الأربعاء، 01 ربيع الأول 1446| 2024/09/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

ضرب عضب رسول اللہ ﷺ کی مبارک تلوار نہیں ہے بلکہ امریکہ و بھارت کے تعلق کو مضبوط کرنے کا نام ہے

 

تحریر: خالد صلاح الدین
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپریشن ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہی تسلسل کا نام ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو امریکہ نے 11ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے کے بعد شروع کی۔ جنرل مشرف نے ایک پالیسی فیصلہ کیا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اس امریکی جنگ میں شامل ہونا ہے۔ اب وہی مشرف پاکستانی عدالتوں میں انتہائی غداری کے مقدمات کا سامنا کررہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان آرمی کی براہ راست شمولیت سانحہ لال مسجد کے ساتھ شروع ہوئی۔ اب جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ اس سے قطعی مختلف ہیں جو اس وقت غدار مشرف نے میڈیا پر پھیلائے تھے۔ اس نے اپنے ہاتھ لال مسجد آپریشن میں مسلمان عورتوں اور بچوں کے مقدس خون سے رنگے تھے۔
مشرف نے پاکستان کے عوام کے سامنے عموماً اور افواج پاکستان کے سامنے خصوصاً یہ تصویر پیش کی تھی کہ لال مسجد کے مولانا امن معاہدے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اور اس وجہ سے تشدد کا راستہ مجبوراً اختیار کرنا پڑا۔ امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری لال مسجد میں موجود لوگوں پر ڈالی گئی اور ایک بھر پور فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی جس کو سول سوسائٹی، میڈیا، تجزیہ کاروں اور اسٹبلشمنٹ کے لبرل حلقوں کی حمائت حاصل تھی۔ آپریشن کے سات سال بعد سامنے آنے والے حقائق مشرف کو اس جرم کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں اور ایسا بالکل صحیح بھی ہے۔ لال مسجد کمیشن نے کہا کہ "رضا کارانہ گواہی دینے والوں اور عدالتی گواہان کے بیانات سے یہ بات واضح ہے کہ اموات سے بچا جاسکتا تھا.....انہوں نے پرویز مشرف کو جو کہ اس وقت صدارت کی کرسی پر براجمان تھے، اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا"(1)۔
واقعات کا تھوڑا سا پس منظر جاناا ضروری ہے کیونکہ لوگوں کو دھوکہ دینے کی اس پالیسی کو اگلی ایک دہائی تک مشرف کے بعد آنے والوں نے بھی جاری رکھا تا کہ امریکی پالیسی مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔ مسلسل ہونی والی پرتشدد کاروائیوں کا ذمہ دار اسلامی انتہا پسندوں کو قرار دیا گیا ، امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری دہشت گردوں پر ڈالی گئی اور فوجی آپریشن شروع کیے گئے جس نے افواج پاکستان کو ایک انتہائی مشکل صورتحال میں ڈال دیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی فوجی آپریشن کا مقصد امن کا قیام کبھی بھی نہیں تھا۔ ہر بار یہ بات ثابت ہوئی کہ فوجی قیادت میں موجود غدار اور امریکہ قبائلی علاقوں میں امن یا استحکام کے قیام کے لیے نہ ہی سنجیدہ تھے اور نہ ہی ان کا یہ ارادہ تھا۔درحقیقت دونوں کا کردار تنازعہ کو برقرار رکھنے اور امن مذاکرات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی رائے عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لئے استعمال کرنے اور جنوبی ایشیاء میں امریکی ایف-پاک پالیسی کو افواج پاکستان کی قیادت میں موجود غداروں کی مدد سے نافذ کرنا تھا۔
اس کے بعد 2009 میں سوات میں راہ راست فوجی آپریشن کیا گیا۔ ایک بار پھر اس آپریشن کو شروع کرنے سے پہلے ایک نام نہاد امن معاہدہ سوات کے صوفی محمد اور حکومت پاکستان کے درمیان کیا گیا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد ایک لڑکی کو کوڑے مارنے اور ایک فوجی کے سر قلم کرنے کی وڈیو جاری ہوئی جس نے ایک اور فوجی آپریشن کی راہ ہموار کی۔ زمینی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ فوجی و سیاسی قیادت میں موجود غدار کبھی بھی نہ تو امن معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی اس کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اس بات کا ثبوت اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکی سیکریٹری خارجہ ہلری کلنٹن کی مارچ 2010 میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس ہے جس میں ہلری کلنٹن نے کہا : "آپ نے سوات کا معاہدہ کیا ہے؟ یہ تو شکست کی مانند ہے"۔ شاہ محمود نے کہا : "رکیے، رکیے۔ وہ ایک طریقہ کار ہے۔ ٹہریے۔ اس وقت تک ٹہریں جب تک آپ نتائج نہ دیکھ لیں۔ اور ہم نے نتائج دِکھا دیے ہیں"(2)۔
اکثر امن معاہدوں کا یہی حشر ہوا۔ شمالی وزیرستان کے نیک محمد وزیر نے اپریل 2004 میں شکئی امن معاہدے پر دستخط کیے لیکن اسے جون 2004 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا(3)۔ جنوبی وزیرستان کے بیت اللہ محسود نے فروری 2008 میں امن معاہدے پر دستخط کیے۔ اس نے ایک لیفلٹ جاری کیا جس میں اس نے اپنے ساتھیوں کو پاکستان میں حملے کرنے سے روک دیا تھا کیونکہ امن مذاکرات جاری تھے۔ اس کو بھی اگست 2009 میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا(4)۔ اسی طرح مئی 2013 میں ایک اور ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے نائب سربراہ ولی الرحمان کو ہلاک کردیا گیا جس کی شہرت یہ تھی کہ وہ طالبان میں امن کی سوچ رکھنے والوں میں سے ہے۔ اس ڈرون حملے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ "اس ڈرون حملے میں امن کا حامی سمجھے جانے والے ولی الرحمان کے قتل کا بدلہ لینے کے نتیجے میں ہمارے سپاہی قتل اور زخمی ہوئے! یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے"(5)۔ اس حملے کے کچھ ہی عرصے کے بعد نومبر 2013 میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو اس وقت ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا جبکہ اس کے اور حکومت پاکستان کے درمیان امن مذاکرات جاری تھے(6)۔ اسی مہینے میں حقانی نیٹ ورک (جس کی وجہ شہرت افغانستان میں امریکی افواج پر حملےہے ) کے ترجمان نصیر حقانی، جو جلال الدین حقانی کے بیٹے بھی تھے، کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا(7)۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ضرب عضب کسی بھی پچھلے فوجی آپریشنوں سے کوئی مختلف آپریشن ہے اور اس سے کوئی نیا نتیجہ برآمد ہوگا تو وہ تاریخ اور حقائق کو جانتا ہی نہیں ہے۔ ضرب عضب کے باضابطہ اعلان کے بعد جو پہلا فضائی حلہو کیا گیا وہ دتہ خیل ڈسٹرکٹ پر تھا جو کہ مشہور طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کا علاقہ تھا جس میں 140 مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا(8)۔ حافظ گل بہادر نے 2006 میں پاکستان آرمی کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور اس وقت سے اس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس نے امن معاہدے کی پاسداری کی اور اپنی توجہ افغانستان میں موجود نیٹو افواج پر حملے کرنے پر مرکوز رکھی۔ ضرب عضب کا باضابطہ اعلان 15جون 2014 کو کیا گیا تھا اور اس وقت سے 23 جون تک حافظ گل بہادر نے امن معاہدے کو توڑنے کا اعلان نہیں کیا جبکہ اسی دوران دتہ خیل، میران شاہ، میر علی اور شوال وادی میں ہونے والے حملوں میں قبائلی بہت بڑی تعداد میں مارے گئے تھے(9)۔ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے ایک دہائی سے جاری امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بار پھر ایک نام نہاد امن معاہدے کو عملی تعبیر دینے کی اجازت دی جس کو عملی جامہ راحیل۔نواز حکومت نے پہنایا تاکہ مذاکرات کے دھوکے میں امریکی ایما ء پر ایک اور فوجی آپریشن کیا جائے جس کی تیاری جنوری 2014 سے ہی شروع کردی گئی تھی(10)۔
امن مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری طالبان پر کس طرح ڈالی جاسکتی ہے جبکہ شمالی وزیرستان میں ایک بھر پور آپریشن کی تیاریاں چھ مہینے پہلے سے ہی جاری تھیں؟ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا معاملہ بھی کسی طرح سوات، جنوبی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں ہونے والے آپریشنوں سے مختلف نہیں ہے۔ ہر امن معاہدے کے دوران مذاکرات کے لئے اختیار کیا جانے والا غیر سنجیدہ رویہ اس بات سے واضح تھا کہ حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی مذاکراتی ٹیم بے اختیار ہوتی تھی جس میں اہم سیاسی جماعتوں میں سے کسی کی کوئی نمائندگی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی افواج پاکستان کا کوئی نمائندہ ان میں موجود ہوتا تھا۔ شمالی وزیرستان میں امن مذاکرات حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے چلائے لیکن پھر اچانک آپریشن کے آغاز کا اعلان آئی۔ایس۔پی۔آر کی جانب سے کیا جاتا ہے نہ کہ وزیر اطلاعات کی جانب۔ اہم ترین اپوزیشن جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف (تحریک انصاف قبائلی علاقوں سے منسلک صوبے خیبر پختون خواہ میں حکومت میں ہے) نے واضح طور پر اعلان کیا کہ انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ جلد ہی فوجی آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ لیکن آپریشن شروع ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو کھل کر اس آپریشن کی حمائت کا اعلان کرنا پڑا کیونکہ اصل اختیار والوں نے تو آپریشن شروع کر ہی دیا تھا(11)۔ ضرب عضب آپریشن شروع کرنے کے لئے درکار عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے 8 جون 2014 کو کراچی ائرپورٹ پر ہونے والے انتہائی تباہ کن حملے کو استعمال کیا گیا۔ اس حملے کے اختتام سے قبل ہی اس کا ذمہ وزیرستان پر ڈال دیا گیا۔ سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ اس تباہ کن حملہ کی منصوبہ بندی شمالی وزیرستان میں موجود ازبک جنگجوؤں اور پاکستانی طالبان نے کی ہے(12)۔
کراچی ائرپورٹ پرحملے سے صرف تیس دن قبل، 7 مئی 2014 کو جوئیل کاکس، جس کو امریکی دفتر خارجہ نے ایف۔بی۔آئی ایجنٹ قرار دیا، کو کراچی ائرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ایس۔ایس۔پی ملیر کینٹ کے مطابق اس کے قبضے سے 9ایم ایم کی پندرہ گولیاں میگزین سمیت تین خنجر، جاسوسی کے لئے استعمال ہونے والا کیمرہ اور دیگر آلات برآمد ہوئےتھے(13)۔ آخر کیوں پاکستان میں موجود ایجنسیوں نے ایک غیر ملکی ایجنسی کے ایجنٹ کا کراچی ائرپورٹ حملے سے کوئی تعلق جاننے کی کوشش نہیں کی؟ جبکہ اس کی جگہ وزیرستان کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دینے کے لئے کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور تباہ کن فضائی حملے شروع کردیے گئے۔ یہ پہلا واقع نہیں ٍہے جہاں پاکستانی ایجنسیوں نے اس قسم کے ایک واقعہ کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔ جولائی 2014 کو اسلام آباد ائر پورٹ سے ایک اور امریکی سکو رٹی ٹریرن گرفتار ہوتا ہے لیکن اسے بھی جلد ہی رہا کردیا گیا(14)۔ یہ بات قابل یاد دہانی ہے کہ اس سے قبل 27 جنوری 2011 کو ریمنڈ ڈیوس، ایک نجی ملٹری کنٹریکٹر کو اس بات کے باوجود رہا کردیا گیا کہ اس نے دن دہاڑے لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کردیا تھا۔ اب یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں کیا کررہا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے شرمناک کردار ادا کیا جو سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی امریکی پالیسی سے وفاداری کا ثبوت تھا۔
شمالی وزیرستان میں ہونے والا فوجی آپریشن پاکستان کی جنگ نہیں ہے۔ ایک عرصے سے امریکہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتا آرہا تھا۔ یہ مطالبہ اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ گیا جب امریکی کانگریس نے افواج پاکستان کو ملنے والی 1.2ارب ڈالر کی فوجی امدادکو شمالی وزیرستان آپریشن سے مشروط کردیا۔ امریکی سیکریٹری خارجہ کے لیے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ اس امداد کو جاری کرنے کے لئے لکھ کر یہ دے کہ "پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشنز کیے ہیں جس کے نتیجے میں محفوظ ٹھکانوں اور حقانی نیٹ ورک کی نقل و حرکت کو کافی نقصان پہنچا ہے"(15)۔ عمران خان نے کانگریس کے اس نئے قانون کے متعلق کہا کہ "امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے لئے حکومت کو رشوت دے رہا ہے"(16)۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے متعلق میڈیا میں سب سے پہلے 24 جنوری 2014 کو خبریں آئیں کہ مارچ میں یہ آپریشن شروع ہوسکتا ہے(17)۔ جس کے بعد امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت 352 ملین ڈالر 12 فروری 2014 کو جاری کیے(18)۔ ضرب عضب شروع کیے جانے کے بعد امریکہ نے 2015 کے مالیاتی سال کے تحت 960 ملین ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت دینے کی منظوری دی(19)۔ اگر آپریشن ضرب عضب رسول اللہﷺ کی تلوار کے نام کی نسبت سے شروع کی گئی ہے تو پھر اس جنگ کو کولیشن سپورٹ فنڈ کے امریکی ڈالروں سے کیوں لڑا جارہا ہے؟
لہٰذا یہ آپریشن امریکی جنگ کا ہی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس جنگ کا براہ راست فائدہ جہاں امریکہ کو پہنچتا ہے وہیں بھارت میں امریکہ کی نئی اتحادی مودی حکومت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ نواز راحیل-نواز حکومت کی موجودگی میں آپریشن ضرب عضب کی منصوبہ بندی جنوری 2014 میں کی گئی اور اس کو مارچ-اپریل 2014 میں شروع کیے جانے کا امکان تھا۔ لیکن بھارت میں ہونے والے 16 مئی 2014 کے انتخابات کی وجہ سے امریکہ نواز بی۔جے۔پی کی فتح تک اس آپریشن میں تاخیر کی گئی۔ صرف ایک ہفتے بعد 21 مئی 2014 کو پاکستان کے جیٹ لڑاکا طیاروں نے شمالی وزیرستان میں بمباری کی اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں 60 دہشت گرد ہلاک کردیے گئے۔ اس کے بعد جلد ہی شمالی وزیرستان میں فوج کی بھاری نقل و حمل شروع ہو گئی اور اس دوران طیارے دتہ خیل۔ میران شاہ، میر علی اور خیبر ایجنسی میں بمباری کرتے رہے۔ 2 جون 2014 تک پاکستان نے بھارتی سرحدوں پر تعینات اپنی افواج کا تقریباً ایک تہائی حصہ مغربی سرحد پر پہنچا دیا(20)۔ اس قدر بھاری نقل و حمل بھارتی افواج کے لئے زبردست فائدے اور سکون کا باعث بنا ۔
یہ نقل و حرکت ایک منصوبے کا حصہ تھی۔ یہ اس منصوبے کا حصہ تھا جس کے تحت افواج پاکستان کی تمام تر توجہ کا مرکز دشمن بھارت سے موڑ کر قبائلی علاقوں میں موجود امریکہ کے دشمنوں کی جانب کردیا جائے۔ جنوری 2013 میں جنرل کیانی نے افواج پاکستان کی مشہور 'سبز کتاب' میں ایک نئے ڈاکٹرائن کا اعلان کیا۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق افواج پاکستان کے ہدف میں تبدیلی کی گئی اور بھارت کی جگہ اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی توجہ بھارت کی سرحدوں سے ہٹا کر افغانستان کی سرحد کی جانب کردی۔ لیکن پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کا جواب بھارت نے بالکل مختلف طریقے سے دیا۔ بھارت نے پاکستان کو اپنی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن سمجھنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور اس نے پاکستان کی سرحدوں پرتعینات اپنی افواج میں کوئی کمی نہیں کی۔ لیکن بھارت میں امریکہ نواز مودی کے اقتدار میں آجانے کے بعد اس بات کی بنیاد ڈال دی گئی ہے کہ بھارت کو یہ یقین دہانی کرادی جائے گی کہ پاکستان اب اس کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں رہا۔ یہ یقین دہانی پاکستان آرمی کی اعلٰی قیادت نے اپنے اعمال اور بیانات کی صورت میں کرادی ہے جیسا کہ :
پہلی یقین دہانی: بھارتی سرحدوں سے افواج کے بڑے حصے کو افغان سرحد پر منتقل کیا جانا جو کہ ایک اہم سٹریٹیجک تبدیلی ہے۔
دوسری یقین دہانی: عوامی سطح پر سٹریٹیجک گہرائی کو رد کردینا اور اور ان لوگوں کا مذاق اڑایا جانا جو افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی کی حمائت کرتے ہیں جس میں راحیل شریف کے سابقہ باس اشفاق پرویز کیانی بھی شامل ہیں۔ افغانستان کو پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی سے نکال دینے سے بھارت کو اس بات کا موقع ملا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لئے سرمایہ کاری کرے۔
تیسری یقین دہانی: راحیل شریف کی جانب سے مرکزی تجارتی راہ داری کی صورت میں معاشی یقین دہانی تا کہ بھارت کو معاشی فوائد پہنچائیں جائیں۔
لہٰذا بھارت کو راستہ فراہم کرنے کے لئے امریکی منصوبے کے تحت پاکستان نقصانات اٹھا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے 80 ہزار فوجیوں کو بھیجا گیا ہے جبکہ 40 ہزار فوجی اس علاقے میں پہلے سے موجود تھے(21)۔ اس امریکی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو براہ راست 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع خلاء میں مزید اضافہ ہو گیا(22)۔ سابق ائر وائس مارشل شہزاد چوہدری نے کہا کہ "جبکہ بھارت اپنے ہتھیاروں کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے بے دریغ خرچ کررہا ہے لیکن ہمارے معاملات بہت زیادہ پھیل چکے ہیں کہ ہم کوئی اہم ہتھیار بھی نہیں خرید سکتے۔ ہم مال کی کمی کے باوجود یہ جنگ لڑ رہے ہیں"(23)۔ بڑے بڑے منصوبے یا تو سست روی کا شکار کردیے گئے ہیں جیسا کہ JF-17جنگی طیارہ یا ان کو ختم ہی کردیا گیا ہے جیسا کہ جرمنی سے نئی آبدوزوں کی خریداری(24)۔ فوجی قیادت میں موجودغداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی یقین دہانیاں براہ راست امریکہ کو مدد فراہم کریں گی کہ وہ بھارت کو اس بات کا یقین دلا سکے کہ اس کو اب پاکستان کی صورت میں روایتی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اس خطے میں افواج پاکستان نہ صرف بھارت کے لئے براہ راست خطرہ ہیں بلکہ افواج پاکستان جہادی گروہوں کو استعمال کر کے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود دفاعی عدم موافقت کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن اب جنرل راحیل شریف گیاری سیکٹر کی شہدوں کی قبروں پر کھڑے ہو کر بھارت کو یقین دلاتا ہے کہ وہ ان جہادی گروپوں کا خاتمہ کر کے چھوڑے گا۔سیاچن میں کھڑے ہوکر بھارت کو یقین دہانی کرانے کے لئے جاری ہونا والا یہ ایک انتہائی اہم اور مضبوط بیان ہے ۔
امریکہ اور پاکستان کی فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ یک زبان ہو کر پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی کی پالیسی سے دستبردار ہونے کا اعلان کررہے ہیں تا کہ بھارت کے لئے افغانستان میں راہ ہموار کی جائے۔ 21 جون 2014 کو امریکہ کے سابق سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھارتی چینل NDTVسے بات کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان کا سٹریٹیجک گہرائی کا تصور اب مردہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کا افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی حاصل کرنے کی کوشش غلط ثابت ہوئی اور اب ملک کو اپنی تمام تر قوت کو عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے مرکوز کرنے کی ضرورت ہے"(25)۔ اسی طرح جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ "ہم افغانستان میں سٹریٹیجک گہرائی چاہتے ہیں مگر اسے کنٹرول نہیں کرنا چاہتے اور پر امن اور دوست افغانستان پاکستان کو سٹریٹیجک گہرائی فراہم کرسکتا ہے"(26)۔ 28جون 2014 کو جنرل راحیل شریف نے سیاچن گلیشیر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے گیاری سیکٹر میں شہداء کی یادگار پر پھول چڑھائے اور ان افسران اور سپاہیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے ملک کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیں اور کہا کہ "فوج تمام تر خطرات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے"(27)۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے آپریشن کی نوعیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کی ابتداء ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج 'اچھے اور برے طالبان' کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرے گی اور فوج کے لئے تحریک طالبان کے مختلف گروہوں اور حقانی نیٹ ورک میں کوئی فرق نہیں ہے.....فوج ان تمام کا خاتمہ کردے گی"(28)۔ 28 مئی 2014 کو راحیل شریف نے خاص طور پر مرکزی تجارتی شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کیا جو کہ 714 کلومیٹر طویل سڑکوں کا ایک نیٹ ورک ہے جس کے تحت پاکستان کی انڈس ہائی وے اور وزیرستان کی ایجنسیوں کو افغان رنگ روڈ کے ساتھ منسلک کردیا جائےگا(29)۔
آپریشن ضرب عضب کی تفصیلات میں جائے بغیر یہ تمام یقین دہانیاں مودی کو اس بات کا موقع فراہم کرتیں ہیں کہ وہ چین کو گھیرا ڈالنے کی امریکی پالیسی میں بھارتی کردار کی ادائیگی کو شروع کرے۔ 19 مئی 2014 کو بی۔بی۔سی عربی پر ایک مضمون "نقطہ نظر: مودی کس طرح امریکہ-بھارت تعلقات پر اثر انداز ہو گا؟" شائع ہوا۔ اسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں لیزا کیرٹیس کا مضمون "مودی کے ساتھ کام کرنا" شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ "نئی دہلی اور واشنگٹن ایک جیسے سٹریٹیجک اہداف رکھتے ہیں چاہے اس کا تعلق دہشت گردی سے ہو، سمندری راستوں کو کھلا رکھنا ہو یا ابھرتے ہوئے چین کو دھمکانا ہو۔ خاص طور پر بی۔جے۔پی کی چین کو دھمکانے کی پالیسی میں دلچسپی امریکی اہلکاروں کو اس بات کو موقع فراہم کرے گی کہ وہ ان کے ساتھ قربت کے ساتھ کام کریں"۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے مودی کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی جب اس نے مودی کو فون کال کی اور انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی۔ اوباما نے کہا کہ وہ مودی کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہے تا کہ غیر معمولی امریکہ بھارت سٹریٹیجک دوستی کے وعدے کو پورا کیا جائے۔ ستمبر میں مودی کی اوباما سے ملاقات طے ہوچکی ہے۔
لہٰذا شمالی وزیرستان آپریشن پاکستان کے مفادات کو سنگین نقصان پہنچا کر امریکہ اور بھارت کے اتحاد کو زبردست فائدہ پہنچا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود راحیل-نواز حکومت ہندو مشرکین کو ہمارے مفادات پر بالادستی دلوانے کے لئے کام کررہی ہے جن سے ہمیشہ ہیںت زبردست نقصان ہی پہنچا ہے چاہے وہ کشمیر پر قبضہ ہو یا سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجیں داخل کرنا ہو اور آج بھی افغانستان میں قائم اس کے سیکڑےوں قونصل خانے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ حکومت ہم پر ہندو کی سیاسی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کام کررہی ہے جبکہ آج اس خطے میں مسلم امت تعداد اور صلاحیت کے لحاظ سے بھی ہندو مشرکین سے بڑھ چکی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے صدیوں تک دنیا پر حکمرانی کی ہے ناکہ ہندو مشرکین نے۔ حکومت ہم پر ہندو کی معاشی بالادستی کو قائم کرنے کےلئے کام کررہی ہے جبکہ امت زبردست انسانی و مادی وسائل سے مالا مال ہے اور صدیوں تک دنیا کی معاشی ترقی میں انجن کا کام کرتی رہی ہے۔ اور یہ حکومت ہم پرہندو کی فوجی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کام کررہی ہے جبکہ اس امت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں اتنی بڑی فوج ہے جو تعداد اور اپنی بہادری میں ہندو فوج سے کئی گنا بڑی ہے اور صدیوں تک ایک کے بعد دوسری جنگ جیتی رہی ہے ان حالات میں بھی جب کبھی دشمن ہمارے سے کئی گنا زیادہ بڑا بھی تھا۔ بجائے اس کے کہ امت کو اس بات کی دعوت دی جائے کہ ہم ایک اسلامی ریاست خلافت کے سائے تلے طاقتور امت کے طور پر اٹھیں۔ راحیل-نواز حکومت ہمیں کفر کی بالادستی کو ہم پر قائم کرنے ، شکست خوردہ ذہنیت اختیار کرنے اور خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کی دعوت دے رہی ہے۔ ہماری صورتحال صرف اسی صورت میں بہتر ہوسکتی ہے جب ہم ایک امت، ایک ریاست کے طور پر، ایک حکمران کی زیر نگرانی کھڑے ہوں جو ہم پر دین اسلام کو نافذ کرے اور اسلام کو پوری دنیا تک پہنچائے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ امت خلافت کو دوبارہ قائم کرے تا کہ مسلمان ایک بار پھر وہی حیثیت حاصل کرسکیں کہ پوری انسانیت اسلام کے نور سے فیضیاب ہوسکے جیسا کہ اس سے پہلے صدیوں تک ایسا ہوتا رہا ، چاہے ہندو مشرکین کو یہ کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ "اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو سچی ہدایت اور دین کے ساتھ بھیجا تا کہ اسے دیگر تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ مشرکین کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے" (التوبۃ:33)
حوالہ جات:


[1] http://tribune.com.pk/story/540741/probe-report-one-man-lal-masjid-commission-fails-to-apportion-blame/
[2] http://www.state.gov/secretary/20092013clinton/rm/2010/03/138996.htm
[3] http://en.wikipedia.org/wiki/Nek_Muhammad_Wazir
[4] http://en.wikipedia.org/wiki/Baitullah_Mehsud#cite_note-32
[5] http://tribune.com.pk/story/560646/imran-khan-tweets-slain-ttp-commander-waliur-rehman-pro-peace/
[6] http://tribune.com.pk/story/625762/another-drone-strike-kill-3-north-waziristan/
[7] http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-26603-Jalaluddin-Haqqanis-son-killed-in-Islamabad
[8] http://tribune.com.pk/story/722202/army-launches-operation-in-north-waziristan/
[9] http://www.nation.com.pk/national/23-Jun-2014/hafiz-gul-to-remain-in-peace-until-shawwal-10
[10] http://www.criticalthreats.org/pakistan/jan-what-you-need-to-know-north-waziristan-operation-june-19-2014
[11] http://www.thenews.com.pk/Todays-News-7-256751-Minister-tells-assembly-PTI-govt-not-consulted
[12]http://timesofindia.indiatimes.com/world/pakistan/Pakistan-kills-100-extremists-including-Karachi-airport-attack-mastermind/articleshow/36605712.cms
[13] http://www.dawn.com/news/1104901/
[14] http://tribune.com.pk/story/737360/us-citizen-arrested-for-carrying-weapon-at-islamabad-airport/
[15] http://www.dawn.com/news/1112121
[16] http://tribune.com.pk/story/721140/new-congress-legislation-us-bribing-govt-for-n-waziristan-operation-says-imran/
[17] http://tribune.com.pk/story/663142/waziristan-offensive-likely-in-march/
[18] http://tribune.com.pk/story/670568/unpaid-bills-us-releases-352m-under-csf/
[19] http://www.dawn.com/news/1114420
[20]http://www.dnaindia.com/world/report-pakistan-removes-third-of-army-s-border-deployment-1390778
[21]http://in.reuters.com/article/2014/06/17/uk-pakistan-airstrikes-offensive-idINKBN0ES1A620140617?feedType=RSS&feedName=southAsiaNews
[22]http://www.thenews.com.pk/Todays-News-2-219913-Dar-says-Pakistan-lost-$100-bn-in-war-on-terror
[23]http://www.thefridaytimes.com/beta3/tft/article.php?issue=20120608&page=2
[24]http://www.revolutionobserver.com/2014/06/who-benefits-from-zarb-e-azab-waziristan.html
[25]http://www.ndtv.com/article/india/full-transcript-hillary-clinton-to-ndtv-on-iraq-pm-modi-and-plans-for-2016-545348
[26] http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2010/02/01/AR2010020102506.html
[27] http://tribune.com.pk/story/728451/army-prepared-to-fight-against-entire-spectrum-of-threat-army-chief/
[28] http://www.criticalthreats.org/pakistan-security-brief/pakistan-security-brief-july-18-2014
[29] https://www.ispr.gov.pk/front/main.asp?o=t-article&id=95

مھنا الجبیل کے مقالے کا جواب کیا یہ ممکن ہے کہ امت کی وحدت کو حاصل کرنے کے لئے جمہوریت خلافت کا متبادل ہو سکتی ہے؟

پریس ریلیز
الجزیرہ ویب سائیٹ نے 23 اگست 2014 کو المعرفۃ سیکشن میں استاد مھنا الجبیل کا مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا : "وحدت ،خلافت اور جمہوریت"۔ اس مقالے کو لکھنے والے نے ان مسلمان نوجوانوں کو قدامت پسند کے نام سے مخاطب کیا جو جمہوریت کو قبول کرنے سے گھبراتے ہیں یا اسلامی وحدت کے حصول کے لیے اس کا تجربہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ وحدت بلاشبہ کتاب اللہ اور سنت متواتر کے مطابق فرض ہے۔
لکھنے والے نے یہ سوچ عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ "جمہوری دستوری نظام کو سمجھنے بڑی تشنگی پائی جاتی ہے جبکہ یہ دستوری نظام ہی مختلف ادیان اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو قومی دستوری حق کی ضمانت دیتا ہے"۔ وہ مزید کہتا ہے کہ "وہ ممالک جو جمہوریت کے زیر سایہ ہیں دوسرے غیر جمہوری ممالک کے بنسبت اسلامی وحدت کے مفہوم اور پیمانے سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں"۔
اس پر زور دینے کے بعد کہ جمہوریت ہی وحدت کے حصول کا زیادہ قابل عمل طریقہ ہے، لکھنے والے نے اشاروں اور کنایوں میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اصطلاحی خلافت کے مفہوم کا شرع میں کوئی وجود نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ خلافت ایک تاریخی نام ہے جس کو وراثت میں حکمرانی پانے والوں کے لیے استعمال کیا گیا جو اس کے مستحق نہیں تھے۔ پھر اس نے خلافت کا یہ تصور دیا کہ چند علاقائی ممالک کی فیڈریشن بنا کر اس اتحاد کے سربراہ کو خلیفہ قرار دیا جائے!
لکھنے والےنے آخر میں اس کا یہ خلاصہ کیا ہے کہ شرع اور مسلمانوں کی تاریخ میں خلافت کی اصطلاح فکری پیچیدگی ،ظاہری فہم اور پھر دور حاضر کی سیاست میں اس کے نتائج ایسے نہیں جو بعض نوجوان سمجھتے ہیں،اس لیے کسی بھی مسلم قوم کے لیے وطن کو سیاسی اور اجتماعی قوت بنا نے اور آزادی کی خاطر قانونی مزاحمت کے لیے اس سیاسی ڈھانچے کو مسترد کر نے کا یہ کوئی معقول بہانہ نہیں ہے جو جمہوریت میں بن چکا ہے چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ملکوں کے درمیان وحدت کے حصول کے لیے جمہوری منصوبے پر ہی کاربند رہیں۔۔۔
اس مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے اس پر ہم یہ تبصرہ کریں گے:"جمہوری ریاست" کی اصطلاح گھڑ نے اور اس کو رواج دینے اور کسی ریاست کو جمہوری قرار دینے کے لئے مغرب نے تین من گھڑت،خیالی اور ناکام پیمانوں پر اعتماد کیا (Constitutional definition، Substantive measure، Procedural)۔ یہ تین اپنے تیئں خود تضادات کا مجموعہ اور عملاً خیالی ہیں !۔۔۔چنانچہ جمیکا جیسے ملک کسی حد تک جمہوری ملک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ یسے انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو جمہوریت پسندوں کو پسند آئے حالانکہ جمیکا اپنے شہریوں سے زیادتی کرتا رہتا ہے جو کہ خود مغرب کےمطابق "جمہوری آزادیوں" کے خلاف ہے۔اسی طرح انہوں نے عراق جیسے ملک کو جمہوریت میں بے مثال قرار دیا حالانکہ حال ہی میں المالکی کی حکومت جرائم میں صدام حکومت کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ! ۔۔۔ جنوری 2011 کے انقلاب کے بعد مصر کے انتخابات جن کے نتیجے میں مرسی حکومت بنی تھی اور جن کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ انتخابات شفاف تھے پھر فوج کی جانب سے سب کچھ الٹ دیا گیا اور مرسی کو برطرف کر دیا گیا اور یہ جمہوریت کے چیمپئن امریکہ کی آشیر باد سے کیا گیا!
ان زمینی حقائق اور جمہوری ماڈل کے مکمل ناکام ہو نے کے بعد ہم اس لکھنے والے کے ہدف کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ ایک ایسے خیالی، تضادات سے بھر پو اور ناقابل عمل نظام پر اعتماد اور اسے اختیار کرنے کی دعوت اور امت کے عقیدے سے پھوٹنے والے نظام خلافت جس کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں جو تقریباً چودہ صدیوں تک نافذ رہا ، کو ترک کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا لکھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے ناکام اور خیالی نظام سے چمٹے رہنا جو ناقابل عمل ہے ایسا ہی ہے جیسا کہ ایسی رسی سے لٹکنا جو ہوا میں معلق ہو اور کیا یہ ایک خیالی چیز کے پیچھے بھاگنا نہیں۔۔۔؟
اس کے بعد مقالے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ جمہوریت لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے مثالی نمونہ ہے حالانکہ زمینی حقائق اس کے بر عکس ہیں اور جمہوری ممالک کی صورت حال اس کے خلاف ہے۔ فرانس کو ہی لیں جہاں مسلمانوں عورتوں کے سکارف اوڑھنےپر پابندی ہے، سوئٹزر لینڈ میں مناروں پر پابندی لگائی گئی ہے، امریکی ڈرون جو افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں ۔۔۔بلکہ وہ صر ف مسلمان ہونے کی وجہ سے بغیر کسی منصفانہ عدالتی فیصلے کے خود اپنے مسلمان شہریوں کو قتل کرتے ہیں، امریکی خفیہ ایجنسیوں کو پیشگی قتل کی اجازت کا قانون جس کی اوباما نے بھی توثیق کردی ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے ۔۔۔ پھر جمہوری مغرب کی جانب سے سب سے بڑا جرم جس کو (اسرائیل ) کہا جاتا ہے کی سرپرستی، ابوغریب کی شرمناکیاں، گونتاناموبے کی رسوائیاں اور اس کے ساتھ ویتنام میں امریکہ کی روسیاہی، پھر دیکھیں دوسری عالمی جنگ میں جو کچھ ہوا ۔۔۔آخر میں ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جمہوریت نے انسانیت کو شر، قتل و غارت گری اور کرپشن کے سوا کیا دیا؟
خلافت ایک شرعی حقیقت ہے اور یہ شرعی وحدت بھی ہے ، کتاب اور سنت کے نصوص اس کے ذکر سے بھرے ہیں، اس کے قواعد کو بیان کرتے ہیں۔ خلافت کی فرضیت کے بارے میں امت یا آئمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ "کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کریں تو ان کو اس میں کوئی اختیار ہو اور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہو گیا " (الاحزاب:36)۔
خلافت صرف بیعت کے ذریعے خلیفہ کا انتخاب نہیں بلکہ یہ خلافت ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں معاشرتی نظام، اقتصادی نظام، حکمرانی کا نظام، عدالتی نظام، تعلیمی نظام، سزاوں کا نظام اور دیگر نظام ہائے حیات پائے جاتے ہیں۔ یہ نظام اس اسلامی ریاست میں صدیوں تک موجود تھے جو اسلام کو نافذ کرتی تھی، اسی لیے وہ ریاست دنیا کے لیے ایک آئیڈیالوجیکل ریاست تھی جس نے نور اور عدل کے علم کو بلند کیا، جس نے امت ، اس کے عقیدے اور اس کے مقدسات کی حفاظت کی ضمانت دی ۔۔۔
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاك إِلَّا رَحْمَة لِلْعَالَمِينَ﴾ "اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" (الانبیاء:107)

ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

بہن زولفیا امانوف کے خلاف عدالتی کاروائیوں کے مضمرات (قَدْ بَدَتْ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ) "بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو کچھ( عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ " (آل عمران:118)

22 اگست کوجمہوریہ کرغستان کے شہر اوش میں ضلعی عدالت میں بہن زولفیا امانوف کا مقدمہ اختتام کو پہنچا۔ اس سے پہلے کویا توف ایلار، میرزا بائیکوف بولات، عبدالداییف الماس پر مشتمل عدالتی بنچ نے جج کوجامکولاف رمضان کی طرف سےیکم جون 2014 کو لگائے گئے الزامات سے بہن کو بری قرار دیا تھا جس میں بہن کے بارے میں 50 ہزار سوم جرمانہ اور ایک سال جیل کی سزا کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ ماہرین اور تحقیق کاروں کی عدم حاضری کی بنا پر عدالتی کاروائی بار بار ملتوی ہونے کے باعث تاخیر کا شکار بنی رہی اور 13 مئی سے اس حوالے سے میٹنگ کو آٹھ دفعہ ملتوی کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ ہماری بہن زولفیا اور اس کے خاندان کا مذاق اُڑارہے ہیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جرنل ریمکولافا ایم نے ہماری بہن زولفیا پر انتہا پسندانہ سرگرمیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے جج سے مطالبہ کیاتھا کہ اسے مجرم قرار دیا جائے اور 5 سال جیل کی سزا دی جائے ۔
ہم پوچھتے ہیں کہ بہن زولفیا پر یہ الزامات اور سزائیں ججز اورایوان عدالت کے اراکین کی جانب سے ذاتی اقدامات کی بنیاد پر عائد کیے جارہے ہیں؟ یا یہ سب کچھ ازبکستان کی اس مجرم حکومت کے احکامات کی پیروی میں کیا جارہا ہے جس نے زولفیا کے والد امانوف حمید اللہ شہید کو اغواء کیا تھا اور ان کومسلسل 14 سال تک قیدخانوں میں تشدد کا نشانہ بنائے رکھااور جب انہیں پتہ چلا کہ امانوف کے ارادے مضبوط ہیں جنہیں توڑا نہیں جاسکتا تو ان کو درندگی سے قتل کرڈالا؟ یا پھر یہ کاروائیاں کرغستان کے اندر تشکیل پانے والی اس نئی حکومت کی طرف سے عمل میں لائی جارہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ لڑنے میں اپنے پڑوسیوں کی پیروی کرتی ہے؟ یہ وہ حکومت ہے جس نے انتہائی بے شرمی سے اپنے عوام کی آزادی سلب کرلی ہے، وہ حکومت جو لوگوں کے اندر شراب نوشی اور گھٹیا طرزِ زندگی کو رواج دے رہی ہے، وہ حکومت جس نے اپنی قوم کو روٹی کے ٹکڑوں کو حاصل کرنے کے لئے دور دراز کے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبو ر کیاہے، اور یہ وہ حکومت ہے جو بے چاری عورتوں پر ظلم ڈھاکر ان کو جیلوں میں قید کردیتی ہے اور ان کے شوہروں کو قتل اور بچوں کو یتیم بنادیتی ہے ۔
ہم آپ لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ تم کس بنیاد پر ہماری بہن زولفیا پر یہ الزامات تھوپ رہے ہو جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرتی ہے ؟ اور کس وجہ سے تم ہماری ان پاکباز اور متقی بہنوں کو جیلوں میں قید کرتے ہو ؟ تم نہیں جانتے کہ مسلمان خواتین کا پیچھا کرنا اور کوئی بھی ایسا عمل جو ان کی ایذا رسانی کا باعث بنے حرام ہے حرام ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قرآن کریم میں مؤمنین اور مؤمن عورتوں کو ایذا پہنچانے پر سخت تنبیہ کی ہے اور فرمایا ہے ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا "اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، اُنہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے " (الاحزاب:58
)۔
اور اے ججوں اور اٹارنی جنرلو اور تجھے بھی اے اتامبایوف ! ہم اللہ تعالیٰ کے اس قول سے خبردار کرتے ہیں وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا "اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو اُن کے کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچاتے ہیں، اُنہوں نے بہتان طرازی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیا ہے " (الاحزاب:58
)۔
ہماری بہادر بہن زولفیا اپنا حق مانگتی ہے کہ اس کے والد کی لاش اس کے سپرد کی جائے اور اس کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ یہ حق اس کو اللہ عز وجل اس کے خالق نے دیا ہے کہ خون کا بدلہ خون سے لیا جائے اور اس کے اس موقف کا مکمل احترام ہونا چاہئے تھا ۔
ہم تم سے پوچھتے ہیں! تم اپنی ذمہ داریاں کیوں نبھاہ نہیں رہے ہو اور ان مجرموں کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے ہو جنہوں نے ہمارے بھائی امانوف حمید اللہ کے ساتھ خیانت کی اور اس کے اغواء کی اجازت دی؟ اور اسی وقت تم نے امانوف حمید اللہ کی رہائی کامطالبہ کیوں نہیں کیا؟ جبکہ تب بھی تم جج اور اٹارنی جرنل کے عہدوں پرفائز تھے ؟ یہی تمہاری ذمہ داری تھی! تم کس طرح ایک کمزور اور بے بس مسلمان کی عزت پر دست درازی پر خاموشی کواختیار کرتے ہو؟ اس کی حمایت کے لئے تم لوگ حرکت میں کیوں نہیں آئے ؟ بے شک مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی ایذا رسانی پر خاموشی عظیم ظلم ہے اور اس کی وجہ سے آدمی گناہ کے اندھیر وں میں غرق ہو جاتا ہے۔
آخر میں ہم حزب التحریر والے اس بات پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں کہ اللہ کی نصرت اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دوبارہ قیام نزدیک ہے .....وہ خلافت جو حق اور عدل کی روشنی سے چمکتی ہوگی .....تب اپنی عدالت میں ہر اس ظالم کو کھڑا کر دے گی جس نے اس امت کے لوگوں پر دست درازی کی ہوگی تاکہ اسے اپنے کئے کی سزا مل جائے .....اللہ کے لئے یہ کوئی مشکل امرنہیں۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
"اوراس روز مومن خوش ہوجائیں گے، اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کاوعدہ فرمایاہے، وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں فرماتا، لیکن اکثر لوگ (اللہ کے تصرفات کو) نہیں جانتے " (الروم:4-5)

ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر



حقیقی تبدیلی خلافت کا قیام ہے افواج پاکستان سے نصرۃ کے حصول اور خلافت کے قیام کے لئے حزب التحریر نے مظاہرے کیے

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے پاکستان بھر میں مظاہرے کئے۔ یہ مظاہرے افواج پاکستان میں موجود مخلص افسران سے یہ مطالبہ کرنے کے لئے کئے گئے کہ وہ جمہوریت و آمریت کی حمائت سے دست بردار ہو جائیں اور خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کریں۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا کہ : "اے پاک فوج! جمہوریت اور آمریت کی حمائت ترک کرو، اللہ کے دین کے انصار بنو! خلافت کو قائم کرو"، "نیا نظام نئی قیادت، حزب التحریر اور خلافت"۔
مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ اس ملک کے قیام سے لے کر آج تک عوام جمہوریت اور آمریت کے تماشے دیکھ رہے ہیں۔ ہر بار لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے اور ان سے یہ وعدہ کیا جاتا ہے کہ وہ نئے آنے والے حکمرانوں کو خوش آمدید کہیں کیونکہ نئے حکمران ان کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی کا باعث ثابت ہوں گے۔ لیکن لوگوں نے اس جمہوریت اور آمریت کے تماشے کو بہت دیکھ لیا ہے اور نہ صرف ان دونوں نظاموں سے تنگ آچکے ہیں بلکہ ان سے چھٹکارہ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مظاہرین نے واضح کیا کہ صرف خلافت کا قیام ہی عام انسانوں کی زندگی میں تبدیلی اور انقلاب لائے گا اور امت کو موجودہ ذلت کے اندھیروں سے نکال کر کے ایک باعزت بلند مرتبے پر فائز کرے گا۔

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک