الأربعاء، 01 ربيع الأول 1446| 2024/09/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

خبر اور تبصرہ فوج اور حکومت کے درمیان خفیہ رسہ کشی

خبر:

پاکستان میں جاری سیاسی بحرا ن اس وقت سے طول پکڑتا جا رہا ہے جب گزشتہ ہفتے کے دن یعنی 23 اگست 2014 کو حکومتی نمائندوں اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کا تیسرا دور کسی پیش رفت کے بغیر اختتام کو پہنچا۔ تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو 30 دن کے لیے استعفی دینا چاہیے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات ہو سکیں۔اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور اپنے حمایتیوں سے کہا کہ اس مطالبے کے پورا ہو نے تک ملک کے طول و عرض میں دھرنے جاری رہیں گے۔
تبصرہ:
1 ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ اسلامی ممالک جن میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل ہیں جو عرب بہارکا شکار ہوئے اب تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکے۔ اسی طرح بعض تجزیہ نگار یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ممالک، جہاں یہ بہار نہیں پہنچی، محفوظ ہیں اور وہاں کے رہنے والے اپنے حکمرانوں کے ساتھ خوش و خرم رہ رہے ہیں جو اگر چہ کسی بھی طرح اپنے ان ہم عصر حکمرانوں سے کم ظالم نہیں جو عرب بہار کا چکار بنے تھے۔ تا ہم یہ دونوں قسم کے تجزیہ نگار غلطی پر ہیں۔ بہت سے ممالک میں اگر چہ ہنگامے نہیں پھوٹے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے لوگ اپنی حکومتوں اور نظام سے راضی ہیں۔ حالات کسی بھی ایسی جماعت یا عوامی رہنما کے لیے بالکل تیار ہیں جو ان حکمرانوں کو برطرف کرنے میں عوام کی قیادت کرے، خواہ وہ لیڈر امت کی اسلامی شناخت کا مظہر نہ ہو اور نہ ہی ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کیے جائیں جیسا کہ عمران خان اور طاہر القادری۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام بھی خود پر مسلط نااہل حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے اسی قدر بے چین ہیں جس قدر کہ عرب بہار کے ممالک میں موجود ان کے مسلمان بھائی۔
2 ۔ پاکستانی عسکری قیادت میں موجود غداروں اور ان کے پشت بان امریکہ نے عوام اور افواج میں موجود ان جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ لوگوں کی توجہ وزیرستان کے مجرمانہ آپریشن سے ہٹا دی جائے جس کا مقصد افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام خائن سیاسی اور عسکری قیادت کے اختلافات کی بحث میں مشغول ہو جائیں جو اپنے آقا امریکہ کی خدمت پر متفق ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت وزیرستان آپریشن کے بارے میں متفق نہیں ہے۔ درحقیقت دونوں کے اپنے سیاسی زرائع ہیں اور وہ دونوں انہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا عسکری قیادت میں موجود غداروں نے نواز حکومت اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان جذبات سے فائدہ اٹھایا تاکہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت کریں جس کو عوام اور فوج کا ایک بڑا حصہ مسترد کرتے ہیں، خصوصا درمیانی رینک کے افسران اور ان سے نیچے والے افسران اور جوان اور لڑنے والے سپاہی۔ اس کے علاوہ فوجی قیادت میں موجود غدار یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے ان کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور صورتحال کی ذمہ داری نواز شریف پر ڈالی جائے تاکہ اس آپریشن کے خلاف فوج میں موجود غصے کا رخ ان کی جانب سے نواز شریف کی جانب مڑ جائے۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ اپنے امریکی آقا کا شکر گزار ہے کہ اس نے اسے تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر اقتدار دلوادیا ہے اس لیے وہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
3 ۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی جماعتوں کی پشت پناہی کی تاکہ حکومت کے خلاف عوام اور فوج میں موجود لوگوں کے جذبات کو استعمال کیا جائے تا کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور اپنے خلاف موجود غصے کا رخ حکومت کی جانب پھیر دیا جائے۔ فوجی قیادت میں موجود غدار فوج کے سامنےایسا ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت نے تحریک طالبان سے مذاکرات پر اصرار کیا جبکہ عسکری قیادت میں موجود غدار فوجی آپریشن شروع کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ نواز شریف نے انتہائی نازک موقع پر اس آپریشن کے حق میں اپنی حمائت فراہم کی لیکن اس کے ساتھ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے اس جانب بھی افواج کی توجہ مبذول کروائی کہ حکومت سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ڈرا دھمکا رہی ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہےاور خاص طور پر وزیر دفاع خواجہ آصف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے خاص طور پر حکومت کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ یہ وہ سارے اسباب ہیں جن کی وجہ سے فوجی قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی پارٹیوں کے ذریعے حکومت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیاہے۔ اس کے بعد امید ہے کہ حکومت سبق حاصل کر لے گی اور اسی سمت میں چلے گی جس کی جانب فوجی قیادت چلانا چاہتی ہے۔ لیکن امت بدستور اس حقیقی قیادت کے انتظار میں ہے جو ان امریکی ایجنٹوں کی سرکوبی میں اس کی قیادت کرے گی اوران پر ان کے رب کی شریعت کو خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے سائے میں نافذ کرے گی اور بے شک اللہ کے اذن سے بہت جلد ایسا ہی ہونے والا ہے۔

یہ تبصرہ ابوعمر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا ہے۔

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں جمہوری حکمران اور سیاست دان پاکستان کو سیلاب سے بچانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے

ایک بار پھر جمہوری حکمران پاکستان اور اس کے عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے ممکنہ بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ حکمران خود پر ہونے والی تنقید سے بچنے کے لئے اس کی ذمہ داری محکمہ موسمیات پر ڈال رہے ہیں کہ انہوں نے پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ حزب التحریر ان نام نہاد عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں سے سوال کرتی ہے کہ کیا وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ 2010 سے اب تک پاکستان میں تین سیلاب آچکے ہیں جن میں سے 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا؟ کیا یہ جمہوری و عوامی حکمران اس بات سے بھی بے خبر تھے پاکستان پچھلے تین سالوں میں عالمی موسمی تغیراتی انڈیکس میں پہلے نمبر پر آرہا ہے؟ یہ حکمران جو خود کو عوامی نمائندے کہتے نہیں تھکتے اگر واقعی عوام کی مشکلات اور تکالیف دور کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تو کس طرح ان باتوں سے بے خبر ہوسکتے تھے؟
جمہوریت کے گُن گانے والے حکمرانوں نے 2010 میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب سے نقصانات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے اور آنے والے دنوں میں ان نقصانات سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنا تو دور کی بات بلکہ اس رپورٹ کو دفن کردیا۔ ان تجاویز پر پہلے پی۔پی۔پی نے اور پھر پی۔ ایم۔ایل(ن) کی جمہوری حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ جمہوری سیاست دان عوام کے خوان پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی رقم کو بڑے بڑے شہروں میں پانی کے نکاس کے منصوبے شروع کرنے کے لئے استعمال تو نہیں کرتے لیکن اربوں روپوں کی لاگت سے تیار ہونے والی میٹرو بس سروس شروع کرتے ہیں کیونکہ زمین کے نیچے بچھنے والے نکاسی کے پائپ کسی کو نظر نہیں آتے اور بارشیں کون سی روز روز ہوتی ہیں لیکن سڑک پر دوڑتی میٹرو بسیں روزانہ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے اور پھر اگلی انتخابی مہم میں اپنی کارکردگی جتانے کے لئے ایسے منصوبوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔
درحقیقت جمہوریت ایسے سیاست دان پیدا کر ہی نہیں سکتی جو عوام کے دکھ درد اور تکالیف کو دور کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہوں۔ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار امریکہ میں بھی عوام کو قدرتی آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔2005 میں امریکہ میں کاترینہ طوفان کے بعد لوگوں کی دیکھ بحال میں ہونے والی ناکامی کی وجوہات کا تعین کرنے کے لئے کانگریس کی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا کہ "F.E.M.A (فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی) اور ریڈ کراس کے پاس وہ صلاحیت موجود نہیں تھی کہ وہ متاثرین کی بڑی تعداد کو مدد فراہم کرسکتے"۔ اس رپورٹ میں طوفان سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ذمہ داری وفاقی، ریاستی اور شہری،تینوں حکومتوں پر ڈالی گئی۔
اسلام نے سیاست کو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا اور فرض قرار دیا ہے اور اس فرض میں کوتاہی یا ناکامی پر حکمرانوں کو قیامت کے دن اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ "اگر عراق کی زمین پر کوئی جانور بھی گر پڑا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی سڑک کو ٹھیک نہ رکھنے پر میرا محاسبہ کریں گے"۔ پاکستان کے عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت دونوں میں حکمران خود کو عوام اور اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالٰی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ یہ صرف خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ، عوام اور اللہ سبحانہ و تعالٰی، دونوں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور اللہ کے سامنے جوابدہی سب سے سخت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "اس شخص کا کوئی والی نہیں جو مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لیتا ہے اور انہیں دھوکہ دیتے دیتے مر جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں" (بخاری)۔ تو پاکستان کے عوام کو جمہوریت اور آمریت دونوں کو رد کرتے ہوئے خلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کا ہمسفر بن جانا چاہیے کہ صرف خلافت کا قیام ہی ہمیں دنیا میں ہماری مشکلات کو دور کرنے میں ہماری معاون ہوگی اور آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کی خوشنودی کا باعث بنے گی۔
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

حزب التحریر نے پاکستان بھر میں بیانات کی مہم چلائی حقیقی تبدیلی خلافت ہے جو افواج پاکستان سے نصرۃ طلب کرنے کی ذریعے سےہی آئے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے پاکستان بھر میں عوامی بیانات کی مہم چلائی۔ اس مہم کا مقصد جمہوریت اور آمریت کے تماشے کو بے نقاب کرنا تھا جس نے پاکستان کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ مساجد اور عوامی مقامات پر خطاب کرتے ہوئے حزب التحریر کے شباب نے عوام سے کہا کہ موجودہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکمرانی میں ہوں یا حزب اختلاف میں ، موجودہ اس کفریہ نظام کی حمائت کر کے خود کو بے نقاب کرچکی ہیں جس کو برطانوی راج اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ جماعتیں امت کی اسلام کی بنیاد پرتبدیلی کی مقدس اور پاک خواہش کو استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی ترویج کررہے ہیں جو صرف ان جماعتوں اور ان کے واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے آقاوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
مقررین نے امت سے کہا کہ وہ سیاسی جماعتوں سے جمہوریت کو دھتکارنے اور خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی تبدیلی صرف خلافت کا قیام ہے کیونکہ خلافت اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کو نافذ کرتی ہے جبکہ جمہوریت امریکی ایجنٹوں کی خواہشات کو قوانین بنانے کا اختیار دیتی ہے۔
مقررین نے امت سے کہا کہ وہ حزب التحریر میں شمولیت اختیار کریں اور اس کے ساتھ مل کر خلافت کے قیام کی فرضیت کو پورا کریں جو اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ان پر عائد کی ہے۔ انہوں نے امت سے کہا کہ وہ افواج پاکستان میں موجود اپنے والد، چچاؤں، بیٹوں اور دوستوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اسلام کی حکمرانی کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کریں بالکل ویسے ہی جب انصارِ مدینہ نے رسول اللہﷺ کی دعوت پر مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لئے انہیں نصرۃ فراہم کی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو اجر عظیم عطا فرمائے جو ظالم حکمرانوں کے سامنے بہادری کے ساتھ کلمہ حق بلند کرتے ہیں اور کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
﴿مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾
"کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے" (ق:18)

افواجِ پاکستان کوجمہوریت کی حمایت کرنے کی بجائے خلافت کے قیام کے لئے نُصرہ فراہم کرنی چاہیے


پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہونے والی طویل اور پرتشدد محاذ آرائی کے دوران امریکہ نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ وہ جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔ جب یہ بحران پروان چڑھ رہا تھا تو اس دوران پاکستان میں موجود امریکی سفیر مد مقابل جماعتوں سے ملاقاتوں میں مصروف تھا اور اس نے سب پر واضح کیا کہ وہ صرف ایسی تبدیلی کی حمایت کرے گا جو جمہوریت کے آئین کے مطابق ہو گی۔ پھر جب بحران سنگین ہوتا چلا گیا تو امریکی دفتر خارجہ کے نائب ترجمان نے 22 اگست 2014 کو بیان دیا کہ "امریکی سفیر کی پاکستان میں کئی عہدیداروں سے اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں" اوراس بیان کے دوران امریکی نائب ترجمان نے ایک مرتبہ پھر جمہوریت کے آئین پر عمل کرنے پر زور دیا۔ اس کے بعد 29 اگست 2014 کو جب پرتشدد ٹکراؤکا خطرہ منڈلا رہا تھا، امریکی دفتر خارجہ نے پھر اس بات پر زور دیا کہ "پر امن مظاہرے اور آزادیٕٔ اظہار...جمہوریت کے اہم پہلو ہیں "۔
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے کہ جن کے ذریعے امریکہ پاکستان اور اس کی افواج کو کنٹرول کرتا ہے تو انہوں نے بھی اپنے آقا کی بات کوہی دہرایا کہ وہ جمہوریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ راحیل-نواز حکومت نے یکم ستمبر 2014 کوآئی.ایس.پی.آر (ISPR) کے ذریعے یہ بیان دیا کہ "فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جو کئی موقعوں پر جمہوریت کی حمایت کا واضح اظہار کرچکا ہے"۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اس نے اعلان کیا کہ اس کی جدوجہد جمہوریت ہی کے لیے ہے اور یوں اس نے خود کو پاکستان کے عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرح وہ بھی پاکستان پر حکمرانی کرنے کی اہل نہیں ہے۔یکم ستمبر 2014 کو عمران خان نے بڑے فخر سے کہا کہ "میری اٹھارہ سال کی جدوجہد انصاف اور 'جمہوریت' کے لیے ہے"۔
پس امریکہ نے براہِ راست بھی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ جمہوریت ہی کی حمایت کی جائے گی کیونکہ آمریت کی طرح جمہوریت بھی پاکستان میں امریکہ کے مفادات کو یقینی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 12 دسمبر 2012 کو بی.بی.سی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے پورے اعتماد سے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں "ہمارا گھوڑا جمہوریت ہے"۔ جی ہاں ! یقینا، یہ جمہوریت ہی ہے جسے امریکہ اپنے مفاد کے مطابق چلاتا ہے چاہے کوئی بھی اس گھوڑے کا سوار بن جائے ، خواہ وہ پی پی پی ہو، پاکستان مسلم لیگ (ن) ہو یا پاکستان تحریک انصاف۔
جمہوریت کی باگ ڈور حقیقتاً امریکہ ہی کے ہاتھوں میں ہے کیونکہ جمہوریت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے بغاوت کا نظام ہے۔جمہوری نظام اسمبلیوں میں موجود مرد و خواتین کو قانون ساز قرار دیتا ہے اور انہیں اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ ان احکامات کو پسِ پشت ڈال دیں جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق قوانین بنائیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرما چکا ہے: (وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ) "(اے محمدﷺ) ان کے درمیان اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے مطابق حکمرانی کریں اور ان کی خواہشات کی پیروی ہرگز نہ کیجئے گا اور خبردار رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض احکامات کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈال دیں" (المائدہ:49)۔ امریکہ پاکستان کے حکمرانوں اور اسمبلیوں کے اراکین سے مسلسل رابطے رکھتا ہےاور ان کے ذریعے پاکستان کے قوانین کو اپنے مفادات کے مطابق بنواتا ہے۔ لہٰذا یہ جمہوریت ہی ہے جس نے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کو روک رکھا ہے اور اس کی بجائے امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنارہی ہے۔
پس جمہوریت کے ذریعے امریکہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ نجکاری کے ذریعےپاکستان کے توانائی کے وسیع ذخائراور معدنیات کی دولت کی لوٹ کھسوٹ جاری ر ہے اور پاکستان ایک طاقتور معاشی طاقت کے طور پر نہ ابھرسکے۔ جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پاکستان کی طاقتور افواج کو مغربی مفادات کی تکمیل کے لئے تودنیا کے کونے کونے میں بھیجا جائے لیکن جب کشمیر و فلسطین کے مسلمان اپنی افواج کو پکاریں تو انہیں بیرکوں میں ہی پڑا رہنے دیا جائے۔ آج جمہوریت ہی پاکستان میں امریکہ کے قائم کردہ وسیع جاسوسی اور نجی فوجی نیٹ ورک کو کام کرنے کی اجازت دیے ہوئے ہے جو ہماری افواج پر حملے کرواتی ہیں تا کہ ان حملوں کو جواز بنا کرپاکستانی افواج کو امریکہ کی جنگ لڑنے کے لئے قبائلی علاقوں میں بھیجا جاسکے۔ اس کے علاوہ اس لاحاصل اور تباہ کن جدوجہد کا بندوبست کرکے کہ کون اس امریکی گھوڑے یعنی جمہوریت پر سواری کرے گا، امریکہ مسلمانوں کے رخ کو پاکستان میں خلافت کے قیام کے ذریعے امریکی راج کے خاتمے سے پھیرنا چاہتا ہےکیونکہ صرف خلافت ہی پاکستان کے وجود کو امریکی موجودگی اور اس کے اثرو نفوذ کی غلاظت سے پاک کرسکتی ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! جمہوریت سے منہ موڑ لو، اس سے کوئی امید نہ لگاؤکیونکہ یہ کفر کا نظام ہے، جسے تمہارے سروں پر اس لیے نافذ کیا گیا ہے تاکہ تمہاری اعلیٰ تمناؤں اور عظیم صلاحیت کو کچلا جا سکے۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ جمہوریت کے خاتمے اور خلافت کے قیام کے لئے کام کریں۔ اور آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ حزب التحریر میں شمولیت اختیار کریں جس کا نظریہ حیات اسلام ہے اور جو رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (وَلْتَكُنْ منكُمْ أمّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ويَأمُرُونَ بِالمَعْرُوفِ ويَنْهَوْنَ عَنِ المُنْكَرِ وَأُولئكَ هُمُ المُفْلِحُون) "اور تم میں کم ازکم ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے اور یہی لوگ کامیاب ہیں" (آل عمران:104)۔
اے افواج پاکستان! یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی آپ پر ہی منحصر ہے اور باقی مسلم دنیا کی بھی یہی حقیقت ہے۔ مصر کی افواج کی رضامندی اس بات کا سبب بنی کہ مرسی کو جمہوری گھوڑےکے سوار کے طور پر لایا گیا اور پھر مصری افواج کے حرکت میں آنے کے نتیجے میں ہی مرسی کےا قتدار کا خاتمہ ہوا اور پھر جمہوریت کے گھوڑے پر سواری کے لیے ایک نیا سوارجنرل سیسی آگیا۔ ترکی میں بھی جمہوریت فوج کے کندھوں پر کھڑی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو آج ہمارے لوگ اس لیے مصائب کا شکار ہیں کیونکہ آپ کی قیادت میں موجود غدار آپ کی طاقت کو جمہوریت کے امریکی گھوڑے کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تو آپ کس طرح اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ آپ کی طاقت کو جمہوریت کے کفریہ اور اللہ سے بغاوت پر مبنی نظام کی خاطر استعمال کیا جائے؟!
اے افواج پاکستان ! جان لیں کہ یہ آپ کی قیادت میں موجود غدار ہی ہیں جو جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنائے ہوئے ہیں اور اسلام کی واپسی کو روکے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غدار ہر اس آفیسر کو ترقیاں دیتے ہیں اور انعامات سے نوازتے ہیں جو ہمارے دشمن امریکہ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار ہو اور دنیا کے مال و دولت کے بدلے اپنے لوگوں اور اپنے دین کو بیچ دے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی قیادت میں موجود غدار ہر اس آفیسر کو سزا دیتے ہیں جواسلام کا مضبوط حامی ہو جیسا کہ بریگیڈئر علی خان جیسی معزز شخصیت ، جنہیں پندرہ مہینے تک محبوس رکھنے کے بعد قید کی سزا سنائی گئی اور وہ اب تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خلافت کے قیام کے جشنِ استقبال میں انہیں کندھوں پر اٹھایا جاتا ۔ تو آپ کیسے اپنی طاقت و قوت کے موجودہ غلط استعمال کو قبول کرسکتے ہیں جبکہ آپ نے اللہ کے سامنے یہ قسم اٹھا رکھی ہے کہ آپ اس ملک اور اس کے لوگوں کی حفاظت کریں گے؟!
جان لیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک خاص طریقہ کار پر چلتے ہوئے اسلامی ریاست قائم کی اور تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود آپﷺ اس طریقہ کار سے پیچھے نہیں ہٹے اور وہ طریقہ کار یہ تھا کہ طاقت و قوت کے حامل لوگوں سے اسلامی ریاست کے قیام کے لئے نُصرہ طلب کی جائے۔ پس رسول اللہﷺ ذاتی طور پر عرب قبیلوں کے جنگجو سرداروں سے ملے اور ان سے دین کے مکمل اور فوری نفاذ کے لئے نصرۃ طلب کی۔ اے افواجِ پاکستان یہ آپ کےآباؤ اجداد تھے اور آج آپ ان کے جانشین ہیں۔ رسول اللہ ﷺ صبر و استقامت کے ساتھ اسی طریقہ ٔکار پر کاربند رہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اور نہ ہی کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پروا کی یہاں تک کہ اللہ نے انصارِ مدینہ کے مختصر لیکن مخلص اور بہادر جنگی گروہ کے ذریعے آپﷺ کی مدد کا اہتمام فرما دیا جنہوں نے عقبہ کے مقام پر آپﷺ کو بیعت دی، جو کہ اس دین کے نفاذ و تحفظ کی خاطر لڑنے کی بیعت تھی ۔
رسول اللہﷺ کا اختیار کردہ طریقہ کار اس بات کو فرض بناتا ہے کہ اسلام کو حکمرانی اور ریاست کے طور پرقائم کرنے کے لئےنصرۃ دی جائے۔ لہٰذا آج حزب التحریر آپ کے سامنے موجود ہے اور آپ سے خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے کہ جس سے آپ اس دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں عزت حاصل کریں گے،جب آپ ظلم کی حکمرانی کا خاتمہ کریں گے اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کردیں گے۔ امام احمدبن حنبل روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ)) "پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ اس کا خاتمہ کردے گا جب وہ چاہے گا۔ اور پھر خلافت قائم ہوگی نبوت کے نقشِ قدم پر۔ اس کے بعد آپﷺ خاموش ہوگئے"۔

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک