الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
Super User

Super User

ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو رہا کرو مہم ڈاکٹر اسماعیل کی بیوی نے حکومتی غنڈوں کی مذمت کی جو اسلام کے نام پر قائم پاکستان کا مذاق اڑارہے ہیں

آج ڈاکٹر اسماعیل شیخ کی بیوی اور ان کے وکیل جناب عمر حیات سندھو ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ایڈوکیٹ عمر حیات سندھو نے میڈیا کو ڈاکٹر اسماعیل شیخ کے اغوا اور اب تک کی عدالتی کاروائی سے آگاہ کیا۔
ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو جمعہ 18 اپریل 2014 کی صبح تقریباًنو بج کر تیس منٹ پر راحیل-نواز حکومت کی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان کی گاڑی سمیت اغوا کرلیا جب وہ اپنے گھر سے نکلے ہی تھے۔ پھر اسی دن تقریباً دو بجے دوپہر بارہ سے تیرہ سادہ لباس اہلکار کلاشنکوفوں سے لیس بلٹ پروف جیکٹوں میں ملبوس پولیس موبائلوں میں ڈاکٹر اسماعیل شیخ کے گھر پہنچےاور زبردستی گھر میں داخل ہوگئے جبکہ ان کے ساتھ کوئی خاتون اہلکار بھی نہیں تھیں۔ ان لوگوں نےڈاکٹر اسماعیل شیخ کی تمام فیملی کے اصل پاسپورٹ، ڈاکٹر اسماعیل اور ان کی بیوی کے لیپ ٹاپ،ان کے موبائل فون، دو گاڑیوں کی اصل رجسٹریشن کاپیاں، گھر کی اصل ملکیتی دستاویزات، کچھ نقدی اور زیورات قبضے میں لے لیے ۔
ایڈوکیٹ عمر نے کہا کہ21 اپریل 2014 کو ایک رٹ پٹیشن نمبر 2094 سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی جس کی باقاعدہ سماعت 22 اپریل 2014 کو سندھ ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ میں ہوئی۔ اس ڈویژنل بینچ نے متعلقہ حکام اور اداروں کو نوٹس جاری کیے اور یہ حکم دیا کہ 30اپریل 2014 کو ڈاکٹر اسماعیل شیخ کو پیش کیا جائے۔ اس وقت سے کئی پیشیاں ہو چکی ہیں لیکن حکومتی غنڈوں نے انہیں آج پیش نہیں کیا جو کہ پاکستان کے عدالتی نظام کا مذاق اڑا نے کے مترادف اور توہین عدالت ہے۔ یہ حکومتی غنڈے مسلسل ڈاکٹر اسماعیل کے گھر کی خواتین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے تا کہ وہ ان کی رہائی کی کوششوں سے باز آجائیں۔ دراصل راحیل-نواز حکومت کے غنڈوں نے خلافت کے داعی ڈاکٹر اسماعیل شیخ کی زبان بندی کی کو شش کر کےپاکستان کے وجود کا مذاق اڑایا ہے جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر اسماعیل کی بیوی اور ان کے وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر اسماعیل ایک مشہور و معروف ڈینٹل سرجن ہیں جن کی خدمات سے ہزاروں طالب علم اور مریض فیضیاب ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی کو اسلام اور اس کی امت مسلمانوں کے لئے وقف کررکھا ہے۔ وہ فکری و سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے واے شخص ہیں اور کبھی بھی کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہیں رہے۔ مسز منیرا اور ان کے وکیل نے میڈیا، انسانی حقوق اور وکلاء کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈاکٹر اسماعیل کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم کو اجاگر کریں اور ان کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اگر آپ اس ظلم کے خلاف خاموش رہے تو یہ غنڈوں اور مجرموں کو تقویت بخشنے کا باعث ہو گا۔
وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلاَّ أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
"یہ لوگ اُن ایمان والوں سے کسی چیز کا بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے یہ کہ وہ اللہ غالب لائقِ حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے" (البروج:8)

 

 

 

عراق اور شام میں لڑنے والی تنظیموں اور قبائل کو پکار : آپس میں نہ لڑو!!!امریکہ تمہار ی آپس کی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر تمہارے علاقوں میں عسکری مداخلت کر تا ہے

 

عراق اور شام میں پے در پے واقعات رونما ہو رہے ہیں، دوسری طرف 18 اگست 2014 کو اوبامانے ایک تقریر کی، جبکہ22 اگست 2014 کوامریکہ کے وزیرِ دفاع چَک ہیگل اورچیف آف اسٹاف جنرل ڈیمپسی کی جانب سے پریس کانفرنس میں خطے میں اوباما کی طویل مدت کے لیےعسکری مداخلت کی پالیسی کا ذ کر کیا گیا۔۔۔ اورامریکی مداخلت کی مدد کے لیے بین الاقوامی اتحاد قائم کرنے کی جانب اقدامات کا بھی اشارہ دیا گیا۔۔۔ یہ سب اقدامات خطے ہی کے بعض سیاسی اور عسکری افراد کی جانب سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے امریکہ کو مداخلت کی دعوت دینے کے بعد سامنے آئے! امریکہ نے بھی عملاً عراق میں عسکری مداخلت شروع کر دی۔۔۔شامی اتحادی کونسل نے 16 اگست 2014 کوامریکہ سے التجا ءکی کہ وہ عراق کی طرز پر شام میں بھی مداخلت کرے اور اس کے سامنے آہ و زاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوہرا معیار کیوں، کہ امریکہ عراق میں تو مداخلت کرتا ہے اور شام میں نہیں !
عراق اور افغانستان پر وحشیانہ حملوں اور پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں کے بعد خطے کے لوگوں اور مسلمانوں نے امریکہ کو مسترد کر دیا تھا۔۔۔ اب کچھ لوگ پھر اسی سے خیر کی امید کر کے خوشی خوشی عسکری مداخلت کے لیے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں! یہ شر انگیزی کی انتہا ہے۔ یہ آ بیل مجھے مار ہے! یہ ایسا ہی ہے کہ کسی شخص پر سانپ حملہ کرے اور وہ اُس کو ہزار بار خوش آمدید کہے اور خود اس کو اپنے گھر میں داخل ہونے دے تاکہ وہ سانپ اُس کو، اُس کے بچوں کو اور تمام گھر والوں کو ڈس کر قتل کردے! ایسا لگتا ہے کہ امریکی آگ سے چنگاری مانگنے والوں کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہواہے، ان کے کانوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور یہ آنکھوں کے اندھے ہیں!
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس چیز نے حالات کو اس قدر ناگفتہ بہ صورت حال تک پہنچا دیا ؟ آخر امریکہ اس کے لیے کیوں تیار ہوا کہ منصوبے اور سازشیں بنا کر مداخلت کا ارادہ کرے۔۔۔کس چیز نے خطے کے بعض لوگوں کی جانب سے یہ قدم اٹھوایا کہ وہ بغیر کسی شرم و حیا کے دن دیہاڑے یہ مطالبہ کر رہے ہیں ؟ اس ساری صورت حال پر غور کرنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ شام اور عراق میں انقلاب کے لیے کھڑی ہو نے والی تحریکیں آپس میں خون خرابے پر اتر آئیں جس سے امریکہ نے فائدہ اٹھایا۔۔۔شروع میں یہ تحریکیں ظالم اور جابر حکمرانوں کو برطرف کر نے کے لیے بر پا ہوئی تھیں، پھر یہ راستے سے ہٹ گئیں، سوائے ان کے کہ جن پر اللہ کا رحم وکرم رہا، ان میں سے اکثر استعماری کفار سے لڑنے یا ظالم حکومتوں کو ہٹانے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگے! اس سب کے باوجود بھی اِن تنظیموں نے اپنے آپ سے یہ سوال نہیں کیا کہ آخر کیوں ہم حکومتوں کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے علاقوں میں آپس ہی میں لڑرہے ہیں؟ آخر یہ لڑائی اِن آزاد علاقوں میں ہی ایک دوسرے کے خلاف کیوں ہو رہی ہے اور آخر ہم باقی علاقوں کو کیوں ان ظالم حکومتوں سے آزاد نہیں کرارہے؟!
اے مسلمانو! حزب التحریرمیں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم تنظیمِ داعش (I.S.I.S)، دوسری مسلح اسلامی تحریکوں اور قبائل کو آپس کی لڑائی روکنے اور باہم صلح کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور ان سب سے کہتے ہیں کہ ظالموں کی طرف مائل مت ہو ورنہ آگ تمہیں چھو لے گی۔۔۔ہم مسلمانوں کے مفاد میں ان سے مخاطب ہیں، یہ مناظر ہمارے دلوں کو چیر کر رکھ دیتے ہیں کہ جب ہم تنظیمِ داعش (I.S.I.S) اور دوسری اسلامی جماعتوں کو ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہوئے، دونوں جانب سے تکبیریں بلند کر تے ہوئے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو ذلیل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں! ہم انتہائی رنج و الم کی حالت میں ان سے مخاطب ہیں اورہم آرزو اور امید کے سا تھ ان سے مخاطب ہیں:
اولاً: تنظیمِ داعش (I.S.I.S) سے کہ اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کو قتل مت کرو۔ اللہ کے نزدیک مسلمان کا خون انتہائی عظیم ہے اور خلافت کے ناحق اور جھوٹے اعلان سے رجوع کرو، خلافت قائم کرنے کا طریقہ مجہول نہیں بلکہ معلوم ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی سیرت طیبہ میں ریاست قائم کرنے کے طریقے کو واضح انداز سے بیان کیا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسے ملک میں جس کے اندر ریاست کے تمام لوازمات موجود ہوں، اہل قوت سے نصرہ طلب کرنا اور پھر اس ملک کے باشندوں کی جانب سے برضا و رغبت بیعت حاصل کرنا۔۔۔تنظیمِ داعش نے شریعت کے طریقے کی کوئی پابندی نہیں کی اور جو بھی کام شرع کو پس پشت ڈال کر کیا جائے گا اس میں تنازعات اور فتنے پیدا ہوں گےاور ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ تنظیمِ داعش اور دوسری عسکری تنظیموں میں خون خرابہ ہو گیا، ان کے تعلقات خون آلود ہو گئے، حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ تنظیمِ داعش جس علاقے میں پہنچتی ہے لوگ اس کے سائے میں امن اور خوشی محسوس کر نے کی بجائے وہاں سے گھر بار چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔۔۔اس تنظیم کو چاہیے کہ اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے اور غلطی سے رجوع کرنا فضیلت والی بات ہے۔
دوئم: ہم اُن تحریکوں سے مخاطب ہیں، جو امریکہ، مغرب اور ان کے ایجنٹوں اور بغل بچوں سے مدد مانگ رہے ہیں، کہ استعماری کفار سے مدد مانگنا تمہاری غلطی اور بصارت اور بصیرت سے محروم ہو نے کا ثبوت ہے۔امریکہ اور مغرب کیونکر ان ایجنٹوں کو برطرف کر نے میں تمہاری مدد کریں گے جن کو انہوں نے خود اس منصب پر بِٹھا یا ہے؟ ہاں وہ صرف اس صورت میں ایسا کریں گے اگر تم ان سے بھی بڑے ایجنٹ بن کر ان کی کمی کو پورا کرو۔ ہر عقل والا شخص جانتا ہے کہ ان سے مدد مانگنا سراب کے پیچھے بھاگنا ہے تو کیا تم میں عقل والے لوگ نہیں؟
سوئم: قبائل سے اور صاحب مروت مردوں اور اسلامی جذبات کے حاملین سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ لوگ تمہاری قدر اور احترام کرتے ہیں، تم آپس میں لڑنے والی ان مسلمان تنظیموں میں سے کسی ایک کی طرف داری مت کرو کیونکہ یہ استعماری کفار سے تو لڑہی نہیں رہے۔ اگرچہ انہوں نے سرکش حکومتوں کو برطرف کر نے کے لیے ان کے خلاف خروج کا اعلان کیا تھا لیکن یہ ان حکومتوں کے خلاف اکھٹے نہیں ہو رہے بلکہ سازش کے تحت ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں۔اس لیے آہنی ہاتھوں سے ان کو پکڑو اور ان کو ہدایت کی طرف لوٹاؤ تاکہ ان کا اسلامی تشخص پھر بحال ہو اور یہ سب ایک ہو کر خلافت راشدہ کے سائے میں آئیں جس کے سائے میں لوگ خوف نہیں امن محسوس کریں گے۔تقسیم، بندر بانٹ اور علاقائیت کے بت کو پاش پاش کردو۔۔۔
چہارم: اوران لوگوں سے جو اس آیت سے مطابقت رکھنے والے لوگوں میں سے ہیں: ﴿اِلاّ مَنْ رَحِمَ رَبُّکَ﴾ "سوائے ان کے کہ جن پر تمہارے رب نے رحم فرمایا" (ہود:119)۔ جنہوں نے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو نبھا یا ہے اورخلافت راشدہ کے قیام کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مدد کا عہد کر رکھا ہے۔۔۔جنہوں نے دوسری اسلامی تحریکوں سے دست وگریبان ہو نے سے اپنے آپ کو بچا یا، اور وہ جس مقصد کے لیے نکلے تھے اس کے حصول کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔۔۔تم جس حق پر ہو اس پر ثابت قدم رہو، کسی کا یہ کہنا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ تمہاری جمعیت ان تنظیموں سے کم ہے جو ایک دوسرے کا خون بہارہی ہیں کیونکہ اللہ کے ہاں چھوٹی سچائی کا وزن بڑی برائی سے زیادہ ہے اور اچھا انجام متقین کے لیے ہے ﴿وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾ "ہمارا ارادہ ہے کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو زمین میں ستایا گیا ہے اور ہم ان کو راہنما اور روئے زمین کا وارث بنا نا چا ہتے ہیں" (القصص:5)۔
اے مسلمانو! حزب التحریر ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے اِس حق پر ثابت قدم ہے جس کی طرف وہ دعوت دیتی ہے۔ حزب روئے زمین پر اسلام کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کے طریقہ کار پر کاربند ہے اور اس سے بال برابر بھی نہیں ہٹتی، حالانکہ بے سرو پا باتیں بھی کی گئیں اور یہ پرو پیگنڈا بھی کیا گیا کہ طلبِ نصرہ ایک لمبا راستہ ہے اور اس کی بجائے حکمرانی کو لوگوں پر بزورِ قوت مسلط کر نے کا طریقہ زیادہ قریب اور مختصر ہے لیکن جن لوگوں نے یہ باتیں کیں وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ مسئلہ کسی بھی طرح اقتدار پر قابض ہونے کا نہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کوئی سا بھی راستہ اختیار کر نے کا ہے بلکہ مسئلہ خلافت علٰی منہاج ِنبوت کا ہے اور اس کا طریقہ وہ ہے جس کو رسول اللہﷺ نے اختیار کیا اور اللہ سبحانہُ العزیز الحکیم کی نازل کردہ وحی کے ذریعے واضح کر دیا۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اگر اقتدار تک جلدی پہنچا بھی دےتو ایسا اقتدار بیمار اور دردناک ہو گا جس سے اللہ، اس کے رسولﷺ اور مومنین راضی نہیں ہوں گے۔۔۔اس لیے خلافت کسی خالی خولی نعرے کا نام نہیں جس کا زمین پر کوئی وجود تک نہ ہو۔۔۔ بلکہ خلافت امن اور اطمینان کا نام ہے۔ لوگ اس سے بھاگیں گے نہیں بلکہ اس کی طرف دنیا بھر سے ہجرت کریں گے۔ اس کے سائے میں امن اور عافیت سے رہیں گےاور اس کے خوف اور ظلم سے فرار نہیں ہوں گے۔۔۔خلافت میں لوگوں کی جان مال عزت و آبرو اور گھربار محفوظ ہوں گے، خلافت میں خون نہیں بہا یا جائے گا، عزتیں پامال نہیں ہوں گی، گھر نہیں گرائے جائیں گے، لوگوں کے مال پر دست درازی نہیں کی جائے گی۔۔۔ خلافت خیر کو صرف مسلم علاقوں میں ہی نہیں پھیلائے گی بلکہ اپنی تہذیب کو چار دانگ عالم تک پہنچائے گی، خلافت میں مسلم اور غیر مسلم دونوں امن سے رہیں گے اور ہر کوئی عدل اور اطمینان سے اپنا حق لے گا۔
بے شک حزب التحریر ہی وہ قائد ہے جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتی، جو کہ تم ہی میں سے ہے اور تمہارے ساتھ ہے اور اس پکار کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہے اور ہر اس دل والے اور عقل والے کو پکار تی ہے جو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی بھر پور کوشش کرے خواہ یہ کوشش کسی چھوٹے سے عمل کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، وہ مسلمانوں کے درمیان اِس خونریزی کو روکے جو خونریزی تنظیمِ داعش اور دوسرے گروپوں کے درمیان یا قبائل کے ساتھ ہو رہی ہے۔۔۔ممکن ہے کوئی ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے۔۔۔اور مسلمان ایک دوسرے کا خون بہانے سے باز آجائیں۔۔۔حز ب پکارتی ہے کہ تم عسکری اتحاد کی جانب سے اس مداخلت، جو امریکہ کی قیادت میں ہونے جا رہی ہے، کے خلاف شانہ بشانہ، صف بستہ کھڑے ہوجاؤ جس سازش کی قیادت امریکہ کر رہا ہے، تاکہ اس اتحاد کا مقابلہ مقتل میں یکجا ہو کر کیا جاسکے اور اس کے شر سے بچا جاسکے۔۔۔ یہ پکار اللہ کے اذن سے پرخلوص اور سچی ہے، ہم اس کے ذریعے ہر اس شخص سے مخاطب ہیں جس کے پاس دل ہے یا وہ سن کر گواہی دے سکتا ہے، جس کا اسلام اور مسلمانوں کی مدد میں موثر کردار ہو گا اور جو کافروں کے مکر کو ناکام بنا دے گا۔۔۔ جولوگ سنتے ہی نہیں اور دیکھتے ہی نہیں ان کے بارے میں القوی العزیز نے ہمیں بتا دیا ہے ﴿إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ﴾ "بے شک اللہ کے نزدیک وہ لوگ بدترین جانور ہیں، کہ جو گونگے بہرے ہیں اور وہ عقل بھی نہیں رکھتے" (الانفال:22)۔

سوال کا جواب: عراق کی سیاسی صورت حال میں پیش رفت

سوال :
حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ میں یہ خبر گردش کرتی رہی کہ امریکی جہازوں نے عراق کے شمال میں الدولۃ تنظیم کے بعض ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں ۔۔۔اوبامہ اور بعض امریکی عہدہ داروں کے بیانات بھی سامنے آئے کہ یہ اقدام انسانی بنیادوں اور نسل کشی کے واقعات ہونے کے خوف سے اٹھا یا گیا، حالانکہ شام میں اس سے زیادہ شدید اور سنگدلانہ خونریزی کے واقعات رونما ہوئے مگر امریکہ نے مداخلت نہیں کی بلکہ عراق ہی میں الانبار اور الفلوجہ میں زبردست قتل و غارت کی گئی اور امریکہ نے کوئی مداخلت نہیں کی جس کا یہ مطلب ہے کہ عراق کے شمال میں امریکی ہوئی جہازوں کے بمباری کا حقیقی سبب انسانی محرکات نہیں کیونکہ واقعات کے تسلسل کو مدنظر رکھنے سے یہ سمجھا جاسکتا ہے۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ : اگر یہ بات درست ہے اور حملوں کا سبب یہ نہیں ۔۔۔تو مجھے امید ہے کہ اگر ممکن ہو سکے حالیہ واقعات کے بارے میں اپنے سیاسی تجزئیے کے مطابق حقیقی سبب کو بیان کریں گے اور اللہ آپ کو بہترین جزا دے۔
جواب :
1۔ جی ہاں آپ نے جو کہا ہے کہ انسانی محرکات اس کا سبب نہیں درست ہے۔ امریکی اقدامات اور اس کی مداخلت کے واقعات کو پیش نظر رکھنے والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ انسانی بنیادوں کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، عراق اور افغانستان میں اس کے جرائم بھی اس کے منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔۔ابو غریب اور گونتاناموبے کے عقوبت خانوں میں تشدد بھی اس پر شاہد ہے۔۔۔میانمار میں قتل وغارت اور اجتماعی نسل کشی، ان اندوہناک واقعات کے بعد بھی جن کا مسلمانوں نے سامنا کیا امریکہ نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا یا جو میانمار حکومت کے لیے تکلیف دہ تو دور کی بات اس کو پریشان کر سکے۔۔۔بلکہ اس کے بر عکس اس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بڑھا یا۔۔۔اس موضوع پر امریکی جرائم کا احاطہ کرنے کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔
2۔ امریکہ 2003 میں عراق پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے تیار ی کررہا ہے، چنانچہ پال بریمر نے فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیاد وں پر جو دستور وضع کیا جس میں ہر گروہ اور مسلک کے لیے حصہ مقرر کیا گیا ۔۔۔اس کو جمہوریہ کے سربراہ، پارلیمنٹ کے سربراہ اور وزیر اعظم کے لیے الگ الگ کیا، چونکہ وزیر اعظم ہی حکمرانی کے اختیارات کا مالک ہے بریمر نے اس کو ایک مذہبی منصب کا روپ دیا اس لیے دوسرے عناصر کے لیے یہ اشتعال اور انارکی پھیلانے کے قابل بن گیا۔۔۔اس لیے صورت حال اس قدر بگڑ گئی کہ عراق عملاً منقسم ہو گیا : شمال مشرق میں کرد، مغرب اور شمال میں سنی اور جنوب اور بغداد میں شیعہ ۔۔۔
3۔ لکھا گیا دستور خود کہتا ہے کہ نظام صوبوں کے مابین فیڈریشن پر مبنی ہو گا جس میں صوبوں کے پاس زیادہ تر اختیارات ہوں گے، اسی وجہ سے امریکہ عراق کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ہرٹکڑا اپنے اندرونی مسائل خود حل کرے گا بلکہ اپنے اندرونی تنازعات کو دوسرے ٹکڑے میں داخل نہیں کرے گا۔ امریکہ اس راستے پر گامزن رہا اور 2011 میں عسکری لحاظ سے عراق سے نکلنے کے بعد ایک ایسے سکیورٹی معاہدے کو عملی جامہ پہنایا جس کے ذریعے عراق میں حکومت کو منظم کیا مگر اس نے امن اس طریقے سے قائم کیا کہ عراق کو مختلف علاقوں میں تقسیم کیا لیکن انہیں ایک کمزور جوڑ کے ذریعے متحد رکھا تا کہ مستقبل میں عراق کی حتمی تقسیم کی پالیسی کا پیش خیمہ ثابت ہو اگر یہ ممکن ہو۔ لہٰذا وہ عراق کی سکیورٹی کو اس زاویے سے دیکھتا ہے یعنی کہ اگر ایک خطہ دوسرے خطے میں مداخلت کرے تو یہ سکیورٹی کا مسئلہ ہے لیکن اگر ایک خطے کے اند سکیورٹی مسائل پیدا ہوں لیکن وہ دوسرے خطے کی سکیورٹی کو خراب نہ کرے تو کوئی مسئلہ نہیں۔
4۔ اس بنا پر اگر سنیوں کے مسائل انہی کے علاقے تک محدود ہوں، کردوں کے مسائل انہی کے علاقے تک محدود ہوں یا شیعوں کے مسائل ان کے علاقے تک محصور ہوں تو اس کو امن و امان کے حوالے سے کوئی ایسی تشویش نہیں ہو گی جو اس کو مداخلت پر اکسائے اور جب تک بغداد تینوں خطوں کے لیے راہ گزر رہے اگرچہ وہ بغداد کے ساتھ ایک کمزور رشتے سے جڑے ہوں ۔۔۔اسی لیے جوں ہی کوئی ایک ٹکڑا دوسرے میں دست درازی کر تا ہے تو امریکہ اس کو امن میں خلل قرار دے کر مذکورہ سکیورٹی معاہدے کو جواز بنا کر مداخلت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ٹکڑا مرکز "بغداد" کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کو امن وامان میں خلل قرار دے کر مداخلت کرتا ہے۔۔۔عراق کے ساتھ اس قسم کے سکیورٹی معاہدے کی تکمیل کے لیے امریکہ اس وقت سے پیش رفت کررہا ہے جب صرف کردوں کے لیے مخصوص ٹکرا تھا۔۔۔لیکن پھر اس کے بعد حالیہ سالوں میں باقی ٹکڑوں کے لیے بھی صورت حال کو عملاً تیار کیا گیا: سنیوں کا علاقہ، شیعوں کا علاقہ۔۔۔اس مقصد کے لیے شیعہ اور سنی کے درمیان عداوت کا بیچ بونے کے لیے خباثت پر مبنی منصوبہ بنایا جس سے نفرت پروان چڑھے۔ امریکہ کا پروردہ نوری المالکی خاص طور پر فرقہ پرست تھا جس نے دوسروں کو بھی مشتعل کیا جس سے تقسیم کے لیے ماحول سازگار ہو گیا اور وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو گیا۔ پھر المالکی نے سنیوں اور کردوں کے درمیان بھی عداوت کا بیچ بویا یہاں تک کہ عراق کی تقسیم بہت سارے لوگوں کا مطالبہ بن گیا۔۔۔المالکی اس عداوت کو پروان چڑھانے اور علاقائیت اور تقسیم کے لیے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو گیا یہی امریکہ کی جانب سے دیا جانے والا فرض منصبی تھا جس کو پورا کرنے کے لیے اس کو وزیر اعظم بنا یا گیا تھا۔۔۔آج یہ مقصد پورا ہو گیا اور المالکی عراق میں لوگوں کے درمیان عداوت کا ماحول پیدا کر نے میں کا میاب ہو گیا اور اس کا کردار بھی اختتام کو پہنچ گیا۔ اب ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو حالات کو کنٹرول کرے، اس عداوت کی فضاء سے فائدہ اٹھائے تاکہ ان ٹکڑوں اور علاقوں کو اس طرح منظم کرے کہ یہ اپنی اپنی جگہ خود مختار اور مرکز کے ساتھ برائے نام مربوط ہوں۔ وہ شکل اختیار کریں جس کو متحدہ ریاست کہا جاتا ہے۔۔۔یوں مالکی کا کردار ختم ہو گیا اور اس کے آقا امریکہ نے بھی اس کو ذلیل کر کے ایک طرف پٹخ دیا، حتی کہ اس کو گود لینے والے ایران نے بھی اس کو نظر انداز کر دیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کی خدمت اور اس کے مفادات کے لیے یہ سب کچھ کرنے کے بعد اور ایران کی خدمت اور اس چاپلوسی کرنے کے بعد دونوں کی جانب سے اس ذلت آمیز طریقے سے دھتکارنے پر المالکی سیخ پا اور غصے میں ہے ۔۔۔اگر یہ شخص عقل والا ہو تا تو اس کوکوئی تعجب نہ ہوتا کیونکہ تمام ایجنٹوں کایہی حال ہوتا ہے کہ جب ان کا کام پورا ہو جاتا ہے تو ان کوسڑک کے کسی کنارے پھینک دیا جاتا ہے، کچھ کو ایسی سڑک پر پھینک دیتا ہے جس میں پتھر نہیں اور کچھ کوایسی سڑک پر جس پر پتھر ہیں جو ان کے جسموں کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔۔۔!
5۔ اس وجہ سے امریکہ نے سنی علاقوں میں رونما ہو نے والے خونریزی کے واقعات کو جو قبائل، الدولۃ تنظیم، بعثیوں اور نقشبندیوں کے درمیان ہوئے، اہمیت نہیں دی۔قتل و غارت کے تمام واقعات کو امن وامان کا مسئلہ بھی نہیں سمجھا کیونکہ یہ ایک ہی ٹکڑے کے اندر پیش آرہے تھے۔۔۔اسی طرح 10 جون 2014 کو الدولۃ تنظیم کے موصل، تکریت یا کسی اور علاقے میں داخل ہو نے کو امن میں خلل قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے اجتماعی نسل کشی قرار دیا اور نہ اس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا۔۔۔کیونکہ یہ قتل غارت ایک ہی خطے کے اندر تھی ۔۔۔لیکن اس نے الدولۃ تنظیم اور دوسرے سنی گروپوں کے بغداد کے قریب پہنچنے کو خطرناک اور امن وامان کے لیے تشویشناک قرار دیا اور فوراً سکیورٹی ماہرین روانہ کر دیے جیسا کہ بساکی نے 16 جون 2014 کو ان کے بغداد سفارت خانے روانگی کی تو ثیق کر دی۔ بغداد کا سفارت خانہ ہی دنیا بھر میں امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ ہے جو سازشوں کا گڑھ ہے جہاں انسانیت کے خلاف جرائم میں خبیث ترین اسالیب استعمال کیے جاتے ہیں۔۔۔پھر 31جون 2014 کو امریکہ نے 300 فوجی مزید روانہ کیے۔ اس کے علاوہ ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ کے جہاز بھی بھیج دیے، پینٹاگان نے بغداد ائر پورٹ میں سکیورٹی ماہرین بھی تعینات کر نے کا اعلان کر دیا ۔ پینٹا گان کے ترجمان ایڈمیرل جوکیربی نے کہا کہ 200 فوجی عراق پہنچ گئے ہیں تاکہ عراقی دار الحکومت میں موجود سفارت خانے اور بغداد کے بین الاقوامی ائرپورٹ پر تنصیبات کی حفاظت میں مدد کر سکیں، جبکہ 100 مزید فوجی بغداد روانہ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے "تاکہ لوجسٹک اور امن کے لیے مدد فراہم کریں"۔۔۔یہ سب ان تنظیموں کو بغداد میں داخل ہو نے سے روکنے کے لیے دھمکی تھی اسی لیے بغداد پر حملے کم ہوئے بلکہ رک گئے۔۔۔حالانکہ اس وقت مالکی اور اس کی فورسز کی عسکری صورت حالت خراب تھی اور یہ تنظیمیں با آسانی بغداد میں داخل ہو سکتی تھیں لیکن انہوں نے امریکہ کی جانب سے دھمکی کے اشاروں کو سنجیدگی سے لیا اور واپس ہو گئیں۔۔۔!
6۔ یو ں عراق میں امریکہ کے مرتب کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کسی واقعے کے رونما ہو نے کو ہی امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے، ایسا کچھ ہو نا ہی اس کے نزدیک اجتماعی نسل کشی کا خطرہ ہے اور امن و امان میں خلل اور سرخ لکیر کو پار کرنا ہے۔۔۔لیکن اس امریکی سرخ لکیر کو پار کیے بغیر جس قدر بھی قتل و غارت کی جائے اور خون کی ندیاں بہائی جائیں، انسان، درخت اور پتھروں کو بھی تباہ کیا جائے بشرطیکہ اس سے امریکہ کے مفادات پورے ہوتے ہوں اور اس کے منصوبے کے مطابق ہو تو وہ جرم نہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ الدولۃ تنظیم کا سنی علاقوں سے آگے بڑھ کر کردستان کے قریب پہنچنا امریکہ کے نزدیک امن میں خلل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اجتماعی نسل کشی ہے، جیسا کہ اوبامہ نے9 اگست 2014 کو نیویارک ٹائم کو انٹرویو کے دوران عسکری مداخلت اور عراق کے شمال میں فضائی حملوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: "اگر صورت حال منفرد ہو اور اجتماعی نسل کشی کا خطرہ ہو اور کوئی ریاست وہاں ہماری موجود گی کی خواہش بھی رکھتی ہو ۔۔۔ تب ایسا کرنا ہمارے لیے ضروری ہے"۔ یہ بات وہ ایسے وقت میں کر رہا ہے جب شام میں اس سے کئی گنا زیادہ خونریزی ہوئی ہے اور جلا کر راکھ کر دینے والے مائع مواد کے ڈرم گرائے جارہے ہیں ۔۔۔لیکن اس سے اوبامہ نے اجتماعی نسل کشی کا خطرہ محسوس نہیں کیا ! اس لیے شام کے سفاک کی جانب سے قتل و غارت کے خلاف مداخلت نہیں کی۔۔۔لیکن اس نے عراق کے شمال میں خطرے کے کردستان کے علاقے کے قریب ہو نے پر ہی مداخلت کر دی، چنانچہ 8 اگست 2014 کو اپنے خطاب میں مداخلت کا اعلان کردیا۔ اس کے نائب جوبائڈن نے البرازانی کو فون کر کے امریکی حمایت کا یقین دلایا، پھر 9 اگست 2014 کو ہفتے کے دن سے امریکہ نے فضائی حملے شروع کردیئے۔۔۔
7۔ امریکی مداخلت کا بنیادی سبب الدولۃ تنطیم کی جانب سے کر دستان کے علاقے میں حملوں کو روکنا ہے تا کہ امریکی پالیسی کے مطابق عراق کو ایسے تین ٹکڑے بنانے کی راہ ہموار کی جائے جو خود مختار ہوں اور جن کے مرکز سے را بطہ برائے نام ہو اور ایک ٹکڑا دوسرے پر قبضہ نہ کرے۔ وہ عراق کو پہلے کی طرح ایک ریاست باقی رکھنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ اس کو تین مختلف خطے بنا کر بعد میں اپنی پالیسی کے مطابق بالا آخر قانونی طور پر عملاً تقسیم کر دے۔ ساتھ ہی وہ ان ٹکڑوں کے اندر داخلی تنازعات کو امن وامان کے لیے کوئی ایسا مسئلہ نہیں سمجھتا جو اس کے معاہدے کے خلاف ہو جس کی رو سے امریکہ کو مداخلت کی اجازت ہے۔۔۔
یہ ہے مداخلت کا سبب۔ مداخلت کا سبب کوئی انسانی محرک یا اجتماعی نسل کشی کا خوف نہیں۔۔۔سرمایہ دار ریاستیں جن کا سرغنہ امریکہ ہے، کے ہاں کسی انسانی یا اخلاقی عوامل کا کوئی وزن نہیں بلکہ ان کے لیے مسئلہ اپنی سازشوں کو کامیاب کرنا اپنے منصوبوں کی ترویج کرنا خواہ اس کے لیے نسلوں اور فصلوں کو تبا ہ کرنا پڑے۔۔۔یہ ہیں وہ استعماری کفار جو مؤمن کے بارے میں کسی رشتے کا پاس رکھتے ہیں نہ ہی کسی تعلق کا لحاظ ، بلکہ وہ جہاں بھی گئےان کے ہاتھ خون سے رنگے ہو ئے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہ ہیں، جو کچھ وہ کر ہے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے۔
8۔ آخر میں کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ امت مسلمہ جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کی وہ آج ان سرکش اور ذلیل حکمرانوں کے نیچے ہے جو امت کی گردن پر سوار ہیں جنہوں نے اس کو استعماری کفار اور ان کے ایجنٹوں کا اکھاڑا بنا یا ہوا ہے جہاں وہ اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو عملی جامہ پہنا تے ہیں۔۔۔نوے سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے خلافت کے انہدام پر خاموش رہنے کی وجہ سے اس امت پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں کیونکہ وہ ڈھال ہی اس کے ہاتھ سے گرگئی جس سے اس کی حفاظت ہو تی تھی اور جو ان کی نگہبانی کرتی تھی ۔۔۔لیکن وہ چیز جس سے یہ مصائب ہلکے ہو جاتے ہیں وہ ہے امت کے اندر بیداری کی پر اثرلہر جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔آج یہی امت ایک بار پھر قوت اور چستی سے انگڑائی لے رہی ہے۔۔۔اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے اذن سے جو چیز غموں کو ہلکا کر دیتی ہے وہ دعوت کے ان پاکبازشہسواروں کا وجود ہے جنہوں نے اپنا دن رات ایک کیا ہوا ہے، جو ایک ایسی متقی اور پاک حزب کی شکل میں جدو جہد کر رہے ہیں جو نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلامی زندگی کو واپس لانے کی زبردست کوشش کر رہی ہے ۔ تب ہی یہ امت وہی عزت اور کامرنی حاصل کر لےگی جیسا کہ اس کو پہلے حاصل تھی اور واقعی وہ بہترین امت ثابت ہوگی جس کو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اوریہ اللہ کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں ۔۔۔ ﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ﴾ "اور کچھ ہی عرصے بعد تمہیں اس کی خبر ملے گی"

Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک