاقی، ریاستی اور شہری،تینوں حکومتوں پر ڈالی گئی۔
اسلام نے سیاست کو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا اور فرض قرار دیا ہے اور اس فرض میں کوتاہی یا ناکامی پر حکمرانوں کو قیامت کے دن اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ "اگر عراق کی زمین پر کوئی جانور بھی گر پڑا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی سڑک کو ٹھیک نہ رکھنے پر میرا محاسبہ کریں گے"۔ پاکستان کے عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت دونوں میں حکمران خود کو عوام اور اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالٰی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ یہ صرف خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ، عوام اور اللہ سبحانہ و تعالٰی، دونوں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور اللہ کے سامنے جوابدہی سب سے سخت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "اس شخص کا کوئی والی نہیں جو مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لیتا ہے اور انہیں دھوکہ دیتے دیتے مر جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں" (بخاری)۔ تو پاکستان کے عوام کو جمہوریت اور آمریت دونوں کو رد کرتے ہوئے خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کا ہمسفر بن جانا چاہیے کہ صرف خلافت کا قیام ہی ہمیں دنیا میں ہماری مشکلات کو دور کرنے میں ہماری معاون ہوگی اور آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کی خوشنودی کا باعث بنے گی۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک