المكتب الإعــلامي
کینیا
ہجری تاریخ | 25 من محرم 1438هـ | شمارہ نمبر: 01/1438 AH |
عیسوی تاریخ | بدھ, 26 اکتوبر 2016 م |
مراکش کی اپنے ماضی اور مستقبل سے غفلت
مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے اپنا تنزانیہ کا سرکاری دورہ مکمّل کر لیا ہے۔ بہت ساری چیزوں کے علاوہ ، رباط نے دارلسلام میں انتہائی جدید مسجد اور دودوما میں جدید اسٹیڈیم تعمیر کرنےکا وعدہ کیا ہے۔
بدقسمتی سے رباط کی خارجہ پالیسی نہایت سطحی سوچ اور اپنے شاندار ماضی سے عدم واقفیت پر مبنی ہے۔مراکش کے بادشاہ کا دورہ جنوبی ممالک کے مابین مفاہمت اور سفارتی و معاشی تعلقات کو مضبوط بنانے کے حوالے سے تھا۔ مراکش افریقی اتحاد میں اپنی واپسی کے لئےتنزانیہ کی مدد چاہتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ وہ جلد سے جلد اپنی کمپنیوں کو مغربی استعماری کمپنیوں اور افریقہ کے قدرتی وسائل کے مابین ایک رابطے کی کڑی بنانا چاہتا ہے۔مراکش اور تنزانیہ نے معاشی، ثقافتی، سیاحتی اور سیاسی مشاورت کے بائیس معاہدوں پر دستخط کیے۔
دیگر مسلم ریاستوں کی طرح مراکش کے پاس بھی سوائے اپنی بد اعمالیوں کو چھپانے، اور حکمرانی اور معیشت میں مغربی نقطہ نظر کو رائج کرنے کے نتیجے میں ابھرنے والی نا انصافیوں کی پردہ پوشی کرنےکے علاوہ کوئی کام نہیں بچا ہے۔اس کی تمام تر کوششیں نئی مساجد کی تعمیراور انتظام کی آڑمیں دراصل شاہی اور مغربی کمپنیوں کے اثرو رسوخ کو بڑھانا ہے۔مسجد کا کردار الله تعالیٰ کے کلام کو بلند کرنا ہے:
﴿فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ﴾
"(اللہ کا یہ نور) ایسے گھروں (مساجد اور مراکز) میں (میسر آتا ہے) جن (کی قدر و منزلت) کے بلند کئے جانے اور جن میں اللہ کے نام کا ذکر کئے جانے کا حکم اللہ نے دیا ہے (یہ وہ گھر ہیں کہ اللہ والے) ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں"(النور:36)
تو پھر کیسے ایک ریاست مساجد کی تعمیر کر سکتی ہے جبکہ اس ریاست میں اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہو رہا ہو اور کفریہ قوانین کا دور دورہ ہو؟ اس کے علاوہ کب سے ایک مسجد کی تعمیر اس معاشرے اور ریاست میں نافذ کیے جانے والے احکامات کی سچائی کے لئے ایک پیمانے کا کردار ادا کرنے لگی؟
بادشاہ حسن دوئم ، جو موجودہ بادشاہ کا پیشرو تھا، کیا اس نے کاسا بلانکا میں ایک وسیع مسجد کی تعمیر نہیں کی تھی؟ جو دنیا کی تیرھویں بڑی مسجد اور جس کا مینار دنیا کی تمام مساجد سے بلند تھااور جس کو مکمل کرنے کے لئے سات سال کی انتھک کوششیں اور بےپناہ وسائل کو استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ کیا مراکش اور مسلم دنیا کا احیاء ہو گیا اورذلّت اور پستی سے نکل کربلندی پر پہنچ گئے؟
مراکش تمام پہلوؤں سے بدحالی کا شکار ہے:اس کے لوگ غربت، خستہ انتظامی حالت، بدعنوان عدلیہ، زوال شدہ تعلیم، ایک تباہ حال شعبہ صحت ،اس کے قدرتی وسائل اور دولت ، بادشاہ اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہیں، جو اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جو کبھی علم اور تہذیب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ دنیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی القاوریین یہاں موجود تھی۔ آج اس کی اتنی ہمّت نہیں کہ یونیورسٹی سطح پر عربی کو رائج کرے۔
یہ کس طرح کی خود عائد کردہ ذلّت و رسوائی ہے؟ ابھی تو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں رباط کے کردار کا ذکر ہی نہیں، جو کہ دراصل اسلام کے خلاف جنگ ہےجو امریکہ اور مغربی ریاستوں کی خاطر لڑی جا رہی ہےاور اس کے نتیجے میں مراکش کے عوام کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی گئی ہیں۔
مراکش کے بادشاہ نے شمالی افریقہ کے متعدد دورےکئے اور اس وقت وہ مشرقی افریقہ کا دورہ کر رہا ہے(جس میں تنزانیہ اور روانڈا شامل ہیں، جبکہ اتھوپیا کا دورہ منسوخ کر دیا گیاہے)۔ ان تمام دوروں میں اس نے افریقہ کے ساتھ مسلمانوں کی شاندار اسلامی تاریخ کو اجاگر کیاحالانکہ ایک بہت بڑا فرق ہے اس شخص میں جو اسلام کو بطور رہنمائی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہےاور اس میں جو سرمایہ داریت او ر جمہوریت کی ترویج کرتا ہے اور افریقہ کو لوٹنے کے لئے مغربی ریاستوں کے لئے دروازے کھولتا ہے۔
کب مراکش اپنی تاریخ اور خاص کر اسلامی تاریخ سے آنکھیں چرانے کے عمل کو خیر باد کہے گا ؟ یہ وہ سرزمین ہے جس نے اسلام کو قبول کیا ، جس نے لوگوں کو یکجا کیا اورمسلمانوں اور تمام انسانیت کے لئے علمبردار اور راہ نجات کا ذریعہ بنایہاں تک کہ غیر مسلموں نے اپنے حکمرانوں کے جبر سے بچنے کے لئے ان سے مدد مانگی۔ اسپین کے رہنے والوں نے جس میں وسگوتھ کے معززین، جولین(کیوٹا کا گورنر) نے بد حالی اوربادشاہ روڈرک کے مظالم کی وجہ سے مسلمانوں کو ایبیریا فتح کرنے کی دعوت دی۔ان تمام میں جولین کی بیٹی کی روڈرک کے ہاتھوں زیادتی بھی شامل تھی۔
اس سرزمین سے طارق بن زیاد کی قیادت میں اندلس فتح کیا گیا اور اسلام بہت ساری افریقی ریاستوں میں پھیلا۔اس شاندار تارریخ کےمقابل آج کے حالات آسمان اور زمین کے مانند ہیں۔
اگر مراکش اپنی شاندار تاریخ سے جڑا رہتا تو آج یہ تمام جنوبی صحرائے صحارا کو بھی اسلام سے فتح کر چکی ہوتا۔اس کے بجائے اس نےسرمایہ داریت کو گلے لگایا اور اپنی شاندار تاریخ سے منہ موڑا اور اپنی تمام تر کوششیں کمزور حکمرانی کو بچانے اور اپنےپیٹ بھرنے میں صرف کیں۔ واضح طور پر ایک یکسر اسلامی تبدیلی ہی ہماری تاریخ دوہرا سکتی ہے۔
مسعود مسلم
کینیا میں حزب التحریرکے نمائندے برائےمیڈیا
المكتب الإعلامي لحزب التحرير کینیا |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ تلفون: +255778 870609 |
E-Mail: jukwalakhilafah@gmail.com |